دکھ
عمران خان کا سب سے بڑا دکھ تو اقتدار سے محرومی کا ہے
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ مجھے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے سیکیورٹی کا خدشہ ہے یہ اگر مجھے ختم کریں گے تو ملک کو اکٹھا کون کرے گا ؟ انھوں نے کہا کہ اس حکومت نے مجھ پر قتل سمیت ہر قسم کے کیس بنا دیے ہیں۔
ان کی کوشش ہے کہ میں عدالتوں میں پھرتا رہوں اور انتخابی مہم نہ چلا سکوں۔ (ن) لیگ ہماری فوج سے لڑائی چاہتی ہے جب کہ ہمارا مفاد یہ ہے کہ فوج مضبوط ہو۔
ایکسپریس ٹریبیون کی رپورٹ کے مطابق ملک میں سیاسی فائدے کے لیے معاشرے کو تقسیم کرنے کا رجحان خطرناک ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور ملک میں جاری تنازعات غیر ملکی سرمایہ کاری روک سکتے ہیں اس لیے مل کر کام کرنے سے ہی ایک زیادہ مربوط اور خوشحال معاشرے کی تعمیر ممکن ہے جب کہ ہم پہلے ہی نسلی، مذہبی اور اب سیاسی بنیادوں پر منتشر معاشرے میں رہ رہے ہیں۔
عمران خان کے سیاسی مخالف اس بات پر متفق ہیں کہ عمران خان کی سیاست نے ملک کو تقسیم در تقسیم کردیا ہے وہ جمہوریت کے بجائے آمریت اور من مانے سیاسی فیصلوں پر یقین رکھتے ہیں اس لیے اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد انھوں نے جمہوری روایت کے مطابق ملک میں اپوزیشن کا مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے قوم کو سیاسی طور پر مزید تقسیم کردیا ہے۔
وہ اپنے سیاسی مخالفین کو ملک و قوم کا دشمن ، کرپٹ اور غیر جمہوری قرار دے کر ملک میں قبل از وقت الیکشن چاہتے ہیں اور گیارہ ماہ سے حکومت کو ملکی معیشت کی بہتری کا کام کرنے نہیں دے رہے جب کہ ان کی وجہ سے ہی ملک معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے جسے حکومت بحران سے نکالنے کی مگر اس کے برعکس عمران خان حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے میں مصروف ہیں اور چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف قرضہ نہ دے اور ملک ڈیفالٹ کر جائے۔
عمران خان کے وزیر خزانہ اور پنجاب و کے پی وزرائے خزانہ نے جو کردار ادا کیا اس کی وجہ سے آئی ایم ایف ملک پر اعتماد نہیں کر رہا ان کی ہر شرط حکومت نے مان لی ہے مگر سیاسی عدم استحکام نے ملکی مسائل مزید بڑھا دیے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر تو ملک کی موجودہ صورتحال کا مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کی حکومتوں کو قرار دے رہے ہیں اور ان کی سیاست تینوں پارٹیوں کی شدید مخالفت پر ہی چل رہی ہے۔ کوئی بھی موقعہ ہو سادگی میں مشہور کے پی کے سابق وزیر خزانہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پھر کہا ہے کہ توشہ خانہ رپورٹ میں سب کے کرتوت سامنے آگئے ہیں۔
بے شمار مقدمات میں ملوث کیے گئے سابق وزیر اعظم اب بھی بضد ہیں کہ سیاسی مخالفین سے ہاتھ نہیں ملاؤں گا اور نہ ان کے ساتھ بیٹھوں گا۔ جواب میں سابق صدر آصف زرداری نے بھی عمران خان کے ساتھ بیٹھنے کے کسی بھی امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیاست میں بیٹھا اس کے ساتھ جاتا ہے جو سیاستدان ہو۔
