طاہر نجمی بے باک و جرات مند صحافی
وہ جانتے تھے کہ آج کے جدید دور میں صحافتی، ادیب اور قلم کار کی ذمے داری اور بھی بڑھ گئی ہے
کسی بھی لکھاری کا قلم ، ملک اور کسی بھی زبان یا کسی بھی جاگیردار ، ڈکٹیٹر اور حکمران کی جاگیر نہیں ہوتا کہ جب چاہا ، جس وقت چاہا اس پر قدغن لگا دے اور اس کے قلم اور ضمیر کو خریدنے کی کوشش کرے، سچے صحافی کا قلم ٹوٹ تو سکتا ہے لیکن بک نہیں سکتا اور ایسے میں وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنے قلم سے صاف گوئی کو بیان کرتا چلا جاتا ہے۔
ایسے ہی بے باک قلم کا سپاہی جسے ہم طاہر نجمی کے نام سے جانتے ہیں۔ جو اپنی تحمل مزاجی ، جرات مندی اور دیانت داری کے وصف اپنی پہچان آپ تھے۔ جنہوں نے آزاد میڈیا اور آزادِ صحافت کے حصول کے لیے ایسے دور میں اپنی صدا کو بلند کیا جب بندشوں کے پیچھے رہتے ہوئے صحافیوں نے اپنے قلم کے ذریعے اس مظلوم طبقے کی آواز کو دبنے نہ دیا۔
ضیاء الحق جیسے ڈکٹیٹر اور حکمران کے خلاف جب صحافیوں کی تحریک چلی تو تحریک کے دوران سکھر جیل میں قید تنہائی کی صعوبتیں جھیلنے والوں میں طاہر نجمی بھی شامل تھے۔ جنہوں نے اس کرب ناک لمحوں کو بڑی بہادری اور حوصلہ مندی سے برداشت کرتے ہوئے انھوں نے ہمیشہ اپنے قلم کو جابر حکمرانوں اور باطل کے خلاف استعمال کیا۔
ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ کی روشنی تا دیر جگمگاتی ہوئی اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ انھوں نے اپنے قلم کے ذریعے انسانیت کی خدمت کی ، کیونکہ قلم سچے صحافی کی سب سے بڑی دولت ہے اور صحافی اس کا امین ہے۔ طاہر نجمی جیسے سچے صحافی نے اپنے قلم کو علم وادب اور صحافت میں آگہی کے ایسے چراغ جلاتے ہوئے ہماری عقل و دانش کو ایسی جلابخشی کہ اُن کے فکر و فن کی مشعلیں ہمیشہ روشن رہیں گی۔ فیض احمد فیضؔ کے اس شعر کے مصداق
ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے
طاہر نجمی شعبہ صحافت سے کم وبیش پانچ دہائیوں تک منسلک رہے۔ اس سے قبل انھوں نے بحیثیت سب ایڈیٹر روزنامہ ''امن'' سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا، بعدازاں وہ نیوز ایڈیٹر رہے ، وہ کراچی پریس کلب اور کراچی یونین آف جرنلسٹ کے سیکریٹری بھی رہے، صحافتی وادبی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سماجی سرگرمیوں کے لیے وقت نکال لینا ان کی فعال اور متحرک شخصیت کی آئینہ داری تھی ، وہ ایک ہمہ جہت شخصیت تھے۔
دھیمے لہجے اور سنجیدہ مزاج کے آدمی تھے، ان کا شمار قلم کاروں کے اس قبیلے سے کیا جاتا ہے جو نظم و نثر دونوں میدانوں کے شہسوار ہو۔
اپنی تمام تر صحافتی ذمے داریوں کے باوجود زبان و ادب سے اس طرح جڑے رہے کہ غمِ روزگار کی ذمے داریاں ان کے ادبی ذوق میں حائل نہ ہوسکیں۔ ان کی تحریروں سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ معاشرے کے رویے پر گہری نظر رکھتے تھے اور قوم کے نبض شناس بھی تھے اور درد شناس بھی۔
طاہر نجمی بہت زبردست کالم نگار بھی تھے ، بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ کسی زمانے میں جاسوسی طرز کے ناول اور بچوں کی کہانیاں بھی لکھتے رہے۔
