وزیر اعظم کا دورئہ پشاور اور صوبائی حکومت کے پرانے مطالبات

وزیر اعظم کا دورئہ پشاور اور صوبائی حکومت کے پرانے مطالبات


July 11, 2012
وزیر اعظم کا دورئہ پشاور اور صوبائی حکومت کے پرانے مطالبات (فوٹو ایکسپریس)

دورۂ کراچی کے دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی اے این پی کے وفد سے ملاقات نہ ہونے کوئی اچھا تاثر پیدا نہیں ہواتھا۔ اس کے ازالے کیلئے وزیراعظم اچانک ایک روزہ دورہ پر پشاور پہنچے۔ وزیراعطم نے اے این پی کی قیادت کا شکریہ بھی ادا کردیا جبکہ صوبائی حکومت نے وہ مطالبات بھی وزیراعظم کے سامنے پیش کردیئے جو اس سے قبل سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے سامنے پیش کیے جاتے رہے تاہم وہ حل نہیں کرسکے تھے۔

خیبر پختونخوا حکومت نے جو سب سے اہم اور بنیادی مسئلہ وزیراعظم کے سامنے رکھا، وہ بجلی کے خالص منافع کی سالانہ منجمد رقم کو غیر منجمد کرتے ہوئے، اسے ڈالر کی قیمت کے مطابق بڑھانا ہے۔ مذکورہ مطالبہ اس سے قبل سابق وزیراعظم کو بھی پیش کیا گیا تھا جنہوں نے اسے ٹیکنیکل کمیٹی کے سپرد کیا جس کے صرف دو ہی اجلاس ہوئے۔ ان میں واپڈا نے کھل کر اپنا مؤقف بیان کردیا کہ مالی مشکلات کی وجہ سے وہ صوبہ کیلئے بجلی منافع کی رقم کو نہیں بڑھاسکتے۔ یوں یہ معاملہ وہیں پر اٹک گیااور صوبہ کو بدستور وہی چھ ارب روپے مل رہے ہیں جس کا تعین 1991 ء میں ہوا تھا۔

اے این پی کے سربراہ اسفندیارولی خان کے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اس وقت قیادت قائم مقام صدر سنیٹر حاجی محمد عدیل کے ہاتھ میں ہے جو مالی امور کے حوالے سے اتھارٹی کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے بجلی منافع کی قیمت کو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق بڑھانے پر رضامند نہ ہونے کی وجہ سے ڈالر کی قیمت کے تناسب سے اس میں اضافہ کرنے کی تجویزصدر کو پیش کی جنہوںنے اس بات پر اتفاق کیاتھا کہ اضافہ ہونا چاہیے۔ بعدازاں یہی تجویز وزیراعظم کے سامنے رکھی گئی۔ انھوں نے اسی ماہ مرکز میں اس حوالے سے اجلاس بلانے کا عندیہ دیا ہے۔ اگر ڈالر کی قیمت کے اعتبار سے بھی خیبر پختونخوا کیلئے بجلی کا سالانہ منافع بڑھایاجائے تو موجودہ چھ ارب کی رقم بڑھ کر 25 سے 30 ارب روپے تک جاسکتی ہے تاہم وزیراعظم کے ساتھ پشاور میں ملاقات میں شامل ذرائع کا کہناہے کہ دونوں جانب سے اس تجویز پر اتفاق کیا گیا کہ یہ رقم بڑھا کر کم ازکم پندرہ ارب روپے کرنی چاہیے ۔ اس حوالے سے ابھی مذاکرات ہونا باقی ہیں۔

