پروفیسر احمد سعید صاحب مورخ ِ پاکستان کی یاد میں
احمد سعید صاحب سے جو تعلق قائم ہوا، وہ پھر ان کے آخری وقت تک قائم رہا
مورخ ِ پاکستان پروفیسر احمد سعید صاحب کی دوسری برسی بھی خاموشی سے گزر گئی، ہمارا یہ رویہ تنہا احمد سعید صاحب کے ساتھ نہیں، اور بھی بے شمار خاموش ہیرو ہیں، جو ہمارے حافظے سے صرف اس لیے مٹ چکے ہیں کہ گروہ بندیوں کے اس دور میں و ہ ادارے بھی ان کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں، جن کے لیے ان اہل دانش نے اپنی زندگیاں وقف کر رکھی تھیں۔
احمد سعید صاحب سے میری پہلی ملاقات خالد ہمایوں کے توسط سے ہوئی، جب میں ان کے تحقیقی کام پر ایک دستاویزی فلم تیار کر رہا تھا ۔ یہ ان کی زندگی کے آخری سال تھے، جب میری ان سے نیازمندی ہوئی، یہ میری خوش نصیبی کہ بہت تھوڑے عرصہ میں ان کی ایسی شفقت حاصل ہو گئی، جس کو میں زندگی بھر فراموش نہیں کر سکوںگا۔
جوہر ٹاون لاہور میں ساڑھے تین مرلہ کے ایک مکان میں، جس کے باہر 'عطائے ربی ' کی تختی نصب تھی ، یہ درویش اپنی زندگی بسر رہا تھا۔ ان کی زوجہ انتقال فرما چکی تھیں اور برخوردار بیرون ملک سدھار چکے تھے۔ جیسا کہ ان حالات میں ہوتا ہے، پھر بیٹیاں ہی سہارا بنتی ہیں، اب ان کی بیٹی ہی ان کے ساتھ رہ رہی تھی اور ان کا خیال رکھ رہی تھی۔
اس گھر کے اندر ہر طرف کتب ہی کتب نظر آتی تھیں، بلکہ ان کے بستر کے تین چوتھائی حصہ پر بھی کتب، مسودوں اور فائلوں کا قبضہ تھا،ا ور بمشکل اس کا ایک چوتھائی حصہ بچا تھا، جس پر وہ سمٹ کے سوتے بھی تھے، آرام بھی کرتے تھے اور بیٹھ کے لکھتے بھی تھے۔
یہاں ان کے پاس بیٹھے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی ہوتی تھی کہ معاً وہ اٹھ بیٹھتے تھے، اور جب دوبارہ کمرے میں آتے ،تو ان کے ہاتھ میں پُرتکلف چائے کی ٹرے ہوتی تھی۔ اسی کمرے میں ایک بار انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی، جوکچھ اس طرح ہے کہ1942 میں جالندھر مشرقی پنجاب میں آنکھ کھولی۔1947میں اپنے خاندان کے ہمراہ ہجرت کرکے لاہور پہنچے۔
جالندھر میں اپنے آبائی محلہ اورگھر کی ایک دھندلی سی تصویر ہمیشہ ان کے ذہن کے کسی گوشہ میں محفوظ رہی۔ لاہور میں چشتیاں ہائی اسکول سے میٹرک، گورنمنٹ کالج سے بی اے اور پنجاب یونیورسٹی سے تاریخ اور سیاسیات میں ایم اے کیے۔1965میں ایم اے او کالج میں لیکچررکی حیثیت سے اپنے کیریئرکا آغاز کیا ۔ ایم اے کالج اور اسلامیہ کالج ریلوے روڈ میں شعبہ تاریخ کی سربراہ بھی رہے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ایک ہی بار بھارت جانے کا اتفاق ہوا۔ اس موقعے پر وہ اپنے آبائی محلہ اور گھر بھی گئے ۔ لیکن وہاں جو صاحب انھیں ان کا گھر دکھانے لے کر گئے، ان کی طرف سے سخت تاکید تھی کہ کسی پر یہ ظاہر نہیں کریں گے کہ وہ پاکستان سے آئے ہیںکیونکہ یہاں لوگ پاکستان سے نفرت کرتے ہیں، اور آپ کو نقصان نہ پہنچا سکتے ہیں۔
احمد سعید صاحب کے بقول ، یہ وہ لمحہ تھا، جب پہلی مرتبہ قائداعظم ؒ کی حقیقی عظمت ان پر منکشف ہوئی اور یہی وہ لمحہ تھا،جب احمد سعید صاحب نے آیندہ سے اپنی تمام تر علمی و فکری توانائیوں کو قائداعظم اور تحریک پاکستان پر تحقیق کے لیے وقف کر دینے کا عہد کر لیا۔
1972 میں ''مولانا اشرف علی تھانوی اور تحریک پاکستان'' کے عنوان سے ان کی پہلی تصنیف منظر عام پر آئی، لیکن بطور محقق ان کی شہرت کا آغاز ان کی دوسری تصنیف''حصول پاکستان'' سے ہوا، جس کا انگریزی ترجمہTrek to Pakistan کے نام سے شایع ہو چکا ہے اور سی ایس ایس کے طلبہ بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔1975 میں ان کی تصنیف''گفتار ِقائد اعظمؒ''کو بھی غیرمعمولی پذیرائی حاصل ہوئی۔
