قیدی ساتھی کا ساتھ دیجیے…

میرا سوشل بائیکاٹ کیا گیا تو آپ لوگوں کی وجہ سے، میرا کاروبار تباہ ہوا، لوٹا گیا تو آپ لوگوں کا ساتھ دینے کے جرم میں..

انسانی جذبات کا احاطہ کرنا، لفظوں کا کھیل ہرگز نہیں ہے، دل گزاز اور دکھ بھرے جذبات کو احاطہ تحریر میں لاتے وقت ایک ایسی جذباتی کیفیت طاری ہوجاتی ہے کہ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ جیسے اپنی داستان رقم کر رہا ہوں۔ لیکن ان تحریروں کو فروعی و خود ساختہ داستان سمجھنے کے بجائے، اس بات پر یقین ضرورکیجیے گا کہ ہزاروں الفاظوں کے اندر سچائی پوری آب و تاب کے ساتھ اور واحد مقصد انسانیت کی ترجمانی ہے۔جیل کے قیدیوں کی سب اہم بات یہ ہے کہ وہ خود کو ہمیشہ پہلے بے گناہ سمجھتے ہیں پھر آہستہ آہستہ دوسرے قیدیوں پر رعب داب کے لیے اپنے معمولی جرائم کو بڑے جرائم میں دہراتے ہیں لیکن کورٹ پیشی کے اوقات بڑے بڑے قیدیوں کو لاک اپ کے سپاہیوں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے دیکھا ہے۔

لیکن زیر نظر مضمون میں کسی قیدی کے جرائم کی سچائی یا خطا کے حوالے سے داستانوں کو مجموعہ بنانا نہیں ہے۔ بلکہ بعض قیدیوں کی جانب سے ایک کھلے خط کے طور پر ان کی شکایات کو ان کے رشتے داروں، دوستوں، احباب اور ساتھیوں تک پہنچانا مقصود ہے۔ ایک قیدی نے اپنے ایک ساتھی کے لیے شکوہ ارسال کیا کہ ''عباس بھائی! آپ تو بڑی بڑی باتیں کیا کرتے تھے، جب آپ کی قربت میں دو سال قبل آیا تھا تو آپ کی خوشی کا اظہار والہانہ ہوتا تھا۔ لیکن جب سے جھوٹے مقدمے میں پھنسایا گیا ہوں پلٹ کر بھی نہیں پوچھا۔'' ایک دل شکستہ قیدی نے اپنے ایک دوست کو پیغام ارسال کیاجو میڈیا میں بڑے مشہور ہیں نظام بدلنے کے دعوے کرتے ہیں لیکن دل شکستہ قیدی کی پروا نہیں۔

ایک قیدی نے اپنے پڑھے لکھے ساتھی کے لیے پیغام ارسال کیا کہ ''ساتھی! آپ تو سمجھدار ہیں، حساس دل کے ہیں لیکن کیا اپنے حالات میں اتنے گم ہوچکے ہیں کہ کسی کی پریشان حالی پر وسائل ہوتے ہوئے ساتھ دینے کے بجائے خاموشی اختیار کر لیں۔''ایک قیدی کو اپنے ایک اور دانشور ساتھی سے بڑا گلہ تھا کہ ''دانش و علم وشعور کی باتیں اور عقل سلیم ہونے کے دائمی کا کیا فائدہ کہ حق کو حقدار تک نہ پہنچا سکے، صداقت سلیم تو یہ ہے کہ معلوم ہونے کے باوجود مسئلے کے حل سے پہلو تہی اختیار کی اور اپنے فرائض کو، خود اتنا حاوی کرلیا کہ مظلوم ساتھی کا ساتھ دینے میں کوتاہی کو کہاں سے کہاں پہنچادیا۔''

بڑی عجیب بات شروع سے یہ رہی ہے کہ جیل میں قید ہونے والے زیادہ تر قیدی اپنے رشتے داروں کے بجائے گلہ شکوہ اور معاونت کے لیے اپنے دوستوں اور اپنے ساتھیوں کو فوقیت دیتے ہیں۔میرے نزدیک سب سے دلچسپ مرحلہ بھی آتا ہے جب کوئی سیاسی قیدی اپنی جماعت کے کسی ذمے دار، عہدیدار سے گلہ کرتا نظر آتا ہے۔ متعدد سیاسی قیدیوں نے بڑے دلچسپ اور عبرت ناک انداز میں اپنی طویل کہانیاں سنائیں جس میں قدر مشترک یہ تھا کہ انھیں جب کوئی سیاسی جماعت کے عہدے دار، ذمے دار اپنی جماعت میں شمولیت کے لیے دعوت دیتے تو بڑی آؤ بھگت اور دل نشین انداز میں راغب کرتے، ان کے مینڈیٹ اور عہدے کے لحاظ سے ان سے پروٹوکول کے بھی بڑے بڑے دعوے کرتے، انھیں نمایشی طور پر لوگوں وعوام کے سامنے کسی شو پیس کی طرح پریس کانفرنس تک میں پیش کرتے۔


