کارونجھر کا خاموش طلسم
دنیا بھر میں موسم تبدیل ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے قدرتی آفتوں میں اضافہ ہوا ہے....
کارونجھر کی طرف جانے والا یہ ایک خوب صورت راستہ ہے۔ یہ پہاڑ ننگر پار شہر کے ارد گرد قطار در قطار سولہ میل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس کی ایک پہاڑی چوٹی ہزار فٹ اونچی ہے، یہاں قدیم آستانوں کے علاوہ خوب صورت جھرنے ہیں، بارش کے بعد یہ جھرنے تلاطم کے ساتھ پتھروں کے درمیان بہہ نکلتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں تھر سمندر میں گھرا ہوا تھا ، ہو سکتا ہے زلزلے یا جغرافیائی تبدیلی کی وجہ سے سمندر خشک ہو گیا اور پاری ننگر شہر بھی تباہ و برباد ہو گیا، ساڑدرو کی طرف نکلتے ہوئے یہ سوچا تھا کہ گئو مکھی کی طرف بھی چکر لگائیں گے، ساڑدرو سے دو میل کے فاصلے پر واقع کارونجھر کی دو چوٹیاں ایک جگہ آپس میں ملتی ہیں تو ان کی شکل گائے کے منہ جیسی ہو جاتی ہے۔ اگر بارشوں کا زمانہ ہو تو ان پہاڑوں سے زوردار قسم کا آبشار بہتا دکھائی دیتا ہے۔
برسات کے بعد بھی تقریباً دو مہینوں تک پانی کا جھرنا بہتا رہتا ہے۔ یہ ایک مشکل راستہ ہے۔ تھر بلاشبہ خوبصورت ہے، آوازوں کے شور سے فرار حاصل کرنیوالوں کے لیے ایک دلکش پناہ گاہ ہے۔ تھر کے سکوت میں تخلیقی سحر محسوس ہوتاہے۔ یہ حقیقت ہے کہ باہر سے آنے والے لوگ کچھ عرصے کے لیے تھر آتے ہیں اور یہاں کی رنگا رنگ ثقافت اور حسین مناظر میں کھوجاتے ہیں۔ مگر مستقل طور پر قیام پذیر یہاں کے باشندے صحرا کی زندگی کے مسائل و مصائب سے عاجز آجاتے ہیں۔ تھر میں پانی کا مسئلہ ہر دور میں یکساں رہتاہے جب کبھی بھی تھر کے دور افتادہ راستوں پر سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے تو عورتوں کو پانی کے گھڑے سروں پر رکھ کے دور دراز سے پانی لاتے دیکھا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے فصلیں فقط بارش کے زمانے میں لہلہاتی ہیں۔ بارشیں جون کے آخر اور جولائی کے پہلے ہفتے سے شروع ہوجاتی ہیں۔
چار مہینے بارش کے کہلاتے ہیں۔ اگر اسی دوران تین چار بار بارش برس جائے تو یہ خوشحالی کی نوید لے کر آتی ہے، بارش کی پیشین گوئی کے حوالے سے تھر میں فطرت کی مختلف علامتوں کے ذریعے اندازہ لگایا جاتاہے کہ بارش برسے گی یا نہیں۔ چاند کے گرد اگر روشن ہالا ہو تو اسے ''جوھیڑی'' کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ برسات آنے والی ہے اگر اس ہالے کے اندر ستارے جھلملاتے نظر آئیں تو سمجھا جاتاہے کہ جتنے تارے ہوںگے اتنی مرتبہ بارش ہو گی۔ سورج کے ارد گرد بھی اگر ایسا حصار دکھائی دے تو اسے بھی بارش کی علامت سمجھا جاتاہے۔
پرندے کے پروں جیسے بادل نظر آئیں، جنھیں تتر کھوڑی کہا جاتاہے (تتر پرندے کا نام ہے) تو پروں جیسی شکل کے بادل بھی بارش کا سندیسہ لاتے ہیں۔تھر میں کنویں پانی حاصل کرنے کا ذریعہ ہیں، اس پانی کی تاثیر ہر جگہ مختلف ہے، کہیں تو یہ میٹھا اور آب حیات ہے، جس کا امکان کم نظر آتاہے لیکن اکثر کھارا پانی دستیاب ہوتا ہے، جو بیماریاں بانٹتا ہے، ان کنوئوں میں برسات کا پانی بھی جمع کیاجاتا ہے، بارش کے پانی کے چھوٹے تالاب بھی تھر کے لوگوں کی پیاس کا سہارا بن جاتے ہیں۔ ایک طرف پانی کی اس قدر قلت ہے تو دوسری طرف شہروں میں پانی بے دریغ ضایع کردیا جاتاہے تھر میں دستیاب یہ پانی اکثر اتنا کسیلا ہوتاہے کہ اس میں چائے تک نہیں بن پاتی اور دودھ پھٹ جاتاہے، صابن کی جھاگ نہیں بنتی اور نہ ہی کپڑے صاف دھلتے ہیں۔
دنیا بھر میں موسم تبدیل ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے قدرتی آفتوں میں اضافہ ہوا ہے، تھر کی خوشحالی بارشوں کی مرہون منت ہے۔ خشک سالی کے دنوں میں تھر کے دکھ شدت اختیار کرلیتے ہیں۔ 1956ء میں تھر کے قحط نے بڑی تباہی برپا کردی تھی، کہا جاتاہے کہ 1992ء سے اب تک بارہ سے زیادہ مرتبہ تھر قحط زدہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بارش کے دنوں میں تھر کے باشندوں کی خوشی قابل دید ہوتی ہے، بارش کے بعد تھر جنت نظیر کا سماں پیش کرتاہے۔ ننگر پار سے نکل کر ساڑدرو جانے والے راستے پر چلنے لگے، دونوں طرف سے خود رو پودوں اور جھاڑیوں کی جھنڈ سے ڈھکا ہوا ایک طویل راستہ جو پتھروں سے مزین ہے جہاں پتھروں کے درمیان گوڑدرو ندی کا پانی سروں کو بکھیرتا رہتاہے۔
ہم سنبھل سنبھل کے پتھروں پر پیر رکھ کے آگے بڑھ رہے تھے، ٹھنڈا پانی کبھی پیروں کو محسوس ہونے لگتا تو کبھی ندی کے دہانے پر رکھے بڑے پتھروں پر بیٹھ کر سستالیتے۔ بہتے پانی کی مدھر آواز میں کوئی جادو سا تھا۔ اگر آنکھیں بند کر کے چند لمحوں کے لیے یہ آواز سنی جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے ذہن کے حبس زدہ موسم تازہ ہوا کے خوشگوار جھونکے سے مہکنے لگے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جسم کی تھکاوٹ آرام کرنے کے بعد پرسکون حالت میں آ جاتی ہے مگر ذہن اگر تھکا ہوا ہو تو وہ اتنی جلدی سکون اور یکسوئی کی کیفیت میں واپس نہیں آ سکتا لیکن اگر تھکے ہوئے بوجھل ذہن کو ایسی فطری آوازوں سے آراستہ پرکیف لمحے میسر آ جائیں تو وہ لمحے امر ہو جاتے ہیں جسے ولیم ورڈزورتھ Bliss of Solitude تنہائی کی نعمت قرار دیتاہے۔ انگریزی کا یہ شاعر فطرت کے ایسے لمحوں کو انسانی زندگی کا سرمایہ سمجھتاہے جن کی یاد سالوں تک بوجھل ذہنوں کو تر وتازہ کیے رکھتی ہے۔
فطرت کے ان لمحوں سے حاصل کردہ تحرک ایک طرف روح کو شفاف بناتاہے تو دوسری طرف تخلیقی عمل کو سوچ کا منفرد زاویہ عطا کرتا ہے۔بہتے ہوئے جھرنے کے ساتھ پرندوں کی چہچہاہٹ ہوا کی نغمگی کے ساتھ مل کر احساس کو مسحور کیے جا رہی تھی۔ ان جھاڑیوں میں کبھی جنگلی پھولوں پر تتلیاں منڈلارہی تھیں تو کہیں شہد کی مکھیاں مٹھاس جمع کرنے میں مگن تھیں۔ اس جنگل میں جڑی بوٹیوں، پھلوں، مختلف قسم کی گھاس، گوند اور شہد کی فراوانی مقامی لوگوں کے لیے روزگار مہیا کرنے کا سبب بنتی ہے۔ ساڑدرو ۔ پہنچ کر دیکھا تو شو کا مندر سامنے تھا۔ شو قدیم دیوتا ہے جس کی پوجا آریوں کی سندھ آمد سے پہلے کی جاتی تھی۔ رگ وید میں شو کا ذکر دور طوفان کے دیوتا کی حیثیت میں ملتاہے اس کے علاوہ وہ موسیقی، گیتوں کا بادشاہ، مسیحا اور خوشحالی کا دیوتا بھی سمجھا جاتا تھا۔ یہاں ہندوئوں کے تیرتھ آستان ہیں، جس میں ساڑدرو، بھیم کن، انجلیشور،گئو مکھی، جھرنا اور چندن گڈ وغیرہ شامل ہیں۔
