رینوکا دیوی سے بیگم خورشید مرزا تک
بیگم خورشید مرزا کا ایک حوالہ افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں کا بھی ہے جو ان کی بڑی بہن تھیں
''کچھ سال پہلے 1940 کی دہائی میں ہندوستانی فلموں اور اس وقت موجود بڑے اسٹوڈیوز کے بارے میں پڑھتے ہوئے ایک خوبرو اداکارہ رینوکادیوی اور ان کی کامیاب فلموں کا بھی ذکر پڑھا ، تصویر ڈھونڈی اور بڑی ہی من موہنی شکل سامنے آئی۔
حیرت ہوئی جب یہ پتا چلا کہ یہ رینوکا دیوی پاکستان ہجرت کرنے کے بعد 1970 اور 1980 کی دہائی میں بیگم خورشید مرزا کے نام سے ٹیلی وژن پر اداکاری کے جوہر دکھاتی رہیں۔ اب اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ تو ٹی وی کی مشہور '' اکّا بی'' ہیں جو '' ز بر، زیر، پیش'' ڈرامے میں نظر آئی تھیں۔''
یہ اقتباس اٹلانٹس پبلی کیشنز کی کتاب '' رینوکا دیوی سے بیگم خورشید مرزا تک '' سے لیا گیا ہے۔ پیشکش ہے راشد اشرف کی۔ بہت دلچسپ اور زندہ کتاب ہے۔
بیگم خورشید مرزا کا ایک حوالہ افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں کا بھی ہے جو ان کی بڑی بہن تھیں اور دوسرا حوالہ ان کی بھاوج '' نینا '' کا ہے جو فلمی حلقوں میں '' پر اسرار نیناں '' کہلاتی تھیں اور ہندوستانی فلموں کی ہیروئن تھیں۔
بیگم خورشید مرزا اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھیں ، ان کے والد جو کشمیری برہمن تھے ، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نام شیخ عبداللہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے تعلیم نسواں کے لیے بہت کام کیا۔ اس کتاب کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ کتاب بڑی دلچسپ ہے۔ یہ آپ بیتی ہے بیگم خورشید مرزا کی۔
برطانوی سامراج کے خلاف میری رنجیدگی برقرار تھی جب خبر ملی کہ برما کے محاذ پر شکست خوردہ برطانوی فوجی افسران کو جاپانی فوج نے رکشہ ڈرائیور کے طور پر استعمال کر کے ان کی تذلیل کی تو مجھے خوشی ہوئی اور مجھے برطانوی افسران کے بچوں کا رویہ بھی یاد آگیا۔
میں جب دس گیارہ سال کی تھی تو گرمیوں کی چھٹیوں میں دیرہ دون میں ایک مکان کرائے پر لیا گیا اور ہم سب وہاں رہنے لگے۔ ایک دن میں بجی اور سعید کسی گھر کے بڑے کے بغیر خود سے چہل قدمی کے لیے نکلے اور ہم دو انگریز بچوں کے پاس سے گزرے جن کے ساتھ ان کی فربہی مائل آیا بھی تھی۔
اس چھ سالہ بچی اور اس کے چھوٹے بھائی نے بلاوجہ ہم پر پتھراؤ شروع کردیا، میں نے اس بچی کی طرف انگلی اٹھائی اور ٹھہر ٹھہر کر انگریزی میں کہا '' پتھر مت پھینکو! '' وہ جواباً چلائی '' کالے کتے چپ رہو۔'' میں بھونچکی رہ گئی، سعید نے پیچھے سے مجھے کمک پہنچائی اور میں نے جواباً اسے کہا '' سفید سور! تم چپ رہو۔''
بیگم خورشید مرزا کے شوہر پولیس ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدیدار تھے۔ ان کا خاندان 4 اکتوبر 1947 میں کراچی پہنچے اپنے جمے جمائے کاروبار اور گھروں کو چھوڑ کر۔
''ہم 4 اکتوبر 1947 کی ایک سہ پہر کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے۔ ہم اس بات سے ناواقف تھے کہ اکتوبر وہاں کا گرم اور مرطوب مہینہ ہے، گرم اور خشک ہوا، کانٹے دار جھاڑیاں، تارکول کی ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اردگرد کا بنجر ماحول دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔
پاکستان میں ہمارا پہلا دن ہوٹل میٹروپول کے مدمقابل ایک بلڈنگ کی پہلی منزل پر گزرا، تب تک نہ تو ہوٹل میٹروپول تھا اور نہ ہی گنجان بوہری بازار کا نام و نشان تھا۔''
''مجموعی طور پر ہمارے خاندان کے چونتیس افراد نے وکٹوریا روڈ پر واقع فلیٹ میں پناہ لی تھی۔ میں اپنی سسرال والوں کی ہمت اور رجائیت پسندی پر حیران تھی۔ وہ اپنی زندگیوں کے عیش و آرام ، وسیع و عریض بنگلے ، جمے جمائے کاروبار چھوڑ کر آئے تھے اور غم زدہ ہونے کے بجائے وہ مستقبل کے منصوبوں سے پرجوش تھے۔
اکبر جلدی اپنے افسران کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ اکبر نے ہندوستانی سرحد میں داخل ہونے والے اسمگلروں کو پکڑ لیا۔ اکبر کو رشوت اور تعریفی رپورٹ کے بدلے میں ان اسمگلروں کو چھوڑ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اکبر کسی بھی تخریبی سرگرمی کو معاف کرنے والے لوگوں میں نہیں تھے، اس نافرمانی کی پاداش میں اکبر کو ''مصلحت ناشناس'' اور '' نا اہل'' ٹھہرنے کے ساتھ کراچی تعیناتی کے احکام مل گئے۔''
وہ خاندان جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی جائیداد اور بڑے بڑے گھر چھوڑ کر ان میں بیگم خورشید مرزا کا خاندان بھی شامل تھا۔ مجھے اس موقع پر افتخار عارف کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
یا پھر اختر جونا گڑھی کے یہ اشعار:
زمین اپنی نہیں ، آسماں ہمارا نہیں
یہاں گلاب نہیں ہیں ، وہاں ستارہ نہیں
بسے بسائے گھروں سے بچھڑنے والے ہم
وہ اہل ہجر ہیں ، جن کا کہیں گزارا نہیں
ایک اور جگہ وہ یوں کہتی ہیں ''جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھے اپنے نئے وطن پاکستان سے محبت ہوگئی، میری دو نندیں امتیاز جہاں اور اصغری رحیم جو میرے بچپن کی دوست تھیں، دونوں نے ہندوستان میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انھوں نے مجھے پناہ گزیں کیمپوں میں کام کرنے کی ترغیب دی۔ بہت ساری خواتین نے اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنے خاندان اور نئے ملک کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کردیں ، لیکن کچھ خاندانوں کے حالات بہت قابل رحم تھے خصوصاً وہ جو سخت پردہ کرتے تھے۔ ان خواتین نے کبھی گھر کی چار دیواری سے باہر قدم نہیں نکالا تھا، وہ اب پھٹے دوپٹے اوڑھے بے بسی سے اپنے اردگرد دیکھتی تھیں۔'' اب دیکھیے نئے وطن میں سب کچھ چھوڑ کر آنے کے بعد کس طرح گھر بنایا۔
''اب وہ وقت شروع ہوا جب میں نے گھر کے اخراجات کے لیے اپنا زیور بیچنا شروع کیا ، کبھی سونے کی چوڑیاں ، کبھی ہار۔ میرا ملازم حشمت ان چیزوں کو سویا بازار (سونے کی مارکیٹ) میں جو بھی دام ملتے ان پر بیچ آتا۔ پھر میں انگریزی اخبار ڈان کے مدیر مسٹر زبیری سے ملی اور پیشکش کی کہ میں اخبار کے لیے فلم ریویو (Review) کا کالم باقاعدگی سے لکھوں گی اس طرح میں ڈان اخبار کی پہلی فلم نقاد بن گئی۔''
''پناہ گزیں کھوکھرا پار سندھ کے راستے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے، ہماری ایسوسی ایشن کے رضاکار کھوکھرا پار کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔
حکومت پاکستان نے مال خانے کھولے تھے، جہاں سے بے گھر ہونے والے افراد کو روزانہ راشن تقسیم کیا جاتا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ ہماری ضرورت ان پناہ گزینوں کو جذباتی طور پر تھی۔ ایک ہمدرد کندھا جس پر سر رکھ کر وہ آنسو بہا سکیں، کوئی ایسا سامع جو یہ سمجھ سکے کہ خاندان کے افراد گھر بار اور وطن کو کھونے کا صدمہ کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔''
بیگم خورشید مرزا اور ان کے خاندان کی خواتین نے مہاجرین کی مدد کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے اسٹیج ڈرامے بھی پیش کیے، اب ذرا سنیے!
''ایک دن اس ڈرامے کی ریہرسل دیکھنے کے لیے میری ساس آئیں ، جب ملکہ نور جہاں نے (مقبول کی بیوی) دھوبی کو قتل کردیا تھا تو اس کی بیوی (میں) رونے اور بین کرنے لگی اور نور جہاں کو بد دعائیں دینے لگی۔ اچانک ناظرین میں شور اٹھا، ہم نے دیکھا کہ میری ساس کھڑی ہیں اور ہندکو پنجابی بولی میں اپنی بیٹی اصغری پہ چیخ رہی ہیں کہ '' تم مجھے یہاں یہ دکھانے لائی ہو کہ میری ایک بہو بیوہ ہوگئی اور اب دوسری کو بیوگی کی بددعائیں دے رہی ہے۔
مجھے ابھی گھر لے کر جاؤ۔'' دھوبن یعنی میں چھلانگ مار کر اسٹیج سے اتری اور اپنی ساس کے پیچھے بھاگی، ان کے گلے لگی اور کہا، یہ صرف ایک ڈرامہ تھا۔ ہمارے خاندان سے اس کا کوئی تعلق نہیں، میں اور اصغری انھیں سمجھا بجھا کر واپس لائے اور وعدہ کیا کہ اب ہم کوئی بددعا نہیں دیں گے۔''
حیرت ہوئی جب یہ پتا چلا کہ یہ رینوکا دیوی پاکستان ہجرت کرنے کے بعد 1970 اور 1980 کی دہائی میں بیگم خورشید مرزا کے نام سے ٹیلی وژن پر اداکاری کے جوہر دکھاتی رہیں۔ اب اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ تو ٹی وی کی مشہور '' اکّا بی'' ہیں جو '' ز بر، زیر، پیش'' ڈرامے میں نظر آئی تھیں۔''
یہ اقتباس اٹلانٹس پبلی کیشنز کی کتاب '' رینوکا دیوی سے بیگم خورشید مرزا تک '' سے لیا گیا ہے۔ پیشکش ہے راشد اشرف کی۔ بہت دلچسپ اور زندہ کتاب ہے۔
بیگم خورشید مرزا کا ایک حوالہ افسانہ نگار ڈاکٹر رشید جہاں کا بھی ہے جو ان کی بڑی بہن تھیں اور دوسرا حوالہ ان کی بھاوج '' نینا '' کا ہے جو فلمی حلقوں میں '' پر اسرار نیناں '' کہلاتی تھیں اور ہندوستانی فلموں کی ہیروئن تھیں۔
بیگم خورشید مرزا اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھیں ، ان کے والد جو کشمیری برہمن تھے ، اسلام قبول کرنے کے بعد ان کا نام شیخ عبداللہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے تعلیم نسواں کے لیے بہت کام کیا۔ اس کتاب کے چند اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ کتاب بڑی دلچسپ ہے۔ یہ آپ بیتی ہے بیگم خورشید مرزا کی۔
برطانوی سامراج کے خلاف میری رنجیدگی برقرار تھی جب خبر ملی کہ برما کے محاذ پر شکست خوردہ برطانوی فوجی افسران کو جاپانی فوج نے رکشہ ڈرائیور کے طور پر استعمال کر کے ان کی تذلیل کی تو مجھے خوشی ہوئی اور مجھے برطانوی افسران کے بچوں کا رویہ بھی یاد آگیا۔
میں جب دس گیارہ سال کی تھی تو گرمیوں کی چھٹیوں میں دیرہ دون میں ایک مکان کرائے پر لیا گیا اور ہم سب وہاں رہنے لگے۔ ایک دن میں بجی اور سعید کسی گھر کے بڑے کے بغیر خود سے چہل قدمی کے لیے نکلے اور ہم دو انگریز بچوں کے پاس سے گزرے جن کے ساتھ ان کی فربہی مائل آیا بھی تھی۔
