سیاسی بحران شدید تر

اس بحران کا حل ایک طرف سیاسی رہنماؤں کے رویوں اور دوسری طرف عدالتی فیصلوں پر منحصر ہے

tauceeph@gmail.com

عمران خان عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے جس کی بناء پر ان کے خلاف دائر مقدمات کی کارروائی آگے نہیں بڑھتی، عدالتیں ہی ان کو ریلیف دیتی ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان نے ایک حلف نامہ جمع کرایا تھا ، ان کے وکیل نے اپنے مؤکل کے دستخط خودکیے تھے۔

فاضل جج نے اس جعلسازی کو محسوس کیا۔ عمران خان کو عدالت کے سامنے اقرار کرنا پڑا کہ یہ حلف نامہ ان کی منظوری کے بغیر ان کی جانب سے جمع ہوا۔

عمران خان کے وکیل نے اقرار کیا کہ موصوف نے عمران خان کے دستخط کیے تھے، یہ واضح طور پر جعلسازی کا مقدمہ تھا۔ معزز جج صاحب نے اس پر رحم دلی کے ساتھ درگزر کیا ، یوں جعلسازی کا مقدمہ نہیں بنا ، نہ متعلقہ وکیل کے خلاف ریفرنس پنجاب بار کونسل کو بھجوایا گیا۔

گزشتہ ہفتے اسلام آباد پولیس نے توشہ خانہ کیس میں جاری ناقابلِ ضمانت وارنٹ کی تکمیل کے لیے عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی تو سیکڑوں کارکن ڈھال بن گئے۔ زمان پارک میں جمع ہونے والے ہجوم نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔

تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد نے صدر پاکستان کو ٹیلی فون پر بتایا کہ تحریک انصاف کے کارکن پولیس پر پٹرول بم پھینک رہے ہیں ، پولیس آنسو گیس کے گولے چلا رہی ہے۔

ہم عمران خان کو کہتے ہیں کہ وہ سرینڈر کریں۔ بہرحال لاہور ہائی کورٹ نے پولیس آپریشن کو روک دیا۔ اس پولیس آپریشن میں پولیس کے سپاہیوں کی اکثریت زخمی ہوئی۔ زخمی ہونے والوں میں ایک ڈی آئی جی رینک کے افسر بھی شامل تھے۔

یوں ایک پر تشدد گروہ کی اس سوچ کو تقویت ملی کہ ہجوم تشدد کر کے عدالتوں کے فیصلوں پر عملدرآمد کو روک سکتا ہے، اس سوچ کو تقویت بھی ملی کہ جب عدالت کے فیصلوں پر عملدرآمد کرانے والی پولیس فورس کو شکست دی جاسکتی ہے تو مستقبل میں اپنے قائد کے حکم پر ہرغیر قانونی کام انجام دے سکتے ہیں۔

اسلام آباد اور پنجاب پولیس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ پولیس نے پہلی دفعہ برداشت کا ثبوت دیا ہے۔ زمان پارک کے اطراف میں جمع بے ہنگم جلوس کے پتھراؤ ، پٹرول بموں کے حملوں میں پولیس کے افسران اور جوان زخمی ہوتے رہے اور پولیس والوں نے اسلحے کے استعمال سے گریز کیا۔ اس کا واقعی ثبوت بھی سامنے آیا کہ 24 گھنٹے سے زائد عرصہ تک ہنگامہ آرائی کے باوجود کوئی ہلاکت نہیں ہوئی ۔


عمران خان کو فوری انصاف ملنے کی ایک مثال یوں ہے کہ انھیں ایک ہی دن میں 8 مقدمات میں ضمانت مل گئی ، عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر توشہ خانہ کے مقدمے میں پیش ہونے کے لیے اسلام آباد کے سیشن کورٹ گئے۔ تحریک انصاف کے وکلاء کی فرمائش پر عدالت کا مقام تبدیل ہوا۔

