استقبال رمضان
رمضان سے دو مہینہ پہلے ہی اس کا انتظار اور اشتیاق وہی کر سکتا ہے جسے رمضان المبارک کی صحیح قدر وقیمت معلوم ہو
اللہ کریم نے سال کے بارہ مہینے مقرر فرمائے ہیں، ہر مہینے کی عظمت و شان الگ ہے لیکن ماہ رمضان کو اللہ کریم نے تمام مہینوں پر فضیلت عطا کی ہے۔
اسی لیے ہر مسلمان اس ماہ مبارک کا بڑی بے صبری سے انتظار کرتا ہے۔ اللہ کے نیک بندے ہی اس کی قدر جانتے ہیں اور اس کے انوار وبرکات سے پورے طور پر مستفید ہوتے ہیں۔آقاکریم رسول اللہ ﷺ جب رجب کے مہینہ کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرمایا کر تے تھے ''اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دیجیے۔''
رمضان سے دو مہینہ پہلے ہی اس کا انتظار اور اشتیاق وہی کر سکتا ہے جسے رمضان المبارک کی صحیح قدر وقیمت معلوم ہو۔ اگر ہم بھی چاہتے ہیں کہ رمضان کی برکتوں سے محظوظ ہوں، تو ہمارے اوپر لازم ہے کہ اس مبارک مہینہ کی قدر کریں، اس مہینہ کے اعمال اور عبادات کوپورے اہتمام کے ساتھ ادا کریں۔
ادنیٰ کوتاہی سے بھی مکمل احتیاط کی کوشش کریں، اللہ اور اس کے رسول کے فرمامین کے مطابق یہ مقدس مہینہ گزاریں، نفس اور شیطان سے دوری اختیار کریں۔
اللہ کریم نے اپنے مقدس کلام قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ بقرہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ''اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔'' حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا، ''جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔''
ایک اور جگہ آقا کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ''روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو۔'' ایک اور حدیث مبارک جس کے راوی بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا ''آدم کے بیٹے کا نیک عمل دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے جتنا اللہ چاہے بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: روزہ اس سے مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔''
روزہ پہلی امتوں پر بھی فرض تھا، حضرت دانیال علیہ السلام اور حضرت یحیٰی علیہ السلام اور ان کے پیروکار بھی روزے رکھتے تھے۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے بھی روزے کی لذت چکھی ہے۔ انھوں نے بھی چالیس دن کے روزے اپنے اوپر ضروری جانے تھے۔
جیوش انسائیکلوپیڈیا جلد 5 صفحہ نمبر 347 میں ہے ''یہودیوں اور عیسائیوں کا روزہ سخت رسمی ہوتا تھا وہ اسے کفارہ یا توبہ یا اس سے بھی محدود مقاصد کے لیے رکھتے تھے۔ قدیم وقتوں میں روزہ یا تو بطور علامت ماتم رکھا جاتا تھا یا جب کوئی خطرہ لاحق ہوتا تھا اور یا پھر جب سالک اپنے اندر قبول الہام کی صلاحیت پیدا کرنا چاہتا تھا۔'' اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ روزہ اسلام سے پہلے بھی رائج تحاریر تھا مگر اس کے مقاصد محدود تھے۔
ایک طرف اسلام نے ان محدود مقاصد کے بجائے تقویٰ کو روزے کا مقصد قرار دیا۔ دوسری طرف پابندیوں اور حدود و قیود کے معاملے میں افراط و تفریط کے بجائے اعتدال کی راہ اختیار کی۔ روزے کی حقیقت اور فلسفہ کیا ہے؟ روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں۔
جس کے اصل معنی کسی کام سے رک جانا ہے۔ امام راغب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی چیز سے رک جانے کی کیفیت کا نام ہی صوم ہے۔ چونکہ روزے کی حالت میں مسلمان دن کے وقت کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جاتے ہیں۔اس لیے اسے صوم سے تعبیر کیا گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ روزے کا اہتمام کیسے کیا جائے؟ رمضان المبارک کی سب سے بڑی عبادت روزہ رکھنا ہے۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس کے روزے اللہ نے فرض قرار دیے ہیں، رمضان کے روزوں کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس سے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