قائداعظم ؒ کی تحریروں، تقریروں اور خطوط کے علاوہ انگریزی، ہندو اور مسلم اخبارات میں ان پر شایع ہونے والے مواد پر بھی ان کا تحقیقی کام وقیع سمجھاجاتا ہے۔ قائداعظم سے ان کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ تحریک پاکستان کے دوران میں قائداعظم ؒ جن لوگوں سے ملتے رہے، اس کی تمام تر تفصیلا ت بھی قلمبندکرچکے ہیں۔
ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد انھوںنے تحریک پاکستان کے علمبردار روزنامہ ''زمیندار'' پر ریسرچ کا آغاز کیا۔ یہ عظیم کام انھوں نے راجہ اسد علی خان صاحب کی فرمایش پر شروع کیا تھا اور اسے اپنا آخری تحقیقی شاہکار سمجھ کے اس میں اپنی سب توانائیاں صرف کر رہے تھے؛ لیکن اس سے پہلے یہ کام پایہ ء تکمیل کو پہنچتا، ظفر علی ٹرسٹ اندرونی اختلافات کا شکار ہو گیا، اور راجہ اسد علی خان صاحب کے ٹرسٹ سے رخصت ہو جانے کے بعد یہ کام ٹھپ ہو گیا۔ وہ اپنے اس تحقیقی شاہکار کو مکمل کرکے دنیا سے رخصت چاہتے تھے لیکن وہ یہ حسرت دل میں لے کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔
تاہم غنیمت ہے کہ شہر لاہور پر ان کے تحقیقی کام '' لاہور، ایک شہر بے مثال'' کو پنجاب یونیورسٹی شعبہ تاریخ نے دو جلدوں میں شایع کردیا ہے، جو اپنے شعبہ کی لاج رکھ لی ہے۔
احمد سعید صاحب سے جو تعلق قائم ہوا، وہ پھر ان کے آخری وقت تک قائم رہا، سوائے اس وقفہ کے جو کورونا وائرس کے باعث در آیا تھا۔ ہر ماہ کم از کم ایک بار ان سے ضرور ملاقات ہوتی تھی۔
ایک مرتبہ ان سے ملاقات میں تاخیر ہو گئی۔ یہ اتوار کا دن تھا اور میں ان کی طرف جانے کا سوچ ہی رہا تھا کہ گیٹ کی بیل بجی۔ باہر نکلا تو دیکھا کہ احمد سعید صاحب، خالد ہمایوں صاحب کے ساتھ باہر کھڑے تھے اور میری طرف دیکھ کے مسکرا رہے تھے۔
اس روزکافی دیر تک ہماری محفل جمی رہی، بلکہ اس دوران چائے کے ساتھ ساتھ ہم ناشناس کی پرسوز اور گمبھیر آواز میں علامہ اقبال کا فارسی کلام بھی سنتے رہے۔ چند روز بعد ان کے گھر گیا، تو انھوں نے ناشناس کی آواز میں غزلوں کی ایک البم مجھ کو دی، جو میرے پاس اب تک محفوظ ہے۔
احمد سعید صاحب کی رحلت سے چند روز پہلے کی بات ہے ، فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے فون اسکرین پر دیکھا تو احمد سعید صاحب کا نام آ رہا تھا۔ میں سمجھ گیا کہ اس وقت ان کی کال کا مطلب یہی ہے کہ ان کی طرف سے ہوتا ہوا جاؤں۔ ان کا گھر راستے ہی میں تھا۔ میں نے گاڑی ان کے گھر کی طرف موڑ دی اور چند منٹ میں ان کی خدمت میں حاضر تھا۔ ہم دیر تک بیٹھے رہے۔ لیکن اُس روز وہ خلاف معمول کچھ مضطرب اور نڈھال تھے۔
معلوم ہوا کہ چند روز اسپتال بھی رہے ہیں۔ کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیاکہ نقاہت کے باعث ان کو گفتگو میں دقت پیش آ رہی ہے۔ میں نے کہا، ''سر! اب آرام کریں، میں چند روز بعد پھر حاضر ہو جاؤں گا''۔ نقاہت کے باوجود میرے ساتھ ہی گھر سے باہر آئے اور میرا ہاتھ پکڑ کے کہا ، ''رابطہ رہنا چاہیے''۔ ان کے گھر سے روانہ ہوتے ہوئے میں نے سائیڈ مرر میں دیکھا کہ بچوں کی طرح گھر کے باہر لگے لیموں کے پودے سے لیموں توڑ رہے ہیں ۔ میں اس معصومانہ ادا پر مسکرا دیا ۔
کیا معلوم تھا کہ اس ساعت آخری بار ان کو دیکھ رہا ہوں اور چند روز بعد وہ خود ہی سارے رابطے منقطع کرکے راہی ِ ملک ِعدم ہو جائیں گے، حافظؔ نے کہا تھا
فلک بمردمِ نادان دہد زمامِ مراد
تو اہل ِ دانش و فضلی ہمین گناہست