کراچی اغوا برائے تاوان میں ملوث اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

پولیس اہلکاروں نے شہریوں کو حراست میں لے کر پچاس لاکھ روپے تاوان طلب کیا تھا، مقدمہ متن

(فوٹو فائل)

شہر قائد کے علاقے نارتھ ناظم آباد پولیس اسٹیشن کی چھت سے تاوان کیلیے اغوا کیے گئے تین شہریوں کو بازیاب کروا کے ساتھی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق نارتھ ناظم آباد پولیس نے نے اپنے ہی تھانے کی چھت سے بازیاب کیے گئے 3 شہریوں کو اغوا کر کے تاوان وصول کرنے کا مقدمہ نمبر 94 سال 2023 درج کرلیا ، مقدمہ اغوا برائے تاوان ور دیگر دفعہ کے تحت مغوی کے کزن محمد سخاوت کی مدعیت میں درج کیا گیا۔

مقدمے کے متن کے مطابق مدعی نے بتایا کہ وہ قائد آباد کا رہائشی اور پراپرٹی کا کام کرتا ہے، عصمت تنولی میرا رشتے دار اور پھوپھی زاد بھائی اور خالد آباد کا رہائشی ہے جبکہ سلیم اور شعیب عصمت تنولی کے دوست ہیں ، 22 مارچ کی شام چار بجے کے قریب میرے موبائل فون پر عصمت کے موبائل فون سے کال آئی کہ عصمت ہمارے پاس ہے اور 50 لاکھ روپے لیکر عبداللہ کالج آجاؤ۔

مدعی کے مطابق میں وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ اس بات کو چھوڑو ، پیسوں کا انتظام کر کے آجاؤ یہ کہہ کر سامنے والے نے فون بند کر دیا ، تھوڑی دیر کے بعد ان کی کالز آتی رہیں اور بارگینگ کرتے ہوئے 4 لاکھ روپے بات طے ہوئی۔ مدعی سخاوت کے مطابق اس کے بعد میں نے عصمت کے بھائی آصف کے ہمراہ موٹر سائیکل پر عبداللہ کالج 4 لاکھ روپے لیکر رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب پہنچے جہاں ان لوگوں نے ہمیں مہران ہوٹل شارع فیصل اور بعد میں ابراہیم حیدری کورنگی بلوالیا جس کے بعد ہمیں فون کر کے حیدری نارتھ ناظم آباد بلوایا۔

سخاوت کے مطابق تنگ آکر میرے ہمراہ موجود آصف نے مدد گار 15 پر رات ساڑھے دس بجے کال کی تو ہمیں شاہ لطیف ٹاؤن تھانے سے کال آئی جنھوں نے ہم سے تمام صورتحال معلوم کی اور بعد میں اینٹی وائلنٹ کرائم سیل ( اے وی سی سی) سے فون آیا اور ہمیں انھوں ںے اپنے آفس گارڈن بلوایا جس کے بعد ہم وہاں چلے گئے اور انھیں تمام صورتحال سےآگاہ کیا بعدازاں اے وی سی سی پولیس ہمارے ساتھ رہے اور عصمت کے موبائل فون نمبر اور ایک دوسرے نمبر جو کہ عصمت کے دوست سلیم کا تھا اس سے ہمیں کال آتی رہیں۔


بعد ازاں انھوں نے ہمیں تھانہ نارتھ ناظم آباد کی چھت پر بلوایا اور اغوا کاروں کا ایک ساتھی تھانے سے باہر آیا اور ہمیں سیدھا تھانے کی چھت پر لے گیا جہاں میں نے ان میں سے ایک شخص کو 4 لاکھ روپے دیئے ، اسی دوران ہمارے ساتھ آئی ہوئی اے وی سی سی پولیس ٹیم نے چھاپہ مار کر میرے کزن اور اس کے 2 دوستوں کو بازیاب کرلیا اور میری دی ہوئی تاوان کی رقم بھی برآمد کرلی۔

مدعی مقدمہ کے مطابق بازیابی کے بعد میرے کزن عصمت نے بتایا کہ 22 مارچ کی رات 11 بجے کسی قادر نامی شخص کا میرے کزن عصمت کے موبائل فون پر کال آئی جو کہ سہراب گوٹھ کا رہائشی اور افغانی ہے جس نے کالے بچھو کا سودا کرنے نارتھ ناظم آباد بلاک اے دلپسند بلوایا ، عصمت اور اس کے دوست سلیم اور شعیب اپنی کرولا کار پر دلپسند پہنچے تو قادر نامی شخص موجود نہیں تھا اس نے اپنے کسی بندے کو بھیجا جو کہ ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھا اور ہماری گاڑی پیٹرول پمپ والی گلی میں لے گیا اور ہوٹل کے پاس گاڑی روکی۔

مغوی کے مطابق اسی دوران 3 افراد جس میں دو شلوار قمیض اور ایک پینٹ شرٹ میں آئے اور زبردستی ہماری گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی کے پاس 2 موٹر سائیکلوں پر 4 افراد آئے جن کے پاس اسلحہ تھا، وہ ہماری گاڑی کے ساتھ چلتے رہے جبکہ گاڑی میں موجود افراد نے ہمیں مارنا شروع کر دیا، اس کے بعد ہماری آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر کسی دوسری گاڑی میں بیٹھا کر ایک ڈیڑھ گھنٹہ گھماتے اور ہم پر تشدد کرتے رہے جس کے بعد وہ ہمیں نارتھ ناظم آباد تھانے کی چھت پر لے آئے اور ہمیں دوبارہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے ہم سے 50 لاکھ روپے کی ڈیمانڈ کی اور دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ 20 مارچ کو ہمارا بچھو چوری ہوا ہے اور بچھو کے بارے میں معلومات لیتے رہے جبکہ انہی لوگوں کے پاس 5 ہزار والے جعلی نوٹ تھے جو کہ ہماری گاڑی میں رکھ کر ہماری ویڈیو بنائی کہ یہ جعلی کرنسی تم سے برآمد ہوئی ہے اور میرے ہمراہ دوست شعیب عرف ڈاکٹر کی بھی ویڈیو بنائی جبکہ ان کے پاس 4 افراد پہلے سے پکڑے ہوئے تھے۔

اغوا کاروں نے شعیب سے کہا کہ تم کہو کہ پیسے ان کے ہیں ، مدعی کے مطابق میرا کزن عصمت سب اشخاص کی چہرے پہچان سکتا ہے جن میں ایک کا نام محبوب کلہوڑو تھا جبکہ دیگر اغوا کاروں کے نام مختار ، اسد رضا ، محمد آصف ، کاشف اور محمد علی تھے۔ جبکہ محمد علی خود کو صحافی بتاتا ہے اور اس سارے کام کا ماسٹر مائنڈ ہے جبکہ مختار اور محمد علی کا آپس میں تعلق ہے۔

مدعی کے مطابق میرے کزن عصمت نے بتایا کہ کچھ دیر پہلے ایس ایچ او معید آیا اور ان لوگوں کو کہا کہ اس معاملے کو جلد از جلد نمٹاؤ۔
Load Next Story