جہاں وہ زمین و آسمان کے قلابے ملاتا لیکن جب وہ شخص اس سیاسی جماعت میں داخل ہوجاتا تو پھر کسی ٹشو پیپر کی طرف اسے غیر ضروری قرار دے کر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔چونکہ کراچی کی سیاست، سیاست نہیں بلکہ ایک جنگ زدہ کیفیت کا نام ہے۔ اس لیے عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی کسی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرلیتا ہے تو سابق سیاسی جماعت کے کارکنان اس کا عرصہ حیات تنگ کردیتے ہیں۔ایک ایسے ہی معروف سیاسی قیدی سے ملاقات کا سلسلہ گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے یہ قیدی اپنے حالات بتانے سے ہمیشہ کتراتا تھا۔ لیکن میں مسلسل ٹوہ میں لگا رہتا اور اس سے سچ جاننے کی کوشش کرتا تھا۔ ایک دن وہ پھٹ پڑا، جب کورٹ کی پیشی سے واپس آیا تو اس نے بڑے دل گرفتہ ہوکر بتایا کہ ایک تو مجھے جھوٹے مقدمے میں میری ہی سیاسی جماعت کے ذمے داروں اور عہدے داروں نے پھنسایا اور اب میرے مسئلے کو اپنی انا کا مسئلہ بناکر مجھ سے دس لاکھ روپے کا تقاضا کر رہے ہیں کہ اگر دس لاکھ روپے دے دوگے تو تمہیں جیل سے آزاد کروادیں گے۔

اس سیاسی قیدی نے بتایا کہ اس نے بہت بڑا فیصلہ کرکے دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی، پریس کانفرنس کے بعد اس کے گھر پر مخالفین نے فائرنگ کردی، اس کے کاروبار کو لوٹ لیا گیا، اس کی والدہ کو یرغمال بنالیا گیا، لیکن اس نے اپنے وعدے کے مطابق عمل کیا اور شمولیت کی۔ اس سیاسی قیدی نے مزید بتایا کہ اس کے مخالفین نے اس کے دو بچوں کی ٹانگیں اور ہاتھوں کی ہڈیاں بھی توڑیں۔ اس پر فائرنگ بھی کروائی گئی۔ اسے معاشی طور پر شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ لیکن لاکھوں روپے میں کھیلنے والے کو کوڑیوں کا محتاج ہونا پڑا۔ اس سیاسی قیدی نے بڑی شدت سے گلہ کیا کہ اس کے مقابلے میں منشیات فروش کو اہمیت دی گئی اور اب مجھے بلیک میل کرکے دس لاکھ روپے مانگے جا رہے ہیں۔ اس قیدی نے شکوہ و حیرت کا اظہار کیا کہ ساتھیوں! اگر میرے مالی حالات اچھے ہوتے تو میں بار بار آپ سے مالی امداد کے لیے درخواستیں کیوں دیتا؟ اگر میرے مالی حالات اچھے ہوتے تو تھانے میں ہی رشوت دے کر خود کو چھڑوالیتا۔

میرا سوشل بائیکاٹ کیا گیا تو آپ لوگوں کی وجہ سے، میرا کاروبار تباہ ہوا، لوٹا گیا تو آپ لوگوں کا ساتھ دینے کے جرم میں، سیاسی قد کو نقصان پہنچا تو آپ سے وابستگی کی بنا پر، اہل خانہ تباہ دربدر اور بچے اسکولوں سے نکال دیے گئے تو صرف اس وجہ سے کہ آپ ساتھیوں نے ماضی میں سیاسی شکست کا بدلہ لینے کے لیے کسی اور کا کندھا استعمال کیا۔اس سیاسی قیدی نے بتایا کہ وہ کسی سیاسی جماعت کے مقدمے میں نہیں آیا، بلکہ اپنے لوگوں کی بے وفائی اور پیٹھ میں چھرا گھونپنے کی پاداش میں اسیر ہوں اور بے گناہ ہوں۔

نہ جانے کتنے ایسے قیدی ہوں گے جن کے غم کا کوئی مداوا نہیں ہے، شاید میں ان کے جذبات کی درست عکاسی بھی نہیں کر پاتا ہوں گا، میں رشتے داروں اور خونی رشتوں کو بحث میں اس لیے نہیں لاتا کیونکہ ان رشتوں میں اجنبیت بہت ہے۔ لیکن جب قیدیوں کا اپنے ساتھیوں سے گلہ سنتا ہوں اور اسے تحریر میں لانے کی کوشش کرتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ یہ سب قیدی اپنی داستان ہے، جسے میں کہہ بھی رہا ہوں اور لکھ بھی رہا ہوں۔ بہرحال جذبات کے سمندر میں ڈوبنے سے پیشتر آخری گزارش قیدیوں کے تمام ساتھیوں سے ہے کہ بڑے بھروسوں کو فروعی مفادات کے لیے تباہ مت کیجیے ساتھی کا ساتھ دیجیے۔
Load Next Story