کالا باغ ڈیم وقت کی ضرورت

عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ساویج بھی کالا باغ ڈیم کی جگہ اور سائیٹ کو موزوں ترین قرار دے چکے ہیں



ڈرامائی ماحولیاتی تبدیلیوں، اقوام عالم کی آبادی میں تیز رفتار اضافے اور معیار زندگی کی ترقی سے مستقبل قریب میں قلت آب کا مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے اور آیندہ پچاس برسوں میں دنیا کی تین بلین آبادی کو شدید قلت آب کے مسئلے کا سامنا کرنا ہوگا اور بعض خطوں میں صاف پانی کی شاید ایک بوند بھی دست یاب نہیں ہوگی۔

اقوام متحدہ بار بار انتباہ کررہا ہے کہ قلت آب معاشی وسماجی بہبود کے لیے سنگین خطرہ اور جنگوں وتنازعات کی وجہ بن سکتا ہے۔ مستقبل میں پانی کی کمی دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہوگا مگر اندیشہ ہے کہ پاکستان کی پوزیشن دوسرے ممالک کے مقابلے میں خراب تر ہوگی کیونکہ ارض پاک کا شمار دنیا کی اس چالیس فیصد آبادی میں ہوتا ہے جہاں قلت آب کا مسئلہ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ سنگین صورت اختیار کرتا جارہا ہے۔

قدرت نے پاکستان اور بھارت کوبے مثال آبی نظام دیا ہے جس کا درست استعمال کرکے جنوبی ایشیا کی پوری آبادی کی غذائی ضروریات کو پورا کیا جاسکتا ہے لیکن بھارت خطے میں اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو جلا بخشنے کے لیے جنگی حکمت عملی کے تحت اس لازوال قدرتی آبی نظام کو تباہ کرنے کے لیے دن رات کوشاں ہے۔

بھارتی حکمران دریائے ستلج، بیاس اور راوی کی طرح دریائے چناب، جہلم اور نیلم کا رخ موڑ کر اپنے دریاؤں کے ساتھ لنک کرنے کے منصوبوں پر عمل پیرا اور خود کارواٹر گیٹ سسٹم قائم کر رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کے حصہ میں آنے والے دریاؤں پر چھوٹے اور بڑے ڈیموں کی تعمیر مملکت خداداد کو آبی بحران سے دوچار کرنے اورخشک سالی کا شکار بنانے کی گھنائونی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔

پاکستان ایک زرعی معیشت ہے۔ ہماریGDP کا24فیصد زراعت سے آتا ہے۔ آج زراعت ہی ہماری معیشت کا پہیہ گھما رہی ہے۔ اچھی زراعت کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ زمین، موسم اور پانی۔قدرت نے پاکستان کو بہت اچھی زمین فراہم کی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں وسیع زرعی علاقے موجود ہیں۔ بلوچستان کی زمین پھلوں کے لیے بہت موزوں ہے۔ خیبرپختونخوا میں گنا اور تمباکو کاشت ہوتا ہے۔

ہمارے ملک میں چار موسم ہیں جس کی وجہ سے تین فصلیں سال میں حاصل کی جاسکتی ہیں۔ تیسری اہم چیز پانی ہے۔ پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا اوراہم آبپاشی کانظام موجود ہے۔ ملک میں دریائوں کے ذریعے تقریبا 134ملین ایکڑ فٹ(MMf) پانی پہاڑوں سے آتا ہے جو کہ ہماری زمینوں کو سیراب کرتا ہوا بحیرۂ عرب میں گرتا ہے۔

یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس پانی کا 75فیصد صرف مون سون کے مہینوں یعنی جون، جولائی اور اگست میں آتا ہے جب شدید گرمی سے برف پگھلتی ہے اور شدید بارشیں ہوتی ہیں۔ اس طرح ایک سیلاب کی سی کیفیت ہوتی ہے اور یہ پانی بہت کچھ ڈبو دیتا ہے۔ اس طرح قدرت کا یہ عطیہ بعض اوقات تباہی کی علامت بن جاتا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پانی کو روکا جائے اور جب ضرورت ہو تو اسے فصلوں کو مہیا کیا جائے۔ پچیس ملین ایکڑ فٹ پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ ملک میں کالاباغ ڈیم کے علاوہ بھی چھوٹے بڑے ڈیمز بنائے جائیں۔ بھارت نے پانچ ہزار اور ہم نے تین سو ڈیم بنائے ہیں۔

ملک میں بنائے جانے والے چند ایک ڈیمز بھی تھوڑی بہت بجلی تو پیدا کرسکتے ہیں لیکن پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی خاص گنجائش نہیں رکھتے۔ یوں تقریبا ہر سال سیلاب کے باعث پاکستان میں بربادی کی ایک نئی داستان رقم ہوتی ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے باوجود پاکستان پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان نے 1947 کے بعد سے کتنے ڈیم بنائے؟ کالا باغ ڈیم جیسا ایک بڑا پروجیکٹ ہر حوالے سے اس قابل ہے کہ اس پر عمل درآمد کیا جائے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں کالا باغ ڈیم کوسیاسی مسئلہ بنا کر صوبوں میں اختلافات پیدا کر دیے گئے ہیں۔ کالا باغ ڈیم سندھ طاس معاہدے کے تحت تربیلا سے بھی پہلے بننا تھا جب کہ عالمی بینک نے بھی پاکستانی حکام کو پہلے کالا باغ ڈیم بنانے کا کہا تھا مگر اس وقت کی حکومت نے یہ فیصلہ تبدیل کر کے تربیلا پہلے بنا دیا کہ کالا باغ ڈیم کی سائٹ تو ایسی آئیڈیل ہے کہ اسے تو کسی بھی وقت بنایا جا سکتا ہے۔

کالا باغ ڈیم کا نام سن کر سندھ اور کے پی کے میں احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ اتفاق رائے کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا۔ پیپلز پارٹی دور میں صوبوں کو آئینی ضمانت دینے کی بات کی گئی تو صوبوں نے کہا کہ آئین کی اپنی ضمانت کون دیگا۔ ڈیم بنانے سے آخر کس نے روکا ہے، جن ڈیموں پر اختلاف نہیں وہ کیوں نہیں بن رہے۔حقیقت یہ ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں زیر آب آنیوالی قابل کاشت اراضی 27500 ایکڑ میں سے 24500 ایکڑپنجاب اور3000ایکڑ صوبہ کے پی کے کی ہوگی۔

کالا باغ ڈیم منصوبے پرابتدائی کام کا آغاز1953میں ہوا۔اس وقت اس منصوبے پرکسی کواعتراض نہ تھا۔اس منصوبے پر 1985میں عمل درآمد کا فیصلہ ہونے لگا، ضیا الحق کے دورمیں جنرل فضل حق کی مخالفت کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کالا باغ ڈیم کے لیے اپنی کوششوں کو جاری رکھا۔کالا باغ ڈیم بننے سے دریائے سندھ کا پانی حکومتی کنٹرول میں آ جائے گا اورمربوط نہری نظام کے ذریعے حساب کتاب سے پانی مہیا کیا جائے گا۔ اس طرح اس خطے کے وڈیرے، سیاست دانوں کے نا جائز قبضے مفتے ختم ہو جائیں گے۔

دنیا بھرکے ماہرین(ڈیم)نے باقاعدہ سروے اور تحقیق کے بعد کالا باغ ڈیم کودنیا کا موزوں ترین اور پاکستان کے چاروں صوبوں کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے ان میں عالمی بینک کی مطالعاتی ٹیم کے اہم ماہرین میں ڈاکٹر پیٹر لیف نک بھی شامل ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹر ساویج بھی کالا باغ ڈیم کی جگہ اور سائیٹ کو موزوں ترین قرار دے چکے ہیں۔

ان ممتاز ماہرین نے اس دشوارگزار علاقے کا ایک عرصہ تک سروے کیا اور نتائج اخذ کرتے ہوئے اسے دنیا کی موزوں ترین سائیٹ قرار دیا۔تربیلا ڈیم کا تقریبا 63 فیصد پانی صوبہ سندھ کو دیا جاتا ہے۔ جس سے سندھ کی نہریں سارا سال بہتی ہیں۔ اگر کالاباغ ڈیم بنایا جائے تو اس کی بدولت صوبہ سندھ کی مزیدتقریباآٹھ لاکھ ایکڑ اراضی زیرِ کاشت آسکتی ہے۔ اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کی تقریبا6 لاکھ ایکڑ اراضی جنوبی علاقوں یعنی ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ اور بنوں وغیرہ میں زیرِ کاشت آسکتی ہے۔

یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ کے پی میں دریائے سندھ تقریبا600 کلومیٹر تک بہتا ہے لیکن وہاں اس دریاکا پانی اس لیے استعمال نہیں ہوسکتا کیونکہ دریاکی سطح بہت نیچی ہے۔ یہ صرف کالاباغ ڈیم ہی سے ممکن ہے کہ وہاں 6 لاکھ ایکڑ زمین جنوبی علاقوں میں زیرِ کاشت لائی جاسکتی ہے۔

کالاباغ ڈیم کا اسپل وے پیندے سے 50 فٹ نیچے ہے جس کی وجہ سے سلٹ جمع ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا چنانچہ اس کی لائف لا محدود ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