قاتل مسیحا یا مسیحا قاتل

[email protected]


Saad Ulllah Jaan Baraq July 11, 2012
[email protected]

اب تک صرف سنا تھا یا فلموں وغیرہ میں دیکھا تھا کہ کسی اسپتال یا کلینک میں کوئی مریض جان بہ لب ہے اور ڈاکٹر لوگ اسے ہاتھ لگانے سے پہلے لواحقین کو ایک بڑی رقم جمع کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں، لواحقین کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی اور وہ مسیحاؤں کی مسیحائی خریدنے کے لیے طرح طرح کے جتن کر رہے ہیں، ڈاکٹروں اور انتظامیہ کے سامنے ہاتھ پیر جوڑ رہے ہیں، پاؤں پڑ رہے ہیں، رو رہے ہیں گڑگڑا رہے ہیں، واسطے دے رہے ہیں لیکن پتھر کے مسیحا پتھریلے چہرے بنائے فیس فیس فیس کیے جا رہے ہیں لیکن اب دیکھ بھی لیا ہے کہ مسیحا جب پتھر بنتے ہیں تو یہ پتھر کس کس کے سر پر، گھر پر اور زندگی پر پڑتے ہیں۔ وہ پتھر جو سِکّوں کے سوا اور کسی بھی ہتھوڑے سے نہیں ٹوٹتے، سکہ جو آج خدا بھی ہے، ہتھوڑا بھی ہے، چابی بھی ہے بلکہ مسیحاؤں کا مسیحا بھی ہے

اے زر تو خدا نیستی و لیکن بخدا

قاضی الحاجاتی و حی المماتی

ترجمہ : اے پیسے تو خدا نہیں ہے لیکن خدا کی قسم تمام حاجتیں پوری کرنے والا اور مردوں کو زندہ کرنے والا ہے۔ لیکن یہاں تو مردوں کو زندہ نہیں بلکہ زندوں کو اس نامراد سکے کی خاطر مار ڈالا گیا اور اتنی بیدردی سے مار ڈالا گیا کہ ہلاکو اور چنگیز بھی کانوں کو ہاتھ لگا دیتے، مراعات، مطالبات، درجات جو کچھ بھی تھا ''سکے'' ہی کی شکلیں تھیں، جینے اور مرنے کا معاملہ تو نہیں تھا، سکے کم مل رہے تھے اور تو کوئی بات نہیں تھی لیکن جو جاں سے گزر گئے اس کا حساب کتاب کون کرے گا، کب کرے گا اور کہاں کرے گا۔ ایک معصوم بچہ جس نے ابھی نہ دنیا دیکھی نہ سکّے کو پہچانتا ہے اس کی جان محض اس لیے چلی جائے کہ کم یا زیادہ سکوں کا جھگڑا چل رہا تھا اور جھگڑا بھی دنیا کا عجیب و غریب ترین جھگڑا کہ فلاں مجھے منہ مانگے سکے نہیں دے رہا ہے اس لیے میں تم کو مار رہا ہوں، مرنے والا یہ بھی کہہ نہیں سکتا کہ آخر فلاں کے ساتھ تمہارے جھگڑے سے میرا کیا تعلق ہے اس کے گناہ میں مجھے کیوں مار رہے ہیں، میں تو اس کو جانتا تک نہیں۔ دنیا کے سارے مذاہب سارے قوانین اور سارے اخلاقی نظام یہ مانتے ہیں کہ ایک کی سزا دوسرے کو نہیں دی جا سکتی لیکن یہاں ہم نے دیکھا کہ جھگڑا کسی اور سے ہے اور مارا جا رہا ہے کسی اور کو، اکثر ڈاکٹر بڑے فخر بلکہ انتہائی بے حسی سے کہتے ہیں کہ ہم نے اتنی اتنی رقمیں خرچ کر کے ڈاکٹری سیکھی ہے۔

ہمارا اپنا ہنر ہے ہماری مرضی کہ اسے کسی کے لیے کام میں لائیں یا نہ لائیں، ہم پر کسی کی زبردستی نہیں، اپنی مرضی کے مالک ہیں، کسی کا علاج کریں نہ کریں۔ اس حد تک تو بات سچ ہے لیکن جن اداروں سے انھوں نے یہ ہنر حاصل کیا، وہ کس کے تھے، پیسہ ان کے والدین نے ضرور خرچ کیا ہے لیکن یہ ادارے نہ ہوتے تو پیسوں سے کیا وہ یہ فن کسی دکان سے خرید پاتے اور وہ ادارے اس ملک کے ہیں، اس مٹی کے ہیں ان عوام کے ہیں جن کے بچے آج تم چند سکوں کے لیے مار رہے ہو یا مرنے کے لیے چھوڑ رہے ہو۔ ادارے اس لیے قائم نہیں کیے جاتے کہ کوئی ان میں کوئی ہنر سیکھ کر صرف اپنی ملکیت سمجھ لے۔ ایک ملک ایک وطن ایک قوم میں سب کچھ ساجھا ہوتا ہے، کوئی ایک کام کرتا ہے، کوئی دوسرا کام کرتا ہے، اگر سب ہی صرف ''اپنے'' لیے بن جائیں تو سارا نظام ہی چوپٹ ہو جائے گا۔