آپﷺ کا ارشاد ہے ''جو شخص سفر یا بیماری جیسے کسی شرعی عذر کے بعد رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے پھر اگر وہ اس کی قضاء کے طور پر عمر بھر بھی روزے رکھتا رہے تو رمضان کے چھوٹے ہوئے روزے کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔'' رمضان المبارک کے مہینہ میں تمام مسلمانوں کو روزوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
بغیر کسی عذر شرعی کے روزے قضا کرنا انتہائی درجہ کی محرومی ہوگی۔ رمضان المبارک میں سب سے اہم اور بنیادی چیزیہ ہے کہ ہم گناہوں سے مکمل پرہیز کریں، گناہوں کے ساتھ روزوں کی برکات اور رمضان کے انوار کا حقیقی لطف نہیں مل سکتا۔
آقا کریم ﷺ کا ارشاد عالی ہے ''جب کسی کا روزہ ہو تو وہ فحش اور گندی باتیں اور شوروشغب بالکل نہ کرے اور اگر کوئی دوسرا شخص اس سے الجھے اور غلط باتیں کرے پھر بھی روزہ دار اس سے کوئی سخت بات نہ کہے، بلکہ صرف اتنا کہہ دے کہ جناب! میرا روزہ ہے۔'' اس ہدایت میں اشارہ ہے کہ روزہ کی خاص فضیلتیں اور برکتیں انھی کو حاصل ہوتی ہیں، جو گناہوں سے حتیٰ کہ بری اور ناپسندیدہ باتوں سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔
اس بار ماہ رمضان ایسے وقت میں آرہا ہے جس وقت ملک معاشی تباہی کے دہانے پر ہے، بے روزگاری، غربت اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، بڑے بڑے سفید پوش فاقوں پر ہیں۔ بیشک ایسے لوگوں کے لیے ماہ رمضان ایک کڑی آزمائش بن کر آیا ہے۔
بے شمار لوگ ایسے ہوں گے جو عبادت گزار، روزہ دار ہوں گے لیکن ان کے حالات بہت سخت ہوں گے۔ ہمیں اپنے آس پاس ایسے لوگوں پر نظر رکھنی ہوگی۔ رمضان کے مبارک مہینہ میں جہاں اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے افطار کا انتظام کرنا باعث ثواب ہے، وہیں مسافروں، غریبوں اور راہگیروں کا بھی ہمیں خیال رکھنا چاہیے۔
اسی طرح مدارس کے طلبا، اساتذہ ، خادمین، مساجد کے آئمہ، خطبا اور خادمین کا بھی خیال رکھیں، مہنگائی کے اس دور میں یہ طبقہ سب سے زیادہ پس رہا ہے۔
آقا کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ''جس نے کسی روزے دار کو اس مہینہ میں افطار کرایا تو یہ اس کے لیے گناہوں سے مغفرت اور جہنم سے نجات کا ذریعہ ہوگا، نیز افطار کرانے والے کو روزے دار کے برابر ثواب دیا جائے گا اور روزے دار کے ثواب میں کوئی کمی بھی نہیں ہوگی۔
صحابہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا، یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر ایک میں افطار کرانے کی استطاعت نہیں ہے( تو کیا غریب لوگ اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے جواب دیا اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو افطار کے لیے روزہ دار کودودھ کی تھوڑی لسی یا تھوڑا پانی ہی پیش کردے۔
اسی طرح آپﷺ نے فرمایا لیکن جو کسی روزے دار کو پیٹ بھر کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض کوثر سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اسے جنت میں داخلہ تک کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔
رمضان المبارک کے مہینہ میں تمام مسلمان پانچ وقت کی نماز باجماعت پڑھنے کا اہتمام کریں، مساجد کو آباد کریں۔ ایک اہم اور روزانہ ادا کی جانے والی عبادت تراویح کی نماز بھی ہے، اس کا بھی اہتمام کیا جائے۔
ماہ رمضان میں قرآن مجید کی تلاوت روزانہ کی بنیاد پر کریں، جنھیں قرآن پڑھنا نہیں آتا وہ قریبی مسجد یا مدرسے میں قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کا اہتمام کریں۔ جنھیں ناظرہ پر عبور ہے وہ ترجمہ کے ساتھ سیکھے۔ کثرت سے ذکر اذکار کریں اور اللہ سے خصوصی دعائیں مانگیں۔
اللہ کریم نیکیوں کے اس موسم بہار کو جی بھر کر لوٹنے کی توفیق عطا کرے۔(آمین)