تنہائی سے بہت ڈر لگتا ہے ناصر اقبال
تخلیق سے سمجھوتا بے وقوفی ہے، کامیڈی لکھنے والوں کی تربیت ہونی چاہیے، ناصر اقبال
ISLAMABAD:
یہ غالباً آمر ایوب کا دور تھا کہ پنڈی کے معروف مری روڑ پر فلمی صنعت کے چھوٹے بڑے اداکار و صداکار ٹرکوں پر چڑھے اپنے مطالبات منوانے کو جلوس کی صورت رواں دواں تھے۔
یہ پہلی بار تھا کہ لوگ اداکاروں کو اپنے درمیاں دیکھ رہے تھے، شہر کا شہر ٹوٹا پڑا تھا، جلوس کی راہ میں ہزارہا لوگ ان کا استقبال کر رہے تھے، کوئی گل دستہ لیے آ رہا ہے تو کوئی ہار، آٹو گراف لینے والوں کا شمار و قطار ختم نہیں ہو پا رہا تھا، کوئی بام، کوئی در، دیوار، چوبارہ، بالاخانہ ایسا نہ تھا جہاں سے ہاتھ خیرمقدمی انداز میں لہرائے نہ جا رہے ہوں، اسپیکر پر سلطان راہی مرحوم کا نعرہ ''چل سو چل'' ایک لمحے کو نہ تھمتا تھا۔ چندے اس کے جگہ جگہ تذکرے ہوا کیے پھر رفتہ رفتہ گرد بیٹھ گئی اور زندگی اپنے ڈھرے پر آگئی لیکن ۔۔۔۔۔ یہ جلوس پانچ سالہ ناصر کو مستقبل کی ایک راہ سجھا گیا، ہرچند ابھی تک اسے سینما جانے کا اتفاق بھی نہ ہوا تھا، ہوتا بھی کیسے! گھرانا ہی اس قدر مذہبی تھا، لے دے کر ایک ریڈیو تھا، وہ بھی بڑے بوڑھوں کے خبریں سننے کے لیے، سو اکثر بند ہی رہتا تھا۔
جلوس کا جادو کچھ یوں اس کے سر چڑھا کہ سوتے جاگتے خود کو اُسی جلوس کے کسی ٹرک پر کھڑا عوام کی طرف ہاتھ ہلاتے دیکھا کرتا؛ پھر یوں ہوا کہ اس نے بڑے ہوکر اداکار بننے کی ٹھان لی۔ لگن سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے، ناصر ایک دن واقعی مقبول فن کار بن گیا۔ کہتے ہیں ''مری روڈ کے جلوس کے بعد میںفن کار بننے کے خبط میں مبتلا تو ہو ہی چکا تھا مگر میں نے کبھی اِس خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا، ایساکیوں نہ ہوا تھا؟ خود میری سمجھ میں نہیںآتا تھا کہ آخر میں اس خواہش کو دبا کیوں رہا ہوں؟ لیکن میری اس خواہش کو میری ایک عادت نے عیاں کر دیا تھا مثلاً جب ٹی وی پر بڑے بڑے سیاست دان آتے تو وہ مجھے انسپائر نہیں کرتے تھے البتہ جب کوئی بڑا فن کار آ جاتا تو میں اس کی راہ میں آنکھیں بچھا دیا کرتا جس کو سب نوٹس کیا کرتے تھے۔
کہتے ہیں ''میں آج تک اسی ادھیڑ بن میں ہوں کہ میرا یہ ہونا آخر ہے کیا ؟ میرے لیے یہ سوال آج بھی لاینحل ہے، بس اتنا علم ہوا کہ جب ہوش سنبھالا تھا تو خود کو بہن بھائیوں سے یک سر مختلف پایا، میری ترجیحات مختلف تھیں مثلاً ، مجھے اچھے پہناووں کی خواہش نہیں تھی، کتابوں کا جنوںتھا، میرے دوست ظاہر ہے مجھی سے تھے، پنڈی کی کوئی لائبریری ایسی نہ تھی جو ہماری یلغار سے محفوظ رہی ہو۔ 1982 میں پی ٹی وی پر جمشید فرشوری صاحب کا پروڈکشن اسسٹنٹ بھرتی ہوگیا، 1988 تک اُن کے ساتھ کام کیا۔ 400 روپے تن خواہ تھی، 250 روپے اوور ٹائم؛ ان دنوں ساڑھے چھے سو رپلی، جانیے نواب زادے تھے ہم، خوش بختی ملاحظہ ہو کہ ملازمت شوق کے عین مطابق تھی سو دل سے کام نہ کرنے کا سوال ہی کہاں اٹھتا تھا، ادھر آؤٹ اسٹینڈنگ فن کار بڑے بھائی عبید ملک کی حوصلہ افزائی؛ سونے پر سہاگا، غفران امتیازی صاحب کی شفقت بھی حاصل رہی۔ اِسی دوران جمشید فرشوری اور بشریٰ رفیق صاحبہ کا 'کلیاں' شروع ہوچکا تھا، میں بھی بہ طور آرٹسٹ اس میں شامل ہو گیا۔
محترم فاروق قیصر نے مجھے اپنے پپٹس (پتلیوں) کے لیے منتخب کیا لیکن راہ میں ایک مشکل یہ آن پڑی کہ پی ٹی وی کا ملازم ہونے کی حیثیت سے میں آرٹسٹ کے طور پر پروگرام کاحصہ نہیں بن سکتا تھا، میرا نام اپروو نہ ہو پایا اور میں نے ملازمت چھوڑ دی، مخلصوں نے بہت سمجھایا کہ خوش حالی کو لات مار رہے ہو ، پچھتاؤ گے مگر میں نے کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اُس کے بعد جب میں پروگرام کلیاں کا حصہ بن گیا تو میری فنی زندگی کا اصل سفر شروع ہوا۔ اِس سفر میں جو لوگ میرے ہم سفر تھے ان میں بابر علی نیازی، راشد خان مرحوم، نصرت اورمحمد اسلام مرحوم کے علاوہ بہت سے دوسرے فن کار شامل ہیں۔ یوں یہ سفر خاصا خوش گوار رہا اور مجھے لوگوں سے ملنے ملانے، اٹھنے بیٹھنے، اسکرپٹ پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ آیا، زندگی کی تلخیوں کو سمجھنے کا شعور بھی حاصل ہوا۔ اسی دوران مجھے پاکستان لوک ورثہ میں اسٹینو گرافر کی ملازمت مل گئی، میں لوک ورثہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیر اعظم کے ساتھ کام کرنے لگا اور ترقی کرتے کرتے پروگرام آفیسر بن گیا''۔