مرکھ کنڈ تالاب میں ساڑدرو کے قدیم درختوں کا عکس پر اسرار دکھائی دے رہا تھا لہریں نہ جانے کتنی ارتھیوں کی راکھ اپنے تن میں سمیٹے ہوئے تھیں، جیسے چند بھولے بھٹکے خواب بھی ان پانیوں میں تیر رہے تھے، کراچی سے آنیوالی ہندو، سہیلی اپنے گھر والوں کے ساتھ پوجا پاٹ میں مصروف تھی، کافی عرصے سے سندھ میں ہندوئوںکے لیے ناساز گار حالات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کئی ہندو خاندان سندھ کو خیر آباد کہنے کا سوچ رہے ہیں۔ کچھ خاندان سندھ سے رخصت ہو کے جاچکے ہیں، اندرون سندھ بھی ہندوئوں کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ معلوم نہیں یہ کون شرپسند عناصر ہیں جو صدیوں سے سندھ میں آباد ہندوئوں کو ذہنی طورپر انتشار میں مبتلا کر رہے ہیں، ورنہ سندھ کے باشندوں اور ہندوبرادری کے لوگوں میں ربط باہمی، محبت و میل ملاپ سالوں سے چلا آ رہا ہے۔
ایک دوسرے کے مذہبی تہواروں میں شرکت کی جاتی ہے۔ ہندوئوں کی اکثریت سندھ کے صوفیوں اور ولیوں کے مزاروں پر حاضری بھرتے ہیں۔ تھر میں ہندو اور مسلمان قومیتیں آباد ہیں۔ تھر پارکر میں جین مت اور بدھ ازم کے آثار مندروں سے جا بجا ملتے ہیں۔ جن میں بھوڈیسر، جین اور گوڑی مندر کے نام قابل ذکر ہیں۔ تھر کے باشندے آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ تھر میں ہندوئوں کی مختلف قومیں آباد ہیں جن میں برہمن، مھیشوری، لہانا، راجپوت ، سوٹھو اور رباری وغیرہ شامل ہیں۔ مگر یہ مختلف زبانیں،عقائد و مذہبی فرق کہیں بھی سماجی زندگی کے اتحاد کو منتشر نہیں کرتا، حالیہ قحط سالی نے تھر کے حسین رنگوں کو چرالیا ہے، تھر میں پینے کا صاف پانی، مناسب غذا اور طبی سہولتوں کا فقدان ہمیشہ سے رہا ہے، تھر کوئلے اور معدنی وسائل سے مالا مال ہے اور نجی تنظیموں کے لیے سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے۔ اگر مناسب منصوبہ بندی کی جائے تو تھر کے وسائل مقامی لوگوں کو معاشی تحفظ عطا کرسکتے ہیں۔
شام کے وقت کارونجھر پہاڑوں پر عجیب سماں دکھائی دیتاہے، پہاڑوں کے درمیان بھٹکتے شام ہوچکی تھی، ننگر پارکر کے گھروں کے بلب ایک ایک کرکے روشن ہونے لگے۔ جیسے زمین پر ستاروں کی کہکشاں اتر آئی ہو۔ جین مندر شام کے دھندلکوں میں پر اسراریت کا لبادہ اوڑھ لیتاہے، سرمئی دھندلکوں میں شفق کے رنگوں میں طلسماتی کشش بے اختیار آنکھوں کو اپنی طرف کھینچ رہی تھی، ایک گہری خاموشی فضائوں میں تیر رہی تھی، سکوت جو سمجھ کو جلا بخشتاہے اور کائنات کے اسرار سے پردہ اٹھنے لگتاہے۔