لمحہ فکریہ

سیاسی شخصیات کا جیل جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے، بات صرف اتنی ہے،بہادری کی بھڑکیں مارنے اور حقیقی دلیری میں فرق ہوتا ہے

بدقسمتی سے وطن عزیز کی صورتحال طویل عرصے سے تسلی بخش نہیں ہے، ملک سیاسی انتشار اور معاشی بدحالی کا شکار ہے مگر سیاسی قائدین کا اطمینان قابل دید ہے۔

ایک جانب عمران خان اقتدار میں آنے کے لیے بے چین ہیں اور عوام کو اداروں کے خلاف اکسا رہے ہیں تو دوسری جانب اتحادی حکومت بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہے۔ عمران خان کے اوپر 84 ایف آئی آر درج ہیں، جس میں کچھ ایسی نوعیت کی ہیں کہ جن میں جانب داری نظر آتی ہے، بدقسمتی یہ بھی ہے کہ عدالت میں حاضری دینے کے حوالے سے کسی بھی سیاستدان نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا ہے۔

پیشی سے قبل کبھی کسی کی کمر درد کرنے لگ جاتی ہے، کبھی کوئی زینے سے گر جاتا ہے،اگر فیصلہ اپنے حق میں آتا ہے تو حق و انصاف کی جیت کہا جاتا ہے، ورنہ ججز کو بغض سے بھرا ہوا ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔ انتقامی سوچ نے پاکستان کو سیاسی انتشار میں جھونک دیا ہے۔

اسی یک طرفہ انتقامی نظام نے سیاسی بدمزگی کے ساتھ احتساب اور عدل کے نظام کو متاثر کیا ہے۔ ماضی میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی کی حکومتیں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنایا کرتی تھیں۔ پھر تحریک انصاف کا دور شروع ہوا اور تبدیلی کے نعرے نے لوگوں کو ایسا متاثر کیا کہ اب ان کا شمار متاثرین میں ہوتا نظر آرہا ہے۔

تحریک انصاف عدل کی ترجمان بن کر سامنے آئی مگر اپنے لیے احتساب کے سلسلوں کو محدود کرتی دکھائی دی۔ عمران خان سند یافتہ صادق و امین ہوکر بھی توشہ خانہ میں بددیانتی میں ملوث پائے گئے۔ طاقت کے نشے میں خاتون جج کو دھمکاتے، اداروں کی تضحیک کرتے نظر آئے۔ بدکلامی کا یہ سلسلہ تاحال جاری ہے، گمان ہوتا ہے ، عمران خان گالی اور لاٹھی کے معاشرے کا نفاذ چاہتے ہیں۔

حکومت توشہ خانہ کیس میں متعدد بار زمان پارک سے متصل عمران خان کے گھر پولیس بھیج چکی ہے مگر اہلکار ڈنڈے کھاکر واپس آجاتے ہیں تاہم چیئرمین پی ٹی آئی کا بال بھی بیکا نہیں کر پاتے ہیں۔

ملک تیزی سے انتشار کی جانب بڑھ رہا ہے۔ عمران خان ایک جانب ادارے بھی میرے ملک بھی میرا کا بیان جاری کرتے ہیں۔ دوسری جانب اداروں کی شخصیات کے نام لے کر ان کی تضحیک کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے ڈیجیٹل مجاہدین ان شخصیات کی تصاویر جاری کرتے ہیں۔ خرافات ٹرینڈنگ کے ذریعے کچرا اچھالتے ہیں۔ پی ٹی آئی کی غیر اخلاقی تربیت نے ملک کا تماشہ بنا دیا ہے۔

ملک کے اندر کے ریاست دشمنوں نے سرحد پار دشمن کو لطف اندوز ہونے کا سنہری موقع دے دیا ہے۔ پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا کر جس طرح مادر وطن کو کمزورکیا جا رہا ہے ، 75 سالوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف اپنے آپ کو دلیرکہتے ہیں مگر جیل بھرو تحریک کا آغاز کرتے ہی اپنی ضمانت منظور کرا لیتے ہیں۔


