حکومت سندھ کی دانستہ خاموشی سے لیاری یونیورسٹی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی
مستقل وائس چانسلر کی جبری رخصت کو ایک سال ہوگیا
سندھ حکومت کی دانستہ خاموشی کے سبب بینظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری بدترین تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لیاری یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی جبری رخصت کو ایک سال ہوگیا ہے اور یونیورسٹی کے تمام انتظامی اختیارات ایک میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ کے حوالے کیے ہوئے ہیں جو بحیثیت سربراہ اپنی میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامی مصروفیات میں سے بمشکل ہفتے میں ایک روز محض چند گھنٹے ہی یونیورسٹی کو دے پاتے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ برس 15 فروری 2022 کو لیاری یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا جو تاحال رخصت پر ہیں اور اس سال کے آخر میں ان کے عہدے کی 4 سالہ مدت بھی پوری ہوجائے گی، ان پر الزام تھا کہ انھوں نے سندھ کی ایک رکن اسمبلی کو نازیبا ایموجی emoji اپنے موبائل فون سے بھیجی تھی تاہم ایف آئی اے کی تحقیقات میں ان پر لگایا گیا مذکورہ الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری مرید راہیمو کی جانب سے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ کو بھجوائی گئی سمری میں انہیں عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
"ایکسپریس" نے جب اس سلسلے میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے دریافت کیا کہ لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے متعلق کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم سمری وزیر اعلیٰ کو بھجواچکے ہیں اب کنٹرولنگ اتھارٹی کو فیصلہ کرنا ہے، واضح رہے کہ اس سمری کو وزیر اعلیٰ سندھ کو بھجوائے کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن کنٹرولنگ اتھارٹی اس پر کوئی بھی فیصلہ نہیں کررہی۔
ذرائع کہتے ہیں کہ کنٹرولنگ اتھارٹی مستقل وائس چانسلر کی مدت ملازمت کے خاتمے تک معاملے کو یوں ہی دبائے رکھنا چاہتی ہے اور ٹینیور پورا ہونے پر اشتہار کی بنیاد پر نئے وائس چانسلر کی تقرری کی جاسکتی ہے تاہم ابھی اس میں 6 ماہ سے بھی زائد کا وقت باقی ہے اور اگر مستقل وائس چانسلر کو باقی مدت کے لیے بھی جبری رخصت پر بھجوائے رکھا گیا تو لیاری یونیورسٹی کم از کم ڈیڑھ برس یا اس سے بھی زائد عرصے تک اسی ایڈہاک ازم کا شکار رہے گی۔
ادھر یونیورسٹی میں ایڈہاک ازم کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ یہ سندھ کی واحد یونیورسٹی ہے جس میں ایک بھی پروفیسر نہیں ہے پوری یونیورسٹی میں بمشکل 4 ایسوسی ایٹ پروفیسرز ہیں، کسی بھی فیکلٹی کے لیے کوئی ڈین بھی نہیں ہے اس طرح پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب 9 شعبہ جات پر مشتمل پوری یونیورسٹی کی تدریس لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسرز چلارہے ہیں جبکہ ان کی تعداد بھی محدود ہونے کے سبب یونیورسٹی کا 60 فیصد سے زائد تعلیمی بوجھ academic load جزوقتی اساتذہ یا وزیٹنگ فیکلٹی کے سپرد ہے تاہم اساتذہ کی اس شدید کمی کو پورا کرنے اور نئی فیکلٹی کی تقرری کے لیے گزشتہ ایک سال میں ایک بھی اشتہار جاری نہیں کیا گیا اس کے برعکس نئے شعبے متعارف کرادیے گئے ہیں۔
یونیورسٹی کے مالی حالات بھی انتہائی دگرگوں ہیں اور گزشتہ ماہ کی تنخواہ یونیورسٹی کے reserve fund سے ادا کی گئی ہے، اس کی تصدیق لیاری یونیورسٹی کے قائم مقام اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج میمن نے بھی کی ہے۔ "ایکسپریس" کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ "یونیورسٹی میں ہائوس سیلنگ ، لیاری الائونس اور کمپیوٹر الائونس سمیت اتنے زیادہ الائونسز کو تنخواہوں کا حصہ بنادیا گیا ہے کہ بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔
وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ کئی ایسے کیسز ہیں جس میں میاں اور بیوی دونوں ہائوس سیلنگ لے رہے ہیں، روکو تو لوگ احتجاج پر چلے جاتے ہیں دیگر کئی مسائل ہیں، گینگ وار کے لوگ بھی یہاں موجود ہیں جنہوں نے مجھے قتل کی دھمکیاں تک دی ہیں، مستقل فیکلٹی کی تقرری نہ کرنے کے سوال پر ڈاکٹر امجد سراج کا کہنا تھا کہ انہیں تنخواہیں کہاں سے دیں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مستقل وائس چانسلر کی تنخواہ اور پیٹرول میں نے نہیں روکی کیونکہ قانونی طور پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
اپنی ایک سالہ کارکردگی پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے میڈیا سائنسز، انٹرنیشنل ریلیشن اور اسپورٹس سائنسز کے شعبے شروع کیے ہیں جبکہ اردو اور سندھی کے شعبوں میں مطلوبہ تعداد میں داخلے نہیں آسکے، ان کے دور میں یونیورسٹی کو حب چوکی کے قریب 200 ایکڑ زمین الاٹ ہوچکی ہے جس کا قبضہ ملنا باقی ہے۔
ادھر ذرائع کہتے ہیں کہ شروع کیے گئے مذکورہ تینوں شعبوں میں بھی متعلقہ مضامین کے مستقل اساتذہ نہیں ہیں جس کے سبب وزیٹنگ فیکلٹی ان شعبوں کو چلا رہی ہے یا پھر دیگر شعبے کے اساتذہ کو چارج دے رکھا ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں کوئی مستقل رجسٹرار اور ڈائریکٹر فنانس بھی نہیں ہیں اور وائس چانسلر سمیت تینوں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے افسران غیر مستقل ہیں جبکہ رجسٹرار ایک اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر فنانس کا چارج ڈپٹی کے پاس ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لیاری یونیورسٹی میں مستقل وائس چانسلر کی جبری رخصت کو ایک سال ہوگیا ہے اور یونیورسٹی کے تمام انتظامی اختیارات ایک میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ کے حوالے کیے ہوئے ہیں جو بحیثیت سربراہ اپنی میڈیکل یونیورسٹی کی انتظامی مصروفیات میں سے بمشکل ہفتے میں ایک روز محض چند گھنٹے ہی یونیورسٹی کو دے پاتے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے گزشتہ برس 15 فروری 2022 کو لیاری یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا جو تاحال رخصت پر ہیں اور اس سال کے آخر میں ان کے عہدے کی 4 سالہ مدت بھی پوری ہوجائے گی، ان پر الزام تھا کہ انھوں نے سندھ کی ایک رکن اسمبلی کو نازیبا ایموجی emoji اپنے موبائل فون سے بھیجی تھی تاہم ایف آئی اے کی تحقیقات میں ان پر لگایا گیا مذکورہ الزام ثابت نہیں ہوسکا۔ اس کے باوجود محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کے سیکریٹری مرید راہیمو کی جانب سے اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ سندھ کو بھجوائی گئی سمری میں انہیں عہدے سے برطرف کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔
"ایکسپریس" نے جب اس سلسلے میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے دریافت کیا کہ لیاری یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے متعلق کوئی فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا جس پر ان کا کہنا تھا کہ ہم سمری وزیر اعلیٰ کو بھجواچکے ہیں اب کنٹرولنگ اتھارٹی کو فیصلہ کرنا ہے، واضح رہے کہ اس سمری کو وزیر اعلیٰ سندھ کو بھجوائے کئی ماہ گزر چکے ہیں لیکن کنٹرولنگ اتھارٹی اس پر کوئی بھی فیصلہ نہیں کررہی۔