پی ٹی وی کے پروگرام کلیاں میں ''مسٹر گائیڈ'' کے پپٹ سے معروف ہونے والے اداکار ناصر اقبال پپٹس کے ساتھ کام کرنے کے لطف کو بھولے نہیں، انہیں اپنا کردار ''لالہ پشوری'' بھی نہیں بھول نہیں پایا کہ یہ واحد کردار تھا جو اردو پروگرام میں پشاور کی کراری ہندکو بولتا تھا، اسی طرح ان کا کردار ''فارغ البال'' بھی بہت مقبول ہوا، بعدازاں جب انہوں نے ''ماسی مصیبتے'' کا کردار کیا تو وہ بھی لوگوں کو پسندآیا اور یوں یہ سفر سال ہا سال جاری رہا۔
ناصراقبال نے اپنی زندگی میں جو پہلی فلم دیکھی وہ ندیم کی چکوری تھی، جب وہ فلم دیکھ کر واپس گھر آئے تو ان کے حواس پر ندیم چھائے ہوئے تھے اور کئی دن تک وہ ان کے سحر سے باہر نہ نکل پائے لیکن کمال کی بات یہ بھی تھی کہ اِس حواس باختگی کو کسی پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا، کہتے ہیں ''شاید یہ بھی میری اداکاری کا ایک نمونہ تھا یا پھر دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا، اِس لیے خوف کی وجہ سے سب کچھ پی گیا تھا، والد صاحب غصے کے تیز تھے، ہاں اماں جی نرم خو تھیں، جانتی تھیں کہ میں چھپ چھپ کر اداکاری کیا کرتا ہوں، زندگی کی یہ دو رخی میرے ساتھ بہت عرصے جاری رہی لیکن جب میں گیسٹ ہاؤس میں اپنے کردار ''باؤ نوید'' کی وجہ سے جانا جانے لگا تو ایک دن میرے والد صاحب کو کسی نے بتایا کہ ''تیرا بیٹا ڈراموں میں کام کرتا ہے اور بہت اچھا پرفارم کرتا ہے''۔
والد صاحب سبزی منڈی میں فروٹ کی آڑھت کیا کرتے تھے، شام کو گھر آئے تو مجھے بلا کر پوچھا کہ ''پتر توں کیہڑا کم شروع کر دِیتا اے، لوگ سفارش کرنے لگے ہیں کہ میں انہیں، تم سے ملواؤں؟'' میری تو مارے خوف کے گھگی بندھ گئی، کاٹو تو لہو نہیں، ٹکر ٹکر دیکھتا رہ گیا تو خود ہی کہنے لگے، ڈراموں میں کام کر رہے ہو؟ پھر ایک لمبی چپ کے بعد فرمایا ''اچھا جا رب تینوں کام یاب کرے'' ان کے اِس ایک جملے نے میرے اندر کی دنیا میں ہونے والی اتھل پتھل اور اضطرار کو ''بلائے بود ولے بہ خیر گذشت'' کے مصداق یک بہ یک پرسکون کر دیا، دل نے ایک انگڑائی سی لی اور جیسے ایک طوق سا تھا جو اتر گیا ہو''۔
اداکار ناصر اقبال نے سب سے پہلے راول پنڈی میں زیڈ اے زلفی کی پرائیویٹ پروڈکشن میں ہیرو کا کردار ادا کیا تھا، یہ پہلی نجی پروڈکشن تھی جو پی ٹی وی نے خریدی، اسے عشرت انصاری نے ڈائریکٹ کیا تھا، پھر اُس کے بعد گیسٹ ہاؤس میں باؤ نوید کے کردار نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور وہ معروف فن کاروں کی صف میں شامل ہوگئے۔
اداکارناصر اقبال کے نو بھائی اور ایک بہن تھی، ایک گھر میں دس لڑکے ہوں اور وہ مل کر گلی محلے میں شرارتیں نہ کریں، کیسے ممکن ہے۔ کہتے ہیں '' ایسی اعلیٰ اعلیٰ شرارتیں کی ہیں کہ اب اس عمر میں بھی سرشار کر جاتی ہیں لیکن تربیت کچھ ایسی تھی کہ ہم نے کبھی کسی کو اذیت نہیں دی، آپس میں لڑائی مار کٹائی ہو جاتی تھی مگر بزرگوں اور گلی محلے کے ادب آداب کا احترام کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جس کے باعث گھر تک کبھی شکایت نہیں پہنچی۔''
