تحفظ پاکستان آرڈیننس آئین سے متصادم یا غیر معمولی حالات میں غیر معمولی قانون
90 دن تک حراست میں رکھنے اور شہریت منسوخ کرنے کی شق پر سب سے زیادہ تنقید کی جارہی ہے
تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس قومی اسمبلی سے منظور ہوکر اب سینٹ میں ہے۔ اس بل پر اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بل کی متعدد شقیں آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں اور وہ اس بل کو سینٹ سے کسی صورت پاس نہیں ہونے دیں گی۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس بل سے ایسی شقیں ختم کی جائیں اور اس پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت کی جائے تو ہی اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر سینٹ نے یہ بل منظور نہ کیا تو حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر عددی اکثریت کے بل پر اس بل کو پاس کرانے کی کوشش کرے گی۔ اپوزیشن کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اس طریقے سے بل پاس کرایا گیا تو اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس بل کیا ہے حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کا اس حوالے سے کیا مؤقف ہے اس موضوع پر ایکسپریس فورم میں ایک سیر حاصل بحث ہوئی۔ فورم میں ن لیگ لاہور کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر، سیکرٹری اطلاعات پیپلزپارٹی پنجاب شوکت محمود بسرا، تحریک انصاف پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات عندلیب عباس، جماعت اسلامی لاہور کے امیر امیرالعظیم اور ق لیگ لاہور کی سیکرٹری اطلاعات تمکین آفتاب نے شرکت کی۔ ایکسپریس فورم کے شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔
(ن) لیگ خواجہ عمران نذیر
(پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ پنجاب۔ جنرل سیکرٹری لاہور)
غیر معمولی حالات میں بعض اوقات غیر معمولی قانون سازی کرنی پڑتی ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک ایسا قانون بنانا مقصود ہے کہ اگر کوئی قانون کی گرفت میں آئے تو سزا سے نہ بچ سکے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس میں ایسی تجاویز دی گئی ہیں جس سے آپ کو دہشتگردی پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ کوئی انوکھی چیز آگئی ہے اگر آپ نے دہشتگردوں سے لڑنا ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے آپ کو انتہائی قدم اٹھانا پڑے گا۔ جو بلاول صاحب نے بات کی کہ اس قانون کی وجہ سے تو وزیراعظم بھی گرفتار ہوسکتا ہے اگر وزیراعظم کوئی غلط کام کرتا ہے تو کیا اسے گرفتار نہیں ہونا چاہیے۔
قانون اگر منظور ہوجاتا ہے تو پھر عملدرآمد کیلئے اسے جوڈیشری نے دیکھنا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں لگتی کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے جس پر اتنا شور مچایا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ آپ کے بہت سے جج دہشت گردی کے مقدمات سننے سے معذرت کرلیتے ہیں۔ دہشت گرد اگر پکڑے بھی جائیں تو ان کیخلاف کسی عدالت میں گواہ پیش کرنے سمیت بہت سے معاملات مشکل ہوجاتے ہیں۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس ان تمام مشکلات کا حل نکالنے کیلئے لایا جارہا ہے۔ اس میں مشاورت سے بہتری کی چیزوں کی گنجائش رہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں جب کوئی چیز پیش ہوتی ہے تو تمام پارٹیاں اس پر اپنی رائے دیتی ہیں لیکن اگر پارٹیاں اس پر رائے دینے کے بجائے واک آؤٹ کرجائیں تو ذمہ داری ان پارٹیوں پر آتی ہے واک آؤٹ کرنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس پر بات کرتیں۔ بحث میں حصہ لیتیں، اپنی رائے دیتیں۔ جب وہ واک آؤٹ کرگئیں تو یہ بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا۔ اب یہ بل سینٹ میں جائے گا وہاں پر بھی اس پر بات ہوگی اور پھر بل اکثریت کے بل پر پاس ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اس بل پر الطاف حسین شور مچائیں تو بات کی سمجھ لگتی ہے لیکن وہ پارٹیاں شور مچائیں جو خود دہشتگردی کا شکار بھی ہوئیں اور دہشت گردوں سے لڑنا بھی جانتی ہیں تو ان کا شور مچانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
تحریک انصاف عندلیب عباس
(سیکرٹری انفارمیشن پنجاب)
دہشتگردی کیخلاف کئے گئے تمام اقدامات کی اس وقت بہت زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن اس قانون کے مطابق تو کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اٹھالیا جائے گا اور اسے 90 دن حراست میں رکھا جائے گا۔ اگر کسی پر الزام لگا دیا جائے کہ یہ ملک دشمن ہے اور وہ مسنگ پرسن ہوجاتا ہے اور اس کا خاندان روتا رہتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ جج بڑا تنگ کررہا ہے سپریم کورٹ سے کیس نکال کر سپیشل کورٹ میں بھیج دیا جائے۔ یہ ایسی عدالت ہو جو سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہو۔ الزام بھی کسی پر آپ لگائیں یہ قانون کو گالی ہے، یہ طاقت کا ناجائز استعمال ہے۔ اس میں آمرانہ ذہنیت ہے۔
تحریک انصاف نے 31 ترامیم پیش کی تھیں ایک بھی نہیں مانی گئی۔ قانون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ شہریت بھی منسوخ ہوسکتی ہے جبکہ آئینی طور پر آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ پھر حراست میں اس سے جو سلوک ہوگا اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ آپ اس میں کسی کو بھی ملک دشمن قرار دے سکتے ہیں۔ اس میں دہشتگردی کی تعریف انتہائی کمزور ہے۔ آپ کسی کو بھی پکڑ کر اس پر ملک دشمن اور دہشتگرد کا ٹھپا لگاسکتے ہیں۔
اگر حراست میں کوئی شخص ہلاک ہوجاتا ہے۔ آپ اس کی موت کا کوئی بھی سبب بتاسکتے ہیں جوکہ بنیادی انسانی حقوق کیخلاف ہے۔ یہ گوانتاناموبے میں لاگو قانون سے بھی برا قانون ہے۔ یہاں ایک بڑا گوانتاناموبے بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے پیچھے محرک یہ ہے کہ جس کو دل چاہے مجرم بنادیا جائے جس کو دل چاہے یہ کہہ دیا جائے کہ اسے حراست میں لے لیا جائے۔ جس کودل چاہے دہشت گرد کہہ لیں۔ جس کودل چاہے مسنگ پرسن کہہ دیا جائے کوئی عدالت انہیں روک نہیں سکتی۔ قانون کا بنیادی اصول ہے کہ جب تک آپ پر الزام ثابت نہیں ہوجاتا آپ معصوم ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔
آپ مجرم ہیں اس وقت تک جب تک آپ خود کو معصوم ثابت نہیں کرتے۔ پکڑلیں گے Catch me if you can ثابت کرسکتے ہیں تو کریں ثابت نہیں کرسکتے تو آپ مسنگ پرسن بھی ہیں۔ دہشت گرد بھی ہیں ملک دشمن بھی ہیں سب کچھ ہیں۔ اس قانون کے پیچھے صرف ایک مقصد ہے کہ حکومت اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔
پیپلزپارٹی شوکت بسرا
(سیکرٹری انفارمیشن پنجاب)
آج غیر معمولی حالات میں ملک میں دہشتگردی ہے۔ ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں ایسے حالات میں غیر معمولی قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا قانون جس میں وہ لوگ جو ملک توڑنا چاہتے ہیں، ملک کی سلامتی سے کھیل رہے ہیں اور کسی اور کے ایجنڈے پر ہیں ان کا خاتمہ کیا جاسکے۔ لیکن اتنی ہی ذمہ داری کی ضرورت ہے جب ایسے قوانین بنائے جائیںلیکن تحفظ پاکستان آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے اور آئین سے بھی متصادم ہے۔ اسے ہم کالا قانون اس لیے کہتے ہیں اس کے نافذ ہونے سے یہ ہوگا کہ پاکستان جسے پہلے ہی پولیس سٹیٹ کہتے ہیں تھانے سلاٹر ہاؤس بنے ہوئے ہیں۔ اگر پولیس کو اس قانون کے تحت دیدیا گیا کہ کسی پر بھی شک ہو اسے گولی مار سکتے ہیں ایسی ہدایت کونسا قانون دیتا ہے۔ پاکستان میں جنگل کا قانون ہے۔
نہ تو آپ کے کوئی سیاسی حقوق رہیں گے کیونکہ آپ دنیا میں ہی نہیں رہیں گے۔ شک کی بنیاد پر کسی کو گولی مار دینا ایسا ہی ہے جیسے ٹاڈا نافذ کردیا گیا ہو۔ اس قانون کے تحت حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اگر وہ میری شہریت منسوخ کرنا چاہے تو کیا یہ آئین کے مطابق ہے؟ حکمران یہ قانون لاکر آئین سے بغاوت کررہے ہیں کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان کے شہری کی کوئی بھی شہریت منسوخ نہیں کرسکتا۔ کسی بندے کو اٹھا کر 90 دن حراست میں رکھنا اور کسی عدالت کو جوابدہ نہ ہونا، نہ یہ بتایا جائے کہ کہاں رکھاگیا ہے، الزام کیا ہے۔ اپیل کا حق بھی صرف سپریم کورٹ میں ہے اگر متاثرہ شخص دور دراز کے علاقے کا رہنے والا ہے تو اپیل کیسے کرے گا۔ دہشتگردی ایک قومی مسئلہ ہے۔ دہشتگردی اور قومی سلامتی کے حوالے سے سیاست کرنیوالے کو ہم پاکستانی نہیں سمجھتے ہیں نہ مسلمان۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر دہشتگردی ختم کرنا چاہتے ہیں تو تمام سیاسی پارٹیوں کا اعتماد حاصل کرتے۔
اے پی سی میں تمام جماعتوں نے وزیراعظم کو مینڈیٹ دیا کہ ہر پاکستانی امن چاہتا ہے۔ اگر قانون سازی کرنا چاہتے تھے تو تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرتے فوج کو بھی اعتماد میں لیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ترامیم کیلئے کہا لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اگر قانون سازی کرنی ہے تو اس قانون میں تمام جماعتوں سے بات کرکے ترامیم لائیں تو اس قانون کو پاس کرانے کو تیار رہیں لیکن یہاں تو یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ سینٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔ پیپلزپارٹی نے تمام اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے کیے ہیں۔ متفقہ لائحہ عمل بنائیں گے یہ بل کسی طور سینٹ سے پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پھر حکومت کے پاس یہ حربہ ہوگا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس بل کو پاس کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر وہاں سے پاس کرالیا تو ہم اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