اس حوالے سے سلیم مغل بتاتے ہیں کہ''ان کے ناول نگار والا تعارف ماضی کے دھندلکوں میں کہیں کھو گیا تھا ، تاہم میری کوشش ہو گی کہ ان کے تعارف کا یہ پہلو بھی احباب کے سامنے لاتا رہوں۔ یہ ناول پی ڈی ایف کی صورت میں میرے پاس محفوظ ہے'' ان کا یہ ناول ملتان سے شائع ہُوا ، جسے مظہر کلیم مرحوم نے اسے اپنے تاثرات کے ساتھ آگے بڑھایا۔ طاہر نجمی کبھی کبھار شعر کہنے پر بھی درسترس رکھتے تھے۔
روزنامہ ''ایکسپریس'' کا آغاز 1998 میں ہُوا تو اُس وقت اس کے نیوز ایڈیٹر طاہر نجمی تھے جو اپنی محنت اور صلاحیتوں کے باعث ایڈیٹر کے عہدے پر پہنچے۔ انھوں نے اپنے پوری صحافتی کیریئر میں کبھی اپنے ضمیر کا سودا نہ کیا ، بلکہ جو ایک بار بات قلم سے لکھ دی یا زبان سے کہہ دی بس اُسی پر ڈٹے رہے۔
وہ جانتے تھے کہ آج کے جدید دور میں صحافتی، ادیب اور قلم کار کی ذمے داری اور بھی بڑھ گئی ہے قلم اور صحافت کی آزادی نہ صرف شہروں اور دیہاتوں میں مزدوروں اور کسانوں پر ہونے والے ظلم کو بے نقاب کرتی ہے بلکہ ملک کے اندرونی و بیرونی اور امن کو خراب کرنے اور انتشار پھیلانے والوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے اس لیے آزاد صحافت اس وقت کے لیے ناگزیر ہے، صحافی کا قلم ہی اس تمام اندرونی و بیرونی ماحول کی تصویر کشی کر سکتا ہے بلکہ وہ اندھیرے سے بھی نور کشید کر سکتا ہے۔
ایسی ہی روشنی ہمیں طاہر نجمی کے قلم اور فکر وفن میں دیکھنے کو ملتی تھی۔ کیونکہ اُن کے نزدیک قلم نوائے سروش کا ترجمان ہے، قلم حقیقت بیان کرتا ہے، بشارت دیتا ہے نئی صبح کی نئے زمانے کی اور نئی زبان بخشتا ہے قلم نئی نسل کو توائی بخشتا ہے نئے قدموں کو اور قافلوں کو رواں دواں کرتا ہے، لاشعور کو شعور دیتا ہے۔
ایسا ہی سب کچھ انھوں نے اپنی قلمی اور تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے کر کے دکھایا۔ جس کا اعتراف آج بھی بہت سے اہلِ قلم کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ انھوں نے ہمیشہ اپنے جونیئرز کی نہ صرف مدد کی بلکہ رہنمائی بھی کی۔ بقول اقبال کہ:
ہے لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
کسی بھی انسان کی زندگی میں بیتے ہوئے وقت کے دلکش لمحات واپس نہیں آتے، لیکن اچھے لوگوں سے تعلقات اور اُن سے وابستہ اچھی یادیں ہمیشہ زندہ رہتی ہیں۔
طاہر نجمی دنیائے صحافت کا ایک درخشندہ ستارہ تھے، جن کا خمیر شہرِ اولیا کی سر زمین ملتان سے اُٹھا وہ ہمیشہ اپنے والدین کی ہجرت سے لے کر اپنے آبائی شہر ملتان سے ہجرت کے تکلیف دہ اور کٹھن مراحل سے بھی واقف تھے۔ وہ شہرِ کراچی میںمقیم رہے مگر ان کا دل ملتان کے لیے دھڑکتا رہا ۔ اعتبار ساجد کے اس شعر کی طرح۔
میں بابِ شہر سے نکلا تھا ساجد موسمِ گل میں
نہ جانے ان بہاروں میں مرا ملتان کیسا ہے؟
وہ اردو ادب و صحافت کے لیے اُستاد کا درجہ رکھتے تھے۔ جدید اردو صحافت کی تاریخ جب بھی لکھی جائے گی تو اس میں ''ایکسپریس'' کا اجراء ایک اہم باب ہو گا اور اس باب میں طاہر نجمی کا نام نمایاں ہو گا۔
طویل عرصے تک ملک و قوم اور معاشرے کی اصلاح کے لیے اپنی صحافتی ذمے داریاں نبھانے والے طاہر نجمی اب ہم ہمارے درمیان موجود نہیں۔ اس خبر سے نہ جانے کتنے دل غم زدہ اور کتنی آنکھیں چشمِ تر اور کتنے چہرے افسردہ ہوئے ہونگے۔ کیونکہ موت کا ایک دن اللہ نے مقرر کر کے رکھا ہے ۔ غالبؔ کے اس شعر کے سوا اور کیا کہا جائے۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی