دہشت گردی کی جڑیں کاٹی جائیں
ہر فرد کو اس جنگ میں فوج کے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا
جنوبی وزیرستان کے علاقہ انگور اڈا میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کو لیڈ کرتے ہوئے آئی ایس آئی کے بریگیڈیئر شہید ہوگئے جب کہ سات سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوگئے۔
دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ کھتی کی پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ تبادلے میں تین دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا جب کہ اس دوران پاک فوج کے تین جوان بھی شہید ہوگئے۔
بس بہت ہو چکا پانی سروں سے گزر گیا اب فیصلے کا وقت ہے اب یا کبھی نہیں۔ ہم سب کی دعائیں تمام شہداء کے لیے ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو گئے۔
جام شہادت نوش کرنیوالے سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کردیا، دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو جس طرح افواج پاکستان ، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار بھی پوری طرح ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
بلاشبہ افواج پاکستان تو دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنے برسوں میں حکومت کی دیگر مشینری، اداروں اور ہماری عوام نے دہشت گردی کے اسباب کو سمجھنے اور ان کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
فوجی آپریشن اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک دہشت گردی کے اسباب کو سمجھ کر سویلین حکومت اور ادارے اس مسئلے کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حل کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کریں گے، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ وجہ صاف ہے۔
فوج کی ٹریننگ دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے، کسی بھی درست یا غلط نظریے کو ختم کرنا ریاست کے دیگر اداروں کا کام ہے۔
فوج اتنا تو کر سکتی ہے کہ کسی جگہ موجود دہشت گردوں کو گرفتار یا ختم کر کے علاقے کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کروا لے ، لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی۔
یہ مسئلہ بھی باقی رہے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ کا ہمیشہ سے کردار رہا ہے ، لیکن ان بیرونی ہاتھوں کو سہولت کار ملک کے اندر سے ہی ملتے ہیں۔دہشت گردی کی اس نظریاتی لڑائی میں ملک کے علمائے کرام اور مذہبی طبقے کو آگے بڑھ کر ریاست کی بقا کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
بھارت ، پاکستان میں دہشت گردی میں پوری طرح ملوث نظر آتا ہے جس کے پاکستان کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں جس کا اظہار بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ میں دوران پریس کانفرنس کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل بنوں میں ''سی ٹی ڈی '' کی عمارت پر قبضہ ایک بہت بڑی دہشت گردی کی کارروائی تھی جس سے دنیا ہل کر رہ گئی۔
25 سے 30 شرپسندوں نے پوری عمارت پر قبضہ کرکے وہاں اسلحہ اپنے قبضہ میں لے لیا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا اور لوگوں کو یرغمال بنا لیا اور بعد میں جب افواج پاکستان اور اداروں نے ان کا گھیراؤ کیا تو وہ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کو افغانستان فرار ہونے کے لیے کھلا راستہ مہیا کیا جائے جس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغان طالبان حکومت اس کارروائی میں شامل ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالبان اگست 2022میں باجوڑ، دیر اور سوات میں داخل ہوئے۔ کابل پر طالبان قبضے کے ٹھیک ایک سال بعد ان کا خیال تھا کہ وہ بھی فاتح کی حیثیت سے ان علاقوں میں داخل ہو جائیں گے۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنظیم سازی پر بھرپور توجہ دی ۔
