رمضان المبارک رحمتوں اور برکتوں کا مہینہمستحقین کا خیال رکھا جائے

ممتاز عالم دین مولانا محمد الیاس گھمن کی رمضان المبار ک کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ سے خصوصی گفتگو

ممتاز عالم دین مولانا محمد الیاس گھمن کی رمضان المبار ک کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ سے خصوصی گفتگو ۔ فوٹو : وسیم نیاز

مولانا محمد الیاس گھمن ممتاز عالم دین اور بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں۔ اس وقت متعدد دینی ادارے آپ کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔

آپ دنیا بھر میں آن لائن دینی کورسز بھی کرواتے ہیں اور اب تک لاکھوں بندگان خدا کی شرعی رہنمائی کا فریضہ بخوبی ادا کر رہے۔ ماہ رمضان کا آغاز ہوچکا ہے، اس حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی لیکچر کا انعقاد کیا گیس جس سے مولانا محمد الیاس گھمن نے خصوصی گفتگو کی جس کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

مولانا محمد الیاس گھمن

رمضان المبارک کے استقبال کا سب سے بہترین طریقہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔

حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے شعبان کے آخر میں ہمیں (استقبال رمضان کے عنوان سے )ایک خطبہ ارشاد فرمایا کہ(اللہ کی طرف سے)تمہارے پاس ایک مہینہ آ رہا ہے جو بہت عظمت والا ہے اوربہت برکت والا مہینہ ہے۔

اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے روزہ کو فرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے جو شخص اس مہینہ میں کوئی نیکی کر کے اللہ کا قرب حاصل کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں فرض کو ادا کرنے والا ہو اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستر فرائض ادا کرے۔ یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔

اس مہینہ میں مومن کارزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لئے گناہوں کے معاف ہو نے اور آگ سے خلاصی کا سبب ہو گا اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہو گا مگر ا س روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم نہیں کیا جائے گا۔

صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ (یہ ثواب پیٹ بھر کرکھلانے پر موقوف نہیں) بلکہ اگر کوئی بندہ ایک کھجور سے روزہ افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ لسّی کاپلادے تو اللہ تعالیٰ اس پربھی یہ ثواب مرحمت فرما دیتے ہیں۔

یہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کا اول حصہ اللہ کی رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کاہے۔ جو شخص اس مہینہ میں اپنے غلام اور نوکر کے بوجھ کو ہلکا کر دے تواللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں اور آگ سے آزادی عطا فرماتے ہیں۔ اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے لیے ہیں اور دوچیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔

پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے رب تعالیٰ شانہ (روزِ قیامت) میرے حوض سے اس کوایسا پانی پلائیں گے جس کے بعد جنت میں داخل ہو نے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔

ایکسپریس فورم:ایک مسلمان کے رمضان المبارک میں معمولات کیا ہونے چاہئیں؟

مولانا محمد الیاس گھمن: پانچ وقت نماز باجماعت کا اہتمام کیا جائے۔ خواتین گھروں میں نماز کی پابندی کریں۔ روزے رکھنے کا اہتمام کیا جائے۔ روزے کے آداب کا خیال رکھا جائے۔ نماز تراویح جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام کیا جائے۔

اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تراویح کا امام نابالغ نہ ہو۔ ایسے امام کے پیچھے تراویح نہ پڑھی جائے جو قرآن مجید دیکھ کر تراویح پڑھاتا ہواگر کسی جگہ پرمسنون بیس رکعات سے کم تراویح ہو اور اس میں قرآن مجید مکمل پڑھا جاتا ہو اور دوسری جگہ پر مسنون بیس رکعات تراویح ہو لیکن سورتوں کے ساتھ پڑھی جاتی ہوں تو بیس رکعات ہی پڑھنے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ احادیث کی روشنی میں مسنون تراویح بیس رکعات ہے۔

اگر تراویح کے لیے نابالغ امام ہو یا امام قرآن دیکھ کر پڑھاتا ہو یا مسنون بیس رکعات سے کم پڑھی جا رہی ہوں تو ایسی تراویح میں شامل ہونے کے بجائے گھر میں ادا کی جائے۔ بچوں اور خواتین کو مقتدی بنا کے پڑھ لی جائے۔قرآن کریم کی تلاوت کم از کم دو پارے ورنہ ایک پارے کا معمول بنایا جائے۔ نفل نمازوں مثلاً تہجد، اشراق، چاشت، اوابین، صلوٰۃ التسبیح، تحیۃ الوضو، تحیۃ المسجد، صلوٰۃ التوبۃ کا اہتمام کیا جائے کیونکہ رمضان میں نفل نماز کا ثواب فرض نماز کے برابر ہے۔

ذکر، درود شریف اور مسنون دعاؤں کا اہتمام کیا جائے۔سحری کھانے کا اہتمام ہو۔ طلب زیادہ نہ ہو تو چند کھجوروں اور پانی پر اکتفاء کیا جائے۔ آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کی کوشش کی جائے۔ مرد مساجد میں اور خواتین اپنے گھروں میں اعتکاف بیٹھیں۔ اعتکاف میں عبادات کی جائیں، تلاوت کا اہتمام ہو اور لیلۃ القدر کی تلاش میں راتوں کو بیداری کی جائے۔

کوشش کی جائے کہ عید کے لیے کپڑے اور دیگر سامان رمضان المبارک سے پہلے ہی بنوا لیا جائے تاکہ رمضان المبارک کی عبادات یکسوئی سے ادا ہو سکیں۔

ایکسپریس فورم:روزہ داروں کو اللہ تعالیٰ کیا عطا فرماتے ہیں؟


مولانا محمد الیاس گھمن: روزہ دار کے لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے پانچ انعامات کا تذکرہ فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ رمضان میں میری امت کو پانچ ایسے انعامات عطافرماتا ہے جو پہلے کسی امت کو نہیں دیے۔ پہلا یہ کہ اللہ کے ہاں روزہ دار کے منہ سے آنے والی بُو مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

دوسرا یہ کہ روزہ داروں کی بخشش کے لیے دریا کی مچھلیاں افطار کے وقت تک اللہ سے دعا مانگتی رہتی ہیں۔ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ روزہ داروں کے لیے روزانہ جنت کو سجاتے ہیں اور اسے فرماتے ہیں کہ عنقریب میرے نیک بندے خود سے مشقتوں اور تکالیف کو دور کر کے تیرے اندر آنے والے ہیں۔چوتھا یہ کہ اس میں سرکش شیاطین کو باندھ دیا جاتا ہے وہ رمضان میں ان برائیوں تک نہیں پہنچ سکتے جن برائیوں میں رمضان کے علاوہ میں پہنچ سکتے ہیں۔اور پانچواں یہ کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔

اس پر صحابہ کرام ؓ نے پوچھا کہ یہ مغفرت والی رات شب قدر ہی ہے ناں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا: نہیں! بلکہ دستور دنیا یہی ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔

ایکسپریس فورم:کوئی شخص روزہ نہ رکھے تو اس کے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟

مولانا محمد الیاس گھمن: اگر روزہ کسی عذر کی وجہ سے چھوڑا ہے مثلاایسا دائمی مریض /شدید بیماریا معذور ہے جس کے صحت یاب ہونے کی بالکل امید نہیں تو اس کے لیے شریعت نے یہ رخصت دی ہے کہ وہ روزہ رکھنے کے بجائے اس کا فدیہ دے۔

ایک روزے کا فدیہ ایک آدمی کے صدقۃ الفطر کے برابر ہے۔ رمضان کے 29 یا 30 روزے ہوں تو صدقۃ الفطر کو 29 یا 30 سے ضرب دیں جو جواب نکلے وہ پورے رمضان کے روزوں کا فدیہ بنے گا۔

یہاں بھی یہ ملحوظ رہے کہ فدیہ میں اپنی حیثیت کا ضرور خیال کریں۔ گندم کے علاوہ جو، کشمش یاکھجور کے حساب سے فدیہ ادا کریں۔اور اگربغیر کسی عذر کے جان بوجھ کر نہیں رکھتا تو بہت بڑا گناہ ہے، رحمت، مغفرت سے محرومی والی بات ہے۔ اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔

ایکسپریس فورم: رمضان المبارک میں حقوق العباد کی ادائیگی کے حوالے سے شریعت اسلامیہ ہمیں کیا درس دیتی ہے؟

مولانا محمد الیاس گھمن: جیسا کہ میں نے ابھی حضرت سلمان فارسی ؓ سے مروی حدیث مبارک ذکر کی ہے۔ اس میں یہ بات بھی ہے کہ رمضان المبارک خیرخواہی کا مہینہ ہے۔یہ بات یاد رکھیں کہ اسلام نے ہمیشہ اعتدال کی تعلیم دی ہے۔

حقوق اللہ کی ادائیگی میں حقوق العباد کو نظر انداز نہیں کیا اور حقوق العباد کی ادائیگی میں حقوق اللہ کو نظر انداز نہیں کیا۔ حدیث مبارک کی روشنی میں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ اپنے ماتحت ملازمین کے کام میں کمی (اور اجرت میں اضافہ) کیا جائے۔ تاجر برادری ان دنوں اشیاء پر نفع کم از کم لے تاکہ غرباء و مساکین بھی رمضان اور عیدکے لیے چیزیں خرید سکیں۔ان کے علاوہ عزیز و اقارب ، قرب و جوار، دوست احباب وغیرہ میں جن کی مالی حالت کمزور ہو، کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ زکوٰۃ، صدقۃ الفطر اور دیگر صدقات کا خوب اہتمام کیا جائے۔

اس مہینہ میں آئمہ مساجد، علماء وصلحاء اور دینی مکاتب، رفاہی تنظیموں اور وطن عزیز کے سیلاب زدگان کی خدمت کی جائے۔ اسی طرح ترکیہ اور شام کے زلزلہ متاثرین کے ساتھ دل کھول کر تعاون کیا جائے۔

ایکسپریس فورم: ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہمارا رمضان اللہ کے ہاں اچھا گزرا ہے یا اچھانہیں گزرا؟

مولانا محمد الیاس گھمن: اگر رمضان المبارک کے بعد چند چیزیں ہماری عملی زندگی کا حصہ بن جائیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ کے ہاں ہمارا رمضان قبولیت پا چکا ہے۔ نمبر 1: عبادات کا اہتمام: رمضان المبارک میں قرآن کریم کی تلاوت، ذکر اللہ، نوافل، دعا، نماز باجماعت اور اللہ کے راستے میں صدقہ و خیرات کی پابندی ہوتی ہے۔

یہ رواجی، روایتی اور موسمی چیزیں نہیں جو صرف رمضان المبارک میں ہوں اور بقیہ مہینوں میں ان سے غفلت برتی جائے بلکہ مومن کی پوری زندگی ایسے گزرنی چاہیے۔ نمبر2:ضبط نفس:روزہ کا حقیقی مقصد ''تقویٰ'' ہے یعنی شیطان اور نفس کی خواہشات کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و الہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرادری اختیار کرنا۔ محض بھوکا پیاسا رہنا مقصود نہیں۔ اس لیے رمضان کے بعد تقویٰ والی زندگی گزارنے کی کوشش کی جائے، جب کبھی گناہ ہو جائے فوراً اس سے توبہ کی جائے۔

نمبر3: صبر و تحمل: روزہ دار کو حکم یہ ہے کہ اگر کوئی اس سے لڑائی جھگڑا کرے تو یہ اسے کہہ د ے کہ میں روزے سے ہوں۔ رمضان کے بعد بھی لڑائی جھگڑے سے دور رہنا چاہیے۔ نمبر 4: جذبہ ایثار: روزہ کی حالت میں بھوک و پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے جس سے غریبوں کی بھوک و پیاس کا احساس ہوتا ہے۔

نمبر 5: صدقہ و خیرات: صدقہ و خیرات کرنے سے اللہ بھی راضی ہوتے ہیں اور انسان پر آنے والی آفات بھی ٹل جاتی ہیں۔ اس لیے جیسے رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کا اہتمام کیا جاتا رہا بعد میں بھی صدقہ و خیرات اہتمام سے کرتے رہنا چاہیے۔ نمبر 6: نظام الاوقات کی پابندی: رمضان المبارک میں اوقات کار کی پابندی کرائی جاتی ہے: سحری سے لے کر افطاری تک انسان وقت کا پابند ہوتا ہے۔ اس دوران اپنی مرضی سے کچھ نہ کھا سکتا ہے اور نہ ہی پی سکتا ہے۔رمضان المبارک کے بعد بھی اپنے تمام کاموں کے اوقات کار متعین کرنے چاہئیں۔

عملی تجربات سے ثابت ہے کہ جس کام میں نظام الاوقات مقرر ہو اس کے اچھے نتائج اور ثمرات ظاہر ہوتے ہیں۔ رمضان المبارک ہم سے کچھ لے کر نہیں جاتا بلکہ ہمیں بہت کچھ دے کر جاتا ہے۔ رمضان ہمیں تقویٰ، عبادات کا اہتمام، ضبط نفس، صبر وتحمل، جذبہ ایثار، صدقہ و خیرات اور نظام الاوقات کی پابندی دے کر جاتا ہے ۔ اگر ہم رمضان اچھا گزاریں گے تو ہمارے بقیہ مہینے بھی اچھے گزریں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Load Next Story