مکی آرتھر نے ساتھ کام کرنے کی پیشکش کی ہے یاسر عرفات
ہیڈ کوچ بنانے کی بات میڈیا میں آئی، مجھے کوئی تجربہ نہیں ہے، یاسرعرفات
یاسر عرفات نے کہا کہ مجھے مکی آرتھر نے بطور بولنگ کوچ کام کرنے کی پیشکش کی ہے۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں یاسر عرفات نے کہا کہ ابھی قومی ٹیم کا کوچ بننے کی مبارک باد نہ ہی دیں تو اچھا ہے،پاکستان میں معاملات کا کچھ معلوم نہیں ہوتا،قومی ٹیم کے کھلاڑی جہازوں سے بھی اتارے گئے ہیں، مکی آرتھر نے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ بولنگ کوچ کے طور پر کام کروں، ہیڈ کوچ مقرر کرنے کی بات میڈیا میں آئی، میرے علم میں نہیں، نہ ہی مجھے اس کا کوئی تجربہ حاصل ہے۔
آن لائن کوچ کا تجربہ کامیاب رہنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں وہ ڈائریکٹر کے طور پر کام کریں گے، فیلڈ میں سرگرم ان کی ٹیم حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گی،نیوزی لینڈ کیخلاف ہوم سیریز اور دورئہ سری لنکا میں مکی آرتھر کی دستیابی کا مسئلہ ہے، کاؤنٹی سیزن ختم ہونے پر ورلڈکپ کی تیاری کیلیے وہ آجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ میری آرتھر سے کبھی رسمی ملاقات نہیں ہوئی،فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے ہی یاد دلایا آپ بگ بیش لیگ میں شرکت کررہے تھے تو ہماری گفتگو ہوئی تھی، ان کے ذہن میں تھا کہ میں لیول فور کورس کرنے والا پہلا پاکستانی کوچ ہوں،اسی لیے انھوں نے مجھے ترجیح دی، اب حتمی فیصلہ پی سی بی کا ہے۔
یاسر عرفات نے کہا کہ جب میں نے کرکٹ چھوڑی تو پہلے لیول ون اور ٹو کورس کرچکا تھا، 2017میں لیول تھری بھی پاس کرلیا،انگلینڈ میں اپنے گھر کے قریب ہی ایک کالج میں 7سال سے کام کررہا ہوں،کاؤنٹیز اور ہانگ کانگ کے ساتھ وابستہ بھی رہا۔اگر پی سی بی کے ساتھ کنٹریکٹ ہوا تو کُل وقتی ذمہ داری کے طور پر قبول کروں گا،یہ نہیں ہوگا کہ قومی ٹیم جارہی ہے تو دستیاب نہیں، آف سیزن میں بولرز کے مسائل پر کام کرنا چاہیے، اس لیے 12ماہ کا پلان ہونا مناسب رہے گا،میں آیا تو پورے عزم اور ذمہ داری کے ساتھ کام کروں گا۔
کرکٹرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹی لیگز کونظر انداز کریں
بطور بولنگ کوچ اپنے پلان کے سوال پر یاسر عرفات نے کہا کہ کھلاڑیوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے،آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت اپنے پلیئرز کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، روی چندرن ایشون اور رویندرا جڈیجا کو دیکھ لیں، کتنے عرصے سے ساتھ ہیں، کنڈیشنز موزوں ہوں تو کھلاتے اور وہ پرفارم بھی کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کام کے بوجھ کا خیال رکھنا ضروری ہے، کرکٹرز کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹی لیگز کو نظر انداز کرنا چاہیے، فارغ وقت ملے تو اپنے جسم کا خیال رکھیں، فیملی کے ساتھ رہیں،بحالی کا عمل مکمل کریں،کئی انٹرنیشنل کرکٹرز آئی پی ایل کے کنٹریکٹ تک چھوڑ دیتے ہیں۔
یاسر نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کی مثال دیکھیں،اسی طرح اسپیڈ میں بھی تسلسل ہونا چاہیے،ہمارے بولر کے پہلے اور تیسرے اسپیل میں بڑا فرق ہوتا ہے،کسی بولر کو 5دن ٹیسٹ کھیلنا ہے تو اس کی تیاری کرنا چاہیے،ہمارے پاس بہت خام ٹیلنٹ موجود مگر اسے تیار کرنا بھی ضروری ہے۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی اچھی تھی مگر ملک میں مواقع نہیں ملے
انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہنے کے سوال پر یاسر عرفات نے کہا کہ انگلینڈ میں میری شادی ہوئی، بچے بھی ہیں، ملازمت مل گئی، 2015تک پاکستان جاکر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتا رہا، 15سال کے آر ایل کی جانب سے کھیلا،آخری سال راولپنڈی کی کپتانی بھی کی،پھر سوچا کہ 20سال ڈومیسٹک کرکٹ کھیل لی، کوچنگ میں اپنی تعلیم کو مکمل کرنا چاہیے،اب اس شعبے میں آگے بڑھنا اور اعلی سطح پر کوچنگ کرنا چاہتا ہوں۔
قومی ٹیم سے نظر انداز کیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نے دنیا بھر کی لیگز میں شرکت کی، کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہا تھا، ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی اچھی تھی مگر ملک میں مواقع نہیں ملے، پی ایس ایل کیلیے بھی منتخب نہیں ہوا، میرے دور میں اظہر محمود اور عبدالرزاق جیسے آل راؤنڈرز اچھا پرفارم کررہے تھے،اظہر کو بھی زیادہ کرکٹ کھیلنے کو نہیں ملی، مواقع ملتے تو وہ زیادہ کھیل سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں پلیئرز کو زیادہ کرکٹ کھیلنے کو ملتی ہے،میں نے2007میں ٹیسٹ ڈیبیو پر 7وکٹیں لیں، رنز بھی بنائے، اس کے بعد 2 میچز کھیلنے کا موقع ملا،یہاں تو لوگ انگلینڈ میں کلب کرکٹ کھیل کر پاکستان جاکر بڑی باتیں کرتے ہیں،میں تو 13سال تک کاؤنٹی میچز کھیلا،اگر کوئی اچھا نہ ہو تو یہ لوگ دوبارہ نہیں بلاتے۔
پاکستان کرکٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ www.cricketpakistan.com.pk کو خصوصی انٹرویو میں یاسر عرفات نے کہا کہ ابھی قومی ٹیم کا کوچ بننے کی مبارک باد نہ ہی دیں تو اچھا ہے،پاکستان میں معاملات کا کچھ معلوم نہیں ہوتا،قومی ٹیم کے کھلاڑی جہازوں سے بھی اتارے گئے ہیں، مکی آرتھر نے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ بولنگ کوچ کے طور پر کام کروں، ہیڈ کوچ مقرر کرنے کی بات میڈیا میں آئی، میرے علم میں نہیں، نہ ہی مجھے اس کا کوئی تجربہ حاصل ہے۔
آن لائن کوچ کا تجربہ کامیاب رہنے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میرے خیال میں وہ ڈائریکٹر کے طور پر کام کریں گے، فیلڈ میں سرگرم ان کی ٹیم حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گی،نیوزی لینڈ کیخلاف ہوم سیریز اور دورئہ سری لنکا میں مکی آرتھر کی دستیابی کا مسئلہ ہے، کاؤنٹی سیزن ختم ہونے پر ورلڈکپ کی تیاری کیلیے وہ آجائیں گے۔
انھوں نے کہا کہ میری آرتھر سے کبھی رسمی ملاقات نہیں ہوئی،فون پر بات کرتے ہوئے انھوں نے ہی یاد دلایا آپ بگ بیش لیگ میں شرکت کررہے تھے تو ہماری گفتگو ہوئی تھی، ان کے ذہن میں تھا کہ میں لیول فور کورس کرنے والا پہلا پاکستانی کوچ ہوں،اسی لیے انھوں نے مجھے ترجیح دی، اب حتمی فیصلہ پی سی بی کا ہے۔