ان کے اپنے بچے لندن میں اپنی لائف کو انجوائے کررہے ہیں جب کہ وہ یہاں قوم کے بچوں کے مستقبل سے کھیلتے ہوئے راج کر رہے ہیں، اگر انھیں اتنی ہی پاکستان کی فکر ہے تو کیوں نہیں پاکستان کے معاشی حالات کی بہتری کے لیے حکمران اتحاد کے ساتھ تعاون کرتے نظر آتے ، وہ یہ کہتے ہیں میں چوروں سے نہیں ملوں گا تو جناب ، جن کو آپ ڈاکو کہتے تھے، پھر انھیں اتحادی بنا کر حکومت میں ان کو شامل بھی کیا۔

خان صاحب جب اپنے مفاد کے لیے یہ کڑوا گھونٹ پی سکتے ہیں تو پاکستان کے مفاد کے لیے کیوں نہیں کوئی موثر اقدام کرتے ہیں۔ کیوں نہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آتے ہیں۔آخر خان کو اور کتنے ظل شاہ کا خون درکار ہے۔ پاکستان جس صورتحال سے دو چار ہے، ایسے میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا ایک اور خطرے کی گھنٹی ہے، کیونکہ جس کی بھی شکست ہوگی اسے قابل قبول نہیں ہوگی تو کیا پاکستان اسی بدمزگی کا شکار رہے گا۔

اچھا چلیں ایک لمحے کو تصور کریں کہ عام انتخابات ہوجاتے ہیں۔ عمران خان جیت جاتے ہیں ، پھر کیا ہوگا؟ کیا عمران خان اپنی عادت کے مطابق پھر ملک کا تماشہ بنانا بند کر دیں گے، ہرگز نہیں، عمران خان کی انتقامی سوچ ملک کو مزید تباہی کی طرف لے کر جائے گی۔

عمران خان ملک کو ذبحہ خانے میں بدل دیں گے،چیئرمین پی ٹی آئی کی اخلاقی تربیت گالی اور لاٹھی ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے،ان کا سوائے سیاسی انتقام لینے کے اورکوئی وژن نہیں ہے، اگر ہوتا تو عمران خان کے دور اقتدار میں سی پیک بند نہیں ہوتا۔

یہ خیال خارج الامکان ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اگر اب عمران خان وزیر اعظم بن گئے تو ان کے اندر کا انتقامی نفسیاتی پن صرف سیاسی مخالفین تک محدود نہیں ہوگا بلکہ ملک مزید بدترین صورتحال کا شکار ہوجائے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر ملک کے معاشی معاملات کی بہتری کے لیے کوئی مثبت حال تلاش کریں۔ پاکستان رہے گا تو انتخابات بھی ہونگے۔ وزیراعظم بھی بنیں گے اور سیاست بھی چمکے گی۔

خاکم بدہن اگر ملک نہ رہا تو کچھ بھی ہاتھ نہ آئے گا۔ تحریک انصاف جس طرح اداروں اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش میں لگی ہے وہ کامیاب تو نہیں ہوسکتی مگر جو کام دشمن ملک کی قوتیں 75 سالوں میں نہیں کر سکیں۔ عمران خان نے وہ کام چند ماہ میں کردیا۔ ان کے اس کام پر ہندوستان بہت خوش ہے، وہاں کا میڈیا اور فوج روز شادیانے بجا رہے ہیں۔

تحریک انصاف روزانہ بین الاقوامی ذرایع ابلاغ پر پاکستان دشمنی کی مکمل تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ ان کے ڈیجیٹل مجاہدین روزانہ پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ روزانہ آزادی کے نعرے لگانے والے کس طرح پاکستان دوست ہوسکتے ہیں، یہ بات سمجھنا مشکل نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے کیمپ کی خاتون صحافی کے ٹوئیٹ کے مطابق زمان پارک میں تربیتی مجاہدین موجود ہیں ، یعنی ریاست میں ریاست کا انعقاد ہوچکا ہے، پھر بھی عوام کو ہوش نہیں آرہا ،اگر عمران خان کو اپنے کیے کی سزا بھگتنے کے لیے جیل جانا پڑ رہا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے؟

کیا عمران خان پہلے شخص ہیں جو جیل جائیں گے۔ سیاسی شخصیات کا جیل جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے، بات صرف اتنی ہے،بہادری کی بھڑکیں مارنے اور حقیقی دلیری میں فرق ہوتا ہے۔
Load Next Story