عمران خان ایک بڑے جلوس کی شکل میں اسلام آباد کے جوڈیشل کمپلیکس پہنچے ، عمران خان کے ساتھیوں اور ان کے وکلا نے جواز بنایا کہ وہ کمرہ عدالت میں نہیں پہنچ سکتے، جج صاحب نے کمپلیکس کے دروازہ پر گاڑی میں سوار عمران خان کی حاضری لگواکر انصاف کے تقاضے پورے کیے ، پاکستان کے عام لوگوں خصوصاًچھوٹے صوبوں کے عوام میں اس صورتحال میں ایک احساس محرومی پیدا ہوا۔

سندھ اور بلوچستان میں جب بھی چند افراد نے یا گروہ نے پولیس کے آپریشن میں رکاوٹ کھڑی کی، پولیس فورس نے بھاری ہتھیار استعمال کیے، فوراً ہی پولیس کی مدد کے لیے دوسری قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں میدان میں آگئیں۔ اس آپریشن کا مشاہدہ کرنے والے بلوچ نوجوانوں کو نواب اکبر بگٹی کے خلاف آپریشن کا واقعہ یاد آگیا۔

اکبر بگٹی واحد بلوچ رہنما تھے جو مرتے دم تک پاکستان کے حامی رہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں وہ اپنی جان بچانے کے لیے گھر چھوڑ کر اپنے علاقے میں ایک غار میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے مگر اس وقت اکبر بگٹی کو واپسی کا راستہ نہیں دیا گیا، یوں اس آپریشن میں اکبر بگٹی صرف شہید ہی نہیں ہوئے بلکہ پورا بلوچستان اس آپریشن کی بناء پر ایسا جلا کہ آج تک اس آپریشن کی تپش محسوس ہوتی ہے۔

یہ عام سی شکایت رہی ہے کہ عمران خان کے دور میں سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا میں پولیس کسی سیاسی کارکن کو گرفتار کرنے آئی تو پولیس والوں نے گھر کا سامان تلاشی کے نام پر الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور متعلقہ سیاسی کارکن نہ ملا تو اس کے بھائیوں اور بوڑھے والد کو پکڑ کر لے گئے۔ بعض معاملات میں تو سیاسی کارکنوں کی گھر کی خواتین کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔

کراچی میں ایم کیو ایم کے کارکنوں کے پاس ایسی بہت سی کہانیاں ہیں مگر جب لاہور میں پر تشدد ہجوم قانون کو پامال کر رہا تھا اور معزز عدالت پولیس ایکشن روکنے کا فیصلہ کررہی تھی تو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ نے ایک مقدمے میں ریگولر بنچ کی موجودگی میں اسپیشل بنچ بنانے کے فیصلہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسپیشل بنچ انتہائی حساس نوعیت کے مقدمات کی سماعت کرتا ہے جس سے عوام میں چہ مگوئیاں پیدا ہوتی ہیں۔ فاضل جج نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ ججوں کے کنڈکٹ پر بحث کیوں نہیں ہوسکتی۔

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کے ان ریمارکس کو گزشتہ گیارہ ماہ میں رونما ہونے والے واقعات کے تناظر میں دیکھنا چاہیے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں سے سیاسی بحران ختم ہونے کے بجائے مزید بڑھ رہا ہے ۔ جسٹس فائز عیسیٰ نے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت عدالتی فیصلوں پر تنقید کو حق بجانب قرار دیا ہے۔

اگرچہ عدالتوں کے فیصلوں پر تنقید سے وکلاء اور ججوں کو سوچنے کی نئی راہیں ملتی ہیں مگر اس بحران کا حل ایک طرف سیاسی رہنماؤں کے رویوں اور دوسری طرف عدالتی فیصلوں پر منحصر ہے۔ پولیس نے لاہور میں عمران خان کے گھر دھاوا بول کر ایک اور بری مثال قائم کی، یوں سیاسی بحران اور زیادہ گہرا ہوگیا اور اس کے ساتھ چھوٹے صوبوں میں بھی احساسِ محرومی کا احساس زیادہ ہوگیا۔
Load Next Story