مکہ میں گزرے آٹھ روز
مکہ کی مقدس سرزمین پرعربوں کوعجموں سےملتےدیکھا، ترکوں کوایشین سےبات کرتےدیکھا،جوایک دوسرےکی زبان سمجھتےسےعاری تھے.
سرزمین مکہ پر قدم رکھتے ہی انسان کی کیفیات تبدیل ہوجاتی ہیں اور ایک تڑپ سی پیدا ہوتی ہے کہ جلد سے جلد بیت اللہ کا دیدار ہوجائے اور جب بیت اللہ پر پہلی نگاہ پڑتی ہے تو انسان اپنے دکھ ، درد، غم و پریشانی سب کچھ بھول کر خدائے لاشریک کی وحدانیت بیان کرتے ہوئے کہیں گم سا ہوجاتا ہے، دنیا بھر سے آئے ہوئے مختلف رنگوں اور مختلف شکلوں کے انسانوں کو دیکھ کر اللہ کے محبوب ﷺ اور صحابہ ؓ کی دین اسلام کیلئے کی گئی محنت اور قربانیوں پر رشک ہوتا ہے،یہی نہیں ایک عجیب سی سوچ پیدا ہوتی ہے کہ اس سرزمین پر جمع ہونے والے افراد کا تعلق مختلف تہذیبوں، تمدن اور خاندانوں سے ہے لیکن ایک کلمہ کے رشتے نے کس مضبوطی کے ساتھ سب کو جوڑ رکھا ہے یہی نہیں وہاں پہنچ کر انسان میں انکساری کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ میل جول بڑھانے کا جذبہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
مکہ کی مقدس سرزمین پر عربوں کو عجموں سے ملتے دیکھا، ترکوں کو ایشین سے بات کرتے دیکھا، جو ایک دوسرے کی زبان سمجھتے سے عاری تھے لیکن گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے سے محو گفتگو رہتے جس کی وجہ شاید دین اسلام اور اس سے محبت کرنے کی وجہ ہے، جب انسان اپنے مذہب سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہے تو لوگ خودبخود اس سے محبت کرتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ آپ کو مکہ اور مدینہ میں دکھائی دے گا۔
عمرہ کے ایام کے دوران کام کاج تو کچھ نہیں ہوتا سوائے اللہ کی عبادت کے، اگر اس دوران ٹوٹ کر عاجزی اور انکساری کے ساتھ رب کائنات کی عبادت کی جائے اور اسکی بزرگی بیان کی جائے تو رضائے الہٰی کے ساتھ ساتھ دل کو راحت اور تسکین بھی ملتی ہے جس کے حصول کیلئے دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچ کر سامان رکھنے کے فوراً بعد جلد سے جلد مسجد حرام پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی ایک بت کی مانند ساکت ہوجاتے ہیں،اسی طرح بیت اللہ کے دیدار کیلئے تڑپتے ہوئے ملتان کے ایک صاحب نے مکہ پہنچ کر اپنے سامان کی بھی پرواہ نہ کی اور اپنا سامان اور ساتھ آنے والوں کو چھوڑ کر لوگوں سے حرم کا راستہ پوچھتے پوچھتے وہاں جا پہنچے، بیت اللہ کی زیارت کی، عمرہ کیا اور واپسی پر دوبارہ ہوٹل آنے لگے تو راستہ بھول بیٹھے ، دو روز تک اپنے قافلے سے بچھڑے رہنے کے بعد نہ جانے کس طرح پھر اپنے قافلے کے ساتھیوں سے دوبارہ جاملے، لاکھوں لوگوں کے مجمع میں ایک دوسرے سے بچھڑ جانا کوئی پریشانی کی بات نہیں البتہ اگر آپ نے چند باتوں کا خیال رکھا ہے تو آپ کہیں گم نہیں ہوسکتے، پہلا تو یہ کہ حالت احرام اور ویسے بھی آپ کی جیب میں پاسپورٹ کی کاپی، ہوٹل کارڈ اور کچھ پیسے ہونا ضروری ہے تاکہ اپنے قافلے سے بچھڑنے کی صورت میں آپ دوبارہ ہوٹل کا راستہ پوچھتے پوچھتے اپنے مقام تک پہنچ سکیں، احرام کے ساتھ ایک بیلٹ بھی ہوتا ہے جس میں آپ اشیا ضروریہ رکھ سکتے ہیں جسے رکھنے میں کوئی ممانت بھی نہیں۔
