دشمن کا دشمن ‘ دوست نہ رہ سکے
حکومت سنبھالنے کے بعد مصدق نے عوام کے لیے فلاحی کاموں کا بھرپور آغاز کر دیا
محمد مصدق' ایران کا مقبول وزیراعظم رہا ہے، وہ ایران کا پینتسواں وزیراعظم تھا اور اس کادورانیہ 1951 سے 1953 تک تھا۔
حکومت سنبھالنے کے بعد مصدق نے عوام کے لیے فلاحی کاموں کا بھرپور آغاز کر دیا۔ بے روزگاروں کی فہرست بنائی اور انھیں روز گار مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ بے روز گار شخص کے لیے سرکاری وظیفہ مقرر کیا، تمام فیکٹر ی مالکان کو حکم دیا گیا کہ اپنے زخمی اور بیمار مزدروں کا علاج کرائیں ۔
لینڈریفارمز بھی لاگو کر دیں، بڑی بڑی جاگیریں ختم ہونے لگیں۔ ان اقدامات کی وجہ سے اس کی مقبولیت آسمان تک جا پہنچی ۔ مگر محمد مصدق ایک بہت بڑی غلطی کر گیا۔ وہ بھول گیا کہ ملک اور عوام ترقی دینا حکومت کا اصل کام نہیں ہوتا، حقیقی کام' عالمی طاقتوں کواپنے ساتھ ملا کر رکھنا ہے۔ ان کی مدد' عوامی حمایت سے بہت زیادہ کار آمد اور ضروری ہے۔
وزیراعظم نے ایرانی عوام کی بہتری کے لیے ایک انقلابی قدم اٹھایا ۔ برطانیہ کی آئل کمپنی ایرانی تیل کے تمام وسائل پر قابض تھی۔ مصدق نے وطن پرستی کے جنون میں اس کمپنی کو قومی تحویل میں لے لیا۔ اعلان تھا کہ ملکی تیل سے کمائی ہوئی دولت کے اصل حقدار ایران کے عوام ہیں۔
یہ صورت حال برطانیہ کے لیے ناقابل قبول تھی۔ برطانوی حکومت کی سپر پاور کی حیثیت تو قدرے کم ہو چکی تھی۔ مگر امریکی حکومت پر برطانیہ کا حد درجہ اثر و رسوخ ابھی بھی موجود تھا۔ برطانوی وزیراعظم نے بہرحال امریکی صدر کو قائل کر لیا کہ ڈاکٹر محمد مصدق ' ان کے مالی اور سیاسی مفادات کی راہ میں دیوار بن چکا ہے۔
اس کے بعد دونوں حکومتوں نے ملکر Operation Ajaxشروع کیا گیا۔ ایک منظم سازش کے تحت ایران میں مصدق حکومت کے خلاف سیاسی فضا پیدا کی گئی۔
مصدق کو سازش کا معلوم ہو گیا۔ اس نے عوام کے سامنے حقائق کھول کر رکھ دیے لیکن سازش اتنی گہری اورمضبوط تھی کہ مصدق اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا۔ شاہ آف ایران نے فرمان جاری کیا کہ اسے وزیراعظم کے عہدے سے برخواست کیا جاتا ہے اور جنرل فیض اللہ زاہدی کو وزیراعظم مقرر کر دیا ۔
شاہ ایران کو مصدق کی عوامی مقبولیت کا اتنا خوف تھا کہ فرمان جاری کرنے کے بعد روم چلا گیا۔فوج نے مصدق کو گرفتار کر لیا ۔ عدالت نے اسے تین سال قید تنہائی کی سزا سنائی۔سزا سننے کے بعد' مصدق مسکرایا اور جج کو کہنے لگا' ''عدالت کے اس حکم نے میری اہمیت کو تاریخ میں دوام بخش دیا ہے۔ سزا دینے پر عدالت کا مشکور ہوں۔
ایران کے لوگوں کو آج آئین اور قانون کی اصلیت بھی معلوم ہو گئی ہے۔'' مصدق قید میں ہی فوت ہو گیا۔ اسے اس کے گھر کے ایک کمرے میں دفن کر دیا گیا۔ امریکی حکومت نے واقعہ کے تیس سال بعد تسلیم کیا کہ برطانیہ کے کہنے پر سی آئی اے نے مصدق کو سازش سے ہٹایا تھا۔
اسی تناظر میں جب پاکستان کے سابقہ اور موجودہ حالات کو دیکھیں تو حیرت انگیز مماثلت نظر آتی ہے۔ کسی قسم کا کوئی شک نہیں کہ پاکستان ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں معرض وجود میں آیا تھا۔ قائداعظم نے ہتھیار کی طاقت سے پاکستان نہیں بنایا تھا بلکہ ووٹ کی طاقت کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔
پہلے دس بارہ برس میں تو پاکستان کی تیز رفتار ترقی دنیا کے لیے باعث حیرت تھی۔ پھرغیر ملکی طاقتوں کے زیر اثر سیاست دانوں کو آپس میں لڑایا گیا اور غیرجمہوری مائنڈ سیٹ کو ریاستی وسائل فراہم کرکے توانا کرنے کا عمل شروع کردیا گیا لسانی' مذہبی' معاشی اور شدید سماجی مسائل پیدا کیے گئے۔ یوں ملک کی تناور اور گہری جڑیں کٹنی شروع ہو گئیں۔