ذرائع کہتے ہیں کہ کنٹرولنگ اتھارٹی مستقل وائس چانسلر کی مدت ملازمت کے خاتمے تک معاملے کو یوں ہی دبائے رکھنا چاہتی ہے اور ٹینیور پورا ہونے پر اشتہار کی بنیاد پر نئے وائس چانسلر کی تقرری کی جاسکتی ہے تاہم ابھی اس میں 6 ماہ سے بھی زائد کا وقت باقی ہے اور اگر مستقل وائس چانسلر کو باقی مدت کے لیے بھی جبری رخصت پر بھجوائے رکھا گیا تو لیاری یونیورسٹی کم از کم ڈیڑھ برس یا اس سے بھی زائد عرصے تک اسی ایڈہاک ازم کا شکار رہے گی۔
ادھر یونیورسٹی میں ایڈہاک ازم کی صورتحال کچھ ایسی ہے کہ یہ سندھ کی واحد یونیورسٹی ہے جس میں ایک بھی پروفیسر نہیں ہے پوری یونیورسٹی میں بمشکل 4 ایسوسی ایٹ پروفیسرز ہیں، کسی بھی فیکلٹی کے لیے کوئی ڈین بھی نہیں ہے اس طرح پیپلز پارٹی کی شہید چیئرپرسن بینظیر بھٹو کے نام سے منسوب 9 شعبہ جات پر مشتمل پوری یونیورسٹی کی تدریس لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسرز چلارہے ہیں جبکہ ان کی تعداد بھی محدود ہونے کے سبب یونیورسٹی کا 60 فیصد سے زائد تعلیمی بوجھ academic load جزوقتی اساتذہ یا وزیٹنگ فیکلٹی کے سپرد ہے تاہم اساتذہ کی اس شدید کمی کو پورا کرنے اور نئی فیکلٹی کی تقرری کے لیے گزشتہ ایک سال میں ایک بھی اشتہار جاری نہیں کیا گیا اس کے برعکس نئے شعبے متعارف کرادیے گئے ہیں۔
یونیورسٹی کے مالی حالات بھی انتہائی دگرگوں ہیں اور گزشتہ ماہ کی تنخواہ یونیورسٹی کے reserve fund سے ادا کی گئی ہے، اس کی تصدیق لیاری یونیورسٹی کے قائم مقام اور جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے مستقل وائس چانسلر ڈاکٹر امجد سراج میمن نے بھی کی ہے۔ "ایکسپریس" کے رابطہ کرنے پر انہوں نے بتایا کہ "یونیورسٹی میں ہائوس سیلنگ ، لیاری الائونس اور کمپیوٹر الائونس سمیت اتنے زیادہ الائونسز کو تنخواہوں کا حصہ بنادیا گیا ہے کہ بجٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے۔
وائس چانسلر کا کہنا ہے کہ کئی ایسے کیسز ہیں جس میں میاں اور بیوی دونوں ہائوس سیلنگ لے رہے ہیں، روکو تو لوگ احتجاج پر چلے جاتے ہیں دیگر کئی مسائل ہیں، گینگ وار کے لوگ بھی یہاں موجود ہیں جنہوں نے مجھے قتل کی دھمکیاں تک دی ہیں، مستقل فیکلٹی کی تقرری نہ کرنے کے سوال پر ڈاکٹر امجد سراج کا کہنا تھا کہ انہیں تنخواہیں کہاں سے دیں گے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مستقل وائس چانسلر کی تنخواہ اور پیٹرول میں نے نہیں روکی کیونکہ قانونی طور پر ایسا نہیں کیا جاسکتا۔
اپنی ایک سالہ کارکردگی پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے میڈیا سائنسز، انٹرنیشنل ریلیشن اور اسپورٹس سائنسز کے شعبے شروع کیے ہیں جبکہ اردو اور سندھی کے شعبوں میں مطلوبہ تعداد میں داخلے نہیں آسکے، ان کے دور میں یونیورسٹی کو حب چوکی کے قریب 200 ایکڑ زمین الاٹ ہوچکی ہے جس کا قبضہ ملنا باقی ہے۔
ادھر ذرائع کہتے ہیں کہ شروع کیے گئے مذکورہ تینوں شعبوں میں بھی متعلقہ مضامین کے مستقل اساتذہ نہیں ہیں جس کے سبب وزیٹنگ فیکلٹی ان شعبوں کو چلا رہی ہے یا پھر دیگر شعبے کے اساتذہ کو چارج دے رکھا ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس یونیورسٹی میں کوئی مستقل رجسٹرار اور ڈائریکٹر فنانس بھی نہیں ہیں اور وائس چانسلر سمیت تینوں کلیدی عہدوں پر کام کرنے والے افسران غیر مستقل ہیں جبکہ رجسٹرار ایک اسسٹنٹ پروفیسر اور ڈائریکٹر فنانس کا چارج ڈپٹی کے پاس ہے۔