دنیا بھر سے عمرہ زائرین مختلف قافلوں کی صورت میں تکبیر تلبہیہ پڑھتے حرم میں داخل ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے جانے والے اکثر زائرین علیحدہ ہی پھر رہے ہوتے ہیں، بھارت،انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلادیش، ایران، عراق، تاجکستان اور ترکی ایسے ممالک ہیں جہاں سے لوگ قافلوں کی صورت میں آتے ہیں جن میں خواتین ایک ہی رنگ کے اسکارف زیب تن کئے ہوتیں ہیں جس پر ملک اورشہر کے نام کے علاوہ ٹیلیفون نمبر بھی لکھا ہوتا ہے جو اس چیز کی علامت ہے کہ قافلے کا تعلق فلاں ملک سے ہے جہاں تک انڈونیشیا اور ملائشیا سے آئے زائرین کا تعلق ہے وہ انتہائی منظم اور اخلاص کے ساتھ طواف بھی کرتے ہیں اور ٹولیوں کی صورت میں حرم میں داخل ہوتے ہیں اور ایک ساتھ ہی واپس جاتے ہیں جن میں ایک سربراہ دوران طواف تمام افراد کو باآواز بلند دعائیں بھی پڑھاتا ہے اور رہنمائی بھی کرتا ہے، لیکن بات کی جائے پاکستانی زائرین کی تو وہ آپ کو حرم میں داخل ہوتے ہی صحن میں روٹیاں کھاتے اور خوش گپیوں میں مصروف نظر آئیں گے چونکہ یہاں سے جانے والے ستر سے اسی فیصدزائرین اپنی عمر کے آخری ایام گزار رہے ہوتے ہیں اور ہر نماز کے بعد ان کیلئے طواف کرنا ممکن نہیں ہوتا، غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستانی زائرین کی بڑی تعداد حرم کے گیٹ کے قریب ہی بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔
بیت اللہ کے گرد چکر لگانا طواف کہلاتا ہے جو عمرہ کے دو فرائض میں سے ایک ہے، دوران طواف مر اور خواتین ایک ہی جگہ ہوتے ہیں اور اس موقع پر بھیڑ کے باعث دھکے بھی لگتے ہیں لیکن ہر فرد اپنے رب کو راضی کرنے میں اس قدر مشغول ہوتا ہے کہ اسے نہ دھکوں کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کی کہ اس کے برابر میں نامحرم خواتین طواف کررہی ہیں۔ جہاں تک نفسانی خواہشات کا تعلق ہے وہ تو مسجد حرام میں پہنچنے کے بعد انسان بھول بیٹھتا ہے کیونکہ جس مقام پر رب کائنات کا جلال ہو وہاں نفسانی خواہشات کا پیدا ہونا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ مرد و زن ایک ساتھ ہونے کے باوجود نقسانی خواہشات جنم نہیں لیتیں اور انسان صرف اسی تمنا میں ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔
طواف کے دوران سب سے زیادہ مشقت والا مرحلہ حجراسود کو بوسہ دینے کا آتا ہے، (حجر اسود سیاہ پتھر ہے جو اس جگہ نصب ہے جہاں سے طواف کا آغاز کیا جاتا ہے ) اس موقع پر ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر بوسہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں جس میں بعض تو کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن کئیوں کو موقع نہیں مل پاتا، مسجد حرام اور مسجد نبوی ﷺ میں تقریباً ہر نماز کے بعد نمازہ جنازہ ادا کی جاتی ہے اور نماز سے آدھا گھنٹہ قبل خواتین کو مسجد حرام کے اندرونی احاطے میں بھیج دیا جاتا ہے اور مرد حضرات صف بندی کرتے ہیں، اس موقع پر طواف رک جاتا ہے اور سخت سیکیورٹی حصار میں امام کعبہ یا تو رکنی یمنی کے سامنے نماز پڑھاتے ہیں یا حجر اسود اور حطیم کے درمیان مصلیٰ بچھایا جاتا ہے جہاں نماز اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے فورا بعد امام کعبہ کو واپس سخت سیکیورٹی میں باب اسماعیل کے سامنے واقع محل نما حجرہ میں لے