رمضان المبارک کی آمد
اس مہینے کو بنیادی طور پر دو وجوہ سے فضیلت حاصل ہے
رمضان المبارک کا رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے۔ اس مہینے کو بنیادی طور پر دو وجوہ سے فضیلت حاصل ہے۔ایک تو اس ماہِ مبارک میں دین کا ایک لازمی جزو،ایک فرض رکن پورا کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے۔
اس قمری مہینے کے تمام دن ایک مومن پر لازم ہے کہ وہ روزے سے ہو اور اپنے خالق و مالک کا حکم بجا لاتے ہوئے اس کا قرب حاصل کرے۔روزہ وہ عبادت ہے جس کا تعلق براہِ راست بندے اور اس کے پروردگار سے ہے۔
پروردگار کے علاوہ کوئی یقینی طور پر نہیں جان سکتا کہ بندہ روزے سے ہے کہ نہیں۔ اس ماہِ مبارک کی فضیلت کی دوسری وجہ اس میں قرآن کا نزول ہے۔ قرآن انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی اﷲ کی آخری کتاب ہے۔
اس کتاب کے نزول کی تکمیل کے ساتھ ہی اﷲ نے بتا دیا کہ ہم نے تمھارے لیے دینِ اسلام کو پسند کرتے ہوئے اس کی تعلیمات کو مکمل کر دیا ہے۔
اب اور کوئی ہدایت نامہ نہیں آئے گا۔اﷲ کی یہ کتاب محمد رسول اﷲ پر نازل ہوئی۔چونکہ اب کسی نئی کتاب کا نزول نہیں ہونا اس لیے نبوت کا سلسلہ بھی ختم ہو گیا ۔اب نبوت و رسالت کا سلسلہ ہر حوالے سے بند ہو چکا ہے۔
اگرچہ قرآنِ کریم ایک بہت ہی Developed and Sophisticated Scriptural workہے لیکن یہ دنیا میں موجود تمام مقدس صحیفوں سے ایک گونہ مختلف ہے۔یہ نہ تو کسی قوم کے مذہب اور تاریخ کو سامنے لاتا،نہ ہی یہ کسی شخصیت کی آٹو بائیو گرافی ہے اور نہ ہی یہ جھاڑ جھنکار اور منتروں کی کتاب ہے۔
یہودی صحیفوں کو نگاہ میں رکھیں تو عہد نامہء قدیم)اولڈ ٹیسٹامنٹ(تخلیقِ کائنات سے شروع ہو کر،آدم و حوا کی پیدائش کو بیان کرتی،انسانی تاریخ کے مختلف مراحل کو عبور کرتی، تاریخِ بنی اسرائیل بن جاتی ہے اور سیدنا ذکریاؑ کے زمانے اور واقعات پر آکر ختم ہو جاتی ہے۔عیسائیوں نے یہودیوں کے ان مقدس صحائف کو اپنا لیا البتہ کیتھولک فرقہ اولڈ ٹیسٹامنٹ کی 73کتابوں کو مانتا ہے جب کہ پروٹسٹنٹ 66کتابوں کو مانتے ہیں۔
عیسائی سیدنا عیسیٰ ؑ کی تعلیمات پر مبنی عہد نامہء جدید میں27 کتابوں کو رکھتے ہیں جن میں سے 4کتابوں، متی، مارک،لوک اور جان سے منسوب کتابوں کو سب سے بڑھ کر فوقیت دیتے ہیں۔یہ چاروں صحائف ہمیں سیدنا عیسیٰ ؑ کے شجرہء نسب سے آشنا کر کے ان کی زندگی کے واقعات و تعلیمات سے گزار کر آسمان پر اٹھائے جانے پر منتج ہوتے ہیں۔
یہ چاروں الگ الگ صحائف ہوتے ہوئے تقریباً ایک جیسے ہیں صرف سینٹ جان کی کتاب میں چند نئی باتیں ہیں۔ہندو مقدس صحیفوں میں ہندو دیوتاؤں، دیویوں،ہیروز اور ان کے مخالف کرداروں کی کہانی ہے البتہ ان میں ویدک فلاسفی کو بھرپور طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔
چین ایک بہت پرانی تہذیب کی امین جگہ ہے۔چین نے کنفیوشس جیسے کئی ایک نامور افراد پیدا کیے البتہ کوئی مقدس صحیفہ نہیں دیا بلکہ برِ صغیر پاک و ہند سے مہاتما بدھ کی تعلیمات کو اپنا کر مذہبی پیاس بجھا لی۔
سیدنا یوسف ؑ سے لے کر سیدنا موسیٰ ؑ کے زمانے تک بنی اسرائیل مصر میں رہے۔مصری تہذیب و تمدن اس دوران اپنے بامِ عروج پر تھی، اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی اسرائیل اپنے وقت کی انتہائی تعلیم یافتہ، مہذب اور طاقتور قوم کے درمیان رہ رہے تھے۔
آج بھی مصری عجائبات دنیا کی نگاہوں کو خیرہ کیے ہوئے ہیں۔بنی اسرائیل کے صحائف توریت و زبور اسی تہذیب و تمدن میں پلی بڑھی قوم کے ہاں لکھے گئے لیکن آج توریت اور زبور کا ایک بھی مصدقہ صحیفہ دنیا میں موجود نہیں۔سیدنا عیسیٰؑ کے دور میں فلسطین اور گرد و پیش کے علاقے رومن سلطنت کا حصہ تھے۔
رومن تہذیب اپنے انتہائے کمال پر تھی۔رومن لا آج بھی مغرب کی اساس ہے۔بنی اسرائیل مصری تہذیب سے بہرہ مند ہونے کے بعد رومن تہذیب کے پروردہ تھے۔ جب اسیرین سلطنت نے اس علاقے پر قابو پایا تو بنی اسرائیل کے ہزاروں لوگوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گئے۔
بنی اسرائیل بابل و نینوا میں ایک سو سال تک رہے اور اسیرین تہذیب و تمدن سے بہت کچھ سیکھا۔ لگ بھگ سو سال کی اسیری کے بعد بنی اسرائیل واپس فلسطین لوٹے اور پھر رومن سلطنت کا حصہ بن گئے۔
یہ یقینی امر ہے کہ بنی اسرائیل کے علماء و فضلاء نے صحائف ایسے اوقات میں لکھے یا مرتب کیے جب وہ مصری، اسیرین و رومن تہذیب سے بہرہ مند ہو چکے تھے۔ہندو مقدس صحیفے اس وقت ڈویلپ کیے گئے جب برِصغیر میں تہذیب و تمدن اپنے عروج پر تھا۔ چاروں وید اسی ماحول میں لکھے گئے جو علم و آگہی سے روشن تھا۔ اس لیے یہ یقینی بات ہے کہ ہندو صحیفے بھی ایک ایسی قوم کے ہاں لکھے گئے جو ایک مضبوط تہذیب و تمدن رکھتی تھی۔
مہاتما بدھ نے کوئی کتاب،کوئی صحیفہ نہیں چھوڑا۔یہ کوئی پانچ قبل مسیح کا قصہ ہے کہ مہاتما بدھ کے پیروکاروں کو احساس ہوا کہ ان کے پاس بھی کوئی صحیفہ ہونا چاہیے اور پھر ایک بدھ صحیفہ ڈویلپ ہونا شروع ہوا جو اب ایک کتاب کی شکل لے چکا ہے۔
یہ صحیفہ ٹپی ٹاکاTipi Takaکہلاتا ہے۔ان تمام مذہبی صحائف کے بارے میں ہر کوئی مانتا ہے کہ یہ براہِ راست اﷲ کا کلام نہیں ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ وسیع ہوتے رہے ہیں۔
قرآنِ کریم نہ تو کسی مذہب کی تاریخ،نہ کسی قوم کی تاریخ اور نہ ہی یہ کسی شخصیت کی بائیوگرافی ہے۔اس کو کوئی ایسا شخص ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جسے خدا یا کسی دیوتا نے انسپائر کیا ہو۔ یہ وحی الٰہی ہے۔یہ کتاب اﷲ ہے۔اس کایک ایک لفظ اﷲ کا نازل کردہ ہے۔یہ ایک ایسی قوم کی طرف نازل شدہ کتاب ہے جو عرب کے ویران ریگستان میں آباد تھی۔
عربوں کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔بعثتِ نبویﷺسے پہلے کے عربوں نے زبانی شاعری کے علاوہ کوئی ادب نہیں چھوڑا۔انھوں نے کوئی موسیقی نہیں چھوڑی۔انھوں نے کوئی فنِ تعمیر نہیں چھوڑا۔عرب صرف اس بات میں ماہر تھے کہ وہ مال بردار قافلوں کو لُوٹیں۔ وہ لڑائی جھگڑے کے دلدادہ تھے۔خون بہانا ان کا مشغلہ تھا۔
لڑائی میں ہاتھ آ جانے والے مرد وزن کو غلام اور لونڈی بنا لیتے تھے۔عرب کے یہ لوگ بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ قرآن اپنے قارئین کو ڈیڑھ ہزار سال سے یہ چیلنج دے رہا ہے کہ اگر تمہیں اس کے کلام اﷲ ہونے میں ذرا برابر بھی شک ہے تو اس جیسی ایک سورت ہی بنا لاؤ،ساری دنیا کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کی مدد لو لیکن تم جتنا بھی زور لگاؤ تم ہر گز اس کلام جیسی ایک سورۃ بھی نہیں لا سکو گے۔قرآن ایک معجزہ ہے۔اس کی آیات ان سائنسی حقیقتوں سے پردہ اٹھاتی ہیں جو آج کے جدید سائنسی دور میں بھی بہت ایڈوانس علم ہے۔