توشہ خانے کا سچ

میں نہیں جانتا کہ توشہ خانے کے مقدمے میں عمران خان کیوں پیش ہونے سے گریز پا ہیں

Warza10@hotmail.com

میرا پوری قوم کے سیاسی تجزیہ کار صحافی اور سیاسی دانشوروں سے سوال ہے کہ کیا کوئی بھی ریاست آئین اور قانون کے موثر نفاذ کے بغیر چل سکتی ہے یا ریاست میں کوئی فرد مسلسل قانون کی دھجیاں سر عام اڑا سکتا ہے۔

کیا ریاست کے در گذر اور صرف نظر کرنے کو کمزوری سمجھ لینا کسی بھی مہذب معاشرے میں درست عمل قرار دیا جاسکتا ہے۔

کیا قانون پر عمل در آمد کرنے کے دعویدار سیاسی رہنما یا فرد اپنے گرد جتھوں کی مدد سے حصار قائم کر کے قانون اور عدالتی احکامات کو ہوا میں اڑا سکتا ہے۔ کیا ریاستی قانون کے آگے خود کو پیش کر دینا بزدلی کا عمل ہے۔ کیا آئین اور قانون ریاست کے غیر قانونی عمل پر ہمیں کسی احتجاج یا اختلاف سے روکتا ہے؟

ریاستی آئین عوام اور ریاست کے دائرہ اختیار کو طے بھی کرتا ہے جب کہ آئین ریاست و عوام کے درمیان ایک ایسا عمرانی معاہدہ ہوتا ہے، جس میں عوام کے انسانی و جمہوری حقوق کا دفاع بھی کرتا ہے اور ریاستی امور چلانے کو ایک باہمی اصول کے تحت مرتب کیا جاتا ہے، ریاست کے فرائض بھی آئین میں درج کیے جاتے ہیں اور عوام کے جمہوری حقوق کی ضمانت بھی آئین کی دستاویز ہی مہیا کرتی ہے۔

اسی کے ساتھ ریاست کا آئین عدالت کو آئین کی تشریح کرنے یا کسی آئینی ابہام سے نکالنے کا وہ موثر ادارہ سمجھا جاتا ہے جو آئین کو اس کی درست روح میں چلانے کا اہم اور ذمے دار ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مقام پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے سیاسی و ملکی تناظر میں ہماری عدلیہ یا ریاستی ادارے اپنا وہ کردار ادا کرنے سے کیوں قاصر ہیں ، جن کی آج کے گھمبیرتا میں پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔

ہماری موجودہ پیچیدہ سیاسی صورتحال میں آج کل سب سے اہم وہ مقدمات ہیں جو عمران خان کے آئینی طریقہ کار کے مطابق اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد قائم کیے گئے ہیں ، جن میں سر فہرست فارن فنڈنگ ، ٹیریان وائٹ اور توشہ خانے کے تحائف لیے جانے اور انھیں غیر اخلاقی طور سے بیچے جانے کے علاوہ ان کو اپنے اثاثہ جات میں شامل یا ذکر نہ کرنے کا ہے۔

توشہ خانے کو اپنے سالانہ آمدنی میں ظاہر نہ کرنے کے خلاف عمران خان پر الیکشن کمیشن کی جانب سے مقدمے کے اندراج کے بعد توشہ خانے کی فوجداری کارروائی کے لیے اسے ڈسٹرکٹ کورٹ کی عدالت میں بھجوایا گیا جس میں سیشن کورٹ میں عمران خان کی مسلسل غیر حاضری پر ان کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے، تاکہ عمران خان کو قانون کے دائرے میں لا کر مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھایا جاسکے ، مگر دوسری جانب عمران خان قانون اور عدلیہ کے احکامات کو نہ ماننے اور ہٹ دھرمی برقرار رکھنے پر تلے ہوئے ہیں ۔


میں نہیں جانتا کہ توشہ خانے کے مقدمے میں عمران خان کیوں پیش ہونے سے گریز پا ہیں ، اگر عمران خان سمجھتے ہیں کہ انھوں نے توشہ خانے کے تحائف حاصل کرنے میں کوئی غیر قانونی عمل نہیں کیا تو توشہ خانے کے مقدمے میں پیش ہونے میں کیا وہ وجہ حائل ہے جو انھیں سچا ثابت نہ کر سکے۔ یہ میرا نہیں بلکہ اکثر پاکستانیوں کا وہ سوال ہے جو عمران خان کی سیاسی اور اخلاقی حیثیت کو نہ صرف نقصان پہنچا رہا ہے بلکہ ان کی جانب سے قانون کے سامنے سرنگوں نہ کرنے کے منفی رجحان کو بھی تقویت دے رہا ہے۔