جایا جاتا ہے، مسجد حرام اور مسجد نبوی دونوں میں ہی ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی جاتی،ہر نماز کے فوراً بعد نماز جنازہ ہوتی ہے اور پھر لوگ اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں، حجرہ اسود کو بوسہ دینے اور طواف کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہر وقت موجود ہوتی ہے اس دوران بعض لوگ تبرکا غلاف کعبہ سے دھاگے نوچنے کی کوشش کرتے ہیں جو غلاف کعبہ کی بے ادبی کے مترادف ہے، اسی طرح سوات کے ایک نوجوان نے غلاف کعبہ سے دھاگا نکالا تو دور لگے کیمروں سے مانیٹڑنگ کرنے والے افراد نے وائر لیس کی مدد سے وہاں موجود شرطوں ( اہلکاروں) کو اس شخص کی نشاندہی کی جسے فوراً گرفتار کر کے جیل منتقل کردیا گیا اسی طرح ایک مصری شخص کو بھی شرطوں کے ہاتھوں میں غنودگی کے عالم میں دیکھا شاید اسے اسکی حرکت کی وجہ سے غنودگی کے عالم میں پہنچا دیا گیاتھا۔
ہم نے ہمیشہ سنا ہے کہ بیت اللہ کو دیکھ کر جو دعا مانگی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے اور وہاں بیٹھے بیٹھے اپنی آنکھوں کے سامنے دعاؤں کو قبول ہوتے اور لوگوں کی مرادیں پوری ہوتے دیکھا، حرم میں بیٹھا ہر شخص اپنی اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے، کوئی طواف کرتا رہتا ہے تو کوئی تلاوت ، تو کچھ لوگ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا ء کرتے ہیں تو کوئی نوافل پڑھتے ہیں، یہ ساری عبادتیں بہت اعلی اور رب کائنات کو بہت محبوب ہیں لیکن حرم میں خاموشی سے بیٹھ کر بیت اللہ پر نظرے جمائے صرف اسے دیکھتے رہنا ہی کیا خوب عبادت ہے، غلاف کعبہ سے ظاہر ہوتا رب العزت کا جلال انسان کو اپنی کمزوری یاد دلاتا ہے کہ انسان کس قدر کمزوراور دنیا میں غفلت کی زندگی گزار رہا ہے،اور اپنی زندگی کا کتنا حصہ اس نے گمراہی اور گناہوں میں ضائع کردیا، انسان وہاں بیٹھا یہی سوچتا ہے تو اس کی کیفیات بدلنا شروع ہوجاتی ہیں اور اس تبدیلی کو وہ خود محسوس کرتا ہے۔مکہ میں گزارےایام پر اور بھی بہت کچھ لکھنا ہے لیکن تحریر زیادہ طویل ہوچکی ہے لہذا غار حرا کیلئے جبل نور پر چڑھنا اور دیگر زیارات سے متعلق اگلے بلاگ میں تحریر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مکہ کی مقدس سرزمین پر عربوں کو عجموں سے ملتے دیکھا، ترکوں کو ایشین سے بات کرتے دیکھا، جو ایک دوسرے کی زبان سمجھتے سے عاری تھے لیکن گھنٹوں گھنٹوں ایک دوسرے سے محو گفتگو رہتے جس کی وجہ شاید دین اسلام اور اس سے محبت کرنے کی وجہ ہے، جب انسان اپنے مذہب سے محبت کرنے لگتا ہے اور اسکی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتا ہے تو لوگ خودبخود اس سے محبت کرتے ہیں جس کا عملی مظاہرہ آپ کو مکہ اور مدینہ میں دکھائی دے گا۔
عمرہ کے ایام کے دوران کام کاج تو کچھ نہیں ہوتا سوائے اللہ کی عبادت کے، اگر اس دوران ٹوٹ کر عاجزی اور انکساری کے ساتھ رب کائنات کی عبادت کی جائے اور اسکی بزرگی بیان کی جائے تو رضائے الہٰی کے ساتھ ساتھ دل کو راحت اور تسکین بھی ملتی ہے جس کے حصول کیلئے دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ ایئرپورٹ سے ہوٹل پہنچ کر سامان رکھنے کے فوراً بعد جلد سے جلد مسجد حرام پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور بیت اللہ پر نظر پڑتے ہی ایک بت کی مانند ساکت ہوجاتے ہیں،اسی طرح بیت اللہ کے دیدار کیلئے تڑپتے ہوئے ملتان کے ایک صاحب نے مکہ پہنچ کر اپنے سامان کی بھی پرواہ نہ کی اور اپنا سامان اور ساتھ آنے والوں کو چھوڑ کر لوگوں سے حرم کا راستہ پوچھتے پوچھتے وہاں جا پہنچے، بیت اللہ کی زیارت کی، عمرہ کیا اور واپسی پر دوبارہ ہوٹل آنے لگے تو راستہ بھول بیٹھے ، دو روز تک اپنے قافلے سے بچھڑے رہنے کے بعد نہ جانے کس طرح پھر اپنے قافلے کے ساتھیوں سے دوبارہ جاملے، لاکھوں لوگوں کے مجمع میں ایک دوسرے سے بچھڑ جانا کوئی پریشانی کی بات نہیں البتہ اگر آپ نے چند باتوں کا خیال رکھا ہے تو آپ کہیں گم نہیں ہوسکتے، پہلا تو یہ کہ حالت احرام اور ویسے بھی آپ کی جیب میں پاسپورٹ کی کاپی، ہوٹل کارڈ اور کچھ پیسے ہونا ضروری ہے تاکہ اپنے قافلے سے بچھڑنے کی صورت میں آپ دوبارہ ہوٹل کا راستہ پوچھتے پوچھتے اپنے مقام تک پہنچ سکیں، احرام کے ساتھ ایک بیلٹ بھی ہوتا ہے جس میں آپ اشیا ضروریہ رکھ سکتے ہیں جسے رکھنے میں کوئی ممانت بھی نہیں۔
دنیا بھر سے عمرہ زائرین مختلف قافلوں کی صورت میں تکبیر تلبہیہ پڑھتے حرم میں داخل ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان سے جانے والے اکثر زائرین علیحدہ ہی پھر رہے ہوتے ہیں، بھارت،انڈونیشیا، ملائشیا، بنگلادیش، ایران، عراق، تاجکستان اور ترکی ایسے ممالک ہیں جہاں سے لوگ قافلوں کی صورت میں آتے ہیں جن میں خواتین ایک ہی رنگ کے اسکارف زیب تن کئے ہوتیں ہیں جس پر ملک اورشہر کے نام کے علاوہ ٹیلیفون نمبر بھی لکھا ہوتا ہے جو اس چیز کی علامت ہے کہ قافلے کا تعلق فلاں ملک سے ہے جہاں تک انڈونیشیا اور ملائشیا سے آئے زائرین کا تعلق ہے وہ انتہائی منظم اور اخلاص کے ساتھ طواف بھی کرتے ہیں اور ٹولیوں کی صورت میں حرم میں داخل ہوتے ہیں اور ایک ساتھ ہی واپس جاتے ہیں جن میں ایک سربراہ دوران طواف تمام افراد کو باآواز بلند دعائیں بھی پڑھاتا ہے اور رہنمائی بھی کرتا ہے، لیکن بات کی جائے پاکستانی زائرین کی تو وہ آپ کو حرم میں داخل ہوتے ہی صحن میں روٹیاں کھاتے اور خوش گپیوں میں مصروف نظر آئیں گے چونکہ یہاں سے جانے والے ستر سے اسی فیصدزائرین اپنی عمر کے آخری ایام گزار رہے ہوتے ہیں اور ہر نماز کے بعد ان کیلئے طواف کرنا ممکن نہیں ہوتا، غالباً یہی وجہ ہے کہ پاکستانی زائرین کی بڑی تعداد حرم کے گیٹ کے قریب ہی بیٹھی دکھائی دیتی ہے۔
بیت اللہ کے گرد چکر لگانا طواف کہلاتا ہے جو عمرہ کے دو فرائض میں سے ایک ہے، دوران طواف مر اور خواتین ایک ہی جگہ ہوتے ہیں اور اس موقع پر بھیڑ کے باعث دھکے بھی لگتے ہیں لیکن ہر فرد اپنے رب کو راضی کرنے میں اس قدر مشغول ہوتا ہے کہ اسے نہ دھکوں کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ اس کی کہ اس کے برابر میں نامحرم خواتین طواف کررہی ہیں۔ جہاں تک نفسانی خواہشات کا تعلق ہے وہ تو مسجد حرام میں پہنچنے کے بعد انسان بھول بیٹھتا ہے کیونکہ جس مقام پر رب کائنات کا جلال ہو وہاں نفسانی خواہشات کا پیدا ہونا ممکن نہیں ، یہی وجہ ہے کہ مرد و زن ایک ساتھ ہونے کے باوجود نقسانی خواہشات جنم نہیں لیتیں اور انسان صرف اسی تمنا میں ہوتا ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہوجائے۔
طواف کے دوران سب سے زیادہ مشقت والا مرحلہ حجراسود کو بوسہ دینے کا آتا ہے، (حجر اسود سیاہ پتھر ہے جو اس جگہ نصب ہے جہاں سے طواف کا آغاز کیا جاتا ہے ) اس موقع پر ہر شخص ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر بوسہ دینے کی کوشش کرتا ہے اور اسی کوشش میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہیں جس میں بعض تو کامیاب ہوجاتی ہیں لیکن کئیوں کو موقع نہیں مل پاتا، مسجد حرام اور مسجد نبوی ﷺ میں تقریباً ہر نماز کے بعد نمازہ جنازہ ادا کی جاتی ہے اور نماز سے آدھا گھنٹہ قبل خواتین کو مسجد حرام کے اندرونی احاطے میں بھیج دیا جاتا ہے اور مرد حضرات صف بندی کرتے ہیں، اس موقع پر طواف رک جاتا ہے اور سخت سیکیورٹی حصار میں امام کعبہ یا تو رکنی یمنی کے سامنے نماز پڑھاتے ہیں یا حجر اسود اور حطیم کے درمیان مصلیٰ بچھایا جاتا ہے جہاں نماز اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے فورا بعد امام کعبہ کو واپس سخت سیکیورٹی میں باب اسماعیل کے سامنے واقع محل نما حجرہ میں لے جایا جاتا ہے، مسجد حرام اور مسجد نبوی دونوں میں ہی ہر نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں مانگی جاتی،ہر نماز کے فوراً بعد نماز جنازہ ہوتی ہے اور پھر لوگ اپنی اپنی عبادتوں میں مصروف ہوجاتے ہیں، حجرہ اسود کو بوسہ دینے اور طواف کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہر وقت موجود ہوتی ہے اس دوران بعض لوگ تبرکا غلاف کعبہ سے دھاگے نوچنے کی کوشش کرتے ہیں جو غلاف کعبہ کی بے ادبی کے مترادف ہے، اسی طرح سوات کے ایک نوجوان نے غلاف کعبہ سے دھاگا نکالا تو دور لگے کیمروں سے مانیٹڑنگ کرنے والے افراد نے وائر لیس کی مدد سے وہاں موجود شرطوں ( اہلکاروں) کو اس شخص کی نشاندہی کی جسے فوراً گرفتار کر کے جیل منتقل کردیا گیا اسی طرح ایک مصری شخص کو بھی شرطوں کے ہاتھوں میں غنودگی کے عالم میں دیکھا شاید اسے اسکی حرکت کی وجہ سے غنودگی کے عالم میں پہنچا دیا گیاتھا۔
ہم نے ہمیشہ سنا ہے کہ بیت اللہ کو دیکھ کر جو دعا مانگی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے اور وہاں بیٹھے بیٹھے اپنی آنکھوں کے سامنے دعاؤں کو قبول ہوتے اور لوگوں کی مرادیں پوری ہوتے دیکھا، حرم میں بیٹھا ہر شخص اپنی اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے، کوئی طواف کرتا رہتا ہے تو کوئی تلاوت ، تو کچھ لوگ اللہ رب العزت کی حمد و ثنا ء کرتے ہیں تو کوئی نوافل پڑھتے ہیں، یہ ساری عبادتیں بہت اعلی اور رب کائنات کو بہت محبوب ہیں لیکن حرم میں خاموشی سے بیٹھ کر بیت اللہ پر نظرے جمائے صرف اسے دیکھتے رہنا ہی کیا خوب عبادت ہے، غلاف کعبہ سے ظاہر ہوتا رب العزت کا جلال انسان کو اپنی کمزوری یاد دلاتا ہے کہ انسان کس قدر کمزوراور دنیا میں غفلت کی زندگی گزار رہا ہے،اور اپنی زندگی کا کتنا حصہ اس نے گمراہی اور گناہوں میں ضائع کردیا، انسان وہاں بیٹھا یہی سوچتا ہے تو اس کی کیفیات بدلنا شروع ہوجاتی ہیں اور اس تبدیلی کو وہ خود محسوس کرتا ہے۔مکہ میں گزارےایام پر اور بھی بہت کچھ لکھنا ہے لیکن تحریر زیادہ طویل ہوچکی ہے لہذا غار حرا کیلئے جبل نور پر چڑھنا اور دیگر زیارات سے متعلق اگلے بلاگ میں تحریر کیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