چین کی حیرت انگیز ترقی کی کہانی
چینی وہ قوم ہے جو کچھ بھی کرسکتی ہے اور ناممکن کا لفظ اس کی ڈکشنری میں شامل نہیں ہے
چین اور جاپان دنیا کی دو بڑی قوتیں ہیں۔ ہمیں چین جانے کا تو کبھی کوئی موقع نہیں ملا ، البتہ جاپان جانے کا اتفاق ضرور ہوا ہے۔ جغرافیہ پر نظر ڈالیے تو جاپان رقبہ کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کے قدرتی وسائل بہت کم ہیں۔
ذرا اور غور فرمائیے تو معلوم ہوگا کہ یہ ملک چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے قدرت نے ناراضگی کے موڈ میں اِس کی تخلیق کی ہو اور چیتھڑے بکھیر دیے ہوں۔ مزید برآں یہ کہ امریکا کے ایٹمی حملہ نے اِس کی ایسی کی تیسی کردی تھی۔
ہمارے وزٹ میں ہیروشیما جانے کا پروگرام بھی شامل تھا جس کا ہمیں شدت سے انتظار تھا ، بالآخر وہ گھڑی بھی آگئی جب ہم ہیروشیما کے لیے روانہ ہوئے۔
یہ سفر بلٹ ٹرین کے ذریعہ ہونا طے پایا تھا جس کے بارے میں ہم نے صرف سنا ہی تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر پہنچے تو ٹرین روانگی کے لیے تیار کھڑی تھی۔ جاپان کے ریلوے نظام کا تذکرہ کریں تو یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بات ابھی شروع بھی نہ ہوگی کہ کالم ختم ہوجائے گا۔
ہمارا خیال تھا کہ ہیروشیما کی حالت خستہ اور خراب ہوگی مگر ہم نے جب شہر میں جب قدم رکھا تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ یہاں ایٹمی حملہ کی کہانی محض ایک من گھڑت قصہ تھا۔
قصہ مختصر کہ اِس شہر کی تعمیرِ نو اور جدید ترقی کو دیکھ کر ہم دنگ رہ گئے۔ جاپانی قوم دنیا کی مثالی محنت کش قوم ہے جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ آجر اور اجیر دونوں اسٹیک ہولڈرز ہیں جن کا ہدف انڈسٹری کو ترقی دینا ہے۔
چین کا احوال ہم نے اپنے دوستوں کی زبانی سنا ہے جن کا چین میں مدتوں قیام رہا ہے۔ جاپان کے مقابلہ میں چین رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے۔ چینی وہ قوم ہے جو کچھ بھی کرسکتی ہے اور ناممکن کا لفظ اس کی ڈکشنری میں شامل نہیں ہے۔
ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ رات کو جب وہ اپنے بستر پر سوئے تو ان کے گھر سے کچھ فاصلہ پر ایک بہت بڑا درخت موجود تھا اور صبح جب ان کی آنکھ کھلی تو اس درخت کو کسی دوسری جگہ پر منتقل پایا۔ یوں لگتا تھا کہ راتوں رات جنات نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔
چینیوں سے یہ بات غیر متوقع نہ تھی جس کا جیتا جاگتا ثبوت دیوارِ چین ہے جو دنیا کا ایک بہت بڑا عجوبہ ہے۔پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے وقت تک چینی نشہ کے عالم میں تھے لیکن جب یہ خوابِ غفلت سے بیدار ہوئے تو پوری دنیا دنگ رہ گئی۔ بقولِ اقبالؔ:
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ سے چشمے ابلنے لگے
بڑھتی ہوئی آبادی کا مسئلہ چین کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا، جسے چینی قائدین نے ایک سنہری موقع میں تبدیل کردیا اور یہ مسئلہ چین کے لیے ایک اثاثہ بن گیا جسے خیرِ مستور کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔
چین کی ترقی کی یہ داستان کوئی قصہ پارینہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت آنکھوں دیکھی ہے اور ہمارے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔آج کا چین امریکا کے لیے ایک بہت بڑا حریف ہے جس کی معیشت امریکا پر حاوی ہے اور امریکیوں کی نیندیں اس کے خوف سے اڑی ہوئی ہیں۔
انسانی تاریخ میں ایسی کوئی اور مثال نہیں ملتی کہ اس طرح کسی قوم کی کایا پلٹ گئی ہو اور وہ فرش سے اٹھ کر عرش تک جا پہنچی ہو۔ زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں ایسا چمتکار دیکھا گیا ہو۔چین نے چار عشروں قبل یہ جان لیا تھا کہ اس کی معاشی اور معاشرتی ترقی کی کنجی ہائی ٹیکنالوجی اور بڑے پیمانہ پر برآمدات میں مضمر ہے۔ چنانچہ آر اینڈ ڈی یعنی ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کو صنعتی شعبہ میں بنیادی جگہ دی گئی۔
اِس میں صرف نجی شعبہ ہی نہیں بلکہ سرکاری شعبہ بھی شامل ہے۔2000 سے 2022 تک آر اینڈ ڈی کی شرح بڑھتے بڑھتے سالانہ 18 فیصد تک جا پہنچی جو ایک ریکارڈ ہے۔برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ جاپان میں یہ شرح 30 سے 35 فیصد تک پائی گئی ہے جو جاپان کی حیرت انگیز ترقی کا اصل راز ہے۔
یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ چین نے امریکا کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا کی قیادت سنبھال لی اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ اس کے انٹرنیشنل پیٹنٹس امریکا سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ جدت طرازی میں امریکا بھی اس کا ہم پلہ نہیں ہے۔
ورلڈ انٹلیکچوئل پراپرٹی آرگنائزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے بیس سالوں میں چین کے فائل کیے گئے انٹرنیشنل پیٹنٹس کی تعداد حیران کن حد تک بڑھ کر 200 گنا تک جا پہنچی ہے۔ جدت طرازی اور حوصلہ مندی کے حوالہ سے اسپارک پروگرام خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جو چین کی حیرت انگیز ترقی کا راز ہے۔
اسپارک پروگرام نے چین میں ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کی بنیاد ڈالی ہے۔ یہی وہ پروگرام ہے جس نے چھوٹی چھوٹی اور درمیانے درجہ کی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی اور انھیں فروغ دیا۔ اِس نے چین میں نئی نئی صنعتوں کے قیام میں مدد کی اور جس سے نجی شعبہ کی نشوونما ہوئی اور چین کی معاشی ترقی کی داغ بیل ڈالی۔
اِسپارک پروگرام نے ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے لیے مطلوبہ فنڈز بھی مہیا کیے ، جس کے نتیجہ میں نئی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی ترقی میں مدد ملی اور جس نے مختلف صنعتوں کی کارکردگی میں بہتری اور مسابقتی کو فروغ دیا۔
اسپارک پروگرام کی توجہ کا خاص مرکز وہ اہم ٹیکنالوجیز تھیں جو کہ چین کی ترقی کے لیے ناگزیر تھیں۔ اِن ٹیکنالوجیز میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، بائیو ٹیکنالوجی، نینو ٹیکنالوجی، توانائی اور اسپیس انجینئرنگ شامل ہیں۔
چین میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے اور اِس سلسلہ میں نہ صرف بیرونی ممالک کے ماہرین کو چینی تعلیمی مراکز اور جامعات میں تعلیم و تربیت کے لیے دعوت دی جارہی ہے بلکہ چینی طلبا کو بھی حصولِ علم کے لیے بیرونی ممالک کو بھیجا جارہا ہے۔