وزیراعظم سے ملاقات میں پیش کیے جانے والے دیگر مطالبات بھی اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔جن میں چشمہ رائٹ بنک کنال کی تعمیر کیلئے فنڈنگ ،منڈا ڈیم کی تعمیر ،لواری ٹنل پر دوبارہ کام کا آغاز کرنا اور اسی طرح کے دیگر امور۔ تاہم ان میں سب سے اہم مطالبہ صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات کیلئے قانون سازی کا حق مانگنا ہے۔ صوبہ کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جو ملاکنڈ ڈویژن میں شامل سات اضلاع پر مشتمل ہے، کے حوالے سے صوبائی حکومت کسی قسم کی قانون سازی نہیں کرسکتی۔ فاٹا کے حوالے سے جو بھی قانون سازی کی جاتی ہے اس کی منظوری گورنر کے ذریعے صدر مملکت سے لینی پڑتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک صوبائی محتسب کے ادارہ کا دائرہ کار بھی فاٹا تک نہیں بڑھایاجاسکا۔ اے این پی ایک جانب قبائلی علاقہ جات کو خیبر پختونخوا اسمبلی میں نمائندگی دلانے کیلئے کوشاں ہے تو دوسری جانب اب وہ اپنی مدت پوری کرنے سے قبل فاٹا پرکنٹرول حاصل کرنا چاہتی ہے۔ فاٹا میں شامل ساتوں اضلاع میں ترقیاتی کام اور ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کرنے کے باوجود صوبائی حکومت وہاں پر ازخود کوئی قانون نافذ نہیں کرسکتی تاہم سوات سمیت ملاکنڈ ڈویژن کے کئی اضلاع میں گزشتہ برسوں میں ہونے والی عسکریت پسندی کو کنٹرول میں لانے کے بعد اب صوبائی حکومت فاٹا پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے اور مرکز بھی اسے یہ کنٹرول دینے کیلئے تیا رہے ۔

چونکہ صوبائی حکومت نے ملاکنڈ ڈویژن کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی تیاریاں کررکھی ہیں جن میں ضلع چترال کی بھی دو حصوں میں تقسیم شامل ہے۔ اس لیے صوبہ،ملاکنڈ ڈویژن کی تقسیم کے ساتھ اس کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار بھی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اگرچہ ملاکنڈ ڈویژن کی قبائلی حیثیت کے خاتمے کے حوالے سے صوبائی حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ وہاں کے منتخب نمائندے اس کی مخالفت کررہے ہیں جس کی وجہ متعدد ٹیکسوں سے استثنیٰ سمیت کئی قوانین سے باہر رہنا بھی ہے۔ تاہم جلد یا بدیر ملاکنڈ ڈویژن کی قبائلی حیثیت کا خاتمہ ہوگا اور صوبائی حکومت وہاں کے حوالے سے قانون سازی کا اختیار حاصل کرتے ہوئے اس کی ابتداء کررہی ہے۔ مرکز کی جانب سے اے این پی کو ہدایت کردی گئی ہے کہ وہ اس سلسلے میں آئینی ترمیم تیار کرکے مرکز کو ارسال کرے تاکہ اتحادیوں کے مشورے سے اسے حتمی شکل دی جاسکے۔

اگراے این پی نے ایک جانب نیٹو سپلائی کی بحالی کے معاملے پر مرکزی حکومت کے فیصلہ کی حمایت کی ہے تو دوسری جانب دوہری شہریت بل کی مخالف ہے۔ اے این پی کا مؤقف ہے کہ صدر، وزیراعظم ، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کیلئے دوہری شہریت نہیں ہونی چاہیے جبکہ اراکین اسمبلی کیلئے یہ آپشنل ہوجس کے تحت منتخب ہونے کے بعد حلف اٹھانے سے قبل وہ اپنی دوسری شہریت چھوڑدیں۔ دوسری جانب اے این پی کے اندرونی ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر اتحادی جماعتیں اکثریت کے ساتھ اس بل کے بارے میں کوئی دوسرا فیصلہ کرتی ہیں تو ہم وہ فیصلہ تسلیم کریں گے۔ الیکشن قریب آچکے ہیں اس لیے اے این پی اپنی تجویز پر اڑی ہوئی ہے تاکہ بعض حلقوں میں اے این پی کے پیپلز پارٹی کی بی ٹیم بننے کا جو تاثر پایاجاتا ہے اس کا خاتمہ کیا جاسکے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں