لاپتہ قیدی کیس فوجی اہلکار کیخلاف مقدمہ ختم کرنے پر سپریم کورٹ برہم

نوٹس میں لائے بغیر یہ کیسے کیا گیا؟ مطمئن نہ کیا گیا تو مناسب حکم جاری کرینگے،عدالت۔

لاہور سے لاپتہ2 افراد کی بازیابی کیلیے 30اپریل تک مہلت،کوئی شخص غیرقانونی سرگرمی میں ملوث ہے تو قانون کے تحت کارروائی کریں، بنیادی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمے داری ہے، فاضل بینچ۔ فوٹو: فائل

سپریم کورٹ نے مالاکنڈ کے حراستی مرکزسے 35 قیدیوں کو اٹھانے کے ملزم کے خلاف مقدمہ ختم کرنے پرتشویش کااظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا۔

جسٹس جوادخواجہ کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے سماعت کی۔ وزارت دفاع کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرلیگل عرفان خالد بھٹی کے دستخطوں سے رپورٹ جمع کرائی گئی جس میںبتایا گیا کہ ڈی سی اوملاکنڈ نے فوجی حکام کے کہنے پرنائب صوبیدار امان اللہ خان کے خلاف لیوی پوسٹ مالاکنڈمیں درج ایف آئی آرختم کرتے ہوئے معاملہ کارروائی کیلیے فوجی حکام کومنتقل کردیا ہے۔ امان اللہ بیگ کیخلاف تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج ہوا۔ چونکہ وہ حاضرسروس فوجی افسرہے اس لیے آرمی ایکٹ کے تحت ہی اس کیخلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔


مقدمہ فوجی عدالت میں چلے گا۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اس معاملے کا جائزہ لیا جائے گا کہ ڈی سی او کو مقدمہ منتقل کرنے کا اختیار حاصل تھا یا نہیں۔ اس معاملے پر مفصل فیصلہ دیا جائیگا۔ مطمئن نہ ہونے پرمناسب حکم جاری کیاجائے گا۔ بی بی سی کے مطابق عدالت نے فوجی اہلکارکے خلاف مقدمہ ختم کرنے پربرہمی کااظہار کیااور قراردیا کہ عدالت کے نوٹس میں لائے بغیر اس مقدمے کو کیسے ختم کر دیا گیا۔

ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ مذکورہ شخص کے خلاف کورٹ مارشل کی کارروائی ہورہی ہے لیکن پہلے عدالت کومطمئن کرنا ہوگا۔ کیا اس ضمن میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔ مزیدسماعت ایک ہفتے تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔ واضح رہے کہ نائب صوبیدار کے خلاف وزیر دفاع خواجہ آصف کے مراسلے پرایف آئی آردرج کی گئی تھی۔ ان 35افراد میں سے صرف 6کا سراغ لگایاجا سکاہے جبکہ باقی افرادکے بارے میں حکام کاکہنا ہے کہ وہ فوج کی تحویل میں نہیں ہیں۔

عدالت نے لاہورسے لاپتہ حسن عبداللہ اور خالد خلیل کی بازیابی کے لیے وفاقی حکومت اورپنجاب پولیس کو 30اپریل تک مہلت دے دی۔ جسٹس جوادخواجہ نے ریمارکس دیے کہ اگرکوئی شخص کسی غیرقانونی سرگرمی میںملوث ہے توقانون کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے مگرکسی کولاپتہ نہیںکیا جاسکتا۔ ہرشہری کوآئین نے کچھ بنیادی حقوق دیے ہیں جن کا تحفظ عدالتوں اور پولیس کی ذمے داری ہے۔
Load Next Story