روپے کی قدر کم ترین سطح پر معاشی مشکلات میں اضافہ
انڈیکس پر روپیہ 84 اعشاریہ 6 کی سطح پر ، فروری میں مزید 7 اعشاریہ 52 فیصد کمی ہوئی
روپے کی قدر کم ترین سطح پر آنے سے معاشی مشکلات میں اضافہ ہوگیا۔
رواں سال کے آغاز میں جنوری کے دوران جب کرنسی کی قدر کا تعین مارکیٹ کو ازخود طے کرنے پر چھوڑ دیا گیا تھا اس کے بعد سے اب تک پاکستانی روپیہ اپنی قدر کو کھوتے ہوئے دیگر تمام کرنسیوں کے مقابلے میں اپنی کم ترین سطح پر ہے اور کرنسی انڈیکس پر اس وقت 84 اعشاریہ 6 کی پوزیشن پر ہے۔
انڈیکس کے مطابق اگر کوئی کرنسی 95 سے 105 کی سطح کے درمیان رہتی ہے تو اس صورت میں اسے قابل قدر گردانا جاتا ہے، یعنی اس وقت روپیہ اپنی اصل قدر سے بہت پیچھے ہے، اس صورت میں برآمدات کی صورت میں اضافی آمدنی تو آتی ہے تاہم درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
مرکزی بینک آف پاکستان کے مطابق ریئل ایفکٹیو ایکسچینج ریٹ REER پاکستانی روپے کا موازنہ اگر دیگر کرنسی سے کیا جائے تو فروری کے دوران اس کی قدر میں 7 اعشاریہ 52 فیصد مزید کمی ہوئی اور وہ انڈیکس میں 86 اعشاریہ 4 کی سطح پر آگیا ہے جبکہ جنوری کے دوران یہ 93 اعشاریہ 96 کی سطح پر تھا۔ 28 فروری کو کاروباری دن کے اختتام تک انٹربینک مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قدر 261 روپے 50 پیسے کے مساوی تھی۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے ایما پر حکومت پاکستان نے جنوری میں کرنسی کی قدر کا تعین مارکیٹ کو طے کرنے کا نظام متعارف کرایا تھا جس کے بعد روپیہ اپنی قدر کو مستحکم نہ رکھ سکھا اور مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کے باعث اس کی قدر میں بہت زیادہ کمی ہوئی اور 2 فروری کو ڈالر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جب ایک ڈالر 285 روپے 9 پیسے کے مساوی ہوگیا تھا۔
خادم علی شاہ بخاری سیکوریٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ یوسف رحمن نے ایکسپریس سے بات چیت میں بتایا کہ REER کے مطابق پاکستانی روپیہ اپنی اصل قدر سے کم پر ہے تاہم بڑھتی ہوئی افراط زر کے باعث آئندہ کچھ مہینوں کے دوران اس انڈیکس میں بہتری کے امکانات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فروری کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 31 اعشاریہ 5 فیصد رہی جو پچاس سال میں سب سے زیادہ تھی تاہم مارچ میں اس میں مزید اضافے اور اس شرح کے 35 فیصد تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اضافے کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے 170 ارب روپے مالیت کے نئے محصولات کا نفاذ کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، جنرل سیلز ٹیکس کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا شامل ہے اور یہ سب اقدامات آئی ایم ایف کی ہدایات پر کیے گئے ہیں۔
یوسف رحمان کا کہنا تھا کہ کمزوری روپے کے سبب برآمدات میں ہونا چاہئے تھا تاہم درآمدات پر جزوی پابندی اور روپے کی قدر میں بے پناہ کمی، افراط زر اور شرح سود میں اضافے کے باعث برآمدات میں زیادہ اضافہ ممکن نہ ہوسکا اس کے علاوہ مارکیٹ کی برآمدات زیادہ تر امریکا اور یورپی ممالک کو ہوتی ہیں تاہم وہاں بھی معاشی سست روی اور عوام کی قوت خرید میں کمی کے سبب ان کی مقامی مارکیٹ میں برآمداتی اشیا کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔
یوسف رحمان نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے ذریعے ہی پاکستان کو معاشی اور مالیاتی بحران سے نکالا جاسکتا ہے تاہم اس میں وقت لگے گا کیونکہ اس پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان کو دوست ممالک سے 6 سے 7 ارب ڈالر قرض کی یقین دہائیاں کرانا ہوں گی۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی صورت میں ایک ڈالر کی قدر 275 روپے کے مساوی آسکتی ہے۔
