سیاسی محاذ آرائی میں مڈل کلاس رل گئی

آج یہ وقت آچکا ہے کہ وہ سوچیں کہ اس ضمن میں وہ اپنا کیا کردار ادا کر سکتے ہیں

apro_ku@yahoo.com

اگرآپ ٹی وی کے سامنے بیٹھ جائیں اور حالات حاضرہ کے پروگرام دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کے رہنما اس ملک و قوم کا انتہائی دکھ رکھتے ہیں اور ان کے مستقبل کے لیے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر رہے ہیں اور عوام اپنے اپنے رہنمائوں کے پیچھے ان کا ساتھ دینے کے لیے بھاگے چلے جا رہے ہیں، سڑکوں پر ڈنڈے بھی کھا رہے ہیں۔ کیا حقیقی تصویر بھی یہی ہے؟

جی نہیں! حقیقت کچھ اور ہے جو ہمیں گلی ،کوچوں اور بازاروں میں نظر آتی ہے۔ عوام یہ نہیں سوچ رہے کہ کس کی حکومت آنی اور کس کی جانی ہے، ان کے پاس تو یہ سوچنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے، وہ تو صبح و شام یہ سوچ رہے ہیں کہ کس دکان سے پکانے کا تیل چند روپے سستا مل سکتا ہے؟ کہاں سے سستا آٹا خریدا جا سکتا ہے؟ اس مہینے بجلی کا بل جمع کرانے کے لیے کس سے ادھار لیا جا سکتا ہے؟

مختصر یہ کہ عوام کا یہ حال ہے کہ ہر وہ شخص جس پر گھر چلانے کی ذمے داری ہے وہ بس یہ سوچتا رہتا ہے کہ یہ مہینہ کیسے گزرے گا ؟ گھر میں ٹی وی تو بس دل بھلانے کے لیے دیکھا جاتا ہے، گھرکا کوئی فرد ڈرامہ دیکھ کر،کوئی خبریں دیکھ کر اپنا غم کچھ دیر کے لیے بھلا نے کی کو شش کرتا ہے۔

یہ حقیقت بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں جب سے سیاسی جماعتوں کی محاذ آرائی شروع ہوئی ہے گویا ہاتھیوں کی لڑائی میں عوام پس کر رہ گئے ہیں اور عوام میں سب سے زیادہ متاثرہ طبقہ مڈل کلا س ہے جو بری طرح رل گیا ہے۔ اس مڈل کلاس میں سرکاری ملازمین کی تو جیسے چیخیں نکل گئی ہیں اور نجی ملازمت کرنے والوں کی تو اور بھی بری حالت ہے۔ سرکاری ملازمین کے اکثر اداروں میں اب تنخواہیں بڑھنے کا صرف نام ہی رہ گیا ہے بلکہ بیشتر اداروں میں تو الٹا ماہانہ تنخواہیں کم ہو گئی ہیں۔

ہمارے ایک واقف کار جو پاکستان کی ایک بڑی سرکاری جامعہ میں آفیسر گریڈ کے ملازم ہیں، کا کہنا ہے کہ ان کے یہاں مختلف ملازمین کی تنخواہوں میں سے ہائوس رینٹ اور سیلنگ کے قانون کو بہانا بنا کر بیس سے پچیس ہزار روپے کم کر دیے گئے ہیں۔ اسی طرح جامعہ کے ایک جز وقتی استاد کا کہنا تھا کہ ان کی تنخواہوں کی ادائیگیاں گزشتہ سال سے نہیں ہوئی ہیں۔

یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جس ملک کی جامعات میں بھی تنخواہوں میں اضافہ کے بجائے کمی واقع ہو اور تنخواہیں وقت پر نہ ملیں بلکہ سال بھر نہ ملیں تو وہ ملک کیسے ترقی کرے گا؟ جب سرکاری اداروں میں یہ حال ہو تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نجی اداروں میں کام کرنے والوں کی کیا حالت ہوگی اور پھر اس پر مہنگائی کی مسلسل نہ رکنے والی لہریں عوام کی کیا حالت کر رہی ہونگی؟

خوفناک بات یہ ہے کہ ابھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہے اور حالات ابتری کی طرف دن بہ دن جا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں مڈل کلاس یا سفید پوش طبقہ بالکل کنارے سے لگ گیا ہے، اب یہ طبقہ کسی سے ادھار مانگ کر گزارا کرنے کے بھی قابل نہیں رہا کہ کسی سے ادھار مانگے تو کب تک؟ پھر مانگ لے تو واپس کب اورکیسے کرے؟


بات یہ ہے کہ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی میں نچلا طبقہ بھی پس رہا ہے مگر مڈل کلاس طبقہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے اپنی سفید پوشی کا بھرم بھی رکھنا ہے۔ یہ طبقہ نہ قانوناً اور نہ ہی اخلاقاً کسی حکومتی کارڈ سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور نہ ہی سستے آٹے کے حصول کے لیے لائنوں میں لگ کر اپنی عزت رسوا کر سکتا ہے۔اس مڈل کلاس طبقے کے لیے کوئی ایسا پروگرام ہے کہ جس سے اس کی داد رسی ممکن ہو سکے؟

نچلے طبقے کے لیے تو حکومتیں بھی لنگر خانے، سونے کے لیے بستر اور مختلف کارڈ کی اسکیمیں پیش کرتی رہی ہیں اور نجی فلاحی ادارے بھی دن رات لنگر خانے چلا رہے ہیں، زکوۃ کی رقم سے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جن سے ظاہر ہے کہ مڈل کلاس، سفید پوش اور عزت دار طبقہ کبھی بھی فائدہ حاصل نہیں کرتا۔

بات یہ ہے کہ اس طبقے کی امداد کہیں سے نہیں ہو رہی ہے اور ماہانہ اخراجات اب برداشت سے باہر ہو چکے ہیں۔ ایک شخص جو کرائے کے مکان میں رہتا ہے، کراچی جیسے شہر میں کم از کم بیس سے تیس ہزار روپے کرایہ ہے، اسی طرح پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد موٹر سائیکل والے کا پٹرول کا خرچ ماہانہ سات ہزار کے قریب ہوگیا ہے جب کہ بجلی کا بل بھی بڑھ کر کم و بیش بیس ہزار ماہانہ ہوگیا ہے یوں صرف ان مذکورہ تین مد میں ایک مڈل کلاس کا ماہانہ خرچ چالیس سے پچاس ہزار بنتا ہے جو ہر حال میں ہر مہینے ادا کرنا ہی کرنا ہوتا ہے باقی روزانہ کا کھانے پکانے، دوا اور دیگر اخراجات مثلاً بچوں کی تعلیمی ضروریات الگ۔

یہ ہمارے حکمرانوں کو ہی نہیں میڈیا میں لکھنے والوں اور بولنے والوں کو بھی چاہیے کہ اس پر غور کریں اور اس پر آواز بلند کریں نیز این جی اوز بھی غور کریں جو مڈل کلاس طبقے کے لیے کچھ نہیں کرتیں۔

اہم ترین بات یہ ہے کہ اس وقت ان اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کہ جن کے بغیر زندگی نہیں گزر سکتی مثلاً پٹرول، بجلی اورکھانے کی بنیادی اشیاء میں پکانے کا تیل، آٹا اور چاول۔ اب ذرا ان اشیاء پر غور کریں کیا ان کے بغیر گزارا ہو سکتا ہے؟ کیا ان کے استعمال میں کمی کی جاسکتی ہے؟ جی نہیں!

پٹرول کے بغیر آپ کام پر نہیں جا سکتے، جب کام پر نہیں جائیں گے تو کمائیں گے کہاں سے؟ اسی طرح گھر کی بجلی بند کرکے اب زندگی نہیں گزر سکتی اور نہ ہی آٹا یا چاول نہ خرید کر آپ زندہ رہ سکتے ہیں۔ کیا کسی نے سوچا ہے کہ جب ان کی مزید قیمتیں بڑھ جائیں گی تو پھر عوام اور کم از کم مڈل کلاس طبقہ کے پاس کیا راستہ بچے گا؟ بھیک مانگنا؟ جرائم کرنا؟ خود کشی کرنا؟ یا کوئی اور؟

سیاسی محاذ آرائی میں مڈل کلاس تو رل گئی ہے البتہ جن لوگوں کے پاس اختیارات ہیں، ادارے ہیں (خواہ سرکاری ہوں، نجی ہوں یا فلاحی) یا جو لوگ صاحب حیثیت ہوں، آج یہ وقت آچکا ہے کہ وہ سوچیں کہ اس ضمن میں وہ اپنا کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
Load Next Story