ایوب خان جیسا ادنیٰ شخص' عسکری ادارے کو استعمال کرکے ملک کا مالک بن گیا۔ سیاست دانوںکو اتنا کمزور کر دیا گیا کہ وہ سر اٹھانے کے قابل ہی نہ رہے۔ انھیں اتنا بدنام کر دیا گیا کہ ان کا جینا دوبھر ہو گیا۔ ایوب خان نے سیاست دانوں کو ذلیل کرنے کا کام' ان سیاست دانوں سے لیا جو اس کے گروہ کا حصہ تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی ایوب خان کے قریبی ساتھی تھے بلکہ سرکاری کنونشن لیگ کے اہم عہدے دار تھے۔ اس وقت کی عوامی اور جمہوری آواز' محترمہ فاطمہ جناح کو جس طرح رسوا کیا گیا، وہ ہماری تاریخ کا المناک باب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کے دور میں ملک نے بے مثال ترقی کی ۔ مگر یہ صرف جزوی سچ ہے۔
اس کے دور اقتدار میں علاقائی سطح پر اتنی ناانصافی ہوئی کہ ملک ٹوٹنے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ گہری نظر سے دیکھا جائے تو پاکستان کے دو ٹکڑے دراصل ایوب خان نے کیے تھے۔ اس کے دور کا اسکرپٹ صرف ڈیڑھ سال میں مکمل ہو گیا اور بنگلہ دیش معرض وجود میں آ گیا۔
یہ ہمارے ملک کی ذلت کی انتہا تھی، جس کی تفصیلات کا ذکر کرنا آج مناسب نہیں سمجھا جاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم بنے حالانکہ ان کے پاس وزیراعظم بننے کا عوامی مینڈیٹ موجود نہیں تھا، ستر کے جنرل الیکشن میں اکثریت تو شیخ مجیب الرحمن کے پاس تھی ۔
سقوط ڈھاکہ کے بعد ستر کے الیکشن کا مینڈیٹ کیسے آئینی ہوسکتا ہے ،بہر حال باقی ماندہ پاکستان میں بھٹو صاحب وزیراعظم بن گئے۔ پھر ضیاء الحق نے بھرپور سازش کر کے ملک کا اقتدار اپنے ہاتھ میں کر لیا۔ نسخہ وہی پرانے والا تھا۔ Enemy of my enemy is my friend یعنی میرے دشمن کا دشمن میرا دوست ہے۔
سیاست دانوں کے ایک گروہ نے فوراً ضیاء الحق کے ہاتھ پر بیعت کرلی ۔ پیپلز پارٹی عذاب میں آ گئی۔ پرویز مشرف نے بھی وہی کیا جو ضیاالحق نے کیا۔ نواز شریف کی حکومت ختم کر کے اس کے مخالفین اکھٹا کرکے ایک نیا گروہ ترتیب دے دیا گیا۔
مگرقدرت کے پاس سیاسی سازش کا ایک نایاب جواب ہے۔ جیسے ہی ریاستی چھتر چھاؤں ختم ہوتی ہے تو جو بھی سیاسی جتھہ' مہربانوں کی چھتر چھاؤں میں ہوتا ہے' فوراًپگھل کر موم بن جاتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس کھیل اور اس کے انجام سے بھرپور ہے۔
موجودہ سیاسی صورت حال بھی ماضی کے خطوط پر استوار ہے۔ عمران خان کو ' نوازشریف کے خلاف مہربانوں نے بھرپور طریقے سے کھڑا کیا تھا۔ آج مہربانوں اور خان صاحب کی راہیں جدا نظر آتی ہیں۔ اب چھاؤں' ان پر ہے جو چند سال پہلے عذاب میں تھے۔ مگر ایک فرق ہے۔ حکومت جس فریق کو دی گئی ہے 'وہ بہتر حکومت کرنے میں ناکام ہے۔
کرپشن تو صرف نعرہ ہے، کوئی طاقتور فریق کرپشن کے خلاف نہیں ہے۔ بہرحال اہم نکتہ یہ بھی زیربحث ہے کہ کہیں مہربان' پرانے کھلاڑیوں سے دھوکہ تو نہیں کھا گئے ہیں۔
کہیں عالمی ساہوکاروں کا دباؤ تو نہیں ہے ' جس کے سامنے سوائے جی حضوری کے کوئی اور آپشن نہیں ہے ؟ بہرحال معاملہ جو بھی بیڈ گورننس اور مہنگائی عوامی غصہ میں حد درجہ اضافہ کر رہی ہے۔ عام لوگوں کے ذہنوں میں نفرت کا ایک الاؤ ہے جو مہنگائی' معاشی بربادی' لاقانونیت کی تیز آنچ پر پک رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر متحرک گروہ اس آگ پر تیل جھڑکنے کا کام کر رہے ہیں۔ یہ خوفناک صورت حال ہے۔
خان صاحب جتنے مرضی مقبول ہوں' انھیں قطعاً اقتدار میںنہیں آنے دیا جائے گا۔ اگر الیکشن لامتناعی وقت کے لیے بھی ملتوی کرنے پڑیں' تو بڑے آرام سے کر دیے جائیں گے۔
ہر ادارہ پرانی تنخواہ پر کام کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ جو چوں چراہ کرے گا، اسے ''میرٹ'' پر نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ خان صاحب کا انجام ' ایران کے مصدق ملک جیسا ہو گا۔ باقی غیب کا علم تو سوائے اﷲ کے کسی کے پاس نہیں ہے۔ مگر ایک امکان یہ بھی ہے کہ پرانا نسخہ ناکام ہو جائے' یعنی دشمن کا دشمن' دوست نہ رہ سکے؟