قرارداد پاکستان اور عصر حاضر کے درپیش چیلنجز

قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم کے طور پر ابھری


Editorial March 24, 2023
فوٹو : فائل

یوم قرارداد پاکستان منانے کا یہی تقاضا ہے کہ قوم ایسے مواقع پر اپنے قومی رہنماؤں کی جدوجہد اور جانی و مالی قربانیوں کو یاد کرے کہ جس کی بدولت آج ہم ایک خود مختار اسلامی ملک میں آزاد زندگی گزار رہے ہیں۔

قرارداد لاہور کی تاریخی اہمیت مسلمہ ہے۔ یہ قرارداد مسلمانوں کے سچے جذبات اور احساسات کی آئینہ دار تھی اس کا جادو سر چڑھ کر بولا۔ جذبوں کی سچائی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس قرارداد میں پاکستان کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں کیا گیا تھا ، لیکن قرارداد لاہور کو ہندوؤں نے طنزیہ طور پر قرارداد پاکستان کا نام دے دیا اور بے حد غم و غصے کا اظہار کیا ، لیکن مسلمانوں نے ان کی کوئی پروا نہ کی اور قائداعظم کی قیادت میں رواں دواں منزل مقصود کی طرف بڑھتے رہے۔

انھیں یقین واثق تھا کہ منزل دور نہیں۔ اس قرارداد کی تاریخی اہمیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے مسلمانان ہند کے لیے ایک الگ آزاد خود مختار مسلم ریاست کا نصب العین متعین کیا ، جس کے نتیجے میں صرف سات سال اور پانچ ماہ کے قلیل عرصہ میں ہمیں خود مختار اور وطن عزیز حاصل ہوگیا۔

پاکستان کا قیام محض ایک تاریخی حادثہ نہ تھا اور نہ ہی سیاسی فتح بلکہ یہ ہندوستان کے مسلمانوں کی اپنے جداگانہ تشخص کو برقرار رکھنے کی خواہش کا ثمر تھا۔

درحقیقت قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں نے پاکستان بناکر اپنی تہذیب، مذہبی اقدار اور ثقافت کو بچا لیا۔ پاکستان کا مطالبہ دو قومی نظریے کی وجہ سے سامنے آیا۔ برصغیر میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی۔

جغرافیائی ریاست کو تسلیم کرلینے کا مطلب تھا کہ مسلمان اکثریت کے رحم و کرم پر رہتے اور ریاستی معاملات میں اگر ہندو راج نہ بھی ہوتا تب بھی سیکولر ازم پر مبنی طرز حکمرانی مسلمانوں کو قبول کرنا پڑتی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے مسلمانان برصغیر نے اپنے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا کیونکہ متحدہ ہندوستان میں نہ صرف ان کی مذہبی اقدار محفوظ نہ رہ سکتی تھیں ، بلکہ اسلام کے سنہرے اصولوں اور اعلیٰ تعلیمات کے مطابق وہ زندگی نہ گزار سکتے تھے۔ یہ سوچ اور یہ جذبہ قیام پاکستان کا محرک تھا۔

انگریز اس سوچ کے خلاف تھا کیونکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں ریاستوں کا وجود جس فلسفہ پر ترتیب پا رہا تھا ، وہ نیشنل ازم کی سوچ تھی۔ اس سوچ کے تحت چونکہ جغرافیائی وحدت کی بنیاد پر ریاستوں کی شکیل ہو رہی تھی لہٰذا انگریز حکومت کی خواہش تھی کہ ہندوستان ایک وحدت رہے جب کہ کانگریس کی سوچ بھی یہی تھی۔ کانگریس نے مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے گروہ کو بھی اپنا ہمنوا بنالیا تھا جس کا خیال تھا کہ مسلم پرسنل لا کا تحفظ حاصل ہو تو متحدہ ہندوستان میں باہمی میل جول سے رہا جاسکتا ہے۔

اس گروہ نے یہ حقیقت فراموش کر رکھی تھی کہ اجتماعی زندگی کے معاملات کا کیا بنے گا کیونکہ پرسنل لا تو محض ذاتی زندگی کے تحفظ سے متعلق ہے۔ قائداعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم کے طور پر ابھری تو اس کی جانب سے مسلمانوں کے لیے الگ وطن کا باضابطہ مطالبہ کیا گیا۔

یہ مطالبہ23 مارچ1940 ء کو منٹو پارک لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں کیا گیا۔ مسلم لیگ مطالبہ پاکستان کے بعد مسلمانان ہند کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی رکنیت میں بے تحاشا اضافہ ہوا اور اس کی ممبر شپ ہزاروں سے لاکھوں کی تعداد میں چلی گئی۔

یہ وہ وقت تھا جب کانگریس کی قیادت نے مسلم لیگ سے مذاکرات کیے اور گاندھی جناح بات چیت میں خاص طور پر یہ پہلو زیر بحث آیا کہ تقسیم ہندو مذہب کی بنیاد پر کیوں کی جائے۔ گاندھی ویسے تو تقسیم ہند پر رضامند نہ تھے، ایک مکتوب میں انھوں نے رضامندی کا اشارہ بھی دیا مگر شرط یہ تھی کہ تقسیم مذہبی بنیادوں پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ ایسے ہو جیسے دو بھائیوں کے درمیان ہوتی ہے۔ قائداعظم یہ بات نہ مانے۔

انھوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تقسیم ہند کے مطالبے پر اصرار کیا کیونکہ یہ 23مارچ1940 کو منظور ہونے والی قرارداد لاہور (پاکستان) کے عین مطابق موقف تھا ، اگر قائداعظم اس موقف سے پیچھے ہٹ جاتے تو مطالبہ پاکستان اول تو اپنا جواز کھو دیتا ، لیکن اگر تقسیم ہند کسی مجبوری کے تحت انتظامی لحاظ سے ہو بھی جاتی تو پاکستان کو نظریاتی ریاست قرار نہ دیا جاسکتا تھا اور یہ بات قائداعظم سمیت مسلمانان برصغیر کو منظور نہ تھی۔

پاکستان ان کے خوابوں کی تکمیل تھا اور یہ خواب انتظامی یونٹ بناکر پورے نہ کیے جاسکتے تھے کیونکہ ایسا حکومتی انتظام مسلمانوں کو قطعاً گوارا نہ تھا۔ وہ اسلامی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں تھے ، جہاں وہ اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگیاں گزار کر دنیا کو دکھا سکتے کہ اسلام کے سنہری اصولوں کی پیروی کرکے ظلم و استحصال سے ایک بہترین معاشرہ کیسے قائم ہوتا ہے۔

آج بھارت میں نریندر مودی سرکار کی حامی متعصب ہندو جماعت بی جے پی نے جس زور و شور سے بھارتی مسلمانوں کی مذہبی آزادی سلب کر رکھی ہے۔ یہ واضح ثبوت ہے کہ قرارداد پاکستان میں کتنی سچائی تھی' متعصب ہندوؤں کے ہاتھوں مساجد کی پامالی، خواتین کے حجاب پہننے پر پابندی ، گائے کے گوشت کے استعمال پر مسلمانوں کا قتل عام وہ شواہد ہیں جو دو قومی نظریہ کی اہمیت کا اظہار کرتے ہیں۔

ناقدین یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر اسی کو آزادی کہتے ہیں تو پھر اس سے وہ غلامی اچھی تھی، جس میں بھوک، ننگ، افلاس، غربت اور استحصال اس قدر نہیں تھا کہ جیسے آج انسانیت سسکتی ہے، روز مرتی ہے، جینا دشوار بلکہ مرنا اس سے بھی مشکل ہوچکا ہے۔

آج بھی پاکستان کے کئی شہروں میں مفت آٹا کا ایک دس کلو کا تھیلا لینے کے لیے لوگ لاٹھی چارج کا شکار ہیں اور کئی ضعیف اس تگ و دو میں جان سے بھی جا چکے ہیں۔

کیا یہ تھا وہ خواب جس کے لیے تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی اور لاکھوں قربانیاں دی گئیں؟ ہرگز ہرگز نہیں! آج ہمارے ملک کا جو سیاسی منظر نامہ ، انسانی و بنیادی حقوق کی صورتحال ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔

یہ ملک اس وقت اپنے پاؤں پر نہیں کھڑا بلکہ کرائے کی بیساکھیوں کا سہارا لیے لڑ کھڑا رہا ہے۔ حکمران کبھی ترکی کو ماڈل قرار دیتے ہیں، کبھی ملائیشیا کو، کبھی برطانیہ کو، کبھی چین اور کبھی سکینڈے نیویا ممالک کو اورکبھی اسلام کے غلبے اور نفاذ کا نعرہ لگتا ہے۔ کبھی سیکولر و سوشلسٹ نظریات کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ چین آئیڈیل ہے۔

کبھی اتا ترک اور کبھی اردگان کو پیش کیا جاتا ہے، حالانکہ پاکستان کے قیام کے مقاصد کو قائد اعظم محمد علی جناح نے بڑی صراحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا اور وہ کس قسم کا پاکستان چاہتے تھے، اس حوالے سے ان کے کئی خطاب موجود ہیں، مگر ہم نے اپنی تاریخ کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔

قیام پاکستان کے بعد قائداعظم کی سوچ اور سیاسی فکر کو پس پشت ڈال کر ایک نئے بیانیے کی بنیاد ڈالی گئی 'اس بیانیے میں پاکستان کے عوام کی فلاح اور ترقی اور ان کے حقوق کی گنجائش نہیں رکھی گئی بلکہ طاقتور قوتوں کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔

اس نئے بیانیے نے متروکہ املاک' سرکاری املاک کی لوٹ مار کا دروازہ کھولا 'ملک میں کرپشن کا آغاز ہی زمینوں اور گھروں کی بندر بانٹ سے ہوا ' اس کے بینیفیشری عوام نہیں تھے بلکہ ریاستی عہدے دار' جاگیردار ' قبائلی سردار تھے۔ ہمارے پاس افرادی قوت اور قدرتی وسائل کی مد میں بہت صلاحیت ہے اور خطے میں ہماری ایک خاص سیاسی و جغرافیائی اہمیت ہے اور ہم دنیا کا تجارتی مرکز بن سکتے ہیں۔

پاکستان کے چین سے سدا بہار دوستانہ اور اسٹرٹیجک تعلقات قائم ہی۔ قراقرم ہائی وے اور زیرِ تعمیر معاشی راہداری سے پورے خطے میں سماجی و معاشی ترقی آئے گی۔

ہمیں قومی ہم آہنگی، مضبوط دفاع اور معاشی انقلاب کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مسائل کو حل کر کے پائیدار ترقی اور کامیابی حاصل کر سکیں سب سے بڑھ کر ہمیں دیانت دار اور دور اندیش قیادت کی ضرورت ہے جو لوگوں کی مخفی صلاحیتوں کو اُبھار سکے جیسا کہ ہم نے قیامِ پاکستان کے لیے کامیابی سے ایسا کیا۔

نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقعوں کی فراہمی اور پائیدار معاشی پالیسی کے ذریعے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔ عوام کے پاس مکمل سماجی و معاشی آزادی ہونی چاہیے تاکہ وہ اپنی مرضی کے حکمران منتخب کرسکیں نہ کہ جاگیرداروں کی مرضی سے۔ آزادی کے وقت جذبات سے بھر پور ہمارا نعرہ تھا '' لیکر رہیں گے پاکستان ۔ بن کے رہے گا پاکستان '' آج ہمیں اُسی جذبے کے ساتھ '' مضبوط کریں گے پاکستان '' کے نعرہ کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں