غیر یقینی سیاست کا ماحول

اپنی سیاست اورجمہوریت کے عمل کو لوگوں بالخصوص کمزور افراد کے مفادات کے ساتھ جوڑنا ہوگا

salmanabidpk@gmail.com

آپ کسی بھی علمی، فکری، سیاسی یا سماجی مجلس میں جائیں تو ایک ہی سوال اٹھتا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں یا اس ملک کے سیاسی حالات درست سمت میں آگے بڑھ سکیں گے ؟ عمومی طور پر لوگوں میں موجودہ حالات کے بارے میں جہاں مایوسی پائی جاتی ہے وہیں غیر یقینی کیفیت پر مبنی صورتحال نے لوگوں کو پریشان یا خوف میں مبتلا کردیا ہے۔

ایک ہی سوال بار بار پوچھا جاتا ہے کہ کیا واقعی ہمارے سیاسی , سماجی اور معاشی سطح کے مسائل حل ہوسکیں گے تو جواب نفی میں ملتا ہے یا جواب دینے والوں کے بقول ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ آگے کیا کچھ ہونے والا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ قومی سطح پر سازشوں کا کھیل ہے جس کے تانے بانے پس پردہ طاقتور یا فیصلہ سازی سے جڑے افراد کے ہاتھ میں ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں میں ملک کے مستقبل کے حوالے سے تشویش ہے مگر سوال یہ ہے کہ اس تشویش کا علاج کیا ہے اور جو تحفظات ہیں ان کو کس سے پوچھا جائے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ جب طاقت ور افراد یا بااختیار لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ بھی بہت سے سوالوں کے جوابات دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کے بقول جو کچھ ہورہا ہے اس پر ہم ویسے ہی رنجیدہ یا فکر مند ہیں جیسے کوئی عام پاکستانی ہیں۔

کیونکہ یہاں فیصلہ سازی کی سطح پر ہم لوگوں کو بھی لاتعلق کردیے گئے ہیں ۔ جب ہم خود کو نظرانداز کرنے کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہم بھی اپنے سے بڑوں کے فیصلوں کے سامنے بے بس ہیں ۔یعنی ایسے لگتا ہے کہ جیسے ملک کو وہ لوگ نہیں چلارہے جن کو چلانا تھا ۔

بظاہر ملک کے فیصلوں کا کھیل ایک کٹھ پتلی کے کھیل کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے اور یہ طے کرلیا گیا کہ ملک کو چلانے کی ذمے داری بھی ان کی اپنی ہے۔ ہمارے یہاں جس انداز سے ملک،آئین یا قانون سمیت سیاست وجمہوریت کو چلایا جارہا ہے، وہ ریاستی یا قومی مفاد کے مقابلے میں لوگوں کے ذاتی مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر حکمرانی کا بحران سنگین ہوتا جارہا ہے اور خود طاقت ور افراد یا اداروں میں بھی گورننس کے بحران تشویش پائی جاتی ہے ۔عام آدمی کا مقدمہ نہ صرف کمزور بلکہ اس کو سیاسی ,سماجی او رمعاشی طور پر تنہا کر دیا گیا ہے۔ان حالات میں اگر لوگ مایوس ہیں اورنوجوان ملک چھوڑ کر باہر جارہے ہیں یا باہر جانا چاہتے ہیں تو یہ فطری امر ہے۔

وہ لوگ جو ملک میں بہتری پیدا کرنا چاہتے ہیں یا ان کے پاس موجودہ حالات میں بہتری کا متبادل ایجنڈا ہے ان کی کسی بھی سطح پر کوئی پزیرائی نہیں دی جارہی ۔ بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ایسے لوگوں کو جو نظام کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ان کو ریاستی یا حکومتی اموریا فیصلہ سازی کے امور سے دور رکھا گیا ہے۔اس کے مقابلے میں ایسے لوگ ریاستی یا حکومتی طاقت کا حصہ ہیں جو طاقت ور طبقات کے مفادات کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی مفادات کی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں ۔

قومی ترجیحات کے تعین میں جو ایک بڑا خلا موجود ہے اس کے نتیجہ میں ہم وہ کچھ کررہے ہیں جو ہمیں نہیں کرنا چاہیے او رجو کچھ کرنا چاہیے وہ اس وقت ہماری ترجیحات کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ پالیسی سازی ,قانون سازی اور بڑے بڑے سیاسی نعروں کے کھیل میں '' عملدرآمد کا نظام '' اپنی اہمیت ,افادیت,شفافیت یا ساکھ کو کھو چکا ہے۔پڑھا لکھا طبقہ حالات کو بدلنے کا ایک منصوبہ بھی رکھتے ہیںاورجب وہ اپنی تجاویز سامنے رکھتے ہیں تو پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ '' بلی کے گلے میں گھنٹی'' کون باندھے گا؟ یہ کیفیت بے بسی کی بھی عکاسی کرتی ہے۔

آپ کچھ بولتے ہیں یا لکھتے یا آواز اٹھاتے ہیں تو سوال یہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کی کون سنے گا۔ یعنی ریاست, حکمران او رادارہ جاتی ایجنڈے اور پڑھے لکھے یا تبدیلی کے خواہش مند سوچنے سمجھنے والے افراد یا اداروں میں ایک واضح خلیج موجود ہے۔ سیاست اور جمہوریت کا عمل قوم میں آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کرتا ہے جب کہ یہاں سیاست اورجمہوریت لوگوں کو بند گلی میں دکھیل رہی ہے ۔


بنیادی طور پر کامیاب ریاست,حکومت اور گورننس کا کامیاب تجربہ کامیاب لوگوں یا صلاحیت والے لوگوں کے ساتھ ہی جڑا ہوتا ہے۔قومی سطح پر قیادت کا بحران بنیادی نقطہ ہے۔ اس میں صرف سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ کی قیادت شامل ہے جو عملی طو رپر قیادت کا وہ حق ادا نہیں کرسکا جو اس کی بنیادی ذمے داری بنتی تھی۔ہم عملا قیادت کے تناظر میں سیاسی بونوں یا چھوٹے لوگو ں کی قید میں ہیں۔

وہ لوگ جو اہلیت ہی نہیں رکھتے وہ مختلف شعبوں میں ہماری قیادت کررہے ہوتے ہیں۔یہ قیادتیں کیسے پیدا ہوتی ہے اورکون ان کو پیدا کرتا ہے یعنی قیادتوں کو پیدا کرنے کی پوری مشین ہی خرابی یا بدنیتی یا بدعنوانی کا شکار ہے۔جب معاشروں کو میرٹ کے مقابلے میں ذاتی دوستیوں یا اقرا پروریوں کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو یہ ہی کچھ ہوگا جو ہمیں ریاستی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے۔

اداروں کے مقابلے میں افراد کی حکمرانی کا نظام ہمیں آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے کی طرف دکھیل رہا ہے۔کیونکہ افراد کے مقابلے میں ریاست اور ادارے کمزور ہوگئے ہیں یا یہ طاقت ور لوگوں کے سامنے بے بس یا لاچارگی کا شکار ہیں ۔

ہماری سیاست,جمہوریت اور ریاست سے جڑے اداروں یا حکمرانی کے نظام کی بنیادی کنجی جو کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے وہ عام آدمی کو ملنے والی طاقت کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر ریاست ,حکومت او رشہریوں کے درمیان خلیج بڑھے گی اور ان میں ایک دوسرے کے بارے میں لاتعلقی یا بداعتمادی بڑھے گی تو پھر ریاستی نظام کی ساکھ کیسے قائم ہوسکے گی۔

ہمارا یہ تماشہ محض پاکستان کے داخلی نظام تک محدود نہیں بلکہ ہم تو خود عالمی دنیا میں بھی اپنی حرکتوں کی وجہ سے تماشہ بنے ہوئے ہیں۔ایک ذمے دار معاشرے یا ریاست کی کہانی ہی ہمیں دنیا میں سب کے سامنے قابل قبول بناسکتی ہے۔ لیکن ہم خود مسائل پیدا کرتے ہیں اور پھر ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے ان میں اور زیادہ بگاڑ پیدا کرنے کا ہنتر بھی رکھتے ہیں۔

پوری سیاست، جمہوریت، قانون، انتظامی یا معاشی ڈھانچوں میں جو خرابیاں ہم نے پیدا کی ہیں وہی ہمیں آج کی دنیا میں جدید طریقے سے آگے بڑھنے سے روک رہی ہیں۔ ایک طبقاتی معاشرہ ہمارے سامنے موجود ہے جہاں طاقت ور اور کمزور لوگوں کو عملا مختلف بنیادوں پر نمٹا جاتا ہے جو مزید طبقاتی سوچ کی سیاست کو نمایاں کرتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کیسے بدلے گا او رکیسے درست سمت میں آگے بڑھے گا بنیادی نوعیت کا سوال ہے کیونکہ جس سیاست او رجمہوریت یا ملکی آئین اور قانون کو بنیاد بنا کر ہم نے آگے بڑھنا تھا وہ ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں۔

اس لیے قومی سطح پر ایک بڑی سیاسی اور سماجی تحریک کی ضرورت ہے جو لوگوں کو سمجھا سکے کہ روائتی طور پر چلنے والی سیاست اورجمہوریت کا کھیل ان کو کچھ نہیں دے سکے گا۔بنیادی سوال یہ ہے کہ ہم کیسے ایک بڑے دباو کی سیاست پیدا کرسکتے ہیں جو فیصلہ کرنے والوں کو مجبور کرسکے کہ وہ اپنے فرسودہ طریقوں سے باہر نکل کر فیصلہ کن کردار ادا کریں ۔

ان میں ہمارے نوجوان ایک کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ان کے پاس ابلاغ کے نئے نئے طریقے ہیں اور اپنی بات کو وہ مثبت طور پر سب کے سامنے منظم انداز میں رکھ سکتے ہیں۔ اگر ہم نے واقعی پاکستان کو بدلنا ہے تو ہمیں ایک بڑے پیمانے پر بہت کچھ تبدیل کرنا ہے ۔

اس کی ایک شکل یہ ہوگی کہ طاقت ور لوگ خود کو آئین اور قانون کے تابع کریں اور خود کو ہر معامالات میں جوابدہ بنائیں ۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ریاست پوری قوم کو تو جوابدہ بنانا چاہتی ہے مگر خود لوگوں کے سامنے جوابدہ بنانے کے لیے تیار نہیں۔ جو بھی حکمرانی کا نظام قومی سطح پر ایک مخصوص طبقہ کے مفادات کے تحت بنایا جائے گا یا اسے چلایا جائے گا وہ اپنی اہمیت زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتا۔

لوگوں کو ہم نے اگر واقعی سیاست اورجمہوریت کے ساتھ جوڑنا ہے تو اپنی سیاست اورجمہوریت کے عمل کو لوگوں بالخصوص کمزور افراد کے مفادات کے ساتھ جوڑنا ہوگا ۔ یہ ہی عمل ہمیں دنیا میں مہذہب اور ذمے دارریاست کے طور پر پیش کرسکے گا ۔
Load Next Story