سب سے پہلے اس بل میں 90 روز حراست کی شق ختم کی جائے۔ آئین میں لکھا ہے کہ 14 دن تک آپ جسمانی ریمانڈ پر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ 90 دن کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ تفتیش تو چند دن میں مکمل ہوجائے گی۔ 90 دن میں آپ لوگوں سے وہ باتیں بھی منوالیں گے جو کچھ انہوں نے کیا ہی نہیں ہوگا۔ شہریت منسوخ کرنے کا اختیار آئین کے منافی ہے اس میں ترمیم کی جائے۔ اپیل کا حق صرف سپریم کورٹ میں ہونا بھی بالکل غلط ہے۔ آپ ترمیم کرکے متعلقہ تھانے کو جو کورٹ لگتی ہے اپیل کا حق اس میں ہونا چاہیے۔ کسی کو دشمن قرار دینا ہے تو حکومت کی مخالفت کرے گا تو حکومت کہے گی کہ اس نے پاکستان کے مفاد کیخلاف بات کی ہے اور اسے اٹھالیا جائے گا۔ تمام قوانین پہلے ہی موجود ہیں لیکن ان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ یہ قانون زاہد حامد نے پیش کیا جس نے پرویز مشرف کے دور میں ایمرجنسی کا لکھا تھا۔ اب بتائیں کیا یہ لوگ آمریت کی پیداوار نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی امیر العظیم
(امیر جماعت اسلامی لاہور)
آئین اور قانون ایسی چیز ہے جسے اکثریت کے بل بوتے پر چھیڑنا مناسب نہیں۔ اگر کوئی قانون روز اول سے ہی متنازعہ بن جائے تو اس کے اچھے نتائج سمیٹے نہیں جاسکتے۔ ماضی کا تجربہ ہے کہ ہم نے مختلف ادوار میں انسداد دہشتگردی کے نام پر قانون سازیاں کی ہیں۔ پالیسیاں بھی بنائیں، متوازی نظام بھی بنائے ہیں لیکن وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا جس کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔ اب جو بل لایا گیا ہے اس کا نام بڑا خوبصورت رکھا گیا ہے تحفظ پاکستان آرڈیننس۔ پہلے بھی ایسے قانون لاتے ہوئے بڑے مقاصد بیان کیے گئے تھے۔ لیکن دیکھیے یہ قانون کہاں کہاں لاگو ہوتے رہے ہیں۔ خود نواز شریف پر یہ قانون اپلائی ہوا اور اب بھی لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں میرا نام، خواجہ عمران نذیر اور خواجہ سعد رفیق کا نام درج ہے۔ مجھے اس وقت بہت افسوس ہوا جب ایک درویش منش مذہبی شخصیت سرفراز نعیمی کو میں نے موٹر سائیکل پر آکر انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش ہوتے دیکھا۔
دیکھیں جب ایسے قانون بنا دیتے ہیں تو اپلائی کیسے کرتے ہیں۔ دہشتگردی صرف وہ نہیں ہے جو بم دھماکوں سے ہوتی ہے۔ وہ بھی دہشتگردی ہے کہ خواتین سے پرس چھیننے کی کوشش میں انہیں گولی مار دی جاتی ہے۔ دہشتگردی وہ بھی ہے جب زمیندار کسی عورت پر کتے چھوڑ دیتا ہے۔ پورے ملک میں ہر طرح کی دہشتگردی موجود ہے۔ آپ کو نئے قانون بنانے کی بجائے پہلے سے جو قانون موجود ہیں ان پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ ہمارا عدالتی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ آپ دیکھیں کتنے مقدمات درج ہوتے ہیں۔ کتنے چالان پیش ہوتے ہیں، کتنے میں سزا ہوتی ہے۔ ہمارے ایک پولیس افسر ہیں انہوں نے جاپان اور بھارت کا دورہ کیا دونوں ملکوں کے متعلق ان کے مضامین اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ جاپان میں عدالتوں میں جو چالان پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے 98 فیصد مجرموں کو سزائیں ملتی ہیں۔
بھارت میں سزا پانے والوں کا اچھا خاصا تناسب موجود ہے۔ پاکستان میں دیکھیں کتنے لوگوں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے کتنے لوگوں کے چالان عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں اور کتنے لوگوں کو عدالتوں سے سزائیں ملتی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ مجرموں کو پھانسی کی سزائیں ہوچکی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس ماحول میں جب کوئی قانون لانا بے معنی ہے جب آپ پہلے سے موجود مجرموں کو سزائیں نہیں دے رہے۔ ان مجرموں کو فوری سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں قانون کا خوف پیدا ہو۔ ہمیں نئے قانون لانے کی بجائے قانون کے نفاذ کی فکر ہونی چاہیے۔ ثبوت جمع کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ مجرم بچ نہ سکے۔ ہر شعبے کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دینا چاہیے اور اس میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور کی جائیں۔ آج پولیس کے پاس یہ سہولت ہی موجود نہیں کہ وہ خود سے ٹیلی فون کالیں ٹریس کرے۔
وہ تو الٹا مدعی کو کہہ دیتی ہے کہ آپ خود ٹریس کرکے ہمیں بتائیں۔ پولیس کے پاس یہ رسائی نہیں ہے کہ آپ کو کوئی دہشتگرد فون کرے اور وہ دہشت گرد تک پہنچ سکے۔ یعنی آپ نے مجرموں کو وہ تمام مواقع فراہم کررکھے ہیں کہ وہ اپنا رعب اور خوف شہریوں پر نافذ کرسکیں۔ پولیس، عدالتوں اور سزاؤں کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ پولیس کو پروٹوکول ڈیوٹیوں سے ہٹائیں اور ان کا جو کام ہے وہ کرنے دیں۔ جسے سکیورٹی چاہیے وہ پیسے دے اور اس کیلئے ایک علیحدہ فورس قائم کریں۔ عدالتوں کی چھٹیاں بھی ختم کی جائیں تاکہ مقدموں کی کارروائی میں تیزی لائی جاسکے اور جلد از جلد فیصلے سنائے جاسکیں۔ گواہ عدالتوں میں پیش پیش ہوکر تھک جاتے ہیں اور پھر وہ جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ لوگ گواہی سے نہیں بھاگتے لیکن وہ باربار عدالتوں کا چکر لگاکر مایوس ہوجاتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ تمکین آفتاب
(سیکرٹری اطلاعات لاہور )
جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو حالات اور کلچر دیکھ کر بنایا جاتا ہے۔ لیکن تحفظ پاکستان آرڈیننس امریکی قانون کو دیکھ کر بنایا گیا جبکہ قانون اپنے ماحول کے مطابق بنانا چاہیے لیکن اس قانون کے مطابق تو کسی کو بھی اٹھایا جاسکتا ہے اور پھر 90 دن تک حراست میں رکھو اور پھر عدالت میں لے کر جاؤ پھر گواہی ہوگی جو پکڑ رہے ہیں وہ اپنے ہی خلاف بات کیوں کریں گے وہ تو یہ کہیں گے کہ اس پر شک تھا اس لیے اس کو اٹھایا ہے۔ پہلے سے جو دہشتگرد ڈکلیئر ہیں پہلے انہیں تو پکڑیں۔ دہشت ہوتا ہے خوف یعنی خوف پھیلانا۔ دہشتگردی کا دائرہ وسیع سے سے وسیع تر ہورہا ہے۔
اغوا، ڈکیتی اور تشدد سب کچھ دہشتگردی ہے۔ اس قانون کے مطابق تو آپ کسی کو بھی دہشتگرد قرار دے کر پکڑلو یا پھر اسے گولی مار دو۔ جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی سوچ کیا ہے لیکن ہماری سیاسی سوچ میں آمریت بہت زیادہ ہے بلکہ جمہوریت کے نام پر اس وقت بھی آمریت چل رہی ہے۔ ہمیں نئے قانون کی بجائے جو قوانین موجود ہیں ان پر پوری طرح عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کے چیدہ چیدہ نکات
تحفظ پاکستان ایکٹ 2013ء کو پاکستان کیخلاف کسی جنگ سے تحفظ دینے کی خاطر جاری کیا گیا تھا یعنی کوئی ایسی کارروائی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو نیز اس مقدمے کا فیصلہ تیز رفتاری سے کیا جاسکے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد دہشت گردی کے خطرہ سے شہریوں کو محفوظ رکھنا کہا جارہا ہے۔
٭...''متصادم دشمن'' کا مطلب ہے ایسا شخص جو پاکستان کے خلاف اور اس کے شہریوں اور مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کیخلاف ہتھیار اٹھاتا ہے یا پاکستان کیخلاف جنگ شروع کرتا ہے یا پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کیلئے خطرہ بنتا ہے اس میں وہ شخص بھی شامل ہے جو سرزمین پاکستان کے باہر سے کوئی متصادم عمل شروع کرتا ہے یا پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرتا ہے۔
٭...اس میں وہ شخص بھی شامل ہے جو پاکستان کیخلاف لفظوں کی جنگ کرتا ہے جس سے اس کی وفاقی حکومت سے حاصل کردہ شہریت سے محرومی عمل میں آتی ہے۔
٭...''امتناعی حراست'' حکومت بھی اپنے ایک تحریری حکم کے ذریعے اس شخص کی حراست کی مخصوص مدت کیلئے توثیق کرسکتی ہے جوکہ 90 دن سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر حکومت یہ سمجھے کہ اس کے نزدیک ایسا شخص متعصبانہ انداز میں ملکی یکجہتی، سلامتی اوردفاع کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے جس کو اس سے روکا جاسکتا ہے۔ بشرط یہ کہ اس شخص کی حراست آئین کے آرٹیکل 10 کے مطابق ہو (ایسا شخص جس کے بارے میں یہ یقین کیاجائے کہ وہ آئین کے سب سیکشن 5 کے تحت آتا ہے۔
٭...ایسے علاقوں میں جہاں وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتیں مسلح افواج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آرٹیکل 245 کے تحت طلب کرلیتی ہیں یا جہاں وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کی طرف سے سول آرمڈ فورسز کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت طلب کیا گیا ہو تو یہ فورس کسی بھی دشمن یا بیرونی ایجنٹ یا متحارب دشمن کو زیر حراست لے سکتی ہے بشرط یہ کہ اس شخص کی حراست آئین کے آرٹیکل 10 کے مطابق ہو۔
٭...اس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے بعد کسی بھی وقت متعلقہ شخص کو پولیس یا کسی دوسری تفتیشی ایجنسی کے حوالے کیا جاسکتا ہے تاکہ معمول کا تحقیقاتی عمل مکمل کیا جاسکے۔
٭...اس کی گرفتاری کو باقاعدہ بنانے کیلئے قوانین و ضوابط تشکیل دیئے جائیں گے۔
٭...کوئی بھی شخص جوکہ مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو یا حراست میں لیا جائے اسے اس آرڈیننس کے تحت گرفتار سمجھا جائے گا۔
٭...مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کی صورت میں حکومت بھی ان کا ساتھ دے گی۔ ایسی صورت میں جس سے کسی افسر کی سلامتی یا علاقے کی سکیورٹی کو خطرہ ہو آئین کے تحت حکومت پاکستان ملک کی سلامتی کے پیش نظر گرفتار کیے جانے والے کے بارے میں اس انکشاف سے باز رہے گی کہ کس بنیاد پر یہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جبکہ زیر حراست شخص کو دشمن یا متحارب فریق تصور کیا جائے گا۔
٭...خصوصی عدالت کی کارروائی کو عوام سے خفیہ رکھا جائے گا۔ عوام کو عدالتی کارروائی سے علیحدہ رکھا جائے گا البتہ سزا کا فیصلہ برسرعام کیا جائے گا۔
٭...خصوصی عدالت ملزم کو اس کی شہریت کے حق سے بھی محروم کرسکے گی۔
٭...حکومت کسی ایسے جرم کے ضمن میں جوکہ قانون کے تحت سزا کا مستحق ہو اس کیلئے کسی بھی عدالت انصاف یا ٹربیونل سے رجوع کرسکے گی یا اس مقدمے کو خصوصی عدالت میں منتقل کرسکے گی اور خصوصی عدالت کیلئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ گواہوں کو طلب کرے یا دوبارہ شہادتوں کو قلمبند کرنے کا حکم سنائے۔ اگر اس خصوصی قانون کی بعض شقیں کسی مروجہ قانون سے متصادم ہوں گی تو اس صورت میں اسی قانون کی عملداری قائم رہے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ اس بل کی متعدد شقیں آئین میں درج بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہیں اور وہ اس بل کو سینٹ سے کسی صورت پاس نہیں ہونے دیں گی۔ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس بل سے ایسی شقیں ختم کی جائیں اور اس پر اپوزیشن کی تمام جماعتوں سے مشاورت کی جائے تو ہی اس کی حمایت کی جاسکتی ہے۔ دوسری طرف یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر سینٹ نے یہ بل منظور نہ کیا تو حکومت پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر عددی اکثریت کے بل پر اس بل کو پاس کرانے کی کوشش کرے گی۔ اپوزیشن کی جماعتوں کا کہنا ہے کہ اگر اس طریقے سے بل پاس کرایا گیا تو اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا۔
تحفظ پاکستان ترمیمی آرڈیننس بل کیا ہے حکومت اور اپوزیشن پارٹیوں کا اس حوالے سے کیا مؤقف ہے اس موضوع پر ایکسپریس فورم میں ایک سیر حاصل بحث ہوئی۔ فورم میں ن لیگ لاہور کے جنرل سیکرٹری خواجہ عمران نذیر، سیکرٹری اطلاعات پیپلزپارٹی پنجاب شوکت محمود بسرا، تحریک انصاف پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات عندلیب عباس، جماعت اسلامی لاہور کے امیر امیرالعظیم اور ق لیگ لاہور کی سیکرٹری اطلاعات تمکین آفتاب نے شرکت کی۔ ایکسپریس فورم کے شرکاء نے جن خیالات کا اظہار کیا اس کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔
(ن) لیگ خواجہ عمران نذیر
(پارلیمانی سیکرٹری ہیلتھ پنجاب۔ جنرل سیکرٹری لاہور)
غیر معمولی حالات میں بعض اوقات غیر معمولی قانون سازی کرنی پڑتی ہے۔ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ایک ایسا قانون بنانا مقصود ہے کہ اگر کوئی قانون کی گرفت میں آئے تو سزا سے نہ بچ سکے۔ تحفظ پاکستان آرڈیننس میں ایسی تجاویز دی گئی ہیں جس سے آپ کو دہشتگردی پر قابو پانے میں مدد مل سکے۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ کوئی یہ سمجھے کہ کوئی انوکھی چیز آگئی ہے اگر آپ نے دہشتگردوں سے لڑنا ہے تو ان کا مقابلہ کرنے کیلئے آپ کو انتہائی قدم اٹھانا پڑے گا۔ جو بلاول صاحب نے بات کی کہ اس قانون کی وجہ سے تو وزیراعظم بھی گرفتار ہوسکتا ہے اگر وزیراعظم کوئی غلط کام کرتا ہے تو کیا اسے گرفتار نہیں ہونا چاہیے۔
قانون اگر منظور ہوجاتا ہے تو پھر عملدرآمد کیلئے اسے جوڈیشری نے دیکھنا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں لگتی کہ اس میں ایسی کونسی بات ہے جس پر اتنا شور مچایا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان حالت جنگ میں ہے۔ آپ کے بہت سے جج دہشت گردی کے مقدمات سننے سے معذرت کرلیتے ہیں۔ دہشت گرد اگر پکڑے بھی جائیں تو ان کیخلاف کسی عدالت میں گواہ پیش کرنے سمیت بہت سے معاملات مشکل ہوجاتے ہیں۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس ان تمام مشکلات کا حل نکالنے کیلئے لایا جارہا ہے۔ اس میں مشاورت سے بہتری کی چیزوں کی گنجائش رہتی ہے۔ پارلیمنٹ میں جب کوئی چیز پیش ہوتی ہے تو تمام پارٹیاں اس پر اپنی رائے دیتی ہیں لیکن اگر پارٹیاں اس پر رائے دینے کے بجائے واک آؤٹ کرجائیں تو ذمہ داری ان پارٹیوں پر آتی ہے واک آؤٹ کرنے کی بجائے سیاسی پارٹیوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس پر بات کرتیں۔ بحث میں حصہ لیتیں، اپنی رائے دیتیں۔ جب وہ واک آؤٹ کرگئیں تو یہ بل کثرت رائے سے منظور ہوگیا۔ اب یہ بل سینٹ میں جائے گا وہاں پر بھی اس پر بات ہوگی اور پھر بل اکثریت کے بل پر پاس ہوگا یا نہیں ہوگا۔ اس بل پر الطاف حسین شور مچائیں تو بات کی سمجھ لگتی ہے لیکن وہ پارٹیاں شور مچائیں جو خود دہشتگردی کا شکار بھی ہوئیں اور دہشت گردوں سے لڑنا بھی جانتی ہیں تو ان کا شور مچانا سمجھ سے بالاتر ہے۔
تحریک انصاف عندلیب عباس
(سیکرٹری انفارمیشن پنجاب)
دہشتگردی کیخلاف کئے گئے تمام اقدامات کی اس وقت بہت زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن اس قانون کے مطابق تو کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے کر اٹھالیا جائے گا اور اسے 90 دن حراست میں رکھا جائے گا۔ اگر کسی پر الزام لگا دیا جائے کہ یہ ملک دشمن ہے اور وہ مسنگ پرسن ہوجاتا ہے اور اس کا خاندان روتا رہتا ہے۔ آپ کہتے ہیں کہ یہ جج بڑا تنگ کررہا ہے سپریم کورٹ سے کیس نکال کر سپیشل کورٹ میں بھیج دیا جائے۔ یہ ایسی عدالت ہو جو سپریم کورٹ سے بھی اوپر ہو۔ الزام بھی کسی پر آپ لگائیں یہ قانون کو گالی ہے، یہ طاقت کا ناجائز استعمال ہے۔ اس میں آمرانہ ذہنیت ہے۔