یاسر عرفات نے کہا کہ جب میں نے کرکٹ چھوڑی تو پہلے لیول ون اور ٹو کورس کرچکا تھا، 2017میں لیول تھری بھی پاس کرلیا،انگلینڈ میں اپنے گھر کے قریب ہی ایک کالج میں 7سال سے کام کررہا ہوں،کاؤنٹیز اور ہانگ کانگ کے ساتھ وابستہ بھی رہا۔اگر پی سی بی کے ساتھ کنٹریکٹ ہوا تو کُل وقتی ذمہ داری کے طور پر قبول کروں گا،یہ نہیں ہوگا کہ قومی ٹیم جارہی ہے تو دستیاب نہیں، آف سیزن میں بولرز کے مسائل پر کام کرنا چاہیے، اس لیے 12ماہ کا پلان ہونا مناسب رہے گا،میں آیا تو پورے عزم اور ذمہ داری کے ساتھ کام کروں گا۔
کرکٹرز کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹی لیگز کونظر انداز کریں
بطور بولنگ کوچ اپنے پلان کے سوال پر یاسر عرفات نے کہا کہ کھلاڑیوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے،آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت اپنے پلیئرز کو ساتھ لے کر چلتے ہیں، روی چندرن ایشون اور رویندرا جڈیجا کو دیکھ لیں، کتنے عرصے سے ساتھ ہیں، کنڈیشنز موزوں ہوں تو کھلاتے اور وہ پرفارم بھی کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ کام کے بوجھ کا خیال رکھنا ضروری ہے، کرکٹرز کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھوٹی لیگز کو نظر انداز کرنا چاہیے، فارغ وقت ملے تو اپنے جسم کا خیال رکھیں، فیملی کے ساتھ رہیں،بحالی کا عمل مکمل کریں،کئی انٹرنیشنل کرکٹرز آئی پی ایل کے کنٹریکٹ تک چھوڑ دیتے ہیں۔
یاسر نے کہا کہ شاہین شاہ آفریدی کی مثال دیکھیں،اسی طرح اسپیڈ میں بھی تسلسل ہونا چاہیے،ہمارے بولر کے پہلے اور تیسرے اسپیل میں بڑا فرق ہوتا ہے،کسی بولر کو 5دن ٹیسٹ کھیلنا ہے تو اس کی تیاری کرنا چاہیے،ہمارے پاس بہت خام ٹیلنٹ موجود مگر اسے تیار کرنا بھی ضروری ہے۔
ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی اچھی تھی مگر ملک میں مواقع نہیں ملے
انٹرنیشنل کرکٹ کو خیرباد کہنے کے سوال پر یاسر عرفات نے کہا کہ انگلینڈ میں میری شادی ہوئی، بچے بھی ہیں، ملازمت مل گئی، 2015تک پاکستان جاکر ڈومیسٹک کرکٹ کھیلتا رہا، 15سال کے آر ایل کی جانب سے کھیلا،آخری سال راولپنڈی کی کپتانی بھی کی،پھر سوچا کہ 20سال ڈومیسٹک کرکٹ کھیل لی، کوچنگ میں اپنی تعلیم کو مکمل کرنا چاہیے،اب اس شعبے میں آگے بڑھنا اور اعلی سطح پر کوچنگ کرنا چاہتا ہوں۔
قومی ٹیم سے نظر انداز کیے جانے کے سوال پر انھوں نے کہا کہ میں نے دنیا بھر کی لیگز میں شرکت کی، کاؤنٹی کرکٹ کھیل رہا تھا، ڈومیسٹک کرکٹ میں کارکردگی اچھی تھی مگر ملک میں مواقع نہیں ملے، پی ایس ایل کیلیے بھی منتخب نہیں ہوا، میرے دور میں اظہر محمود اور عبدالرزاق جیسے آل راؤنڈرز اچھا پرفارم کررہے تھے،اظہر کو بھی زیادہ کرکٹ کھیلنے کو نہیں ملی، مواقع ملتے تو وہ زیادہ کھیل سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں پلیئرز کو زیادہ کرکٹ کھیلنے کو ملتی ہے،میں نے2007میں ٹیسٹ ڈیبیو پر 7وکٹیں لیں، رنز بھی بنائے، اس کے بعد 2 میچز کھیلنے کا موقع ملا،یہاں تو لوگ انگلینڈ میں کلب کرکٹ کھیل کر پاکستان جاکر بڑی باتیں کرتے ہیں،میں تو 13سال تک کاؤنٹی میچز کھیلا،اگر کوئی اچھا نہ ہو تو یہ لوگ دوبارہ نہیں بلاتے۔