بھگت سنگھ انقلابی اور دانشور
بھگت سنگھ کے بارے میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ایک شدت پسند یا دہشت گرد تھا
ایک دور تھا جب تاریخ کا پہیہ سست روی سے آگے بڑھتا تھا۔ ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود اس دوران بہت کم واقعات ایسے رونما ہوتے تھے، جنھیں تاریخ کے صفحات میں نمایاں مقام ملا کرتا تھا۔ جدید دور میں صورتحال بدل چکی ہے۔ تاریخ کا عمل بڑی تیزی سے آگے کی جانب بڑھ رہا ہے۔
پچھلے تیس سے چالیس برسوں کے دوران بڑی اہم اور حیران کن تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ان کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ انھیں یاد رکھنا ممکن نہیں ہے۔
آج دنیا کے اربوں لوگ انٹرنیٹ استعمال کرتے ہیں لیکن شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ یہ ٹیکنالوجی کب ایجاد ہوئی اور اس کے موجد کون تھے۔ آج کے ایسے تیز رفتار دور میں تاہم ، ماضی کی بعض شخصیات اور واقعات ایسے ہیں جو آج بھی بہت سے لوگ بھلا نہیں پاتے ہیں۔ ان میں بھگت سنگھ کا نام بھی شامل ہے۔
آج سے 116 سال پہلے لاہور کے ایک کھاتے پیتے گھرانے میں ایک لڑکے کا جنم ہوتا ہے۔ اس کا نام بھگت سنگھ رکھا جاتا ہے اور گھر والے اسے پیار سے بھگو کہہ کر پکارتے ہیں۔
یہ بچہ ناقابل یقین حد تک ذہین تھا۔ اس کو نوعمری سے ہی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا۔ مطالعے نے اس کے اندر شعور بیدار کیا جس کے آثار بہت جلد نظر آنے لگے۔ جب اس کی عمر 12 سال تھی تو امرتسر کے جلیانوالہ باغ میں انگریز حکومت کی جانب سے پُر امن لوگوں کا ایسا بہیمانہ قتل عام کیا گیا جس پر انگریز آج بھی شرمندہ ہیں اور برطانوی حکومت کی جانب سے اس قتل عام کی باضابطہ معافی نہیں مانگی گئی البتہ معذرت اور دکھ کا اظہار کیا گیا۔
بیساکھی نئے سال کی آمد کا تہوار ہے جسے سکھ برادری بڑے جوش و خروش سے مناتی ہے۔ اس تہوار میں شرکت کر کے بہت سے لوگ واپس آ رہے تھے۔ اس وقت جلیانوالہ باغ میں کچھ لوگ انگریز حکومت کے بدنام زمانہ رولٹ ایکٹ اور دو مجاہدین آزادی کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے جمع ہوئے تھے۔
یہ باغ ایک چار دیواری کے اندر ہے۔ تہوار سے واپس آنے والے بھی اس احتجاج میں شریک ہوگئے۔ احتجاج میں شامل لوگ مکمل طور پر پرامن اور نہتے تھے۔ ان کی جانب سے کسی بھی طرح کی کوئی اشتعال انگیزی نہیں کی گئی تھی۔ اس احتجاج کو ختم کرنے کے لیے انگریز فوج کے کمانڈر جنرل ڈائر نے فوجیوں کو گولی چلانے کا حکم دیا۔ یہ فوجی مقامی تھے۔
ایک اندازے کے مطابق اس قتل عام میں 1500 سے زیادہ معصوم اور بے گناہ لوگ قتل کر دیے گئے۔ بہت سے لوگوں نے زندگی بچانے کے لیے باغ میں واقع ایک کنویں میں چھلانگ لگا دی، پورا کنواں لاشوں سے اور مرنے والوں کے لہو سے بھرگیا۔
بھگت سنگھ لاہور سے 40 کلو میٹر پیدل چل کر جلیانوالہ باغ پہنچا اور وہاں سے اس نے خون آلود مٹی ایک بوتل میں ڈالی اور واپس اپنے گھر لاہور آگیا۔ اس خونی واقعہ نے چھوٹی عمر کے اس بچے کے ذہن پر غیر معمولی اثر ڈالا اور اس نے اپنے وطن کو سامراجی غلامی سے آزاد کرانے کا عہد کرلیا۔
بھگت سنگھ کے بارے میں عموماً یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ ایک شدت پسند یا دہشت گرد تھا۔ اصل حقیقت اس کے برعکس تھی۔ یہ نوجوان ایک بہت بڑا دانشور تھا۔ اپنی تعلیم کے دوران وہ نصابی کتابوں کے علاوہ کئی سو کتابیں پڑھ چکا تھا۔ اس نے عالمی ادب، فلسفے اور سماجی علوم کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔
اس دور کے زیادہ تر نوجوانوں کی طرح وہ بھی اپنے وطن کو بیرونی آقاؤں سے آزاد کرانا چاہتا تھا اور کارل مارکس اور لینن کے انقلابی نظریات سے متاثر تھا۔ اسے صرف پڑھنے کا ہی نہیں بلکہ لکھنے کا بھی شوق تھا۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کے مضامین اور سنجیدہ تحریریں اس وقت کے معروف رسائل اور جرائد میں شایع ہوا کرتی تھیں۔