بچپن اور زمانۂ طالب علمی کے حوالے سے کہا ''میں اِس بات پر بھی حیران ہوں کہ میں نصاب کا کیڑا ہرگز نہیں تھا، مدرسے کا کام بھی دل لگا کر نہیں کرتا تھا مگر امتحان میں ہمیشہ اچھے نمبروں میں پاس ہوتا رہا، جس مضمون میں 33 نمبروں کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا اُس میں 60 سے 70 نمبر آ جاتے، موتی بازار گورنمنٹ پرائمری اسکول سے پانچویں، فیض الاسلام ہائی اسکول راجہ بازار سے میٹرک کیا، بعد میں ایف اے، بی اے اور ایم اے تک پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے تعلیم مکمل کی''۔ ایک دھیما سا پچھتاوا کہ ''اگر میں ان دنوں دل لگا کر پڑھ لیتا تو بہت آگے نکلنے کے درجنوں چانس ضائع نہ ہوتے بہ ہر حال اللہ کا شکر ہے کہ بہتوں سے بہت بہتر ہوں۔11 بچوں کو اکیلے والد صاحب نے جس طرح پالا پوسا، یہ بڑی بات تھی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے گھرانے نے کبھی بُرے دن نہیں دیکھے وگرنہ آپ جانیے دو بچے ہی پالنا کیسا کارے دارد ہے''۔
اپنی فنی زندگی میں اپنے سینیئر کا نام بہت ہی احترام سے لیتے ہوئے ناصر اقبال نے کہا '' مجھے اگر یہ بڑے لوگ نہ ملتے تو میں شاید کچھ بھی نہ ہوتا، جمشید فروشوری نے کمال محبت سے مجھے پروڈکشن کا کام سکھایا، فاروق قیصر نے مجھے اسکرپٹ کی باریکیوں سے کے ساتھ زندگی سے بھی آشنا کیا۔ اُس زمانے میں پنڈی ٹیلی ویژن پر اداکار عابد علی کا طوطی بولتا تھا، انہوں نے مجھ پر خصوصی شفقت کی، اداکار سجاد کشور، غفران امتیازی اور بہت سے دیگر سینیئر اساتذہ نے میری غلطیوں کی نشاںدہی کی اور انہیں دور کرنے میں میری رہ نمائی کی۔ اِسی طرح جب میں نے ریڈیو پر سلمان المعظم صاحب کی نگرانی میں پروگرام 'زندگی زندہ دلی کا نام ہے' کیا تو اس سے بھی سیکھنے کو بہت کچھ ملا، میں نئے فن کاروں سے اتنا ضرور کہوں گا کہ جب آپ سر جھکا کر سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں تو سیکھا ہوا کام عملی شکل میں کام یابی بن کر سامنے آتا ہے۔''
ناصر اقبال نے 1987 میں شادی کی، شادی ارینجڈ تھی یا لو میرج؟ اِس پر قہقہہ لگا کر کہنے لگے ''یہ شادی مکس پروڈکشن تھی لیکن میری اہلیہ نے شادی کے بعد مجھ کو بہت زیادہ اسپورٹ کیا اور مجھے فن کار بننے کے لیے جو ماحول درکار تھا وہ اُس کی رفاقت میں بڑی خوش اسلوبی سے میسر رہا''۔ شوال ناصر، ناصر کا اکلوتا بیٹا ہے، ماشاء اللہ 20 برس کا ہو چکا ہے اور آج کل برطانیہ میں زیر تعلیم ہے۔ بیٹے کو فن کار بنانے کے سوال پر کہنے لگے ''میرا باپ کاروباری آدمی تھا مگر میں اداکار بن گیا، انہوں نے روکا نہیں، میں اُسے کیسے روک سکتا ہوں، اُس کی اپنی زندگی ہے، جو بننا چاہے گا خود فیصلہ کرے گا۔''
ناصر اقبال 1999 میں ذاتی گھر بنانا چاہتے تھے مگر منہگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر امریکا چلے گئے، نائن الیون رونما ہوا تو واپس آنا پڑا، دوبارہ 2000 میں گئے، مستقل قیام کی جدوجہد کرتے کرتے 10 سال گزار دیے۔'' امریکا کے بارے میں کہا ''کمانے کے لیے نہایت اعلیٰ ملک ہے لیکن آدمی کا جفاکش ہونا ضروری ہے، وہاں جانے والوں کو میرا ایک مشورہ ہے کہ 20 سے 22 سال کی عمر میں وہاں چلے جانا چاہیے، وہاں کی مٹی بوڑھی ہڈیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ امریکا میں آپ جتنا کما لیں وہاں خرچ کرنے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہیں، جو آدمی آمدن اور خرچ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا، سمجھیے! مارا گیا۔
وہاں دو نمبری کرنے کے بھی بے شمار مواقع ملتے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ وہاں کا نظام دو نمبر آدمی کو بہت جلد ٹریس کرکے جیل میں بھی ڈال دیتا ہے لیکن دیانت داری اور محنت سے کمانے والوں کے لیے وہاں بے شمار سہولتیں حکومت نے دے رکھی ہیں، وہاں آگے بڑھنے کے بہت مواقع ملتے ہیں اور خود کو منوانے اور تسلیم کرانے کے لیے آپ کو لوگوں کی خوشامد بھی نہیں کرنا پڑتی مثلاً، میں نے وہاں ٹی وی پروڈکشن کی جدید مشینیں اور آلات سیکھنے اور سمجھنے کے لیے ڈپلوما کورس کیا جو یہاں ممکن نہیں تھا، وہاں پر پروڈکشن کے شعبے میں کام کیا اور اِس کے علاوہ اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے تاکہ یوٹیلٹی بلز آسانی سے ادا ہوتے رہیں۔ اب میں کمپیوٹر پر ویڈیو پروڈکشن کے کام کو مکمل طور پر سیکھ چکا ہوں لیکن میرے اندر جو ایک اداکار چھپا ہوا ہے، وہ مجھ پر آج بھی حاوی ہے۔ میں نے امریکا میں متعدد ٹی وی کمرشل تیار کیے، اِس کے علاوہ وہاں میں نے اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے لیے مختلف ٹی وی کیبل چینل بنائے مثلاً، میرا ایک چینل ''رولا ٹی وی'' وہاں خاصا مشہور ہوا، اسی طرح یو ایس اے دیسی ٹی وی بھی کافی مقبول رہا، یہ چینل وہاں پر ایک ''جادو باکس'' (ٹی وی ریسور سیٹ) کے ذریعے دیکھے جاتے ہیں۔
وہاں مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ کیمرے کے پیچھے چھپ گئے ہیں آپ کو تو کیمرے کے سامنے ہونا چاہیے تھا۔ میں نے بہت سوچا مگر پھر اِس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے جو سیکھا ہے اگر میں کیمرے کے سامنے آ گیا تو سارا سیکھا سکھایا کیمرے کے پیچھے نہیں ہو گا، میری وجہ سے بہت سے لوگ کیمرے کے سامنے ہیں، میرے لیے یہ ہی کافی ہے لیکن میں اب وہاں کا تجربہ پاکستان کے لیے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ وہاں پر استعمال ہونے والے جدید آلات اور تکنیک اگر یہاں آ جائیں تو یہاں پر کام کا معیار دوگنا کیا، تین گنا بہتر ہو سکتا ہے مثلاً، یہاں کے مختلف ٹی وی چینلز پر جو معروف مزاحیہ پروگرام اور ڈرامے چل رہے ہیں، وہ بہت پرانی تکنیکس کے ذریعے پروڈیوس ہو رہے ہیں، ہرچند یہ بہت معیار ی کام ہے لیکن اس میں معیار بڑھانے کی بہت زیادہ گنجائش ابھی باقی ہے، یورپ اور امریکا میں اِس نوعیت کے جو مزاحیہ پروگرام پروڈیوس ہو رہے ہیں، ان کی تکنیکس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، میں آج کل چھٹی لے کر اسی مشن پر پاکستان آیا ہوں کہ دیکھوں کہاں کہاں گنجائش نکل سکتی ہے اور اِس کو کس طرح فِل کیا جا سکتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں کامیڈی ہمارے اسٹائل کے قریب قریب ہے مگر ان کا ایک خاص منفرد انداز بھی ہے جو یہاں ناپید ہے مثلاً، وہ مختصر سے سیٹ پر وہ کام کر لیتے ہیں جو ہم یہاں پورے فلور پر نہیں کر پاتے۔''
اداکاری میں ناصر اقبال کا شعبہ کامیڈی ہے، اِس لیے انہوں نے کامیڈی پروگراموں کا جائزہ مکمل کرنے پر تمام تر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اِس حوالے سے ان کا کہنا ہے ''جب تک کامیڈی لکھنے والوں کی جدید انداز میں تربیت نہیں ہو گی، تب تک بہتر کام ممکن نہیں ۔ ہمارے یہاں جتنے بھی کامیڈی فن کار ہیں، یا تھے، وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے اِس شعبے کو زندہ رکھے ہوئے تھے اور ہیں، میں فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے تمام کامیڈی فن کاروں کی عظمت کو سلام کرتا ہوں کہ وہ مشکل اور نامساعد حالات میں بھی بہترین کام کرتے رہے اور مسلسل کر رہے ہیں، اِن فن کاروں کو اگر یورپ اور امریکا جیسی سہولتیں مل جائیں تو یہ پوری دنیا میں اپنے کام کا سکہ منوا سکتے ہیں، اِس کام میں اگر رائیٹر دماغ کی حیثیت رکھتا ہے اور ڈائریکٹر ریڑھ کی ہڈی کی تو فن کار اِس سارے نظام میں دل کا مقام رکھتا ہے، جو پورے جسم میں قہقے کو خون کی طرح جسم میں پھیلا دیتا ہے، یہ ٹیم ورک ہے، مگر یہاں سارا کام بے چارہ فن کار ہی کرتا چلا جا رہا ہے۔''
ٹیکساس میں رہنے والے ناصراقبال اب سیکھ چکے ہیں کہ زندگی زندہ دلی کانام ضرور ہے مگر زندگی جہد مسلسل بھی ہے، خاص طور پر فن کار کی زندگی کا ہر نیا دن، ایک نیا امتحان ہوتا ہے، جو فن کار نئے امتحان سے منہ موڑ لیتا ہے وہ فن کی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا، وقت سے سمجھوتا کرنا دانش مندی ضرور ہے مگر تخلیق پر سمجھوتہ کرنا بے وقوفی کے مترادف ہے، صبر اور تحمل سے جو فن کار قدم اٹھانے سے قاصر ہوتا ہے وہ تخلیق کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے؛ اس لیے احتیاط لازم ہے۔ اداکار ناصر اقبال نے اپنے ایک خوف کا ذکر کیا ''میں تنہا ہونے سے بہت ڈرتا ہوں، مجھے ہمیشہ سے لوگ اچھے لگتے ہیں، میں بنیادی طور پر میلے ٹھیلے والا یا یوں کہیے کہ مجلسی ہوں۔''