ماضی میں یہ تنظیم قبائلی ساخت کے تابع رہی یعنی مختلف قبائلی علاقوں میں اپنے اپنے قبائل تنظیم کی سربراہی کرتے رہے۔ اس لیے مختلف زونز میں دوسرے علاقوں سے کمانڈرز لگائے گئے ہیں۔ اب تک ان کی یہ کوشش رہی تھی کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کریں اور عوامی مقامات کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا تاہم اس بار پشاور پولیس کی مسجد پر حملے کے بعد جس طرح کا عوامی ردعمل آیا تو مرکزی تحریک طالبان پاکستان نے ذمے داری نہیں لی بلکہ وضاحت جاری کی کہ ہم مساجد پر حملہ نہیں کرتے۔
بھارت اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان میں دہشت گردوں کی ہر قسم کی معاونت کررہا ہے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے دفتر میں پاکستان کا پیش کردہ ڈوزئیر موجود ہے جس میں تمام تفصیلات شواہد او ر ثبوتوں کے ساتھ درج ہیں لیکن افسوس کہ ابھی تک اقوام عالم نے بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے اور اسی لیے بھارت آج بھی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے آنے والے باقاعدہ تربیت یافتہ اور موقع واردات سے آشنا ہوتے ہیں۔
ان کو معلومات، پیسہ، اسلحہ، گولہ بارود اور سہولتیں بھارت ہی فراہم کرتا ہے۔ دہشت گرد افغانستان سے آکر وارداتیں کرتے ہیں جن کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ افغانستان میں بھی کوئی تو ہے جوان کو رہائشی سہولتیں اور پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ یہ طالبان حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان سہولت کاروں کو ڈھونڈ نکالے اور انجام تک پہنچائے۔
کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے، جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔
پاکستان مخالف قوتیں ملک میں شرپسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان ڈیفالٹ کرجائے اور معاشی طور پر تباہ حال ہو جائے اور عالمی معاشی نظام سے کٹ جائے یہاں تک کہ یہ باتیں کی گئیں کہ جب پاکستان معاشی نظام میں پھنس جائے گا تو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے ان مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی اور فوری نوعیت کی سزائیں دی جاسکیں۔
بِلاتخصیص تمام مذہبی مدارس کے نصاب میں بعض تبدیلیاں لانا ناگزیرہے۔ جب صورتحال یہ ہوکہ دہشت گرد تنظیمیں بین الاقوامی طاقتور ممالک اور ملکی سطح پر حکومتوں کواپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبورکر رہی ہوں تو سدِباب کے سلسلے میں کن اقسام ونوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے اس بارے میں پالیسی بنانے اور اس پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے جھانکیں تویہاں بھی ہمیں غربت، جہالت یا بے روزگاری نہیں، بلکہ کچھ گروہ کارفرما نظرآتے ہیں جو ریاست، حکومت یا ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔
ان حالات میں عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ شاخوں اور برگ و بار کو کاٹنے پر محنت اور توانائیاں صرف کرنے کے بجائے جڑوں کو کاٹا اور اُکھاڑا جائے۔ اُ ن نفرتوں، تنازعات ، اختلافات اور تضادات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو ملک پر طاری دہشت گردی کے حقیقی اسباب ہیں۔
ہر فرد کو اس جنگ میں فوج کے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔ دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے۔ شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے یا فوج کی۔
ان کی ذمے داری اپنی جگہ لیکن جب تک ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ یہ جنگ اس ملک کے بچے بچے کی جنگ ہے اور ہم سب کو یہ جنگ جیتنے کے لیے ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ہمیں مکمل کامیابی نہیں ملے گی۔
دہشت گردی کے خلاف اس وقت مکمل کامیابی ملے گی جب معاشرے کے تمام طبقات یکجا ہو کر اس کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔اس کے لیے حکومت کو معاشرے کے دانشور طبقات اور علما کو متحرک کرنا ہوگا۔
دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ کھتی کی پولیس چیک پوسٹ پر دہشت گردوں نے حملہ کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے فائرنگ تبادلے میں تین دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا جب کہ اس دوران پاک فوج کے تین جوان بھی شہید ہوگئے۔
بس بہت ہو چکا پانی سروں سے گزر گیا اب فیصلے کا وقت ہے اب یا کبھی نہیں۔ ہم سب کی دعائیں تمام شہداء کے لیے ہیں جو فرائض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو گئے۔
جام شہادت نوش کرنیوالے سیکیورٹی فورسز کے جوانوں نے اپنا آج ہمارے کل کے لیے قربان کردیا، دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں کو جس طرح افواج پاکستان ، پولیس اور سیکیورٹی اداروں کے نڈر نوجوانوں نے روکا اس پر انھیں خراج تحسین پیش کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ دہشت گردوں کو افواج پاکستان اور اداروں نے یہ پیغام دے دیا ہے کہ پاکستان اس بار بھی پوری طرح ان سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
بلاشبہ افواج پاکستان تو دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کر رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتنے برسوں میں حکومت کی دیگر مشینری، اداروں اور ہماری عوام نے دہشت گردی کے اسباب کو سمجھنے اور ان کے خلاف اپنا کردار ادا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش کی ہے؟
فوجی آپریشن اس مسئلے کے حل کا ایک اہم حصہ ہے لیکن جب تک دہشت گردی کے اسباب کو سمجھ کر سویلین حکومت اور ادارے اس مسئلے کے سیاسی، معاشرتی اور مذہبی حل کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی نہیں کریں گے، دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ وجہ صاف ہے۔
فوج کی ٹریننگ دشمن سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے ہوتی ہے، کسی بھی درست یا غلط نظریے کو ختم کرنا ریاست کے دیگر اداروں کا کام ہے۔
فوج اتنا تو کر سکتی ہے کہ کسی جگہ موجود دہشت گردوں کو گرفتار یا ختم کر کے علاقے کو دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد کروا لے ، لیکن جب تک دہشت گردی کو جنم دینے والی وجوہات باقی رہیں گی۔
یہ مسئلہ بھی باقی رہے گا۔ یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ کا ہمیشہ سے کردار رہا ہے ، لیکن ان بیرونی ہاتھوں کو سہولت کار ملک کے اندر سے ہی ملتے ہیں۔دہشت گردی کی اس نظریاتی لڑائی میں ملک کے علمائے کرام اور مذہبی طبقے کو آگے بڑھ کر ریاست کی بقا کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
بھارت ، پاکستان میں دہشت گردی میں پوری طرح ملوث نظر آتا ہے جس کے پاکستان کے پاس ثبوت بھی موجود ہیں جس کا اظہار بلاول بھٹو نے اقوام متحدہ میں دوران پریس کانفرنس کیا تھا۔ کچھ عرصہ قبل بنوں میں ''سی ٹی ڈی '' کی عمارت پر قبضہ ایک بہت بڑی دہشت گردی کی کارروائی تھی جس سے دنیا ہل کر رہ گئی۔
25 سے 30 شرپسندوں نے پوری عمارت پر قبضہ کرکے وہاں اسلحہ اپنے قبضہ میں لے لیا اور قتل و غارت کا سلسلہ شروع کیا اور لوگوں کو یرغمال بنا لیا اور بعد میں جب افواج پاکستان اور اداروں نے ان کا گھیراؤ کیا تو وہ یہ مطالبہ کرتے رہے کہ ان کو افغانستان فرار ہونے کے لیے کھلا راستہ مہیا کیا جائے جس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغان طالبان حکومت اس کارروائی میں شامل ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کر کے پاکستان پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت کی نرمی سے فائدہ اٹھا کر کچھ طالبان اگست 2022میں باجوڑ، دیر اور سوات میں داخل ہوئے۔ کابل پر طالبان قبضے کے ٹھیک ایک سال بعد ان کا خیال تھا کہ وہ بھی فاتح کی حیثیت سے ان علاقوں میں داخل ہو جائیں گے۔ دوسری جانب کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی تنظیم سازی پر بھرپور توجہ دی ۔
ماضی میں یہ تنظیم قبائلی ساخت کے تابع رہی یعنی مختلف قبائلی علاقوں میں اپنے اپنے قبائل تنظیم کی سربراہی کرتے رہے۔ اس لیے مختلف زونز میں دوسرے علاقوں سے کمانڈرز لگائے گئے ہیں۔ اب تک ان کی یہ کوشش رہی تھی کہ پولیس اور سیکیورٹی فورسز پر حملے کریں اور عوامی مقامات کو جان بوجھ کر نشانہ نہیں بنایا تاہم اس بار پشاور پولیس کی مسجد پر حملے کے بعد جس طرح کا عوامی ردعمل آیا تو مرکزی تحریک طالبان پاکستان نے ذمے داری نہیں لی بلکہ وضاحت جاری کی کہ ہم مساجد پر حملہ نہیں کرتے۔
بھارت اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے پاکستان میں دہشت گردوں کی ہر قسم کی معاونت کررہا ہے۔ اس بارے میں اقوام متحدہ کے دفتر میں پاکستان کا پیش کردہ ڈوزئیر موجود ہے جس میں تمام تفصیلات شواہد او ر ثبوتوں کے ساتھ درج ہیں لیکن افسوس کہ ابھی تک اقوام عالم نے بھارت کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے اور اسی لیے بھارت آج بھی پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے آنے والے باقاعدہ تربیت یافتہ اور موقع واردات سے آشنا ہوتے ہیں۔
ان کو معلومات، پیسہ، اسلحہ، گولہ بارود اور سہولتیں بھارت ہی فراہم کرتا ہے۔ دہشت گرد افغانستان سے آکر وارداتیں کرتے ہیں جن کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے۔ افغانستان میں بھی کوئی تو ہے جوان کو رہائشی سہولتیں اور پناہ گاہیں فراہم کر رہا ہے۔ یہ طالبان حکومت کی ذمے داری ہے کہ ان سہولت کاروں کو ڈھونڈ نکالے اور انجام تک پہنچائے۔
کسی بھی ملک میں دہشت گردی معاشرے پر دیر پا اثرات مرتب کرتی ہے، جس میں جانی، مالی، معاشی، اقتصادی اور تعلیمی نقصان شامل ہیں۔
پاکستان مخالف قوتیں ملک میں شرپسندی پیدا کر کے ملک کو کھوکھلا کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں پہلے مرحلے میں ملکی معیشت کو تباہ کرنے کی کوشش کی گئی اور پاکستانی مارکیٹ سے ڈالر کو غائب کیا گیا اور مصنوعی معاشی بحران پیدا کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ شاید پاکستان ڈیفالٹ کرجائے اور معاشی طور پر تباہ حال ہو جائے اور عالمی معاشی نظام سے کٹ جائے یہاں تک کہ یہ باتیں کی گئیں کہ جب پاکستان معاشی نظام میں پھنس جائے گا تو ملکی سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔
ملکی قوانین میں ضروری قانون سازی نہایت اہم ہے جس کے ذریعے ان مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی اور فوری نوعیت کی سزائیں دی جاسکیں۔
بِلاتخصیص تمام مذہبی مدارس کے نصاب میں بعض تبدیلیاں لانا ناگزیرہے۔ جب صورتحال یہ ہوکہ دہشت گرد تنظیمیں بین الاقوامی طاقتور ممالک اور ملکی سطح پر حکومتوں کواپنے مطالبات منظور کرنے پر مجبورکر رہی ہوں تو سدِباب کے سلسلے میں کن اقسام ونوعیت کے اقدامات کی ضرورت ہے اس بارے میں پالیسی بنانے اور اس پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے جھانکیں تویہاں بھی ہمیں غربت، جہالت یا بے روزگاری نہیں، بلکہ کچھ گروہ کارفرما نظرآتے ہیں جو ریاست، حکومت یا ایک دوسرے سے ناراض ہیں۔
ان حالات میں عقل سلیم کا تقاضا ہے کہ شاخوں اور برگ و بار کو کاٹنے پر محنت اور توانائیاں صرف کرنے کے بجائے جڑوں کو کاٹا اور اُکھاڑا جائے۔ اُ ن نفرتوں، تنازعات ، اختلافات اور تضادات کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے جو ملک پر طاری دہشت گردی کے حقیقی اسباب ہیں۔
ہر فرد کو اس جنگ میں فوج کے ساتھ مل کر لڑنا اور چوکس رہنا ہو گا۔ دہشت گرد حملہ کرنے سے پہلے شہری علاقوں میں کئی کئی روز قیام کرتے ہیں۔ کوئی پراپرٹی ڈیلر کمیشن کے لالچ میں اور کوئی نہ کوئی مالک مکان چند سو روپے زیادہ کرایہ کے لالچ میں بغیر تحقیق کیے ان ملک دشمن عناصر کو اپنا مہمان بنا لیتا ہے۔ شاید ہمارے خیال میں یہ جنگ یا تو پولیس اور ایجنسیوں کی ذمے داری ہے یا فوج کی۔
ان کی ذمے داری اپنی جگہ لیکن جب تک ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہو گا کہ یہ جنگ اس ملک کے بچے بچے کی جنگ ہے اور ہم سب کو یہ جنگ جیتنے کے لیے ہر سطح پر اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے ہمیں مکمل کامیابی نہیں ملے گی۔
دہشت گردی کے خلاف اس وقت مکمل کامیابی ملے گی جب معاشرے کے تمام طبقات یکجا ہو کر اس کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔اس کے لیے حکومت کو معاشرے کے دانشور طبقات اور علما کو متحرک کرنا ہوگا۔