کائنات کی وسعتیں
ستاروں بھرے آسمان میں شمال سے جنوب کی طرف پھیلا ہوا بادل ہمیں دکھائی دیتا ہے
www.facebook.com/shah Naqvi
رات کو ہم بے شمار ستارے دیکھتے ہیں لیکن ہمارے جو قریب ترین ستارہ ہے، وہ رات کو نہیں دن کو نظر آتا ہے جسے ہم سورج کہتے ہیں۔ سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ رات کو آسمان پر چکمنے والے تمام ستارے ہمارے سورج کی طرح ہی ہیں۔
کچھ سورج سے بڑے ،کچھ اس کے برابر اور کچھ اس سے چھوٹے۔ یہ سب ستارے سورج سے اتنا دور ہیں کہ تاحال ان تک کوئی بھی خلائی مشین نہیں پہنچ سکتی۔ سورج ہمارا قریب ترین ستارہ ہے۔ اس کی روشنی ہم تک 8منٹ 21سیکنڈ میں پہنچتی ہے ۔ سورج کی روشنی ہم تک 15کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچتی ہے۔
سورج کے مرکز میں درجہ حرارت 27 ملین ڈگری فارن ہائیٹ ہوتا ہے۔ سورج کے بعد زمین سے قریب ترین ستارہ4.5 نوری سال دور ہے اور روشنی ایک سیکنڈ میں تین لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتی ہے، ایک دن میں 86400سیکنڈز ہوتے ہیں۔ اس طرح صرف ایک دن میں روشنی پچس ارب بانوے کروڑ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر جاتی ہے۔
روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرتی ہے اسے ''نوری سال'' کہا جاتا ہے اور یہ سب حساب کرتے ہوئے ہمارا سانس پھول جاتا ہے۔ کائنات میں 2ٹریلین کہکشائیں ہیں یعنی 2ہزار ارب کہکشائیں ہیں لیکن ماہرین فلکیات یہ بالکل نہیں جانتے کہ ہر کہکشاں میں کتنے ستارے ہیں، یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے آپ کو چکر آیا کہ نہیں؟ یہ تعداد اتنی بڑی ہے کہ اس کا تصور بھی کرنا مشکل ہے۔
ماہرین فلکیات کائنات کی حقیقت کو سمجھنے سے ابھی تک قاصر ہیں، وہ سائنسی ماہرین جو خدا کے وجود سے انکار ی ہیں کائنات کی اس لامحدود وسعت پر تحقیق کرتے ہوئے ان کی عقل دنگ رہ گئی ہے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ ضرور کوئی نہ کوئی ایسی ہستی ہے جو اس عظیم الشان کائنات کو چلا رہی ہے۔
کائنات کا مکمل اور آخری سچ ظاہر ہونے میں شاید مزید اربوں کھربوں برس لگیں ۔ ہمارا کرہ ارض تو اس کائنات میں صرف ایک ذرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ذرا سوچیئے کہ انسان کتنا حقیر ہے، کائنات کی وسعتوں کے سامنے۔ اس کے باوجود اس نے ہزاروں سال سے زمین پر فساد قتل و غارت کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ ماہرین فلکیات کے مطابق اس کا امکان موجود ہے کہ کائنات میں کسی سیارے یا ستارے پر انسانوں سے زیادہ ترقی یافتہ مخلوق موجود ہو اور وہ ہمیں اپنا غلام بنا لے۔ الفا نامی ستارہ ہم سے 4.25 نوری سال کی مسافت پر ہے۔
اگر ایک خلائی جہاز جس کی رفتار 60000کلو میٹر فی گھنٹہ ہو اور وہ خلائی جہاز بغیر کسی وقفے کے 76000 سال تک اسی رفتار سے چلتا رہے تب جا کر یہ خلائی جہاز الفا ستارے تک پہنچے گا۔ ستاروں بھرے آسمان میں شمال سے جنوب کی طرف پھیلا ہوا بادل ہمیں دکھائی دیتا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بادل کدھر سے آیا اور کس چیز کا بنا ہوا ہے۔
زمانہ قدیم میں جب انسانوں نے آسمان کا مشاہدہ شروع کیا تو انھوں نے اس آسمانی بادل کے بارے میں بہت سے نظریات پیش کیے جس سے لوگوں میں خوف پھیلا لیکن 17ویں صدی میں جب سائنسی پیش رفت شروع ہوئی تو نیوٹن اور اس زمانے کے دوسرے سائنس دانوں کو پتہ چلا کہ جو بادل اور اس میں موجود لاتعداد ستارے ہم دیکھ رہے ہیں، وہ ہماری اپنی کہکشاں کے ہی ہیں اور شمال و جنوب کی جانب جانے والا بادل ہماری اپنی کہکشاں کا مرکز ہے۔
اس بادل میں دھواں در حقیقت وہی مادہ ہے جس سے 15ارب سال پہلے ہمارا سورج بنا۔ اس دھوئیں کو فلکیاتی اصطلاع میں کہکشاں کی ڈسٹ خاک کہتے ہیں۔ جنوبی امریکا کے ملک چلی میں جہاں آسمان شیشے کی طرح صاف و شفاف ہیَ یہ مقام اٹا کاما ،نامی صحرا ہے جہاں ستارے اس قدر روشن ہوتے ہیں کہ ان کی روشنی زمین کو روشن کر دیتی ہے۔ صبح صادق اس وقت شروع ہوتی ہے جب سورج افق سے 18درجے نیچے ہو۔
ماہرین فلکیات نے ایک سبز رنگ کا نایاب دم دار ستارہ دیکھا ہے جو ہزاروں برس بعد ہمارے نظام شمسی کے دورے پر ہے۔ یہ دم دار ستارہ 50ہزار برس بعد پہلی مرتبہ زمین کے قریب سے گزرے گا۔ ناسا کے ماہرین کا کہنا ہے یہ برفیلا دم دار ستارہ پہلی مرتبہ آج سے ایک سال پہلے مارچ 2022میں دیکھا گیا۔
دی پلینٹری سوسائٹی کے مطابق یہ دم دار ستارہ اس وقت زمین سے صرف چار کروڑ بیس لاکھ کلو میٹر دور ہے ۔ دم دار ستارے کا مرکز پتھر، برف اور پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ جب دم دار ستارے سورج کے قریب پہنچتے ہیں تو سورج کی شعاعوں کی وجہ سے ان سے گیس اور مٹی کی ایک لہر نکلتی ہے جو اسے دھوئیں جیسی دم فراہم کرتی ہے۔
اس لیے انھیں دم دار ستارہ کہا جاتا ہے حالانکہ یہ ستارے نہیں ہوتے ۔ جیسے جیسے یہ سورج کے قریب پہنچتے ہیں، ان کی چمک میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں موجود رصدگائیں ایک درجن کے قریب دم دار ستارے کو میٹس دریافت کر تی ہیں۔ یہ کومیٹ سورج کا ایک چکر لگانے میں تقریباً پچاس ہزار سال لیتا ہے۔
چنانچہ یہ وہ موقع ہے جو ہماری زندگیوں میں صرف ایک مرتبہ آئے گا۔ ناسا کے محققین کا کہنا ہے کہ اب چونکہ کومیٹ شمال مغرب کی جانب جا رہا ہے تو نصف کرہ شمالی میں رہنے والے لوگوں کو یہ صبح کے وقت پر دکھائی دے گا۔