1923میں بھگت سنگھ کے ایک مضمون کو انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔ اس مضمون میں وہ گرو گوبند سنگھ کا یہ جملہ لکھتے ہیں کہ انسان وہ ہے جو مظلوموں کے لیے لڑتا ہے، اس کا جسم اگر ٹکڑے ٹکڑے بھی ہوجائے وہ میدان نہیں چھوڑتا۔ ان کا یہ جملہ بھی غور طلب ہے کہ ''انقلاب گولی اور بم سے نہیں بلکہ نظریات کی تلوار سے آتا ہے۔'' بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی دو سال قید میں رہے۔ اس دوران بھی انھوں نے مطالعہ ترک نہیں کیا۔
ہر ملاقات پر وہ آنے والوں سے کتابیں منگواتے اور اپنے مضامین شایع کرنے کے لیے بھجواتے۔ بھگت سنگھ نے سیکڑوں صفحات لکھے، کچھ شایع ہوئے اور کچھ غالباً ضایع ہوگئے۔ جس صبح انھیں پھانسی دی جانی تھی وہ انقلابی لینن نامی ایک کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے۔ انھوں نے جیل وارڈن سے کہا کہ کتاب کے آخری صفحات پڑھ لوں تو چلتا ہوں۔ اس وقت ان کی عمر 24 سال تھی۔
اس کی پھانسی کتنا بڑا واقعہ تھی، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مقامی زبانوں کے علاوہ انگریزی اخباروں نے بھی اسے صفحہ اول پر شایع کیا اور اس کی پھانسی کے تین دن بعد لاہور کے اخبار '' دی ٹریبیون '' نے 23 مارچ 1931کو اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ''ہماری یاد داشت میں ایسا کوئی فوجی مقدمہ نہیں جس نے ملک میں اتنا غم و غصہ پیدا کیا ہو اور نہ کسی سابق مقدمے میں موت کی سزا کم کرنے کے لیے ایسا شدید اور ملک گیر احتجاج کیا گیا۔
بھگت سنگھ نے مٹھی بھر نوجوانوں کو اکٹھا کر کے جس طرح برطانوی راج کو دہشت زدہ کیا۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ان لوگوںنے ابتدا سے ہی ادیبوں اور شاعروں کو متاثر کیا۔ بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد اردو ، ہندی، مراٹھی، بنگلہ، تیلگو، گجراتی، تامل اور پنجابی زبانوں میں کہانیاں اور شعر لکھے گئے۔
اردو میں سید سبط حسن کی کتاب '' بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی'' بہت مقبول ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔ اپنے افسانے ''چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا '' میں قرۃ العین حیدر بھگت سنگھ اور دوسرے انقلابیوں کا ذکر کرتی ہیں۔ بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی خفیہ سرگرمیوں کو بہت تفصیل سے میں نے اپنے طویل افسانے ''آخری بوند کی خوشبو'' میں لکھا ہے۔
شیخ ایاز نے سندھی میں بھگت سنگھ کی پھانسی پر ایک ناٹک لکھا جو احمد سلیم نے پنجابی میں ترجمہ کیا۔ یہ ترجمہ '' جوبیجل نے آکھیا '' میں شامل ہے اور اس کا نام '' آزادی '' ہے۔ کے۔ کے۔ کھلر نے اس نظم کا حوالہ اپنی ہندی کتاب ''شہید بھگت سنگھ'' میں دیا ہے۔
شیخ ایاز کا منظوم ناٹک لاہور سینٹرل جیل سے شروع ہوتا ہے لیکن اس میں جیل جانے سے پہلے کی جھلکیاں بھی ہیں۔ لاہو رکا ایک تہہ خانہ ہے ، رات ہوگئی ہے۔ میز پر ایک لالٹین جل رہی ہے۔ دیوار پر ہندوستان کا نقشہ ہے اس کے ساتھ ہی جھانسی کی رانی، تانتیا ٹوپی اور نانا فرنویس کی فریم شدہ تصویریں بھی آویزاں ہیں۔
میز کے ارد گرد بھگت سنگھ، ڈاکٹر گیا پرشاد اور کشوری لال بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف چندر شیکھر آزاد، راج گرو اور سکھ دیو ہیں۔ میز پر ایک طرف چھ بم رکھے ہیں اور اسی کے قریب ایک اخبار ہے۔ جس کے صفحہ اوّل پر سیاہ حاشیے میں شیر پنجاب لالہ لاجپت رائے کے انتقال کی خبر چھپی ہوئی ہے۔ لالہ لاجپت رائے کو چند دنوں پہلے ایک پرامن جلوس کی قیادت کرنے کے جرم میں لاہور کی سڑکوں پر پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور وہ زخموں کی تاب نہ لاکر ہلاک ہوچکے ہیں۔
اس نے اپنے شاندار وجود اور سحر میں گرفتار کرلینے والی باتوں سے سارے ہندوستان پر جادو کردیا۔ وہ شیلے کے '' پرومی تھیسس ان باؤنڈ '' جیسا کردار ہے۔ اس نے پرومی تھیسس کی طرح پہاڑوں کی چوٹیوں سے، دیوتاؤں کے ٹھکانوں سے آزادی اور انقلاب کی آگ چرائی اور ان گنت لوگوں کے دلوں کو اس آگ سے روشن کردیا۔
بھگت سنگھ کے لیے میں اختر شیرانی کے چند اشعار نذر کرتی ہوں۔
دیکھیں دت اور بھگت سنگھ کی صورت کب تک
ہوگی پامال خزاں سنبل و ریحان وطن
امتحاں حوصلۂ دل کا نہ لے تو قاتل
سرفروشی کو ہیں آمادہ جوانان وطن
دور زنداں سے ہیں پر تم سے نہیں دور اختر
اے اسیرانِ وطن ، شانِ وطن ، جانِ وطن