بچوں سے دودھ اور بسکٹ چھیننے والے

دودھ مہنگی چائے کم پی جاسکتی ہے مگر بچوں کی بنیادی ضرورت دودھ کم نہیں کیا جاسکتا

m_saeedarain@hotmail.com

مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے کہا ہے کہ مہنگائی مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہی کم کرسکتی ہے، وہ شاید موجودہ اتحادی حکومت کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں سمجھتے، اسی لیے ان کا کہنا ہے کہ (ن) لیگ کی حکومت ہی مہنگائی کم کرسکتی ہے جب کہ ملک بھر میں بجلی و گیس کی عدم دستیابی اور خصوصاً مہنگائی کے خلاف عوام احتجاج کر رہے ہیں۔

سندھ کے عوام نے سندھ میں شدید مہنگائی کے خلاف ایس یو پی کی قیادت میں پیدل مارچ شروع کر رکھا ہے جس کی آخری منزل کراچی ہے۔

جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم اور پی پی کی حکومت ملک میں مہنگائی پر خاموش ہے یہی لوگ جب اپوزیشن میں تھے تو مہنگائی کے خلاف چیختے چلاتے تھے، حکمران ٹرائیکا نے عوام سے من سلویٰ کے دعوے کیے مگر عوام سے دو وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔

سنی تحریک کے قائد کا کہنا ہے کہ سندھ کے عوام صوبے میں مہنگائی سے تنگ آ کر بلبلا رہے ہیں اور تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں اگر یہی حالت رہی تو وہ سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

بھوک، افلاس، مہنگائی، بے روزگاری، امن و امان کی صورت حال سے پریشان عوام کی کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔ ناکام معاشی پالیسیوں نے عوام کی زندگی عذاب بنا دی ہے۔ پی ڈی ایم اور پی پی کی اتحادی حکومت کے ذمے داروں، عمران خان اور پی ٹی آئی رہنما ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایک دوسرے کو مہنگائی کا ذمے دار قرار دینے میں مصروف ہیں۔

پی ٹی آئی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے مہنگائی کا صرف نام لیتی ہے اس کی ترجیح پنجاب و کے پی اسمبلیوں کے بلکہ ملک بھر میں نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔

(ن) لیگ مہنگائی کم کرسکتی ہے مگر کیسے؟اس کا (ن) لیگ کے پاس جواب ہے نہ طریقہ ،عمران خان مہنگائی پر حکومت پر کڑی تنقید تو کرتے ہیں مگر وہ یہ نہیں بتا رہے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت دوبارہ آئی تو وہ کیا کریں گے۔ ملک بھر میں مہنگائی و بے روزگاری سب سے اہم مسائل ہیں مگر جھوٹے سروے رہنماؤں کی مقبولیت کے جاری کیے جا رہے ہیں۔

کوئی ادارہ سچائی بتانے کو تیار نہیں کہ ملک میں مہنگائی و بے روزگاری سے کتنی خودکشیاں ہو چکی ہیں۔ روزانہ کتنے لوگ بے روزگار کیے جا رہے ہیں اور روز کتنی مہنگائی خود بڑھ رہی ہے اور کتنی مہنگائی گراں فروش ازخود بڑھا رہے ہیں جن کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔


کراچی میں بجلی، گیس اور پانی کی عدم فراہمی پر شہر کے مختلف علاقوں میں روزانہ احتجاج عام ہو چکا ہے مگر سندھ کی حکومت کو اس کی فکر نہیں تو سالوں سے سوئی ہوئی کراچی کی انتظامیہ کو کیا پڑی کہ وہ عوام کی فکر کرے۔ سندھ کی ہر حکومت کے لیے مشہور ہے کہ اس کو مہنگائی کبھی نظر ہی نہیں آئی جب کہ پنجاب انتظامیہ نے اتنا تو کر رکھا ہے کہ پنجاب کے سبزی و پھل فروخت کرنے والے مقررہ قیمتیں نمایاں کرکے آویزاں کرلیتے ہیں ۔

کسی بھی صوبے کی انتظامیہ کو مہنگائی کنٹرول تو کیا قیمتیں چیک کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔

صرف رمضان سے قبل ہر ڈپٹی کمشنر پرائس کنٹرول کمیٹی کی میٹنگ بلا کر اپنی ذمے داری پوری کرلیتا ہے، غیر حقیقی نرخ مقرر کیے جاتے ہیں جن پر کوئی دکاندار عمل کرتا ہے نہ کسی کو سال بھر قیمتیں چیک کرنے کا خیال آتا ہے۔

ملک بھر میں کراچی، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں قیمتیں زیادہ وصول کی جاتی ہیں جس کی صرف ایک مثال یہ ہے کہ کراچی میں جو پراٹھا چالیس روپے میں اب بھی مل رہا ہے، وہ فروری میں راولپنڈی میں ساٹھ روپے کا کردیا گیا جو لاہور میں چھوٹاسا پراٹھا 50 روپے میں مل رہا ہے اور یہی حال چائے کی قیمتوں کا ہے۔

کراچی میں دودھ اور دہی ملک بھر میں سب سے زیادہ مہنگی ہے۔ لاہور میں معیاری دودھ ایک سو ساٹھ روپے اور کراچی میں دو سو بیس روپے فی لیٹر مل رہا ہے جب کہ غیر معیاری دودھ مختلف نرخوں پر دستیاب ہے مگر معیار چیک کرنے والے بازاروں میں جاتے ہی نہیں تو چیک کون کرے؟دودھ جیسی بنیادی ضرورت غریب کیا متوسط طبقہ بھی کمی کرنے پر مجبور ہو گیا ہے۔

دودھ مہنگی چائے کم پی جاسکتی ہے مگر بچوں کی بنیادی ضرورت دودھ کم نہیں کیا جاسکتا۔ دودھ کی قیمت اب غریب تو کیا متوسط طبقہ بھی برداشت نہیں کر پا رہا اور کم خریداری کر رہا ہے۔ اسکولوں کے بچے سموسوں سے کچھ بھوک مٹا لیتے ہیں جنھوں نے میڈیا پر فریاد کی ہے کہ وہ اب آلو کا سموسہ بھی تیس روپے میں کیسے خریدیں۔

متوسط والدین اپنے ہر بچے کو 50 روپے اسکول خرچ دیں تو سموسہ ہی تیس روپے کا کردیا گیا ہے مگر کراچی انتظامیہ کو کیا پتا کہ ان کی لاپرواہی سے معصوم بچے دودھ سے اور اسکولوں کے بچے پیٹ بھرنے کے لیے 30 روپے خرچ کرنے کی سکت بھی نہیں رکھتے اور گھر جا کر ہی پیٹ بھرتے ہیں۔ تیس روپے والا بسکٹ کا پیکٹ 40 روپے کا کردیا گیا ہے۔

آٹے آلو کے نرخ کم ہوئے مگر بسکٹ اور سموسہ اپنی بڑھی قیمت پر ہی مل رہا ہے کیونکہ ہر جگہ انتظامیہ سوئی ہوئی ہے۔ صوبائی حکومتوں کو سیاست سے فرصت نہیں تو دودھ، چائے، روٹی، بسکٹ، سموسے اور پھل اور سبزیوں کے من مانے نرخ وصولی سے ناجائز منافع خوروں کو کون روک سکتا ہے؟ گالیاں وزیر اعظم کو پڑ رہی ہیں اور وزرائے اعلیٰ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
Load Next Story