چیف جسٹس کے ون مین شو سے لطف اٹھانے کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے ججز
انتخابات کیس ہائیکورٹ میں ہونے پر بھی سوموٹو لیا گیا،عدالت سیاسی ادارہ بنے تو ساکھ ختم ہوجاتی ہے،جسٹس منصور،جسٹس جمال
سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کا انتخابات کیس کے فیصلے کا اختلافی نوٹ سامنے آگیا، ججز نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کو وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، یہ درست وقت ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور کے پی میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس لیا تھا، بعد ازاں کئی سماعتوں بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، اس وقت کے لارجر بنچ میں شامل دو ججز نے فیصلے اور ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا جن کا تحریری فیصلہ آج سامنے آیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے پنجاب کے پی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے اور اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی ہے اور اس کی عزت و تکریم میں کمی واقع ہوتی ہے یہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے پی انتخابات؛ جب تک فریقین راضی نہ ہوں ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، چیف جسٹس
تفصیلی فیصلے میں ججز نے کہا ہے کہ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں، دو معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑادیا لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے۔
ججز نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جاسکتا، عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کو طے کرے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائی کورٹس میں کیس زیر التواء ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔
یہ پڑھیں : سپریم کورٹ کا پنجاب ، خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم
ججز نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ بہترین وقت ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ون مین شو سے لطف اٹھانے کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلہ کرنے کے اکیلے اختیارات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات فل کورٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہونے چاہئیں۔
اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا بھی حوالہ
ججز نے اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کا تذکرہ بھی کیا اور لکھا کہ پانامہ کیس میں ابتدائی فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا تھا جبکہ حتمی فیصلے میں پانچوں ججز موجود تھے، شروع میں حتمی فیصلہ دینے والے ججز کو پانامہ بنچ سے الگ تصور نہیں کیا گیا تھا، اختلافی نوٹ دینے والے دونوں ججز پانامہ کیس کی دیگر کارروائی کا حصہ نہیں بنے۔
اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سوموٹو لیکر عدالت نے سیاسی معاملے میں مداخلت کی، پانامہ کیس میں فیصلہ تین ججز کا تھا، نظرثانی تمام پانچ ججز نے سنی، قوم میں تقسیم قائدین کے معاشی اور سیاسی مسائل پر مذاکرات کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی، عدالتی آلودہ دانش اور عدم مطابقت کو سیاسی وعدوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا، صرف اکثریت کی بنیاد پر تمام فیصلے کرنے کا مطلب آمریت ہے، جمہوریت اختلافات کو ہر ممکن حد تک بھلا کر مشترکہ فیصلے کرنے کا نام ہے۔
اسے بھی پڑھیں: جسٹس منصوراور جسٹس مندو خیل کا فیصلہ ہمارے بیانیے کی جیت ہے، مریم نواز
اختلافی نوٹ میں ججز نے لکھا کہ جمہوری سیاسی نظام ہی ان معاملات کیلئے بہترین حل ہے، سیاسی نظام ناکام ہوجائے تو بھی عدلیہ کوئی بہتر راستہ نہیں دکھا سکتی، اختلاف کو سیاسی نظام سے نکال کر عدلیہ میں لانا جمہوریت کو خطرے میں ڈالنا ہے، سیاسی نظام کی روح ہی اختلاف رائے کی تصحیح کرنا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور کے پی میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس لیا تھا، بعد ازاں کئی سماعتوں بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبر پختون خوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، اس وقت کے لارجر بنچ میں شامل دو ججز نے فیصلے اور ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا جن کا تحریری فیصلہ آج سامنے آیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے پنجاب کے پی الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے میں اختلاف کیا تھا اور کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے اور اسپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی ہے اور اس کی عزت و تکریم میں کمی واقع ہوتی ہے یہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔
مزید پڑھیں: پنجاب کے پی انتخابات؛ جب تک فریقین راضی نہ ہوں ہوا میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتے، چیف جسٹس
تفصیلی فیصلے میں ججز نے کہا ہے کہ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں، دو معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑادیا لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے۔
ججز نے کہا ہے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جاسکتا، عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کو طے کرے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہوگا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائی کورٹس میں کیس زیر التواء ہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔
یہ پڑھیں : سپریم کورٹ کا پنجاب ، خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا حکم
ججز نے فیصلے میں کہا ہے کہ یہ بہترین وقت ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے ون مین شو سے لطف اٹھانے کے اختیارات کا دوبارہ جائزہ لیا جائے، چیف جسٹس آف پاکستان کے فیصلہ کرنے کے اکیلے اختیارات پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات فل کورٹ کے بنائے گئے قوانین کے تحت ہونے چاہئیں۔
اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کے فیصلے کا بھی حوالہ
ججز نے اختلافی نوٹ میں پانامہ کیس کا تذکرہ بھی کیا اور لکھا کہ پانامہ کیس میں ابتدائی فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا تھا جبکہ حتمی فیصلے میں پانچوں ججز موجود تھے، شروع میں حتمی فیصلہ دینے والے ججز کو پانامہ بنچ سے الگ تصور نہیں کیا گیا تھا، اختلافی نوٹ دینے والے دونوں ججز پانامہ کیس کی دیگر کارروائی کا حصہ نہیں بنے۔
اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سوموٹو لیکر عدالت نے سیاسی معاملے میں مداخلت کی، پانامہ کیس میں فیصلہ تین ججز کا تھا، نظرثانی تمام پانچ ججز نے سنی، قوم میں تقسیم قائدین کے معاشی اور سیاسی مسائل پر مذاکرات کے بغیر ختم نہیں ہوسکتی، عدالتی آلودہ دانش اور عدم مطابقت کو سیاسی وعدوں سے الگ نہیں کیا جا سکتا، صرف اکثریت کی بنیاد پر تمام فیصلے کرنے کا مطلب آمریت ہے، جمہوریت اختلافات کو ہر ممکن حد تک بھلا کر مشترکہ فیصلے کرنے کا نام ہے۔
اسے بھی پڑھیں: جسٹس منصوراور جسٹس مندو خیل کا فیصلہ ہمارے بیانیے کی جیت ہے، مریم نواز
اختلافی نوٹ میں ججز نے لکھا کہ جمہوری سیاسی نظام ہی ان معاملات کیلئے بہترین حل ہے، سیاسی نظام ناکام ہوجائے تو بھی عدلیہ کوئی بہتر راستہ نہیں دکھا سکتی، اختلاف کو سیاسی نظام سے نکال کر عدلیہ میں لانا جمہوریت کو خطرے میں ڈالنا ہے، سیاسی نظام کی روح ہی اختلاف رائے کی تصحیح کرنا ہے۔