تحریک انصاف نے 31 ترامیم پیش کی تھیں ایک بھی نہیں مانی گئی۔ قانون میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ شہریت بھی منسوخ ہوسکتی ہے جبکہ آئینی طور پر آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ پھر حراست میں اس سے جو سلوک ہوگا اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔ آپ اس میں کسی کو بھی ملک دشمن قرار دے سکتے ہیں۔ اس میں دہشتگردی کی تعریف انتہائی کمزور ہے۔ آپ کسی کو بھی پکڑ کر اس پر ملک دشمن اور دہشتگرد کا ٹھپا لگاسکتے ہیں۔
اگر حراست میں کوئی شخص ہلاک ہوجاتا ہے۔ آپ اس کی موت کا کوئی بھی سبب بتاسکتے ہیں جوکہ بنیادی انسانی حقوق کیخلاف ہے۔ یہ گوانتاناموبے میں لاگو قانون سے بھی برا قانون ہے۔ یہاں ایک بڑا گوانتاناموبے بنانے کا منصوبہ ہے۔ اس کے پیچھے محرک یہ ہے کہ جس کو دل چاہے مجرم بنادیا جائے جس کو دل چاہے یہ کہہ دیا جائے کہ اسے حراست میں لے لیا جائے۔ جس کودل چاہے دہشت گرد کہہ لیں۔ جس کودل چاہے مسنگ پرسن کہہ دیا جائے کوئی عدالت انہیں روک نہیں سکتی۔ قانون کا بنیادی اصول ہے کہ جب تک آپ پر الزام ثابت نہیں ہوجاتا آپ معصوم ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے۔
آپ مجرم ہیں اس وقت تک جب تک آپ خود کو معصوم ثابت نہیں کرتے۔ پکڑلیں گے Catch me if you can ثابت کرسکتے ہیں تو کریں ثابت نہیں کرسکتے تو آپ مسنگ پرسن بھی ہیں۔ دہشت گرد بھی ہیں ملک دشمن بھی ہیں سب کچھ ہیں۔ اس قانون کے پیچھے صرف ایک مقصد ہے کہ حکومت اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکے۔
پیپلزپارٹی شوکت بسرا
(سیکرٹری انفارمیشن پنجاب)
آج غیر معمولی حالات میں ملک میں دہشتگردی ہے۔ ہماری قومی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں ایسے حالات میں غیر معمولی قانون سازی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا قانون جس میں وہ لوگ جو ملک توڑنا چاہتے ہیں، ملک کی سلامتی سے کھیل رہے ہیں اور کسی اور کے ایجنڈے پر ہیں ان کا خاتمہ کیا جاسکے۔ لیکن اتنی ہی ذمہ داری کی ضرورت ہے جب ایسے قوانین بنائے جائیںلیکن تحفظ پاکستان آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق کے بھی خلاف ہے اور آئین سے بھی متصادم ہے۔ اسے ہم کالا قانون اس لیے کہتے ہیں اس کے نافذ ہونے سے یہ ہوگا کہ پاکستان جسے پہلے ہی پولیس سٹیٹ کہتے ہیں تھانے سلاٹر ہاؤس بنے ہوئے ہیں۔ اگر پولیس کو اس قانون کے تحت دیدیا گیا کہ کسی پر بھی شک ہو اسے گولی مار سکتے ہیں ایسی ہدایت کونسا قانون دیتا ہے۔ پاکستان میں جنگل کا قانون ہے۔
نہ تو آپ کے کوئی سیاسی حقوق رہیں گے کیونکہ آپ دنیا میں ہی نہیں رہیں گے۔ شک کی بنیاد پر کسی کو گولی مار دینا ایسا ہی ہے جیسے ٹاڈا نافذ کردیا گیا ہو۔ اس قانون کے تحت حکومت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اگر وہ میری شہریت منسوخ کرنا چاہے تو کیا یہ آئین کے مطابق ہے؟ حکمران یہ قانون لاکر آئین سے بغاوت کررہے ہیں کیونکہ آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان کے شہری کی کوئی بھی شہریت منسوخ نہیں کرسکتا۔ کسی بندے کو اٹھا کر 90 دن حراست میں رکھنا اور کسی عدالت کو جوابدہ نہ ہونا، نہ یہ بتایا جائے کہ کہاں رکھاگیا ہے، الزام کیا ہے۔ اپیل کا حق بھی صرف سپریم کورٹ میں ہے اگر متاثرہ شخص دور دراز کے علاقے کا رہنے والا ہے تو اپیل کیسے کرے گا۔ دہشتگردی ایک قومی مسئلہ ہے۔ دہشتگردی اور قومی سلامتی کے حوالے سے سیاست کرنیوالے کو ہم پاکستانی نہیں سمجھتے ہیں نہ مسلمان۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ اگر دہشتگردی ختم کرنا چاہتے ہیں تو تمام سیاسی پارٹیوں کا اعتماد حاصل کرتے۔
اے پی سی میں تمام جماعتوں نے وزیراعظم کو مینڈیٹ دیا کہ ہر پاکستانی امن چاہتا ہے۔ اگر قانون سازی کرنا چاہتے تھے تو تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کرتے فوج کو بھی اعتماد میں لیتے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ترامیم کیلئے کہا لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ اگر قانون سازی کرنی ہے تو اس قانون میں تمام جماعتوں سے بات کرکے ترامیم لائیں تو اس قانون کو پاس کرانے کو تیار رہیں لیکن یہاں تو یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ سینٹ میں پیپلزپارٹی کی اکثریت ہے۔ پیپلزپارٹی نے تمام اپوزیشن پارٹیوں سے رابطے کیے ہیں۔ متفقہ لائحہ عمل بنائیں گے یہ بل کسی طور سینٹ سے پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پھر حکومت کے پاس یہ حربہ ہوگا کہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس بل کو پاس کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اگر وہاں سے پاس کرالیا تو ہم اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔
سب سے پہلے اس بل میں 90 روز حراست کی شق ختم کی جائے۔ آئین میں لکھا ہے کہ 14 دن تک آپ جسمانی ریمانڈ پر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ 90 دن کا مطلب یہ ہوگا کہ لوگوں کو انتقام کا نشانہ بنایا جائے گا کیونکہ تفتیش تو چند دن میں مکمل ہوجائے گی۔ 90 دن میں آپ لوگوں سے وہ باتیں بھی منوالیں گے جو کچھ انہوں نے کیا ہی نہیں ہوگا۔ شہریت منسوخ کرنے کا اختیار آئین کے منافی ہے اس میں ترمیم کی جائے۔ اپیل کا حق صرف سپریم کورٹ میں ہونا بھی بالکل غلط ہے۔ آپ ترمیم کرکے متعلقہ تھانے کو جو کورٹ لگتی ہے اپیل کا حق اس میں ہونا چاہیے۔ کسی کو دشمن قرار دینا ہے تو حکومت کی مخالفت کرے گا تو حکومت کہے گی کہ اس نے پاکستان کے مفاد کیخلاف بات کی ہے اور اسے اٹھالیا جائے گا۔ تمام قوانین پہلے ہی موجود ہیں لیکن ان پر مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہورہا۔ یہ قانون زاہد حامد نے پیش کیا جس نے پرویز مشرف کے دور میں ایمرجنسی کا لکھا تھا۔ اب بتائیں کیا یہ لوگ آمریت کی پیداوار نہیں ہیں۔
جماعت اسلامی امیر العظیم
(امیر جماعت اسلامی لاہور)
آئین اور قانون ایسی چیز ہے جسے اکثریت کے بل بوتے پر چھیڑنا مناسب نہیں۔ اگر کوئی قانون روز اول سے ہی متنازعہ بن جائے تو اس کے اچھے نتائج سمیٹے نہیں جاسکتے۔ ماضی کا تجربہ ہے کہ ہم نے مختلف ادوار میں انسداد دہشتگردی کے نام پر قانون سازیاں کی ہیں۔ پالیسیاں بھی بنائیں، متوازی نظام بھی بنائے ہیں لیکن وہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا جس کے لیے یہ سب کچھ کیا گیا تھا۔ اب جو بل لایا گیا ہے اس کا نام بڑا خوبصورت رکھا گیا ہے تحفظ پاکستان آرڈیننس۔ پہلے بھی ایسے قانون لاتے ہوئے بڑے مقاصد بیان کیے گئے تھے۔ لیکن دیکھیے یہ قانون کہاں کہاں لاگو ہوتے رہے ہیں۔ خود نواز شریف پر یہ قانون اپلائی ہوا اور اب بھی لاہور کی انسداد دہشتگردی کی عدالت میں میرا نام، خواجہ عمران نذیر اور خواجہ سعد رفیق کا نام درج ہے۔ مجھے اس وقت بہت افسوس ہوا جب ایک درویش منش مذہبی شخصیت سرفراز نعیمی کو میں نے موٹر سائیکل پر آکر انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش ہوتے دیکھا۔
دیکھیں جب ایسے قانون بنا دیتے ہیں تو اپلائی کیسے کرتے ہیں۔ دہشتگردی صرف وہ نہیں ہے جو بم دھماکوں سے ہوتی ہے۔ وہ بھی دہشتگردی ہے کہ خواتین سے پرس چھیننے کی کوشش میں انہیں گولی مار دی جاتی ہے۔ دہشتگردی وہ بھی ہے جب زمیندار کسی عورت پر کتے چھوڑ دیتا ہے۔ پورے ملک میں ہر طرح کی دہشتگردی موجود ہے۔ آپ کو نئے قانون بنانے کی بجائے پہلے سے جو قانون موجود ہیں ان پر مکمل عملدرآمد یقینی بنانا چاہیے۔ ہمارا عدالتی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ آپ دیکھیں کتنے مقدمات درج ہوتے ہیں۔ کتنے چالان پیش ہوتے ہیں، کتنے میں سزا ہوتی ہے۔ ہمارے ایک پولیس افسر ہیں انہوں نے جاپان اور بھارت کا دورہ کیا دونوں ملکوں کے متعلق ان کے مضامین اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ جاپان میں عدالتوں میں جو چالان پیش کیے جاتے ہیں ان میں سے 98 فیصد مجرموں کو سزائیں ملتی ہیں۔
بھارت میں سزا پانے والوں کا اچھا خاصا تناسب موجود ہے۔ پاکستان میں دیکھیں کتنے لوگوں کیخلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے کتنے لوگوں کے چالان عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں اور کتنے لوگوں کو عدالتوں سے سزائیں ملتی ہیں۔ مزے کی بات ہے کہ مجرموں کو پھانسی کی سزائیں ہوچکی ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس ماحول میں جب کوئی قانون لانا بے معنی ہے جب آپ پہلے سے موجود مجرموں کو سزائیں نہیں دے رہے۔ ان مجرموں کو فوری سزائیں دی جانی چاہئیں تاکہ لوگوں کے دلوں میں قانون کا خوف پیدا ہو۔ ہمیں نئے قانون لانے کی بجائے قانون کے نفاذ کی فکر ہونی چاہیے۔ ثبوت جمع کرنے پر توجہ دینی چاہیے تاکہ مجرم بچ نہ سکے۔ ہر شعبے کو آزادانہ کام کرنے کا موقع دینا چاہیے اور اس میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور کی جائیں۔ آج پولیس کے پاس یہ سہولت ہی موجود نہیں کہ وہ خود سے ٹیلی فون کالیں ٹریس کرے۔
وہ تو الٹا مدعی کو کہہ دیتی ہے کہ آپ خود ٹریس کرکے ہمیں بتائیں۔ پولیس کے پاس یہ رسائی نہیں ہے کہ آپ کو کوئی دہشتگرد فون کرے اور وہ دہشت گرد تک پہنچ سکے۔ یعنی آپ نے مجرموں کو وہ تمام مواقع فراہم کررکھے ہیں کہ وہ اپنا رعب اور خوف شہریوں پر نافذ کرسکیں۔ پولیس، عدالتوں اور سزاؤں کا خوف ختم ہوچکا ہے۔ پولیس کو پروٹوکول ڈیوٹیوں سے ہٹائیں اور ان کا جو کام ہے وہ کرنے دیں۔ جسے سکیورٹی چاہیے وہ پیسے دے اور اس کیلئے ایک علیحدہ فورس قائم کریں۔ عدالتوں کی چھٹیاں بھی ختم کی جائیں تاکہ مقدموں کی کارروائی میں تیزی لائی جاسکے اور جلد از جلد فیصلے سنائے جاسکیں۔ گواہ عدالتوں میں پیش پیش ہوکر تھک جاتے ہیں اور پھر وہ جانا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ لوگ گواہی سے نہیں بھاگتے لیکن وہ باربار عدالتوں کا چکر لگاکر مایوس ہوجاتے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ تمکین آفتاب
(سیکرٹری اطلاعات لاہور )
جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو حالات اور کلچر دیکھ کر بنایا جاتا ہے۔ لیکن تحفظ پاکستان آرڈیننس امریکی قانون کو دیکھ کر بنایا گیا جبکہ قانون اپنے ماحول کے مطابق بنانا چاہیے لیکن اس قانون کے مطابق تو کسی کو بھی اٹھایا جاسکتا ہے اور پھر 90 دن تک حراست میں رکھو اور پھر عدالت میں لے کر جاؤ پھر گواہی ہوگی جو پکڑ رہے ہیں وہ اپنے ہی خلاف بات کیوں کریں گے وہ تو یہ کہیں گے کہ اس پر شک تھا اس لیے اس کو اٹھایا ہے۔ پہلے سے جو دہشتگرد ڈکلیئر ہیں پہلے انہیں تو پکڑیں۔ دہشت ہوتا ہے خوف یعنی خوف پھیلانا۔ دہشتگردی کا دائرہ وسیع سے سے وسیع تر ہورہا ہے۔
اغوا، ڈکیتی اور تشدد سب کچھ دہشتگردی ہے۔ اس قانون کے مطابق تو آپ کسی کو بھی دہشتگرد قرار دے کر پکڑلو یا پھر اسے گولی مار دو۔ جب کوئی قانون بنایا جاتا ہے تو وہ ظاہر کرتا ہے کہ آپ کی سوچ کیا ہے لیکن ہماری سیاسی سوچ میں آمریت بہت زیادہ ہے بلکہ جمہوریت کے نام پر اس وقت بھی آمریت چل رہی ہے۔ ہمیں نئے قانون کی بجائے جو قوانین موجود ہیں ان پر پوری طرح عملدرآمد کرانے کی ضرورت ہے۔
تحفظ پاکستان آرڈیننس کے چیدہ چیدہ نکات
تحفظ پاکستان ایکٹ 2013ء کو پاکستان کیخلاف کسی جنگ سے تحفظ دینے کی خاطر جاری کیا گیا تھا یعنی کوئی ایسی کارروائی جس سے پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو نیز اس مقدمے کا فیصلہ تیز رفتاری سے کیا جاسکے۔ اس قانون کا بنیادی مقصد دہشت گردی کے خطرہ سے شہریوں کو محفوظ رکھنا کہا جارہا ہے۔
٭...''متصادم دشمن'' کا مطلب ہے ایسا شخص جو پاکستان کے خلاف اور اس کے شہریوں اور مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کیخلاف ہتھیار اٹھاتا ہے یا پاکستان کیخلاف جنگ شروع کرتا ہے یا پاکستان کی یکجہتی اور سلامتی کیلئے خطرہ بنتا ہے اس میں وہ شخص بھی شامل ہے جو سرزمین پاکستان کے باہر سے کوئی متصادم عمل شروع کرتا ہے یا پاکستان کی سرزمین کو کسی دوسرے کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کیلئے استعمال کرتا ہے۔
٭...اس میں وہ شخص بھی شامل ہے جو پاکستان کیخلاف لفظوں کی جنگ کرتا ہے جس سے اس کی وفاقی حکومت سے حاصل کردہ شہریت سے محرومی عمل میں آتی ہے۔
٭...''امتناعی حراست'' حکومت بھی اپنے ایک تحریری حکم کے ذریعے اس شخص کی حراست کی مخصوص مدت کیلئے توثیق کرسکتی ہے جوکہ 90 دن سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اگر حکومت یہ سمجھے کہ اس کے نزدیک ایسا شخص متعصبانہ انداز میں ملکی یکجہتی، سلامتی اوردفاع کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے جس کو اس سے روکا جاسکتا ہے۔ بشرط یہ کہ اس شخص کی حراست آئین کے آرٹیکل 10 کے مطابق ہو (ایسا شخص جس کے بارے میں یہ یقین کیاجائے کہ وہ آئین کے سب سیکشن 5 کے تحت آتا ہے۔
٭...ایسے علاقوں میں جہاں وفاقی حکومت یا صوبائی حکومتیں مسلح افواج کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آرٹیکل 245 کے تحت طلب کرلیتی ہیں یا جہاں وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کی طرف سے سول آرمڈ فورسز کو سول انتظامیہ کی مدد کیلئے انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت طلب کیا گیا ہو تو یہ فورس کسی بھی دشمن یا بیرونی ایجنٹ یا متحارب دشمن کو زیر حراست لے سکتی ہے بشرط یہ کہ اس شخص کی حراست آئین کے آرٹیکل 10 کے مطابق ہو۔
٭...اس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے بعد کسی بھی وقت متعلقہ شخص کو پولیس یا کسی دوسری تفتیشی ایجنسی کے حوالے کیا جاسکتا ہے تاکہ معمول کا تحقیقاتی عمل مکمل کیا جاسکے۔
٭...اس کی گرفتاری کو باقاعدہ بنانے کیلئے قوانین و ضوابط تشکیل دیئے جائیں گے۔
٭...کوئی بھی شخص جوکہ مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو یا حراست میں لیا جائے اسے اس آرڈیننس کے تحت گرفتار سمجھا جائے گا۔
٭...مسلح افواج یا سول آرمڈ فورسز کے ہاتھوں گرفتاری کی صورت میں حکومت بھی ان کا ساتھ دے گی۔ ایسی صورت میں جس سے کسی افسر کی سلامتی یا علاقے کی سکیورٹی کو خطرہ ہو آئین کے تحت حکومت پاکستان ملک کی سلامتی کے پیش نظر گرفتار کیے جانے والے کے بارے میں اس انکشاف سے باز رہے گی کہ کس بنیاد پر یہ گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جبکہ زیر حراست شخص کو دشمن یا متحارب فریق تصور کیا جائے گا۔
٭...خصوصی عدالت کی کارروائی کو عوام سے خفیہ رکھا جائے گا۔ عوام کو عدالتی کارروائی سے علیحدہ رکھا جائے گا البتہ سزا کا فیصلہ برسرعام کیا جائے گا۔
٭...خصوصی عدالت ملزم کو اس کی شہریت کے حق سے بھی محروم کرسکے گی۔
٭...حکومت کسی ایسے جرم کے ضمن میں جوکہ قانون کے تحت سزا کا مستحق ہو اس کیلئے کسی بھی عدالت انصاف یا ٹربیونل سے رجوع کرسکے گی یا اس مقدمے کو خصوصی عدالت میں منتقل کرسکے گی اور خصوصی عدالت کیلئے یہ ضروری نہیں ہوگا کہ وہ گواہوں کو طلب کرے یا دوبارہ شہادتوں کو قلمبند کرنے کا حکم سنائے۔ اگر اس خصوصی قانون کی بعض شقیں کسی مروجہ قانون سے متصادم ہوں گی تو اس صورت میں اسی قانون کی عملداری قائم رہے گی۔