یہ غالباً آمر ایوب کا دور تھا کہ پنڈی کے معروف مری روڑ پر فلمی صنعت کے چھوٹے بڑے اداکار و صداکار ٹرکوں پر چڑھے اپنے مطالبات منوانے کو جلوس کی صورت رواں دواں تھے۔
یہ پہلی بار تھا کہ لوگ اداکاروں کو اپنے درمیاں دیکھ رہے تھے، شہر کا شہر ٹوٹا پڑا تھا، جلوس کی راہ میں ہزارہا لوگ ان کا استقبال کر رہے تھے، کوئی گل دستہ لیے آ رہا ہے تو کوئی ہار، آٹو گراف لینے والوں کا شمار و قطار ختم نہیں ہو پا رہا تھا، کوئی بام، کوئی در، دیوار، چوبارہ، بالاخانہ ایسا نہ تھا جہاں سے ہاتھ خیرمقدمی انداز میں لہرائے نہ جا رہے ہوں، اسپیکر پر سلطان راہی مرحوم کا نعرہ ''چل سو چل'' ایک لمحے کو نہ تھمتا تھا۔ چندے اس کے جگہ جگہ تذکرے ہوا کیے پھر رفتہ رفتہ گرد بیٹھ گئی اور زندگی اپنے ڈھرے پر آگئی لیکن ۔۔۔۔۔ یہ جلوس پانچ سالہ ناصر کو مستقبل کی ایک راہ سجھا گیا، ہرچند ابھی تک اسے سینما جانے کا اتفاق بھی نہ ہوا تھا، ہوتا بھی کیسے! گھرانا ہی اس قدر مذہبی تھا، لے دے کر ایک ریڈیو تھا، وہ بھی بڑے بوڑھوں کے خبریں سننے کے لیے، سو اکثر بند ہی رہتا تھا۔
جلوس کا جادو کچھ یوں اس کے سر چڑھا کہ سوتے جاگتے خود کو اُسی جلوس کے کسی ٹرک پر کھڑا عوام کی طرف ہاتھ ہلاتے دیکھا کرتا؛ پھر یوں ہوا کہ اس نے بڑے ہوکر اداکار بننے کی ٹھان لی۔ لگن سچی ہو تو منزل مل ہی جاتی ہے، ناصر ایک دن واقعی مقبول فن کار بن گیا۔ کہتے ہیں ''مری روڈ کے جلوس کے بعد میںفن کار بننے کے خبط میں مبتلا تو ہو ہی چکا تھا مگر میں نے کبھی اِس خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا، ایساکیوں نہ ہوا تھا؟ خود میری سمجھ میں نہیںآتا تھا کہ آخر میں اس خواہش کو دبا کیوں رہا ہوں؟ لیکن میری اس خواہش کو میری ایک عادت نے عیاں کر دیا تھا مثلاً جب ٹی وی پر بڑے بڑے سیاست دان آتے تو وہ مجھے انسپائر نہیں کرتے تھے البتہ جب کوئی بڑا فن کار آ جاتا تو میں اس کی راہ میں آنکھیں بچھا دیا کرتا جس کو سب نوٹس کیا کرتے تھے۔
کہتے ہیں ''میں آج تک اسی ادھیڑ بن میں ہوں کہ میرا یہ ہونا آخر ہے کیا ؟ میرے لیے یہ سوال آج بھی لاینحل ہے، بس اتنا علم ہوا کہ جب ہوش سنبھالا تھا تو خود کو بہن بھائیوں سے یک سر مختلف پایا، میری ترجیحات مختلف تھیں مثلاً ، مجھے اچھے پہناووں کی خواہش نہیں تھی، کتابوں کا جنوںتھا، میرے دوست ظاہر ہے مجھی سے تھے، پنڈی کی کوئی لائبریری ایسی نہ تھی جو ہماری یلغار سے محفوظ رہی ہو۔ 1982 میں پی ٹی وی پر جمشید فرشوری صاحب کا پروڈکشن اسسٹنٹ بھرتی ہوگیا، 1988 تک اُن کے ساتھ کام کیا۔ 400 روپے تن خواہ تھی، 250 روپے اوور ٹائم؛ ان دنوں ساڑھے چھے سو رپلی، جانیے نواب زادے تھے ہم، خوش بختی ملاحظہ ہو کہ ملازمت شوق کے عین مطابق تھی سو دل سے کام نہ کرنے کا سوال ہی کہاں اٹھتا تھا، ادھر آؤٹ اسٹینڈنگ فن کار بڑے بھائی عبید ملک کی حوصلہ افزائی؛ سونے پر سہاگا، غفران امتیازی صاحب کی شفقت بھی حاصل رہی۔ اِسی دوران جمشید فرشوری اور بشریٰ رفیق صاحبہ کا 'کلیاں' شروع ہوچکا تھا، میں بھی بہ طور آرٹسٹ اس میں شامل ہو گیا۔
محترم فاروق قیصر نے مجھے اپنے پپٹس (پتلیوں) کے لیے منتخب کیا لیکن راہ میں ایک مشکل یہ آن پڑی کہ پی ٹی وی کا ملازم ہونے کی حیثیت سے میں آرٹسٹ کے طور پر پروگرام کاحصہ نہیں بن سکتا تھا، میرا نام اپروو نہ ہو پایا اور میں نے ملازمت چھوڑ دی، مخلصوں نے بہت سمجھایا کہ خوش حالی کو لات مار رہے ہو ، پچھتاؤ گے مگر میں نے کشتیاں جلانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ اُس کے بعد جب میں پروگرام کلیاں کا حصہ بن گیا تو میری فنی زندگی کا اصل سفر شروع ہوا۔ اِس سفر میں جو لوگ میرے ہم سفر تھے ان میں بابر علی نیازی، راشد خان مرحوم، نصرت اورمحمد اسلام مرحوم کے علاوہ بہت سے دوسرے فن کار شامل ہیں۔ یوں یہ سفر خاصا خوش گوار رہا اور مجھے لوگوں سے ملنے ملانے، اٹھنے بیٹھنے، اسکرپٹ پڑھنے اور بولنے کا سلیقہ آیا، زندگی کی تلخیوں کو سمجھنے کا شعور بھی حاصل ہوا۔ اسی دوران مجھے پاکستان لوک ورثہ میں اسٹینو گرافر کی ملازمت مل گئی، میں لوک ورثہ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر نیر اعظم کے ساتھ کام کرنے لگا اور ترقی کرتے کرتے پروگرام آفیسر بن گیا''۔
پی ٹی وی کے پروگرام کلیاں میں ''مسٹر گائیڈ'' کے پپٹ سے معروف ہونے والے اداکار ناصر اقبال پپٹس کے ساتھ کام کرنے کے لطف کو بھولے نہیں، انہیں اپنا کردار ''لالہ پشوری'' بھی نہیں بھول نہیں پایا کہ یہ واحد کردار تھا جو اردو پروگرام میں پشاور کی کراری ہندکو بولتا تھا، اسی طرح ان کا کردار ''فارغ البال'' بھی بہت مقبول ہوا، بعدازاں جب انہوں نے ''ماسی مصیبتے'' کا کردار کیا تو وہ بھی لوگوں کو پسندآیا اور یوں یہ سفر سال ہا سال جاری رہا۔
ناصراقبال نے اپنی زندگی میں جو پہلی فلم دیکھی وہ ندیم کی چکوری تھی، جب وہ فلم دیکھ کر واپس گھر آئے تو ان کے حواس پر ندیم چھائے ہوئے تھے اور کئی دن تک وہ ان کے سحر سے باہر نہ نکل پائے لیکن کمال کی بات یہ بھی تھی کہ اِس حواس باختگی کو کسی پر ظاہر بھی نہ ہونے دیا، کہتے ہیں ''شاید یہ بھی میری اداکاری کا ایک نمونہ تھا یا پھر دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ گھر کا ماحول بہت مذہبی تھا، اِس لیے خوف کی وجہ سے سب کچھ پی گیا تھا، والد صاحب غصے کے تیز تھے، ہاں اماں جی نرم خو تھیں، جانتی تھیں کہ میں چھپ چھپ کر اداکاری کیا کرتا ہوں، زندگی کی یہ دو رخی میرے ساتھ بہت عرصے جاری رہی لیکن جب میں گیسٹ ہاؤس میں اپنے کردار ''باؤ نوید'' کی وجہ سے جانا جانے لگا تو ایک دن میرے والد صاحب کو کسی نے بتایا کہ ''تیرا بیٹا ڈراموں میں کام کرتا ہے اور بہت اچھا پرفارم کرتا ہے''۔
والد صاحب سبزی منڈی میں فروٹ کی آڑھت کیا کرتے تھے، شام کو گھر آئے تو مجھے بلا کر پوچھا کہ ''پتر توں کیہڑا کم شروع کر دِیتا اے، لوگ سفارش کرنے لگے ہیں کہ میں انہیں، تم سے ملواؤں؟'' میری تو مارے خوف کے گھگی بندھ گئی، کاٹو تو لہو نہیں، ٹکر ٹکر دیکھتا رہ گیا تو خود ہی کہنے لگے، ڈراموں میں کام کر رہے ہو؟ پھر ایک لمبی چپ کے بعد فرمایا ''اچھا جا رب تینوں کام یاب کرے'' ان کے اِس ایک جملے نے میرے اندر کی دنیا میں ہونے والی اتھل پتھل اور اضطرار کو ''بلائے بود ولے بہ خیر گذشت'' کے مصداق یک بہ یک پرسکون کر دیا، دل نے ایک انگڑائی سی لی اور جیسے ایک طوق سا تھا جو اتر گیا ہو''۔
اداکار ناصر اقبال نے سب سے پہلے راول پنڈی میں زیڈ اے زلفی کی پرائیویٹ پروڈکشن میں ہیرو کا کردار ادا کیا تھا، یہ پہلی نجی پروڈکشن تھی جو پی ٹی وی نے خریدی، اسے عشرت انصاری نے ڈائریکٹ کیا تھا، پھر اُس کے بعد گیسٹ ہاؤس میں باؤ نوید کے کردار نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور وہ معروف فن کاروں کی صف میں شامل ہوگئے۔
اداکارناصر اقبال کے نو بھائی اور ایک بہن تھی، ایک گھر میں دس لڑکے ہوں اور وہ مل کر گلی محلے میں شرارتیں نہ کریں، کیسے ممکن ہے۔ کہتے ہیں '' ایسی اعلیٰ اعلیٰ شرارتیں کی ہیں کہ اب اس عمر میں بھی سرشار کر جاتی ہیں لیکن تربیت کچھ ایسی تھی کہ ہم نے کبھی کسی کو اذیت نہیں دی، آپس میں لڑائی مار کٹائی ہو جاتی تھی مگر بزرگوں اور گلی محلے کے ادب آداب کا احترام کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا جس کے باعث گھر تک کبھی شکایت نہیں پہنچی۔''
بچپن اور زمانۂ طالب علمی کے حوالے سے کہا ''میں اِس بات پر بھی حیران ہوں کہ میں نصاب کا کیڑا ہرگز نہیں تھا، مدرسے کا کام بھی دل لگا کر نہیں کرتا تھا مگر امتحان میں ہمیشہ اچھے نمبروں میں پاس ہوتا رہا، جس مضمون میں 33 نمبروں کی امید لگا کر بیٹھا ہوتا اُس میں 60 سے 70 نمبر آ جاتے، موتی بازار گورنمنٹ پرائمری اسکول سے پانچویں، فیض الاسلام ہائی اسکول راجہ بازار سے میٹرک کیا، بعد میں ایف اے، بی اے اور ایم اے تک پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے تعلیم مکمل کی''۔ ایک دھیما سا پچھتاوا کہ ''اگر میں ان دنوں دل لگا کر پڑھ لیتا تو بہت آگے نکلنے کے درجنوں چانس ضائع نہ ہوتے بہ ہر حال اللہ کا شکر ہے کہ بہتوں سے بہت بہتر ہوں۔11 بچوں کو اکیلے والد صاحب نے جس طرح پالا پوسا، یہ بڑی بات تھی، اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے گھرانے نے کبھی بُرے دن نہیں دیکھے وگرنہ آپ جانیے دو بچے ہی پالنا کیسا کارے دارد ہے''۔
اپنی فنی زندگی میں اپنے سینیئر کا نام بہت ہی احترام سے لیتے ہوئے ناصر اقبال نے کہا '' مجھے اگر یہ بڑے لوگ نہ ملتے تو میں شاید کچھ بھی نہ ہوتا، جمشید فروشوری نے کمال محبت سے مجھے پروڈکشن کا کام سکھایا، فاروق قیصر نے مجھے اسکرپٹ کی باریکیوں سے کے ساتھ زندگی سے بھی آشنا کیا۔ اُس زمانے میں پنڈی ٹیلی ویژن پر اداکار عابد علی کا طوطی بولتا تھا، انہوں نے مجھ پر خصوصی شفقت کی، اداکار سجاد کشور، غفران امتیازی اور بہت سے دیگر سینیئر اساتذہ نے میری غلطیوں کی نشاںدہی کی اور انہیں دور کرنے میں میری رہ نمائی کی۔ اِسی طرح جب میں نے ریڈیو پر سلمان المعظم صاحب کی نگرانی میں پروگرام 'زندگی زندہ دلی کا نام ہے' کیا تو اس سے بھی سیکھنے کو بہت کچھ ملا، میں نئے فن کاروں سے اتنا ضرور کہوں گا کہ جب آپ سر جھکا کر سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں تو سیکھا ہوا کام عملی شکل میں کام یابی بن کر سامنے آتا ہے۔''
ناصر اقبال نے 1987 میں شادی کی، شادی ارینجڈ تھی یا لو میرج؟ اِس پر قہقہہ لگا کر کہنے لگے ''یہ شادی مکس پروڈکشن تھی لیکن میری اہلیہ نے شادی کے بعد مجھ کو بہت زیادہ اسپورٹ کیا اور مجھے فن کار بننے کے لیے جو ماحول درکار تھا وہ اُس کی رفاقت میں بڑی خوش اسلوبی سے میسر رہا''۔ شوال ناصر، ناصر کا اکلوتا بیٹا ہے، ماشاء اللہ 20 برس کا ہو چکا ہے اور آج کل برطانیہ میں زیر تعلیم ہے۔ بیٹے کو فن کار بنانے کے سوال پر کہنے لگے ''میرا باپ کاروباری آدمی تھا مگر میں اداکار بن گیا، انہوں نے روکا نہیں، میں اُسے کیسے روک سکتا ہوں، اُس کی اپنی زندگی ہے، جو بننا چاہے گا خود فیصلہ کرے گا۔''
ناصر اقبال 1999 میں ذاتی گھر بنانا چاہتے تھے مگر منہگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر امریکا چلے گئے، نائن الیون رونما ہوا تو واپس آنا پڑا، دوبارہ 2000 میں گئے، مستقل قیام کی جدوجہد کرتے کرتے 10 سال گزار دیے۔'' امریکا کے بارے میں کہا ''کمانے کے لیے نہایت اعلیٰ ملک ہے لیکن آدمی کا جفاکش ہونا ضروری ہے، وہاں جانے والوں کو میرا ایک مشورہ ہے کہ 20 سے 22 سال کی عمر میں وہاں چلے جانا چاہیے، وہاں کی مٹی بوڑھی ہڈیوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی۔ امریکا میں آپ جتنا کما لیں وہاں خرچ کرنے کے امکانات بھی اتنے ہی زیادہ ہیں، جو آدمی آمدن اور خرچ میں توازن قائم نہیں رکھ سکتا، سمجھیے! مارا گیا۔
وہاں دو نمبری کرنے کے بھی بے شمار مواقع ملتے ہیں لیکن میں نے دیکھا ہے کہ وہاں کا نظام دو نمبر آدمی کو بہت جلد ٹریس کرکے جیل میں بھی ڈال دیتا ہے لیکن دیانت داری اور محنت سے کمانے والوں کے لیے وہاں بے شمار سہولتیں حکومت نے دے رکھی ہیں، وہاں آگے بڑھنے کے بہت مواقع ملتے ہیں اور خود کو منوانے اور تسلیم کرانے کے لیے آپ کو لوگوں کی خوشامد بھی نہیں کرنا پڑتی مثلاً، میں نے وہاں ٹی وی پروڈکشن کی جدید مشینیں اور آلات سیکھنے اور سمجھنے کے لیے ڈپلوما کورس کیا جو یہاں ممکن نہیں تھا، وہاں پر پروڈکشن کے شعبے میں کام کیا اور اِس کے علاوہ اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے کام کیے تاکہ یوٹیلٹی بلز آسانی سے ادا ہوتے رہیں۔ اب میں کمپیوٹر پر ویڈیو پروڈکشن کے کام کو مکمل طور پر سیکھ چکا ہوں لیکن میرے اندر جو ایک اداکار چھپا ہوا ہے، وہ مجھ پر آج بھی حاوی ہے۔ میں نے امریکا میں متعدد ٹی وی کمرشل تیار کیے، اِس کے علاوہ وہاں میں نے اردو بولنے اور سمجھنے والوں کے لیے مختلف ٹی وی کیبل چینل بنائے مثلاً، میرا ایک چینل ''رولا ٹی وی'' وہاں خاصا مشہور ہوا، اسی طرح یو ایس اے دیسی ٹی وی بھی کافی مقبول رہا، یہ چینل وہاں پر ایک ''جادو باکس'' (ٹی وی ریسور سیٹ) کے ذریعے دیکھے جاتے ہیں۔
وہاں مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ آپ کیمرے کے پیچھے چھپ گئے ہیں آپ کو تو کیمرے کے سامنے ہونا چاہیے تھا۔ میں نے بہت سوچا مگر پھر اِس نتیجے پر پہنچا کہ میں نے جو سیکھا ہے اگر میں کیمرے کے سامنے آ گیا تو سارا سیکھا سکھایا کیمرے کے پیچھے نہیں ہو گا، میری وجہ سے بہت سے لوگ کیمرے کے سامنے ہیں، میرے لیے یہ ہی کافی ہے لیکن میں اب وہاں کا تجربہ پاکستان کے لیے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں کیوں کہ وہاں پر استعمال ہونے والے جدید آلات اور تکنیک اگر یہاں آ جائیں تو یہاں پر کام کا معیار دوگنا کیا، تین گنا بہتر ہو سکتا ہے مثلاً، یہاں کے مختلف ٹی وی چینلز پر جو معروف مزاحیہ پروگرام اور ڈرامے چل رہے ہیں، وہ بہت پرانی تکنیکس کے ذریعے پروڈیوس ہو رہے ہیں، ہرچند یہ بہت معیار ی کام ہے لیکن اس میں معیار بڑھانے کی بہت زیادہ گنجائش ابھی باقی ہے، یورپ اور امریکا میں اِس نوعیت کے جو مزاحیہ پروگرام پروڈیوس ہو رہے ہیں، ان کی تکنیکس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، میں آج کل چھٹی لے کر اسی مشن پر پاکستان آیا ہوں کہ دیکھوں کہاں کہاں گنجائش نکل سکتی ہے اور اِس کو کس طرح فِل کیا جا سکتا ہے۔ یورپ اور امریکا میں کامیڈی ہمارے اسٹائل کے قریب قریب ہے مگر ان کا ایک خاص منفرد انداز بھی ہے جو یہاں ناپید ہے مثلاً، وہ مختصر سے سیٹ پر وہ کام کر لیتے ہیں جو ہم یہاں پورے فلور پر نہیں کر پاتے۔''
اداکاری میں ناصر اقبال کا شعبہ کامیڈی ہے، اِس لیے انہوں نے کامیڈی پروگراموں کا جائزہ مکمل کرنے پر تمام تر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ اِس حوالے سے ان کا کہنا ہے ''جب تک کامیڈی لکھنے والوں کی جدید انداز میں تربیت نہیں ہو گی، تب تک بہتر کام ممکن نہیں ۔ ہمارے یہاں جتنے بھی کامیڈی فن کار ہیں، یا تھے، وہ اپنی خدا داد صلاحیتوں کی وجہ سے اِس شعبے کو زندہ رکھے ہوئے تھے اور ہیں، میں فلم، ٹیلی ویژن اور اسٹیج کے تمام کامیڈی فن کاروں کی عظمت کو سلام کرتا ہوں کہ وہ مشکل اور نامساعد حالات میں بھی بہترین کام کرتے رہے اور مسلسل کر رہے ہیں، اِن فن کاروں کو اگر یورپ اور امریکا جیسی سہولتیں مل جائیں تو یہ پوری دنیا میں اپنے کام کا سکہ منوا سکتے ہیں، اِس کام میں اگر رائیٹر دماغ کی حیثیت رکھتا ہے اور ڈائریکٹر ریڑھ کی ہڈی کی تو فن کار اِس سارے نظام میں دل کا مقام رکھتا ہے، جو پورے جسم میں قہقے کو خون کی طرح جسم میں پھیلا دیتا ہے، یہ ٹیم ورک ہے، مگر یہاں سارا کام بے چارہ فن کار ہی کرتا چلا جا رہا ہے۔''
ٹیکساس میں رہنے والے ناصراقبال اب سیکھ چکے ہیں کہ زندگی زندہ دلی کانام ضرور ہے مگر زندگی جہد مسلسل بھی ہے، خاص طور پر فن کار کی زندگی کا ہر نیا دن، ایک نیا امتحان ہوتا ہے، جو فن کار نئے امتحان سے منہ موڑ لیتا ہے وہ فن کی دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتا، وقت سے سمجھوتا کرنا دانش مندی ضرور ہے مگر تخلیق پر سمجھوتہ کرنا بے وقوفی کے مترادف ہے، صبر اور تحمل سے جو فن کار قدم اٹھانے سے قاصر ہوتا ہے وہ تخلیق کے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے؛ اس لیے احتیاط لازم ہے۔ اداکار ناصر اقبال نے اپنے ایک خوف کا ذکر کیا ''میں تنہا ہونے سے بہت ڈرتا ہوں، مجھے ہمیشہ سے لوگ اچھے لگتے ہیں، میں بنیادی طور پر میلے ٹھیلے والا یا یوں کہیے کہ مجلسی ہوں۔''