اس چھ سالہ بچی اور اس کے چھوٹے بھائی نے بلاوجہ ہم پر پتھراؤ شروع کردیا، میں نے اس بچی کی طرف انگلی اٹھائی اور ٹھہر ٹھہر کر انگریزی میں کہا '' پتھر مت پھینکو! '' وہ جواباً چلائی '' کالے کتے چپ رہو۔'' میں بھونچکی رہ گئی، سعید نے پیچھے سے مجھے کمک پہنچائی اور میں نے جواباً اسے کہا '' سفید سور! تم چپ رہو۔''
بیگم خورشید مرزا کے شوہر پولیس ڈپارٹمنٹ میں اعلیٰ عہدیدار تھے۔ ان کا خاندان 4 اکتوبر 1947 میں کراچی پہنچے اپنے جمے جمائے کاروبار اور گھروں کو چھوڑ کر۔
''ہم 4 اکتوبر 1947 کی ایک سہ پہر کو کراچی ایئرپورٹ پر اترے۔ ہم اس بات سے ناواقف تھے کہ اکتوبر وہاں کا گرم اور مرطوب مہینہ ہے، گرم اور خشک ہوا، کانٹے دار جھاڑیاں، تارکول کی ٹوٹی پھوٹی سڑک اور اردگرد کا بنجر ماحول دیکھ کر میرا دل ڈوب گیا۔
پاکستان میں ہمارا پہلا دن ہوٹل میٹروپول کے مدمقابل ایک بلڈنگ کی پہلی منزل پر گزرا، تب تک نہ تو ہوٹل میٹروپول تھا اور نہ ہی گنجان بوہری بازار کا نام و نشان تھا۔''
''مجموعی طور پر ہمارے خاندان کے چونتیس افراد نے وکٹوریا روڈ پر واقع فلیٹ میں پناہ لی تھی۔ میں اپنی سسرال والوں کی ہمت اور رجائیت پسندی پر حیران تھی۔ وہ اپنی زندگیوں کے عیش و آرام ، وسیع و عریض بنگلے ، جمے جمائے کاروبار چھوڑ کر آئے تھے اور غم زدہ ہونے کے بجائے وہ مستقبل کے منصوبوں سے پرجوش تھے۔
اکبر جلدی اپنے افسران کی آنکھوں میں کھٹکنے لگے۔ اکبر نے ہندوستانی سرحد میں داخل ہونے والے اسمگلروں کو پکڑ لیا۔ اکبر کو رشوت اور تعریفی رپورٹ کے بدلے میں ان اسمگلروں کو چھوڑ دینے کی ہدایت کی گئی تھی۔ اکبر کسی بھی تخریبی سرگرمی کو معاف کرنے والے لوگوں میں نہیں تھے، اس نافرمانی کی پاداش میں اکبر کو ''مصلحت ناشناس'' اور '' نا اہل'' ٹھہرنے کے ساتھ کراچی تعیناتی کے احکام مل گئے۔''
وہ خاندان جو ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے اپنا گھر بار چھوڑ کر اپنی جائیداد اور بڑے بڑے گھر چھوڑ کر ان میں بیگم خورشید مرزا کا خاندان بھی شامل تھا۔ مجھے اس موقع پر افتخار عارف کا یہ شعر یاد آ رہا ہے:
مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے
یا پھر اختر جونا گڑھی کے یہ اشعار:
زمین اپنی نہیں ، آسماں ہمارا نہیں
یہاں گلاب نہیں ہیں ، وہاں ستارہ نہیں
بسے بسائے گھروں سے بچھڑنے والے ہم
وہ اہل ہجر ہیں ، جن کا کہیں گزارا نہیں
ایک اور جگہ وہ یوں کہتی ہیں ''جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، مجھے اپنے نئے وطن پاکستان سے محبت ہوگئی، میری دو نندیں امتیاز جہاں اور اصغری رحیم جو میرے بچپن کی دوست تھیں، دونوں نے ہندوستان میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انھوں نے مجھے پناہ گزیں کیمپوں میں کام کرنے کی ترغیب دی۔ بہت ساری خواتین نے اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر اپنے خاندان اور نئے ملک کی بحالی کے لیے کوششیں شروع کردیں ، لیکن کچھ خاندانوں کے حالات بہت قابل رحم تھے خصوصاً وہ جو سخت پردہ کرتے تھے۔ ان خواتین نے کبھی گھر کی چار دیواری سے باہر قدم نہیں نکالا تھا، وہ اب پھٹے دوپٹے اوڑھے بے بسی سے اپنے اردگرد دیکھتی تھیں۔'' اب دیکھیے نئے وطن میں سب کچھ چھوڑ کر آنے کے بعد کس طرح گھر بنایا۔
''اب وہ وقت شروع ہوا جب میں نے گھر کے اخراجات کے لیے اپنا زیور بیچنا شروع کیا ، کبھی سونے کی چوڑیاں ، کبھی ہار۔ میرا ملازم حشمت ان چیزوں کو سویا بازار (سونے کی مارکیٹ) میں جو بھی دام ملتے ان پر بیچ آتا۔ پھر میں انگریزی اخبار ڈان کے مدیر مسٹر زبیری سے ملی اور پیشکش کی کہ میں اخبار کے لیے فلم ریویو (Review) کا کالم باقاعدگی سے لکھوں گی اس طرح میں ڈان اخبار کی پہلی فلم نقاد بن گئی۔''
''پناہ گزیں کھوکھرا پار سندھ کے راستے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے، ہماری ایسوسی ایشن کے رضاکار کھوکھرا پار کے لیے روانہ ہوچکے تھے۔
حکومت پاکستان نے مال خانے کھولے تھے، جہاں سے بے گھر ہونے والے افراد کو روزانہ راشن تقسیم کیا جاتا تھا۔ لیکن اس سے زیادہ ہماری ضرورت ان پناہ گزینوں کو جذباتی طور پر تھی۔ ایک ہمدرد کندھا جس پر سر رکھ کر وہ آنسو بہا سکیں، کوئی ایسا سامع جو یہ سمجھ سکے کہ خاندان کے افراد گھر بار اور وطن کو کھونے کا صدمہ کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے۔''
بیگم خورشید مرزا اور ان کے خاندان کی خواتین نے مہاجرین کی مدد کے لیے فنڈ اکٹھا کرنے کے لیے اسٹیج ڈرامے بھی پیش کیے، اب ذرا سنیے!
''ایک دن اس ڈرامے کی ریہرسل دیکھنے کے لیے میری ساس آئیں ، جب ملکہ نور جہاں نے (مقبول کی بیوی) دھوبی کو قتل کردیا تھا تو اس کی بیوی (میں) رونے اور بین کرنے لگی اور نور جہاں کو بد دعائیں دینے لگی۔ اچانک ناظرین میں شور اٹھا، ہم نے دیکھا کہ میری ساس کھڑی ہیں اور ہندکو پنجابی بولی میں اپنی بیٹی اصغری پہ چیخ رہی ہیں کہ '' تم مجھے یہاں یہ دکھانے لائی ہو کہ میری ایک بہو بیوہ ہوگئی اور اب دوسری کو بیوگی کی بددعائیں دے رہی ہے۔
مجھے ابھی گھر لے کر جاؤ۔'' دھوبن یعنی میں چھلانگ مار کر اسٹیج سے اتری اور اپنی ساس کے پیچھے بھاگی، ان کے گلے لگی اور کہا، یہ صرف ایک ڈرامہ تھا۔ ہمارے خاندان سے اس کا کوئی تعلق نہیں، میں اور اصغری انھیں سمجھا بجھا کر واپس لائے اور وعدہ کیا کہ اب ہم کوئی بددعا نہیں دیں گے۔''