نمبر پلیٹ
70 فیصد موٹرسائیکل والوں کی تو نہ آگے نہ پیچھے نمبر پلیٹ ہوتی ہے
گزشتہ دنوں سندھ ٹرانسپورٹ کے صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن نے کچھ احکامات دیے ہیں جو سو فیصد درست ہیں۔ اگر آپ کے نام پر گاڑی نہیں ہے اور آپ اوپن لیٹر پر گاڑی چلا رہے ہیں، اپلائیڈ فار رجسٹریشن، جعلی اور فینسی نمبر پلیٹ پر گاڑی چل رہی ہو، وہ گاڑی ضبط ہو گی۔ صوبائی وزیر شرجیل میمن سے کراچی پریس کلب میں ملاقات ہوئی تھی، بہت ہنس مکھ سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں۔
بات کو بہت تحمل سے سنتے ہیں اور صحافی حضرات ان کی دل سے قدر کرتے ہیں، اس ناتے ٹریفک کے حوالے سے کچھ تجاویز دینا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ اس پر غور و فکر ضرور کریں گے۔ میرا کام ہے کہ کچھ خامیوں کی نشاندہی کروں، تاکہ آپ اس کا سدباب کر سکیں۔
ستمبر، اکتوبر 2022 میں جو گاڑیاں خریدی گئی تھیں ان کو اب تک ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے پکی نمبر پلیٹ نہیں دی ہے، جب کہ گاڑی خریدنے والے نے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو نمبر پلیٹ کے پیسے ادا کر دیے ہیں لہٰذا انھیں فوری نمبر پلیٹ جاری کی جائے۔
آپ کے اس اعلان کے بعد بھی جو نئی گاڑیاں خریدی گئی ہیں ان پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی طرف سے اب تک مستقل نمبر پلیٹ نہیں دی گئی، مگر اب ان گاڑیوں کو پولیس جگہ جگہ روکتی ہے اور سوال کرتی ہے کہ مستقل نمبر پلیٹ کہاں ہے جب کہ آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کی آپ جتنی مرتبہ وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے اپنی وزارت کو بہت خوبصورتی سے چلایا اس میں کوئی شک نہیں چونکہ آپ کے صحافیوں سے ہمیشہ بہت اچھے تعلقات رہے۔
اس بنا پر کچھ مسائل کی نشاندہی کر رہا ہوں، اس کو مثبت طریقے سے دیکھیے گا، دودھ کی گاڑیاں، برف کی گاڑیاں ان پر تو نمبر پلیٹ اکثر ہوتی نہیں ہے اور ان گاڑیوں کو جو لوگ چلا رہے ہیں نہ جانے وہ ملک کے شہری بھی ہیں یا نہیں۔ جنوری 2023 میں ایک برف کی گاڑی نے راقم کی گاڑی کو ٹکر مار دی، گاڑی کو بھی نقصان ہوا، جس گاڑی نے راقم کی گاڑی کو مارا تھا اس کا ڈرائیور ایک غیر ملکی افغانی تھا جس کے پاس نہ تو لائسنس تھا نہ اس کی گاڑی پر نمبر پلیٹ تھی، اب آپ بتائیں میں اس سے کیا سوال کرتا؟ اس کے ہم زبان دس افراد جمع ہوگئے اور میں منہ تکتا رہ گیا۔
غلطی اس کی تھی اور میں مجرموں کی طرح اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ ٹریفک کا بہت برا حال ہے، بائیک والوں نے اس شہر کی خوبصورتی چھین لی ہے، نہ یہ پولیس کا احترام کرتے ہیں نہ لوگوں کا، اول تو اب اس شہر میں سگنل ہے ہی نہیں اور جہاں سگنل ہیں یہ سگنلز توڑ کر نکلتے رہتے ہیں۔ ان لاقانونیت کے بادشاہوں کی تعداد کراچی میں 70 فیصد ہے نہ ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں نہ گاڑی کے کاغذات۔ 70 فیصد موٹرسائیکل والوں کی تو نہ آگے نہ پیچھے نمبر پلیٹ ہوتی ہے اور جن کے پاس نمبر پلیٹ موجود ہے وہ گتے پر مار کر سے لکھ کر دھاگے سے باندھ دیتے ہیں۔
موٹرسائیکلوں پر نہ انڈیکیٹر لگے ہوتے ہیں، رات میں نہ ان کی ہیڈ لائٹ جل رہی ہوتی ہیں، ون وے پر لاتعداد موٹرسائیکلیں سامنے سے آرہی ہوتی ہیں۔ 12000 کی موٹرسائیکل والا 30 لاکھ کی گاڑی پر اسکریچ ڈال دیتا ہے انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر شکایت کرو تو گالیاں دیتے ہیں اور اس دوران ان کے چاہنے والے 25 موٹر سائیکل والے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اس صوبے کی بہتری کے لیے ٹیکس دیتا ہے۔
اسے ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اگر کسی کار سوار کو گلی میں مڑنا ہو وہ انڈیکیٹر دیتا ہے مگر یہ اس انڈیکیٹر کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں اور پھر اس کا رزلٹ یہ ہے کہ آپ کو اپنی گاڑی بھی بچانی ہے اور ان کی زندگی بھی، اور اگر ان کی غلطی کی وجہ سے یہ گاڑی سے ٹکرا کر گرتے ہیں تو پھر اکٹھے ہونیوالے بیک وقت کہتے ہیں کہ اس کو دوسری جگہ لے کر جاؤ، کچھ موٹرسائیکل سوار بے قصور کار سوار کو مارنے سے گریز نہیں کرتے، حتیٰ کہ گاڑی کے شیشے تک توڑ دیتے ہیں۔
سائیڈ گلاس تک توڑ دیتے ہیں، وہ زمانہ نہیں رہا کہ 300 روپے کے سائیڈ گلاس مل جائیں، اب تو نئی گاڑی کے سائیڈ گلاس بھی 25000 کے آتے ہیں پھر لکھ رہا ہوں کہ ان 70 فیصد موٹرسائیکل والے حضرات نے اس شہر کو تباہ کر دیا ہے پولیس بھی خاموش رہتی ہے کہ جب لاقانونیت سر سے گزر جائے تو پھر پولیس بے چاری بھی کیا کریگی۔
خاص طور پر یہ مخالف سمت سے آ کر قیمتی گاڑیوں سے ٹکراتے ہیں۔ 14 سال سے لے کر 18 سال تک کے بچے انتہائی خطرناک طریقے سے بائیک استعمال کرتے ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں کچھ مائیں 16 سالہ بچے کیساتھ بڑے فخر سے موٹرسائیکل پر سفر کرتی ہیں۔
اس سے دل دکھتا ہے کہ ہم کس شہر میں رہتے ہیں۔ شرجیل میمن صاحب! آپ ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے کافی اصول پسند ہیں، آپ کی پچھلی وزارتوں کو عوام نے بہت پسند کیا ہے آپ ٹریفک قوانین کو سخت کریں خاص طور پر داداگیر 70 فیصد موٹرسائیکل سوار جنھوں نے اس شہر کے سکون کو تہس نہس کر دیا ہے آپ پہلی فرصت میں موٹرسائیکل سوار کو آگے اور پیچھے نمبر پلیٹ لگانے کا قانونی آرڈر دیں جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے جاری ہوں، 40 فیصد موٹرسائیکل والے تو بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیاں چلا رہے ہیں۔
آپ انھیں ٹیکس اور نمبر پلیٹ، لائسنس کا پابند کریں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آپ کے اس سخت اعلان کے بعد میں دعویٰ سے کہہ رہا ہوں ایک ایک تھانے کے باہر صرف لائسنس کے لیے ہزاروں موٹر سائیکلیں روزانہ کی بنیاد پر آئیں گی اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ قانون پر عملدرآمد ہوگا، دوسرا سندھ حکومت کو اس مد میں کروڑوں روپے ملیں گے جس سے وزیر اعلیٰ اور وزرا سندھ کے مسائل آسانی سے پورے کریں گے انھیں پابند کیا جائے کہ موٹرسائیکلوں پر انڈیکیٹر لگائیں اور موڑنے سے پہلے انڈیکیٹر دیں۔
یقین کریں گاڑیاں استعمال کرنیوالے بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ آپ نے ماضی میں بھی اپنی وزارتوں میں بہت خوبصورت فیصلے کیے ہیں، قانون بنائیں کہ چنگ چی، موٹرسائیکل، برف کی گاڑیاں، دودھ کی گاڑیاں لازمی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی نمبر پلیٹ گاڑیوں میں لگائیں لاقانونیت کی ان لوگوں نے حد کردی ہے، رات میں منچلوں نے اپنی گاڑیوں میں ہیڈ لائٹ سفید رنگ کی لگا رکھی ہے چونکہ سامنے کچھ نظر نہیں آتا اس سے اکثر حادثے ہوتے ہیں اور بے قصور لوگ ان دادا گیروں کے نقصان کے پیسے ادا کرتے ہیں۔
لاقانونیت کی وجہ سے بیس ہزار کی بائیک والا (سیکنڈ ہینڈ) 40 لاکھ کی گاڑی رکھنے والے کو دھمکیاں دیتا ہے جب اور بائیک والے جمع ہو جاتے ہیں تو مارپیٹ بھی شروع کردیتے ہیں خدارا ہر گاڑی جو شہر میں رواں دواں ہے اسے نمبر پلیٹ کا پابند کریں جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے جاری کی گئی ہوں، موٹرسائیکل کے پیچھے ٹھیلا لگا دیا گیا اس میں زیادہ تر آپ کو سامان لوڈ کرنے والے ملیں گے، موٹرسائیکل کو سامان اٹھانے والی گاڑی بنانا غیر قانونی ہے۔
70 فیصد بائیک والوں نے اس شہر کا حسن تہس نہس کردیا ہے اب گاڑی چلانیوالے ان سے اتنے خوفزدہ ہوگئے ہیں کہ وہ انھیں راستہ دیتے ہیں اور خود کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خدارا اس تحریر کو اصلاح کے طور پر لیں سب سے پہلے آپ لائسنس کاغذات کے حوالے سے انھیں پابند کریں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا جن کے پاس لائسنس اور کاغذات مکمل ہوں گے۔
ان کی تعداد 30 فیصد ملے گی وہ بھی عمر رسیدہ افراد کے پاس موٹرسائیکلوں کو پابند کریں کہ وہ انڈیکیٹر لگائیں اور قوانین پر سختی سے عمل کروائیں پولیس بے قصور ہے ایک چوک پر 2 پولیس والے ہوتے ہیں جب کہ موٹرسائیکل والے دن میں لاقانونیت کے حوالے سے ہزاروں گزرتے ہیں اس میں پولیس بے چاری کیا کرے گی۔
تمام ٹرانسپورٹ کو پابند کریں کہ وہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے واجبات ادا کریں موٹرسائیکل والے کاغذات اور لائسنس اپنے نام سے بنوائیں، گاڑیوں والے تو ملک کو ٹیکس دیتے ہیں یہ کیا دیتے ہیں؟ 70 فیصد موٹرسائیکل والے چنگ چی، برف کی گاڑیاں، یہ ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ میری گزارش ہے جناب شرجیل میمن سے کہ آپ اس پر توجہ دیں اس سے خطیر رقم آئے گی۔
بات کو بہت تحمل سے سنتے ہیں اور صحافی حضرات ان کی دل سے قدر کرتے ہیں، اس ناتے ٹریفک کے حوالے سے کچھ تجاویز دینا چاہتا ہوں امید ہے کہ آپ اس پر غور و فکر ضرور کریں گے۔ میرا کام ہے کہ کچھ خامیوں کی نشاندہی کروں، تاکہ آپ اس کا سدباب کر سکیں۔
ستمبر، اکتوبر 2022 میں جو گاڑیاں خریدی گئی تھیں ان کو اب تک ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن نے پکی نمبر پلیٹ نہیں دی ہے، جب کہ گاڑی خریدنے والے نے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو نمبر پلیٹ کے پیسے ادا کر دیے ہیں لہٰذا انھیں فوری نمبر پلیٹ جاری کی جائے۔
آپ کے اس اعلان کے بعد بھی جو نئی گاڑیاں خریدی گئی ہیں ان پر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی طرف سے اب تک مستقل نمبر پلیٹ نہیں دی گئی، مگر اب ان گاڑیوں کو پولیس جگہ جگہ روکتی ہے اور سوال کرتی ہے کہ مستقل نمبر پلیٹ کہاں ہے جب کہ آپ نے ایسی کوئی بات نہیں کی آپ جتنی مرتبہ وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے اپنی وزارت کو بہت خوبصورتی سے چلایا اس میں کوئی شک نہیں چونکہ آپ کے صحافیوں سے ہمیشہ بہت اچھے تعلقات رہے۔
اس بنا پر کچھ مسائل کی نشاندہی کر رہا ہوں، اس کو مثبت طریقے سے دیکھیے گا، دودھ کی گاڑیاں، برف کی گاڑیاں ان پر تو نمبر پلیٹ اکثر ہوتی نہیں ہے اور ان گاڑیوں کو جو لوگ چلا رہے ہیں نہ جانے وہ ملک کے شہری بھی ہیں یا نہیں۔ جنوری 2023 میں ایک برف کی گاڑی نے راقم کی گاڑی کو ٹکر مار دی، گاڑی کو بھی نقصان ہوا، جس گاڑی نے راقم کی گاڑی کو مارا تھا اس کا ڈرائیور ایک غیر ملکی افغانی تھا جس کے پاس نہ تو لائسنس تھا نہ اس کی گاڑی پر نمبر پلیٹ تھی، اب آپ بتائیں میں اس سے کیا سوال کرتا؟ اس کے ہم زبان دس افراد جمع ہوگئے اور میں منہ تکتا رہ گیا۔
غلطی اس کی تھی اور میں مجرموں کی طرح اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ ٹریفک کا بہت برا حال ہے، بائیک والوں نے اس شہر کی خوبصورتی چھین لی ہے، نہ یہ پولیس کا احترام کرتے ہیں نہ لوگوں کا، اول تو اب اس شہر میں سگنل ہے ہی نہیں اور جہاں سگنل ہیں یہ سگنلز توڑ کر نکلتے رہتے ہیں۔ ان لاقانونیت کے بادشاہوں کی تعداد کراچی میں 70 فیصد ہے نہ ان کے پاس لائسنس ہوتے ہیں نہ گاڑی کے کاغذات۔ 70 فیصد موٹرسائیکل والوں کی تو نہ آگے نہ پیچھے نمبر پلیٹ ہوتی ہے اور جن کے پاس نمبر پلیٹ موجود ہے وہ گتے پر مار کر سے لکھ کر دھاگے سے باندھ دیتے ہیں۔
موٹرسائیکلوں پر نہ انڈیکیٹر لگے ہوتے ہیں، رات میں نہ ان کی ہیڈ لائٹ جل رہی ہوتی ہیں، ون وے پر لاتعداد موٹرسائیکلیں سامنے سے آرہی ہوتی ہیں۔ 12000 کی موٹرسائیکل والا 30 لاکھ کی گاڑی پر اسکریچ ڈال دیتا ہے انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر شکایت کرو تو گالیاں دیتے ہیں اور اس دوران ان کے چاہنے والے 25 موٹر سائیکل والے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اس صوبے کی بہتری کے لیے ٹیکس دیتا ہے۔
اسے ذلیل اور رسوا کیا جاتا ہے اگر کسی کار سوار کو گلی میں مڑنا ہو وہ انڈیکیٹر دیتا ہے مگر یہ اس انڈیکیٹر کو جوتی کی نوک پر رکھتے ہیں اور پھر اس کا رزلٹ یہ ہے کہ آپ کو اپنی گاڑی بھی بچانی ہے اور ان کی زندگی بھی، اور اگر ان کی غلطی کی وجہ سے یہ گاڑی سے ٹکرا کر گرتے ہیں تو پھر اکٹھے ہونیوالے بیک وقت کہتے ہیں کہ اس کو دوسری جگہ لے کر جاؤ، کچھ موٹرسائیکل سوار بے قصور کار سوار کو مارنے سے گریز نہیں کرتے، حتیٰ کہ گاڑی کے شیشے تک توڑ دیتے ہیں۔
سائیڈ گلاس تک توڑ دیتے ہیں، وہ زمانہ نہیں رہا کہ 300 روپے کے سائیڈ گلاس مل جائیں، اب تو نئی گاڑی کے سائیڈ گلاس بھی 25000 کے آتے ہیں پھر لکھ رہا ہوں کہ ان 70 فیصد موٹرسائیکل والے حضرات نے اس شہر کو تباہ کر دیا ہے پولیس بھی خاموش رہتی ہے کہ جب لاقانونیت سر سے گزر جائے تو پھر پولیس بے چاری بھی کیا کریگی۔
خاص طور پر یہ مخالف سمت سے آ کر قیمتی گاڑیوں سے ٹکراتے ہیں۔ 14 سال سے لے کر 18 سال تک کے بچے انتہائی خطرناک طریقے سے بائیک استعمال کرتے ہیں اور پھر مزے کی بات دیکھیں کچھ مائیں 16 سالہ بچے کیساتھ بڑے فخر سے موٹرسائیکل پر سفر کرتی ہیں۔
اس سے دل دکھتا ہے کہ ہم کس شہر میں رہتے ہیں۔ شرجیل میمن صاحب! آپ ایڈمنسٹریشن کے حوالے سے کافی اصول پسند ہیں، آپ کی پچھلی وزارتوں کو عوام نے بہت پسند کیا ہے آپ ٹریفک قوانین کو سخت کریں خاص طور پر داداگیر 70 فیصد موٹرسائیکل سوار جنھوں نے اس شہر کے سکون کو تہس نہس کر دیا ہے آپ پہلی فرصت میں موٹرسائیکل سوار کو آگے اور پیچھے نمبر پلیٹ لگانے کا قانونی آرڈر دیں جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے جاری ہوں، 40 فیصد موٹرسائیکل والے تو بغیر نمبر پلیٹ کے گاڑیاں چلا رہے ہیں۔
آپ انھیں ٹیکس اور نمبر پلیٹ، لائسنس کا پابند کریں۔ آپ کو حیرت ہوگی کہ آپ کے اس سخت اعلان کے بعد میں دعویٰ سے کہہ رہا ہوں ایک ایک تھانے کے باہر صرف لائسنس کے لیے ہزاروں موٹر سائیکلیں روزانہ کی بنیاد پر آئیں گی اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ قانون پر عملدرآمد ہوگا، دوسرا سندھ حکومت کو اس مد میں کروڑوں روپے ملیں گے جس سے وزیر اعلیٰ اور وزرا سندھ کے مسائل آسانی سے پورے کریں گے انھیں پابند کیا جائے کہ موٹرسائیکلوں پر انڈیکیٹر لگائیں اور موڑنے سے پہلے انڈیکیٹر دیں۔
یقین کریں گاڑیاں استعمال کرنیوالے بہت زیادہ مایوسی کا شکار ہیں۔ آپ نے ماضی میں بھی اپنی وزارتوں میں بہت خوبصورت فیصلے کیے ہیں، قانون بنائیں کہ چنگ چی، موٹرسائیکل، برف کی گاڑیاں، دودھ کی گاڑیاں لازمی ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی نمبر پلیٹ گاڑیوں میں لگائیں لاقانونیت کی ان لوگوں نے حد کردی ہے، رات میں منچلوں نے اپنی گاڑیوں میں ہیڈ لائٹ سفید رنگ کی لگا رکھی ہے چونکہ سامنے کچھ نظر نہیں آتا اس سے اکثر حادثے ہوتے ہیں اور بے قصور لوگ ان دادا گیروں کے نقصان کے پیسے ادا کرتے ہیں۔
لاقانونیت کی وجہ سے بیس ہزار کی بائیک والا (سیکنڈ ہینڈ) 40 لاکھ کی گاڑی رکھنے والے کو دھمکیاں دیتا ہے جب اور بائیک والے جمع ہو جاتے ہیں تو مارپیٹ بھی شروع کردیتے ہیں خدارا ہر گاڑی جو شہر میں رواں دواں ہے اسے نمبر پلیٹ کا پابند کریں جو ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کی جانب سے جاری کی گئی ہوں، موٹرسائیکل کے پیچھے ٹھیلا لگا دیا گیا اس میں زیادہ تر آپ کو سامان لوڈ کرنے والے ملیں گے، موٹرسائیکل کو سامان اٹھانے والی گاڑی بنانا غیر قانونی ہے۔
70 فیصد بائیک والوں نے اس شہر کا حسن تہس نہس کردیا ہے اب گاڑی چلانیوالے ان سے اتنے خوفزدہ ہوگئے ہیں کہ وہ انھیں راستہ دیتے ہیں اور خود کھڑے ہو جاتے ہیں۔ خدارا اس تحریر کو اصلاح کے طور پر لیں سب سے پہلے آپ لائسنس کاغذات کے حوالے سے انھیں پابند کریں۔ آپ کو یقین نہیں آئے گا جن کے پاس لائسنس اور کاغذات مکمل ہوں گے۔
ان کی تعداد 30 فیصد ملے گی وہ بھی عمر رسیدہ افراد کے پاس موٹرسائیکلوں کو پابند کریں کہ وہ انڈیکیٹر لگائیں اور قوانین پر سختی سے عمل کروائیں پولیس بے قصور ہے ایک چوک پر 2 پولیس والے ہوتے ہیں جب کہ موٹرسائیکل والے دن میں لاقانونیت کے حوالے سے ہزاروں گزرتے ہیں اس میں پولیس بے چاری کیا کرے گی۔
تمام ٹرانسپورٹ کو پابند کریں کہ وہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے واجبات ادا کریں موٹرسائیکل والے کاغذات اور لائسنس اپنے نام سے بنوائیں، گاڑیوں والے تو ملک کو ٹیکس دیتے ہیں یہ کیا دیتے ہیں؟ 70 فیصد موٹرسائیکل والے چنگ چی، برف کی گاڑیاں، یہ ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ میری گزارش ہے جناب شرجیل میمن سے کہ آپ اس پر توجہ دیں اس سے خطیر رقم آئے گی۔