اس سے زیادہ ان صحافیوں اور تجزیہ کاروں پر افسوس ہوتا ہے جو عمران خان کے جھوٹ اور منفی پروپیگنڈے پر مبنی شہرت میں مبتلا ہوکر پاکستانی سماج میں ہٹلر کے نازی ازم کو لانا چاہتے ہیں جو آخر کار ملک کی سماجی قدروں کے بگاڑ کے ساتھ ہماری سیاسی فیبرک کے لیے ہر صورت زہر ثابت ہوگا اور پھر عمران خان کی لاقانونیت کی حمایت کرنیوالے تاریخ کے مجرم ٹہریں گے۔

مجھے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں 2021 ستمبر کی وہ شام آج تک یاد ہے جب ہم صحافتی تحریک کے بلند حوصلے رکھنے والے ناصر زیدی کے ہمراہ معروف شاعر افتخار عارف کی رہائش گاہ میں ایک طویل نشست کے بعد لوٹے اور پریس کلب اسلام آباد میں چند لمحات گذارنے کا سوچا اور جا کر ایک ٹیبل پر بیٹھ گئے۔

اسی اثنا محبت کے جذبوں سے سرشار ایک نوجوان صحافی ہماری طرف بڑھا اور ہمارے ساتھ آن بیٹھا ، ناصر زیدی صاحب نے اس نوجوان صحافی سے تعارف کراتے ہوئے رانا ابرار کی صلاحیتوں کی تعریف کی اور اس کی بیروزگاری پر اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ ابرار بہت محنتی اور جفاکش صحافی ہے، وسیب کے فاضل پور سے تعلق رکھنے والے رانا ابرار نے بتایا کہ وہ کراچی کے پبلک اخبار میں بھی کام کر چکا ہے۔

یہ انکشاف میرے لیے مزید اپنائیت کا باعث ٹہرا ، دوران گفتگو میرے دریافت کرنے پر ابرار نے بتایا کہ مجھے اپنے بیروزگار ہونے کی پرواہ نہیں ، بس میں ایک مشن پر ہوں دعا کریں کہ میں اپنی کوششوں میں کامیاب ہو جاؤں ، رانا ابرار کی آنکھوں کی چمک اور عزم دیکھ کر نجانے کیوں مجھے اس کی کامیابی پر یقین تھا ، کیونکہ وہ اس دوران توشہ خانے کی اسٹوری پر کام کر رہا تھا ، گو رانا ابرار نے توشہ خانے کی رپورٹنگ پر زیادہ بات نہیں کی مگر اس کا یقین بتا رہا تھا کہ وہ کوئی بہت بڑا دھماکہ کرنے والا ہے، اور ایسا ہی ہوا کہ رانا ابرار نے تمامتر مشکلات اور دھمکیوں کے باوجود توشہ خانے سے عمران خان کی بے ضابطگیوں کو زمانے کے سامنے طشت از بام کیا اور صحافت کی رپورٹنگ میں ایک تہلکہ مچا دیا۔میرے لیے یہ بات مزید اطمینان کا باعث ہوئی جب رانا ابرار کے عزم و حوصلے کو سینیئر صحافی شاہد جتوئی نے سراہا اور بتایا کہ وہ انھی کے گاؤں کا ہونہار فرزند ہے ، پھر تو گویا رانا ابرار میرے کنبے کا وہ رفیق اور حصہ بن گیا ، جس کی کامیابیوں کا زمانہ معترف ہوا ۔

رانا ابرار نے جن مشکلات اور عمران حکومت کی رکاوٹوں میں توشہ خانے کی اس اعلیٰ سطح کی چوری کو اجاگر کیا وہ خود ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ رانا ابرار کی تحقیقات پر مبنی توشہ خانے کی یہی اسٹوری آج عمران خان کی ممکنہ نا اہلی کا وہ نشان بننے جا رہی ہے جس میں رانا ابرار کی لگن حوصلہ اور ہار نہ ماننے کا وہ مستحکم جذبہ ہے جو آج کے سہل پسند اور صرف حکومتی تعلقات استوار رکھنے کے خواہشمند صحافیوں کو اپنانا چاہیے تاکہ وہ صحافت کی اعلیٰ اقدار کے ساتھاری بن سکیں۔

رانا ابرار بلاشبہ حکمران طبقے کی خرمستیوں اور چوریوں کو منظر عام پر لانے والا وہ محنت کش صحافی ہے جس کے قدم ہماری آج کی بگڑتی صحافت کے لیے ایک نشان منزل ہو سکتے ہیں، توشہ خانے میں عمران خان کی چوری اور غلط کاریوں کے متعلق رانا ابرار کا یہ دعویٰ ہے کہ ابھی بہت کم عمران خان کی توشہ خانے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔

اگر توشہ خانے کی مکمل تفصیلات عوام کے سامنے لائی جائیں تو اعلیٰ عہدوں کے یہ رسیا کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں ، اس سلسلے میں حکومتی سطح پر ایسے محنتی اور بے خوف صحافیوں کی مدد انتہائی ضروری قدم ہونا چاہیے تاکہ رانا ابرار ایسے صحافی قلم اور صحافت کا سر بلند کرکے ملکی اثاثہ ثابت ہوں۔
Load Next Story