کون سی سیاسی قیادت
وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی پیشکش میں معاشی اورسیاسی اصلاحات کی توبات کی مگر عام انتخابات کے انعقاد کا ذکرنہیں کیا
وزیراعظم میاں شہباز شریف نے سینیٹ کی گولڈن جوبلی کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے تمام سیاسی قیادت کو مل بیٹھنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا ہے کہ معاشی اصلاحات ، معاشی ایجنڈا ، کفایت شعاری سمیت اہم ترین اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے مل بیٹھ کر فیصلے کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
اسی روز سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی ترقی ، مفادات اور جمہوریت کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا۔ اس ضمن میں کسی سے بھی بات کرنے کو تیار ہوں اور اس جانب قدم اٹھانے کو بھی تیار ہوں۔ وزیر اعظم نے یہ بھی واضح کیا کہ کوئی لیڈر پاکستان کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے تو اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ سازش نہیں کاوش کا راستہ اختیار کریں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی پیشکش میں معاشی اور سیاسی اصلاحات کی تو بات کی مگر عام انتخابات کے انعقاد کا ذکر نہیں کیا جب کہ عمران خان اب تک اپنے انتخابات جلد کرانے کے موقف پر قائم ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہم انتخابات کو نوے روز سے آگے نہیں جانے دیں گے اور اگر ایسا ہوا تو تحریک چلائیں گے۔
عمران خان نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہیں یا نہیں اور نہ ہی انھوں نے اپنی کسی شرط کا ذکر کیا بس یہ کہا کہ سب سے بات کے لیے تیار ہوں۔وزیر اعظم شہباز شریف نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے۔
اسی پر وہ چاہتے ہیں کہ سیاسی قیادت مل بیٹھے جب کہ عمران خان ملک کی معاشی صورت حال کا ذکر نہیں کر رہے اور انھیں اپنی گرفتاری ، تشدد کا خوف ہے کہ مجھ پر جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے ہیں اور مجھے گرفتار اور نااہل کرنے کی منصوبہ بندی لندن میں ہو چکی ہے میں گرفتاری کے لیے تیار ہوں مگر میرے نوجوان مجھے گرفتاری دینے سے روک رہے ہیں مجھے سیکیورٹی کے خدشات ہیں میری حفاظت کی ضمانت دی جائے۔سابق صدر آصف زرداری پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ سیاسی باتیں یا مذاکرات اس سے کیے جا سکتے ہیں جو سیاسی ہو۔
عمران خان تو سیاسی لیڈر ہے ہی نہیں کہ جس سے بات کی جائے وہ تو جمہوریت پر یقین ہی نہیں رکھتا اور اپنے سیاسی مخالفین کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور انھیں دھمکیاں دے رہا ہے تو اس سے کیسے بات چیت کی جاسکتی ہے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن پہلے ہی عمران خان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کر چکے ہیں اور نواز شریف بھی عمران خان کے سخت خلاف ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ پی ٹی آئی ملک میں انتشار پھیلانا چاہتی ہے ، عمران خان کے ساتھ بیٹھنا فضول ہے۔
عمران خان موجودہ مسائل کا حل عام انتخابات کو قرار دے رہے ہیں۔عمران خان نے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد ہی موجودہ حکومت کو امپورٹڈ قرار دے کر قبل از وقت نئے الیکشن کا مطالبہ کیا تھا جو حکومت نے نہیں مانا تو عمران خان نے قومی اسمبلی سے استعفے دلا دیے تھے مگر کامیاب نہ ہونے پر انھوں نے اپنی دو حکومتیں چھوڑ دیں اور پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں اپنے رہنماؤں کے منع کرنے کے باوجود تڑوا کر ثابت کردیا کہ وہ حصول اقتدار کے لیے وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو کبھی ماضی میں کسی رہنما نے نہیں کیا۔
جمہوریت باہمی مشاورت کا نام ہے مگر عمران خان پارٹی میں کسی مشاورت پر یقین نہیں رکھتے بلکہ فیصلہ کرکے یہ چاہتے ہیں کہ ان کی بات پر عمل ہو۔ قومی اسمبلی سے استعفے اور دو اسمبلیاں توڑنا ان کا ذاتی فیصلہ تھا جس پر انھوں نے عمل کرا کر پارٹی میں اپنی آمریت ثابت کردی ہے۔
پہلے سوچے سمجھے بغیر قومی اسمبلی سے استعفے پھر واپسی کی خواہش کا عجب تماشا دنیا نے دیکھ لیا ہے ، اگر عمران خان جمہوریت اور مشاورت پر چلتے تو انھیں یو ٹرن نہ لینے پڑتے اور نہ یوں غیر مشروط طور سب سے بات پر آمادہ ہونا پڑتا ۔
حکومتی رہنما واضح کرچکے ہیں کہ وزیر اعظم کی پیشکش پی ڈی ایم یا پی پی کا فیصلہ نہیں کیونکہ عمران خان یوٹرن کے ماسٹر اور اپنی زبان پر قائم رہنے والے نہیں ہیں اس لیے ان کی کسی بات پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔
سو کے قریب مقدمات سے نجات، گرفتاری سے محفوظ رہنے اور اقتدار کے لیے وہ اب سب سے بات کرنے کو تیار ہیں مگر حکومت اب ان کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں اور وزیر اعظم نے نام لے کر عمران خان کو مل بیٹھنے کے لیے نہیں کہا اگر انھیں عمران خان کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تو وزیر اعظم دوبارہ اے پی سی بلاتے۔
حکومت نے عمران خان کو تنہا اور جھکنے پر مجبور کردیا ہے۔ حکومت انھیں سیاسی لیڈر ماننے کو تیار نہیں۔ مریم نواز پی ٹی آئی کو دہشت گرد جماعت کی طرح ڈیل کرنے کا کہہ رہی ہیں تو وزیر اعظم کون سی سیاسی قیادت کے ساتھ بیٹھنا چاہتے ہیں،کیا ان کا مقصد عمران کے سوا باقی سب ہیں۔