پی ڈی ایم رہنما اور حکومتی رہنما بھی عمران خان کے ساتھ بیٹھنے سے انکار کرچکے ہیں مگر مفاہمت کے حامی وزیر اعظم شہباز شریف یہ جانتے ہوئے بھی کہ قوم کو ختم کرکے سیاست کرنے والے عمران خان صرف اس مفاہمت اور مل بیٹھنے پر یقین رکھتے ہیں جس میں ان کو فائدہ اور اقتدار میں لائے جانے کی امید دلائی جائے۔
وزیر اعظم ان سے معاشی معاملات پر گفتگو چاہتے ہیں مگر عمران خان کو ملکی معیشت سے زیادہ اقتدار میں آنے کی فکر ہے ، اگر ماضی میں انھیں اقتدار میں لانے والے عمران خان کو دوبارہ وزیر اعظم بنانے کا یقین دلا دیں تو عمران خان حکومت سے مذاکرات پر راضی ہو سکتے ہیں کیونکہ انھیں ہر حالت میں اقتدار چاہیے اقتدار ہی انھیں موجودہ مقدمات، عدالتی پیشیوں اور مسائل سے نجات دلا سکتا ہے۔
اس لیے وہ اقتدار کے حصول کے لیے ہر انتہا تک جا رہے ہیں اور خان کے خوف کو بنیاد بنا کر چاہتے ہیں کہ ان کے گھر کو ہی عدالت قرار دے دیا جائے تاکہ وہ اپنے گھر میں کارکنوں کے حصار میں وڈیو لنک کے ذریعے عدالتوں کا سامنا کرسکیں۔ ایسی خواہش کا اظہار ان کے ایک وکیل بابر اعوان کر بھی چکے ہیں۔
عمران خان ملک کی سیاست کا واحد کردار ہیں جن میں سیاستدانوں والی صفات کم اور انتہا پسندوں جیسی عادتیں زیادہ ہیں جو صرف خود کو درست اور دوسروں کو اس وقت تک غلط یا چور، ڈاکو سمجھتے ہیں جب تک وہ ان کی حمایت اور تابع داری پر آمادہ نہیں ہو جاتا۔
عمران خان نے اپنی سیاست اور من مانے فیصلوں سے قوم کو ہی نہیں بلکہ ملک کے ہر ادارے کو تقسیم کردیا۔ بالاتر ہوں یا ریٹائرڈ فوجی افسران، عدالتیں ہوں یا سینئر وکلا، صحافی ہوں یا اینکر پرسن سب کی عمران خان سے ہمدردیاں اور اختلافات ہیں۔ صحافی و اینکر پرسن ان سے اس لیے خوفزدہ رہے ہیں کہ عمران خان ان پر لفافے لینے کا الزام نہ لگا دیں۔
نوجوانوں کو انھوں نے اپنے سحر میں جکڑ کر اپنا حامی بنایا اور قوم کو ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھر بنانے کا خواب دکھایا تھا جو ان کی پونے چار سالہ حکومت میں پورے ہوئے نہ عمران خان کے قرار دیے گئے چور ڈاکوؤں کو سزا ملی نہ ملک کی لوٹی گئی دولت ہی واپس آ سکی اور اب عمران خان عوام کو پھر وہی خواب دکھا رہے ہیں جو وہ اقتدار ملنے سے قبل دکھا چکے ہیں۔
عمران خان کو دکھ ہے کہ انھیں اقتدار میں لانے والوں نے ان کا اقتدار نہیں بچایا اور سیاست میں مداخلت سے دور ہوگئے۔ عمران خان کے نزدیک بالاتروں کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ انھیں 2028 تک اقتدار میں رکھنا تھا مگر انھوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کا اقتدار بھی گیا اور حکومت نے انھیں شدید مشکلات میں مبتلا کردیا ہے اور عدالتوں سے بھی انھیں پہلے جیسا ریلیف نہیں مل رہا۔
عمران خان کا سب سے بڑا دکھ تو اقتدار سے محرومی کا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ملک کو درپیش مالی مشکلات کا حل صرف ایسے انتخابات ہیں جس سے وہ دوبارہ اقتدار میں آ سکیں۔ ملک کو تقسیم کرنے کا نقصان دہ اقدام عمران خان انجام دے چکے قوم تقسیم ہو چکی اور اب کوئی ایسا رہنما نہیں جو یہ تقسیم ختم کرا سکے۔