اسلام میں یہ جو زکوٰۃ کا نظام ہے اس میں اگر امیر لوگ زکوٰۃ دیتے ہیں تو وہ غریبوں پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ ان کو ان کا حق دیتے ہیں کیونکہ ذاتی ملکیتوں اور دولتوں کے علاوہ بھی قدرت کی ایسی بہت ساری نعمتیں ہیں جو کسی کی ملکیت نہیں ہیں جیسے سورج، ہوا، پانی، بارش، یہ راستے، یہ سڑکیں، یہ موسم اور بہت کچھ، جن سے کچھ لوگ تو فائدہ اٹھا لیتے ہیں مثلاً زمینوں کا مالک ان سب چیزوں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں، بارش سے، زمین سے، ہوا سے، اس طرح اور بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جو کلی طور پر قدرتی ہیں اور ان میں تمام انسانوں کا حصہ ہے،دھوپ میں، بارش میں، ہوا میں، ان کا بھی حصہ ہے جن کے پاس اپنے جسم کے سوا اور کوئی ملکیت نہیں ہے، وسائل رکھنے والے ان چیزوں سے فائدہ اٹھا لیتے ہیں جو ساجھے کی ہیں اور اسی ساجھے کی وجہ سے وسائل والوں پر زکوٰۃ فرض ہے وہ غریبوں کو اپنے پلے سے کچھ نہیں دیتے بلکہ ان کے حصے کے قدرتی وسائل سے جو کماتے ہیں اس کا تھوڑا سا حصہ ان کو دیتے ہیں،

ٹھیک اسی طرح اگر کوئی شخص کوئی ہنر سیکھتا ہے کوئی صلاحیت حاصل کرتا ہے تو اس میں ان تمام لوگوں کا حصہ ہوتا ہے جو اس دنیاوی قوانین کی رو سے حق ملکیت نہیں رکھتے لیکن حقیقت میں حصہ دار ہی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر ہو یا کوئی بھی ہوں ٹھیک ہے وہ بھی انسان ہیں اور ضرورتیں رکھتے ہیں ان کو بھی تکالیف ہوتی ہیں اور ان کو حق ہے کہ اپنے مفاد کے لیے آواز اٹھائیں، تنخواہیں کم ہیں مراعات کم ہیں یا کوئی بھی مسئلہ ہے اس کے لیے جدوجہد کرنا ان کا حق ہے لیکن یہ جدوجہد اگر دوسروں کی موت بن جائے تو پھر وہ مظلوم نہیں ظالم کہلائیں گے، ہڑتال بھی ایک طریقہ ہے لیکن ہڑتال ہو یا جو کچھ ہو حتیٰ کہ جنگ میں بھی اصول اور انسانیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انسان ہر حال میں ''انسان'' تو ہوتا ہے حیوان نہیں بن جاتا، ہڑتال بے شک کیجیے لیکن ہڑتال کو اصل ہدف کے بجائے کسی اور معصوم کے لیے سزا بنا دینا کہاں کا انصاف ہے،

یہ بھی کر سکتے ہیں کہ ایمرجنسی کام بھی کرتے اور کسی سرکاری ایوان کے سامنے بیٹھ بھی جاتے ضروری کاموں کے لیے علاوہ سب کے سب وہاں اکٹھے ہوتے تو کوئی مضائقہ نہیں تھا بلکہ شاید عوام بھی اپنے مسیحاؤں کے ساتھ شامل ہو جاتے لیکن یہاں تو ایک جگہ کا غصہ دوسری جگہ نکالا گیا اور اس بیدردی سے نکالا گیا کہ انسانیت چیخ اٹھی اور تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا سرکاری لوگ بھی آرام سے اپنے ایئر کنڈیشنڈ دفاتر اور بنگلوں میں تنخواہیں وصول کریں گے ڈاکٹروں کے مطالبات بھی پورے ہو جائیں گے لیکن جو لوگ جاں سے گئے جن گھروں میں صف ماتم بچھی ان کا اس جھگڑے میں کیا قصور تھا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں