عوام مہنگی اشیاء کا بائیکاٹ کریں گورنر سندھ کی اپیل
لوگ آخر کب تک ظلم برداشت کرتے رہیں گے؟، گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس
گورنرسندھ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سرکاری ریٹ سے زائد قیمت پر فروخت ہونے والی اشیاء مت خریدیں اور ان کا بائیکاٹ کریں۔
گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کامران ٹیسوری نے کہا کہ لوگ اپنی آواز اٹھائیں، آخر کب تک ظلم برداشت کرتے رہیں گے، کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز اپنے دفاتر سے باہر نکلیں اور مہنگائی کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیں، میں خود بھی روزانہ کی بنیاد پر بازاروں کا دورہ کروں گا، عوام بھی زائد نرخ پر فروخت ہونے والی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔
کامران ٹیسوری نے کہا پورا ملک ہی مہنگائی میں ڈوبا ہوا ہے، منافع خوروں کے خلاف ماہ صیام میں سخت اقدامات ضروری ہیں، وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھوں گا کہ سرکاری ملازمین، میڈیا اور پرائیویٹ ادارے 35 فیصد تنخواہیں بڑھائیں کیونکہ اس وقت لوگ بڑی مشکل میں ہیں۔
کامران ٹیسوری نے کہا کل میں نے اچانک ایمپریس مارکیٹ کا دورہ کیا اور وہاں پر موجود ایک شخص سے پوچھا تواس نے بتایا کہ اس کو 35 روپے کے بجائے 70 روپے فی کلو آلو ملے ہیں، دکاندار سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سامان ہی مہنگا ملا ہے یہ شہر قائد کے لوگوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، میں نے ایک ایساشخص بھی دیکھا جس کے شاپر میں ایک سیب دو کیلے اور کچھ اور تھا جب پوچھا تواس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
انہوں نے کہا کہ اگرعملدرآمد نہیں کرواسکتے تو ریٹ لسٹ بنانے کا کیا فائدہ ہے؟۔ اس وقت دو، دو، ڈھائی ڈھائی ہزارروپے گوشت فی کلو بک رہا ہے، لگتا ہے کہ اب خوف خدا ختم ہوگیا ہے اس لئے ہدایت کررہا ہوں کہ افسران گھروں میں نہ بیٹھیں بلکہ بازاروں میں ریٹ لسٹ چیک کریں اور مقررہ قیمت پر اشیاء کی فروخت یقینی بنائیں۔
گورنر سندھ نے کہا کہ بازار میں اس وقت چھوٹے سے چھوٹا کیلا 300 روپے فی درجن بک رہا ہے جبکہ فہرست میں اس کے نرخ 150 روپے واضح ہیں اسی طرح سبزیوں کے نرخ بھی فہرست سے دگنے وصول کئے جارہے ہیں، اس وقت ہر چیز آسمان سے باتیں کررہی ہے جو عوام کے ساتھ ظلم ہے، پوری انتظامیہ ہوش کے ناخن لے۔
مجھے کہا گیا کہ گورنر ہاﺅس میں افطار کروارہے ہو اور یہ کام تو سیلانی بھی کررہا ہے، میں نے انہیں جواب دیا کہ پہلے گورنرہاﺅس کے دروازے امراء کے لئے کھولے جاتے تھے لیکن اب عوام کے لئے کھولے گئے ہیں یہاں فیملیز آتی ہیں وہ بڑی گاڑیوں میں نہیں بلکہ پیدل چل کر آرہے ہوتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر 5 سے 6 ہزار افراد افطار کرنے آتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر سندھ نے کہا کہ مجھے سول ایوارڈ کے لئے پانچ سال پہلے نامزد کیا گیا تھا۔
گورنر ہاؤس میں پریس کانفرنس سے خطاب میں کامران ٹیسوری نے کہا کہ لوگ اپنی آواز اٹھائیں، آخر کب تک ظلم برداشت کرتے رہیں گے، کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز اپنے دفاتر سے باہر نکلیں اور مہنگائی کے خلاف سخت سے سخت ایکشن لیں، میں خود بھی روزانہ کی بنیاد پر بازاروں کا دورہ کروں گا، عوام بھی زائد نرخ پر فروخت ہونے والی اشیاء کا بائیکاٹ کریں۔
کامران ٹیسوری نے کہا پورا ملک ہی مہنگائی میں ڈوبا ہوا ہے، منافع خوروں کے خلاف ماہ صیام میں سخت اقدامات ضروری ہیں، وزیراعلیٰ سندھ کو خط لکھوں گا کہ سرکاری ملازمین، میڈیا اور پرائیویٹ ادارے 35 فیصد تنخواہیں بڑھائیں کیونکہ اس وقت لوگ بڑی مشکل میں ہیں۔
کامران ٹیسوری نے کہا کل میں نے اچانک ایمپریس مارکیٹ کا دورہ کیا اور وہاں پر موجود ایک شخص سے پوچھا تواس نے بتایا کہ اس کو 35 روپے کے بجائے 70 روپے فی کلو آلو ملے ہیں، دکاندار سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہمیں سامان ہی مہنگا ملا ہے یہ شہر قائد کے لوگوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، میں نے ایک ایساشخص بھی دیکھا جس کے شاپر میں ایک سیب دو کیلے اور کچھ اور تھا جب پوچھا تواس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔
انہوں نے کہا کہ اگرعملدرآمد نہیں کرواسکتے تو ریٹ لسٹ بنانے کا کیا فائدہ ہے؟۔ اس وقت دو، دو، ڈھائی ڈھائی ہزارروپے گوشت فی کلو بک رہا ہے، لگتا ہے کہ اب خوف خدا ختم ہوگیا ہے اس لئے ہدایت کررہا ہوں کہ افسران گھروں میں نہ بیٹھیں بلکہ بازاروں میں ریٹ لسٹ چیک کریں اور مقررہ قیمت پر اشیاء کی فروخت یقینی بنائیں۔
گورنر سندھ نے کہا کہ بازار میں اس وقت چھوٹے سے چھوٹا کیلا 300 روپے فی درجن بک رہا ہے جبکہ فہرست میں اس کے نرخ 150 روپے واضح ہیں اسی طرح سبزیوں کے نرخ بھی فہرست سے دگنے وصول کئے جارہے ہیں، اس وقت ہر چیز آسمان سے باتیں کررہی ہے جو عوام کے ساتھ ظلم ہے، پوری انتظامیہ ہوش کے ناخن لے۔
مجھے کہا گیا کہ گورنر ہاﺅس میں افطار کروارہے ہو اور یہ کام تو سیلانی بھی کررہا ہے، میں نے انہیں جواب دیا کہ پہلے گورنرہاﺅس کے دروازے امراء کے لئے کھولے جاتے تھے لیکن اب عوام کے لئے کھولے گئے ہیں یہاں فیملیز آتی ہیں وہ بڑی گاڑیوں میں نہیں بلکہ پیدل چل کر آرہے ہوتے ہیں روزانہ کی بنیاد پر 5 سے 6 ہزار افراد افطار کرنے آتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں گورنر سندھ نے کہا کہ مجھے سول ایوارڈ کے لئے پانچ سال پہلے نامزد کیا گیا تھا۔