طاہر نجمی صاحب کی یادیں
عوامی مفاد کو کم اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اسی وجہ سے قومی اسمبلی میں اکثر کورم کا مسئلہ درپیش رہتا ہے
2001 میں میرے کالم روزنامہ ''ایکسپریس'' میں شایع ہونا شروع ہوئے ، تو ایکسپریس کے ایڈیٹر طاہر نجمی صاحب نے مجھے دفتر آ کر ملنے کے لیے کہا تو ان کی آمد کا وقت معلوم کرکے میں ان سے ملاقات کے لیے گیا۔
جہاں میری آمد کی اطلاع پر وہ ویٹنگ روم میں ملنے آگئے تو میں خود حیران ہوا کیونکہ صحافت سے وابستگی کے 54 سالوں میں میری بہ طور رپورٹر ملک کے مشہور اور بڑے اخبارات کے ایڈیٹروں سے ملاقات ان کے اپنے دفاتر میں ہوئی تھی جب کہ نجمی صاحب اپنا دفتر چھوڑ کر مجھ سے باہر ویٹنگ روم میں ملنے آئے تھے اور میں پہلی ملاقات ہی میں ان کی سادگی، دھیمے لہجے میں معلومات لینا اور مسکراہٹ سے تسلیاں دینے کے طریقے سے بہت متاثر ہوا تھا۔
میں نے انھیں اپنے آبائی شہر شکارپور کو 1990 میں چھوڑنے کی وجوہات اور اپنی صحافتی زندگی کا بتایا اور جن جن مشہور اخبارات سے میرا تعلق رہا تھا، ان کی تفصیلات بتائیں کہ شکارپور میں، اس وقت ایک اخبار کی نمایندگی کرتے ہوئے مجھے کیوں اپنا شہر چھوڑنا پڑا تھا۔ کراچی میرے لیے نیا نہیں مگر وہ شہر تھا جہاں میں رپورٹر کے طور پر اخبارات کے اجلاس میں مہمان کے طور پر آتا رہا تھا مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ 1990 کے بعد اسی شہر میں رہنا پڑے گا۔
کراچی آ کر میں نے اپنے ہفت روزہ اخبارات سے صحافت کی ابتدا کی تھی اور دس سال بعد جس اخبار کی نمایندگی میں نے چھوڑی تھی اسی میں کالم لکھنے شروع کیے جو بغیر کسی معاوضے کے شایع ہوتے تھے جب کہ اسی اخبار سمیت میں نے شکار پور میں کسی بڑے اخبار میں اعزازی طور پر کام نہیں کیا تھا اور ہر اخبار سے اعزازیہ ضرور ملتا تھا مگر یہاں مجھے میرے چھوڑے ہوئے اخبار نے اعزازی طور پر کام کرنے کا کہا تو میں نے ایکسپریس میں کالم لکھنے شروع کیے جس کے بعد انھوں نے مجھے بلایا تھا۔
طاہر نجمی صاحب چونکہ خود ملتان اپنا شہر چھوڑ کر کراچی آئے تھے اس لیے انھیں میرے شکارپور سے کراچی منتقل ہونے کے دکھ کا احساس تھا انھوں نے مجھے تسلی دی اور کراچی میں کالم نگاری جاری رکھنے اور اپنے مکمل تعاون کا یقین ہی نہیں دلایا بلکہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے کالموں کا معاوضہ بھی مقرر کرا دیا تھا۔
مجھے ایکسپریس میں کالم لکھتے ہوئے 22سال ہو رہے ہیں اور میں سیاست، کرائم اور عوام کے بنیادی مسائل پر لکھتا آ رہا ہوں۔ چند ماہ قبل مجھے طاہر نجمی صاحب نے فون کیا اور میری تحریروں کو سراہتے ہوئے ایک اہم موضوع پر لکھنے کا بھی مشورہ دیا اور تفصیلات بھی بتائیں جس پر میں نے کالم لکھا کہ قومی اسمبلی کے ممبران کو مدت پوری ہونے کے بعد پنشن اور مراعات کیوں دی جاتی ہیں۔
ارکان قومی اسمبلی سرکاری ملازم نہیں ہوتے اور مقررہ مدت کے لیے منتخب ہوتے ہیں اور منتخب ہونے کے بعد اسلام آباد تو آتے ہیں مگر اکثریت قومی اسمبلی کے اجلاسوں سے غیر حاضر ہی رہتی ہے اور آتے اجلاسوں میں شرکت کے لیے ہیں مگر ایوان میں آتے صرف حاضری لگانے اور وزیروں، سیکریٹریوں کے دفاتر میں زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔
عوامی مفاد کو کم اور ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں اسی وجہ سے قومی اسمبلی میں اکثر کورم کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔
نجمی صاحب نے مجھے ایسے ہی اہم موضوعات پر لکھتے رہنے اور کسی وقت کراچی پریس کلب میں آ کر ملنے کا بھی کہا تھا مگر وقت نہ مل سکا اور میری ان سے آخری گفتگو جنوری میں ہوئی تھی جب وہ کچھ علیل تھے۔ انھوں نے اپنی صحت کا بتایا تھا مگر مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ یہ میری ان سے آخری گفتگو ہوگی۔
نجمی صاحب اسپتال میں داخل تھے تو میں اسلام آباد گیا ہوا تھا جس کے بعد ایکسپریس کے محمد بخش کے میسج کے ذریعے طاہر نجمی کی وفات کی اطلاع ملی جس کی توقع نہیں تھی کہ وہ ہمیں چھوڑ جائیں گے اور مارچ کا دس تاریخ کا جمعہ ان کی زندگی کا آخری جمعہ تھا ، جب ان کی بحریہ ٹاؤن مسجد میں بعد نماز جمعہ نماز جنازہ ہوئی اور یوں نجمی صاحب 68 سال کی عمر میں وفات پا گئے، اللہ پاک ان کی مغفرت فرمائے۔( آمین)