ٹی بی سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے
ٹی بی کا جرثومہ ہزاروں برس پہلے غالباً جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا
کل تپِ دق کا عالمی دن (چوبیس مارچ) تھا۔ یہ دن انیس سو بیاسی سے منایا جا رہا ہے کیونکہ تب سے سو برس قبل (اٹھارہ سو بیاسی) عین اسی دن جرمن ڈاکٹر رابرٹ کوچ نے وہ بکٹیریا دریافت کرنے کا اعلان کیا تھا جو ٹی بی کا سبب بنتا ہے۔تب تک امریکا اور یورپ میں ہر ساتویں موت ٹی بی سے ہوتی تھی۔
یورپ میں سن سولہ سو سے اٹھارہ سو کے درمیانی دو سو برس میں پچیس فیصد اموات کا ذمے دار یہی بکٹیریا تھا جسے یورپ میں سفید طاعون کہا جاتا تھا۔
ٹی بی کا جرثومہ ہزاروں برس پہلے غالباً جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا۔امریکا میں ایک بائسن کے انیس ہزار برس پرانے ڈھانچے میں ٹی بی کے آثار پائے گئے۔جب کہ مشرقی بحیرہ روم کے علاقے میں ملنے والے ایک نو ہزار برس قدیم انسانی ڈھانچے میں ٹی بی کے آثار ملے ہیں۔
ایک مخصوص اسکن ٹیسٹ (پی پی ڈی)، بلڈ ٹیسٹ اور ایکسرے کی مدد سے ٹی بی کی درست تشخیص ممکن ہے۔انیس سو اکیس میں ٹی بی سے تحفظ کی ویکسین (بی سی جی) تیار کر لی گئی۔یہ عموماً پانچ برس تک کی عمر کے بچوں کو لگائی جاتی ہے۔ ویکسین لگوانے کے باوجود کسی بھی شبہ کی صورت میں ٹی بی کے مروجہ ٹیسٹ کروانا زیادہ بہتر ہے۔
اگرچہ اب ٹی بی ناقابلِ علاج نہیں رہی۔ ایک زمانے میں مریضوں کو کھلی ہوا اور بہتر نگرانی کے لیے سینی ٹوریمز میں رکھا جاتا تھا۔اب گھر پے بھی علاج ممکن ہے اور علاج کی مدت بھی نو ماہ سے کم ہو کے چار سے چھ ماہ رہ گئی ہے۔بس اس دوران قریبی لوگوں کو مریض سے میل جول میں ضروری احتیاط برتنا ہوتی ہے۔
موثر علاج دریافت ہونے کے باوجود آج بھی کوویڈ کے بعد ٹی بی سب سے تیزی سے پھیلنے والا متعدی مرض ہے اور عالمی سطح پر تیرہ فیصد اموات کا سبب ہے۔ہر برس ایک سے سوا کروڑ زن و مرد و طفل اس بکٹیریا کی زد میں آتے ہیں۔ پولیو سے دنیا جزوی اور چیچک سے کلی طور پر پاک ہونے کا دعوی کرتی ہے۔ مگر ٹی بی کے بارے میں ایسا دعوی کوئی ملک نہیں کر سکتا۔
ہر ایک لاکھ انسانوں میں ٹی بی کے اوسطاً ایک سو پینتیس مریض پائے جاتے ہیں۔ان میں سے تریسٹھ فیصد مریض ایشیا و بحرالکاہل کے علاقے میں، تئیس فیصد افریقہ ، آٹھ فیصد مشرقی بحیرہ روم کے ممالک، تین فیصد براعظم شمالی و جنوبی امریکا اور دو اعشاریہ دو فیصد یورپ میں ہیں۔
تیس ممالک میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد بقیہ ایک سو پینسٹھ ممالک کی نسبت زیادہ ہے۔البتہ دو ہزار اکیس میں دو تہائی سے زیادہ مریض جن آٹھ ممالک میں پائے گئے ان میں چھ ایشیائی اور دو افریقی ممالک ہیں۔سرِ فہرست بھارت ( اٹھائیس فیصد )، انڈونیشیا ( نو اعشاریہ دو فیصد ) ، چین (سات اعشاریہ چار فیصد ) ، فلپینز (سات فیصد )، پاکستان ( پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد)، نائجیریا (چار اعشاریہ چار فیصد ) ، بنگلہ دیش ( تین اعشاریہ چھ فیصد ) اور کانگو ( دو اعشاریہ نو فیصد )۔
دو ہزار دو تا بیس کے دورانیے میں چھیاسٹھ ملین افراد کو ٹی بی کے چنگل سے چھڑوایا گیا۔ اقوامِ متحدہ کا ہدف ہے کہ دو ہزار تیس تک ٹی بی کے کیسز نصف رھ جائیں مگر اس کے لیے تشخیص و علاج کی سہولتیں عام کرنے کی مد میں لگ بھگ پندرہ ارب ڈالر سالانہ درکار ہیں۔
کوویڈ اور یوکرین روس جنگ کے اثرات سے ادھ موئی معیشتیں شاید یہ ہدف اگلے سات برس میں حاصل نہ کر سکیں۔البتہ اچھی خبر یہ ہے کہ دو ہزار پندرہ کے بعد سے ٹی بی کے نئے کیسز میں سالانہ ڈیڑھ سے دو فیصد کمی دیکھی جا رہی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ ٹی بی کا جرثومہ پھیھپڑوں پر حملہ کرتا ہے اور مریض کی کھانسی ، چھینک یا تھوک کے سبب یہ جرثومہ آس پاس کے لوگوں کو لگ سکتا ہے۔اس اعتبار سے دنیا کی پچیس فیصد آبادی میں ٹی بی کا جرثومہ پایا جاتا ہے مگر ان میں سے صرف آٹھ سے دس فیصد کو ہی متحرک ٹی بی کا خطرہ ہے۔باقی آبادی میں یہ جرثومہ جسمانی قوتِ مدافعت کے سبب دبا رہتا ہے۔جو لوگ زیادہ خطرے میں ہیں ان میں ایچ آئی وی سے متاثر افراد، ناکافی غذائیت کے شکار لوگ، ذیابطیس کے متاثرین اور تمباکو نوش شامل ہیں۔
ٹی بی کی موٹی موٹی علامات کھانسی ، بلغم میں کبھی کبھار خون آنا ، ہلکا بخار ، سینے میں درد ، رات کو اکثر پسینہ آنا اور وزن میں بتدریج کمی شامل ہے۔ ابتدائی مہینوں میں ان علامات کی شدت کم ہوتی ہے لہٰذا مریض اور اکثر ڈاکٹر بھی تشخیصی عمل میں تاخیر کر دیتے ہیں۔اس دوران مریض سال بھر میں اپنے آس پاس کے پانچ سے پندرہ لوگوں میں یہ بکٹیریا منتقل کر سکتا ہے۔
اگر بروقت علاج نہ ہو تو پینتالیس فیصد مریض ٹی بی سے مر سکتے ہیں۔جب کہ ایچ آئی وی سے متاثر لوگوں کو ٹی بی سو فیصد ہلاک کر سکتی ہے۔کیونکہ ایسے مریضوں کو ٹی بی لگنے کا خطرہ عام لوگوں کے مقابلے میں سولہ گنا زائد ہے۔ناکافی غذائیت کے شکار لوگوں کو ٹی بی کا خطرہ ساڑھے تین گنا زیادہ ہے۔بچوں میں ٹی بی کی علامات دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔
ٹی بی کے علاج میں چار طرح کی اینٹی مائیکروبل دوائیں ایک ساتھ ایک تربیت یافتہ ہیلتھ ورکر کی نگرانی میں دی جاتی ہیں تاکہ بھول چوک سے بچا جا سکے۔اگر علاج نامکمل رہ جائے تو پھر ٹی بی کے جرثومے کو مارنے کے لیے زیادہ طاقت ور دوائیں استعمال کرنا پڑتی ہیں جن کے اثرات جسمانی مدافعتی نظام پر بھی پڑتے ہیں۔
غفلت کے سبب جڑ پکڑنے والی مزاحمتی ٹی بی (ایم ڈی آر ) کے بکٹیریاز کو مارنے میں نو ماہ کی کیمو تھراپی اور بیس ماہ تک دوائیں کھانا پڑتی ہیں۔ اب یہ فیصلہ مریض کو کرنا ہے کہ وہ ٹی بی کا باقاعدہ علاج چار سے چھ ماہ کے دوران کروانا چاہتا ہے یا غفلت اور بھول چوک کی قیمت بیس ماہ میں ادا کرنا چاہتا ہے۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)