سیاسی اور آئینی بحران کم نہیں ہوگا
کیا اس طرح کے جواز پیش کرکے ہم اپنا جمہوری سفر آگے بڑھاسکیں گے
الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے صوبائی انتخابات ملتوی ہونے کا فیصلہ متوقع تھاکیونکہ تمام سیاسی پنڈت اورحکمران اتحاد تواتر سے انتخابات نہ ہونے کا پیغام دے رہے تھے حالانکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا تھا، مگر شاید آئین سے زیادہ سیاسی مفادات کی اہمیت ہوتی ہے۔
وفاقی حکومت ہو یا صوبائی نگران حکومتیں , نگران وزیر اعلیٰ ،گورنرزاور الیکشن کمیشن پہلے ہی انتخابات کے حق میں نہیں تھے تو ایسی صورتحال میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ یہ ہی ہونا تھا جو سامنے آیا ہے ۔
انتخابات ملتوی کرنے کے لیے سیکیورٹی صورتحال، دہشت گرد ی، معاشی بدحالی اور نئی مردم شماری جیسے جواز پیش کیے گئے مگر حقیقت یہ ہی ہے کہ حکومت کو صوبائی انتخابات کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھے اور اگر انتخابات ہوتے تو یہ حکمران اتحاد کے لیے سیاسی خودکشی سے کم نہیں ہوتے۔
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں انتخابات کے انعقاد میں تمام ذمے داران جن میں وفاقی حکومت سمیت سیکیورٹی ایجنسیوں کو معاونت کا حکم دیا تھا مگر اس فیصلہ کے برعکس انتخابات کا نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ معاملات خاصے پیچیدہ اور گمبھیر ہیں ۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قانون یا آئینی شق کے تحت نگران حکومتوں کو اکتوبر تک طوالت دی جاسکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے اس فیصلے سے سیاسی اور آئینی یا قانونی بحران کم نہیں بلکہ اور زیادہ ہوگا۔ اب دیکھنا ہوگا کہ سپریم کورٹ اس آئینی بحران میں کیا ردعمل دیتی ہے،سپریم کورٹ کا فیصلہ بتائے گا کہ الیکشن کب ہوں گے تاہم چیف جسٹس پہلے ہی کہہ چکے ہیں اگر شفاف انتخابات کے انعقاد کے عمل میں بدنیتی سامنے آئی تو عدالت مداخلت کرے گی۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے اور کہا کہ اس فیصلے سے ملک میں سیاسی اور آئینی افراتفری کا دروازہ کھول دیا گیا ہے جس کی ہر سطح پر مزاحمت کی جائے گی ۔کچھ سیاسی پنڈت تو یہ پیش گوئی یا شکوک وشہبات پیش کررہے ہیں کہ حکومتی اتحاد عام انتخابات کے لیے اکتوبر سے بھی آگے جاسکتا ہے۔
ملک میں جو اس وقت بڑی شدت کے ساتھ سیاسی تقسیم موجود ہے اور جہاں سیاسی اختلافات نے سیاسی دشمنی کی شکل اختیار کرلی ہے، اب سیاسی تقسیم میں اور زیادہ شدت پیدا ہونے کا امکان ہے۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ ملک میں افراد کے مقابلے میں آئین اور قانون کی ہی بالادستی ہوگی تو یہ سوال زیر بحث رہے گا کہ کیا وجہ ہے کہ یہاں اداروں، آئین اور قانون پر طاقت ور افراد بالادست ہوجائیں گے ۔کیا اس سوچ اور فکر کے ساتھ ہم ریاستی و حکومتی نظام کو چلاسکتے ہیں تو جواب نفی میں ہوگا۔
لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم نے مجموعی طور پر ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ غلطیوں کو بار بار دہرانے سے ہم عملا بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں۔
اب سوا ل یہ ہے کہ جب حکومت کہتی ہے کہ انتخابات ایک ہی وقت پر ہوںگے تو کیا اس بات کے امکانات ہیں کہ حکومت اور عمران خان کے درمیان عام انتخابات وقت سے پہلے ہونے کے لیے کوئی فریم ورک پر بات ہوسکے گی کیونکہ اگر عام انتخابات اکتوبر میں ہونے ہیں تو پھر یہ جو سیاسی اور آئینی بحران ہے اس کا کیا علاج تلاش کیا جائے گا۔
حکومت کو یہ ڈر و خوف ہے کہ کہیں الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر عدالت مزاحمت نہ کرے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ پوری شدت کے ساتھ حکمران اتحاد صوبائی الیکشن کے التوا پر ایک ہی موقف کا حامل ہے اور سب یہ جواز دے رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن نے اپنا آئینی حق استمعال کیا ہے تاکہ عدلیہ پر دباؤ رہے۔اگر الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو مان لیا جائے تو پھر کوئی تنازعہ نہیں ہے لیکن سپریم کورٹ کا فیصلہ اور آئین کی منشا کچھ اور نظر آتی ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر فل کورٹ بنائیں، فل کورٹ جائزہ لے کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ کس حد تک آئینی تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔کیونکہ جو پیچیدگیاں پیدا ہوچکی ہیں، انھیں دور کرنے میں سپریم کورٹ کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ پارلیمنٹ کو بھی اس معاملے میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے، اگر پارلیمنٹ نے اکثریتی رائے سے کوئی ایکٹ منظور کرلیا تو پھر کیا ہوگا؟
یہ جواز انتخابات کے لیے سیکیورٹی نہیں ، سرکاری عملہ نہیں ، مالیات نہیں ہیں ، بظاہر یہ ایشو بھی قابل غور ہیں لیکن مسلہ وہی ہے کہ آئین کی منشا اور سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں کونسا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے ۔
مسئلہ محض حکمران اتحاد ہی نہیں بلکہ اسٹیبلیشمنٹ بھی ہے ۔ لوگ یہاں یہ بھی کہہ رہے ہیں اسٹیبلیشمنٹ بھی دو صوبوں کے انتخابات کے حق میں نہیں ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے حامی سیاسی تجزیہ نگار، کالم نگار، ٹی وی اینکرز اور وکلاء کا دھڑا اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کررہا ہے۔
عمران خان اور ان کے حامی طبقے الیکشن کمیشن پر آئین سے انحراف کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں، پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے لوگ پراپیگنڈا کررہے ہیں کہ چیف الیکشن کمیشن نے خود کو آئین کے ساتھ جوڑنے کے بجائے حکمران اتحاد کے ساتھ فریق بنایا ہے۔
سپریم کورٹ کو بھی اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ان کے فیصلے کے باوجود تمام حکومتی اور ریاستی مشینری نے الیکشن کمیشن کو معاونت فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے؟ یہ منطق کہ '' پاکستان اس وقت انتخابات کا متحمل نہیں ہوسکتا'' اس پر پی ٹی آئی کے حامی اور عمران خان کے لورز دلیل دیتے ہیں کہ یہ منطق جمہوریت اور آئین کے ساتھ مذاق کے سوا کچھ نہیں۔
ایسے ماحول میں جمہوریت کسے کہتے ہیں اور آئین و قانون کی بالادستی کا تصور کیا ہے،سب کی اپنی اپنی رائے ہے اور ہر کوئی اپنی رائے کو درست مان رہا ہے۔ پاکستان میں ہم پہلے ہی جمہوریت کے نام پر تماشے دیکھ رہے ہیں اور اب مزید تماشوں کی گنجائش نہیں ہے۔
یہ سوال بحث طلب ہے کہ کیسے وفاقی ادارے , ریاستی ایجنسیاں اور نگران حکومت سمیت الیکشن کمیشن کو انتخابات میں معاونت کی فراہمی سے انکار کرسکتے ہیں؟ کیا اس طرح کے جواز پیش کرکے ہم اپنا جمہوری سفر آگے بڑھاسکیں گے۔ اگر انتخابات اکتوبر میں ہوں گے تو کیا اس وقت یہ حالات بہتر ہوجائیں کہ عام انتخابات کا انعقاد ہوسکے؟ اب بھی وقت ہے کہ عام انتخابات کا ہی راستہ اختیار کیا جائے اور مل بیٹھ کر عام انتخاب کے لیے کسی حتمی تاریخ پر اتفاق کرلیا جائے۔