رواں سال کے آغاز میں جنوری کے دوران جب کرنسی کی قدر کا تعین مارکیٹ کو ازخود طے کرنے پر چھوڑ دیا گیا تھا اس کے بعد سے اب تک پاکستانی روپیہ اپنی قدر کو کھوتے ہوئے دیگر تمام کرنسیوں کے مقابلے میں اپنی کم ترین سطح پر ہے اور کرنسی انڈیکس پر اس وقت 84 اعشاریہ 6 کی پوزیشن پر ہے۔
انڈیکس کے مطابق اگر کوئی کرنسی 95 سے 105 کی سطح کے درمیان رہتی ہے تو اس صورت میں اسے قابل قدر گردانا جاتا ہے، یعنی اس وقت روپیہ اپنی اصل قدر سے بہت پیچھے ہے، اس صورت میں برآمدات کی صورت میں اضافی آمدنی تو آتی ہے تاہم درآمدات کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔
مرکزی بینک آف پاکستان کے مطابق ریئل ایفکٹیو ایکسچینج ریٹ REER پاکستانی روپے کا موازنہ اگر دیگر کرنسی سے کیا جائے تو فروری کے دوران اس کی قدر میں 7 اعشاریہ 52 فیصد مزید کمی ہوئی اور وہ انڈیکس میں 86 اعشاریہ 4 کی سطح پر آگیا ہے جبکہ جنوری کے دوران یہ 93 اعشاریہ 96 کی سطح پر تھا۔ 28 فروری کو کاروباری دن کے اختتام تک انٹربینک مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قدر 261 روپے 50 پیسے کے مساوی تھی۔
عالمی مالیاتی فنڈ کے ایما پر حکومت پاکستان نے جنوری میں کرنسی کی قدر کا تعین مارکیٹ کو طے کرنے کا نظام متعارف کرایا تھا جس کے بعد روپیہ اپنی قدر کو مستحکم نہ رکھ سکھا اور مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کے باعث اس کی قدر میں بہت زیادہ کمی ہوئی اور 2 فروری کو ڈالر اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا جب ایک ڈالر 285 روپے 9 پیسے کے مساوی ہوگیا تھا۔
خادم علی شاہ بخاری سیکوریٹیز کے ہیڈ آف ریسرچ یوسف رحمن نے ایکسپریس سے بات چیت میں بتایا کہ REER کے مطابق پاکستانی روپیہ اپنی اصل قدر سے کم پر ہے تاہم بڑھتی ہوئی افراط زر کے باعث آئندہ کچھ مہینوں کے دوران اس انڈیکس میں بہتری کے امکانات ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فروری کے دوران ملک میں مہنگائی کی شرح 31 اعشاریہ 5 فیصد رہی جو پچاس سال میں سب سے زیادہ تھی تاہم مارچ میں اس میں مزید اضافے اور اس شرح کے 35 فیصد تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس اضافے کی وجوہات میں حکومت کی جانب سے 170 ارب روپے مالیت کے نئے محصولات کا نفاذ کے علاوہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، جنرل سیلز ٹیکس کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کرنا شامل ہے اور یہ سب اقدامات آئی ایم ایف کی ہدایات پر کیے گئے ہیں۔
یوسف رحمان کا کہنا تھا کہ کمزوری روپے کے سبب برآمدات میں ہونا چاہئے تھا تاہم درآمدات پر جزوی پابندی اور روپے کی قدر میں بے پناہ کمی، افراط زر اور شرح سود میں اضافے کے باعث برآمدات میں زیادہ اضافہ ممکن نہ ہوسکا اس کے علاوہ مارکیٹ کی برآمدات زیادہ تر امریکا اور یورپی ممالک کو ہوتی ہیں تاہم وہاں بھی معاشی سست روی اور عوام کی قوت خرید میں کمی کے سبب ان کی مقامی مارکیٹ میں برآمداتی اشیا کی طلب میں کمی واقع ہوئی ہے۔
یوسف رحمان نے بتایا کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے ذریعے ہی پاکستان کو معاشی اور مالیاتی بحران سے نکالا جاسکتا ہے تاہم اس میں وقت لگے گا کیونکہ اس پروگرام کی بحالی کے لیے پاکستان کو دوست ممالک سے 6 سے 7 ارب ڈالر قرض کی یقین دہائیاں کرانا ہوں گی۔
معاشی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کی صورت میں ایک ڈالر کی قدر 275 روپے کے مساوی آسکتی ہے۔