رمضان اور نزول قرآن
اس ماہ مقدس کی تمام تر ساعتیں جو باعث برکت و رحمت اور مغفرت ہیں تو قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں
یہ ماہ رمضان المبارک ہی تھا کہ جس کی مقدس ساعتوں میں اللہ کا آخری پیغام ہدایت قرآن مجید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل کیا گیا۔ حالاںکہ رمضان پہلے بھی آتا تھا لیکن نزول قرآن کی برکت سے ماہ رمضان کو جو تقدس حاصل ہوا وہ عظمت رمضان کو اس سے قبل حاصل نہ تھی۔ چناںچہ خود قرآن کا بیان ہے۔
ترجمہ! ماہ رمضان وہ ہے ' جس میں قرآن (اول اول) اتارا گیا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو ' چاہیے کہ پورے مہینہ کے روزے رکھے۔
(البقرہ آیت : 184 پارہ 2)
گویا رمضان اور قرآن کا تعلق اس قدر گہرا اور پختہ ہو گیا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہو گئے۔
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی تمام تر ساعتیں جو باعث برکت و رحمت اور مغفرت ہیں تو قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چونکہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتدا ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکارا کی گئی کہ
ترجمہ! الم o یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔ اللہ سے) ڈرنے والوں کے لئے سامان ہدایت ہے۔
(البقرہ' آیات1'2 پارہ1)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا! کہ اللہ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (ہاں یہ اللہ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق کر تا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہوا) ہے۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو ) بلا بھی لو۔
(سورۃ یونس' آیات37' 38 پارہ11)
ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من اللہ اور مبنی بر حق ہونے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ' تو تم بھی ایسی کوشش کر دیکھو اور اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اور اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھا دو۔
یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجز ہے' اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا' کیوںکہ یہ رب رحمان کا کلام ہے۔ نزول قرآن مجید ماہ رمضان سے بالکل جڑا ہوا ہے۔ کہ رمضان آتا ہے تو قرآن بھی جابجا گلی گلی 'بستی بستی' محلہ محلہ کثرت سے تلاوت کیا جانے لگتا ہے اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیا اسے بھی اللہ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرمادیں اور ارشاد فرمایا۔
ترجمہ! بے شک ہم نے اس (قرآن مجید) کو قدر (ومنزلت) والی رات میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔ (سو) شب قدر (خیر وبرکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لئے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔
(سوۃالقدر'آیات:1 تا5 پارہ30)
غور فرمائیے کہ یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہو گئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہو گئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کر دیا۔ اندازہ کیجئے ہماری زندگی میں یہ رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ ہم اس کے فیوض و برکات سے کس قدر فیض یاب ہوسکتے ہیں۔
یہ قرآن مجید کی برکات کا نتیجہ ہے کہ روزہ جیسی عظیم عبادت میسر آئی کہ جس کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور میںہی اس کی جزا دوںگا (بخاری و مسلم)
قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق اللہ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔ گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفا کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گم شدہ متاع عزیز یعنی جنت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔
ترجمہ! اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل ' آیت 82 پارہ 15)
نزول قرآن کا مقصد: اللہ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا!
ترجمہ! وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور ا س سے پہلے تو یہ لوگ صریح گم راہی میں تھے ۔
(سورۃ الجمعہ' آیت:2 پارہ 28)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا!
ترجمہ! وہ اللہ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا ہو جائے۔ اسی اللہ (یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے' آسمانوں اور زمین کی' اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں شریک ہے۔ اس (اللہ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اور مناسب اندازے پر رکھا۔ (سورۃالفرقان'آیات1'2 پارہ18)
اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا۔
ترجمہ! ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم۔ اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟ اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو۔
(سورۃ الواقعہ' آیت75 تا 82 پارہ 27)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کر کے رب کے پسندیدہ بندے بنا کر اس کے اصلی مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہراہ مستقیم پر گام زن کرانا ہے، تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے ' جو اس کی اشاعت اعمال کی بنا اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔یہ قرآن مجید اتنی عظمتوں اور رفعتوں کا حامل ہے کہ اگر ایمان کے جذبہ کے ساتھ محض اس کی تلاوت کر لی جائے تو وہ بھی مومن کے لیے انتہائی اجر و ثواب کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ کے آخری محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے۔
ترجمہ! جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے۔ اَلَم ایک حرف نہیں ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور م ایک حرف ہے (ترمذی' دارمی)
اندازہ کیجیے کہ محض تلاوت کرنے پر اس قدر اجر و ثواب ہے تو پھر سمجھ کر سیکھنے اور اس کے علوم کے حصول اور عمل پر کیا اجر و ثواب ہو گا۔ اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ ہم اپنے ناقص حساب کتاب سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے سے اللہ کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے جنت کے حصول اور جہنم کی ہول ناکیوں سے محفوظ رہنے میں کام یاب ہو سکتے ہیں، جو اگر حاصل ہوگئی تو یقیناً بڑی کام یابی ہے۔
یاد رکھیے! دنیا کی مختصر زندگی بہرصورت گزر ہی جائے گی لیکن اگریہ زندگی رب کی رضا کے مطابق گزری تو دنیا و آخرت دونوں کی کام یابی ہے' وگرنہ من چاہی' شتر بے مہار کی زندگی یا اللہ کی بغاوت و نافرمانی' قرآن کی تکفیر و تکذیب میں گزری تو ایسی زندگی دنیاوی لحاظ سے شاید کامیاب ہوجائے۔ لیکن ابدی زندگی جہنم کی نذر ہو کر خسران کا باعث ثابت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین۔ قرآن مجید سے تعلق استوار اور مضبوط سے مضبوط تر رکھنا مومن کا شعار ہے۔ یہ نازل ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم اپنا تزکیہ کر لیں اور اپنے مربی و آقا' پالن ہار اللہ رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور یہ قرآن معمولی چیز نہیں کہ ہم اسے محض ایک کتاب سمجھیں بلکہ اس میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کامرانیوں کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن دلوں کے زنگ دور کرکے صاف شفا ف بناتا ہے۔
تلاوت قرآن کی اہمیت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے۔
ترجمہ! دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگ جانے سے زنگ لگ جاتا ے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کو کس طرح صا ف کیاجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موت کو زیادہ یاد کیا کرو اور قرآن مجید کو بہت پڑھا کرو۔(بیہقی)
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا!
ترجمہ! جو اپنے رب سے بات چیت کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ قرآن مجید پڑھے۔
(کنزالعمال)
ایک حدیث میں یوں ارشادفرمایا!
قرآن پڑھا کرو، کیوںکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفیع بن کر آئے گا۔ (مسلم)
ایک جگہ اس طرح قرآن کی عظمت بیان فرمائی!
ترجمہ! میری امت کی بہترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کے درجات: رسول رحمت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاا رشاد عالی شان ہے۔
ترجمہ! قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور (جنت کے ) اونچے اونچے درجات پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ دنیا میں پڑھتے تھے تمہارا جنت میں آخری درجہ وہ ہو گا جہاں تم پڑھتے پڑھتے ٹھہر جاؤ گے (ترمذی)
حدیث قدسی میں ارشاد ہوا!
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نے جس کو باز رکھا مجھ سے سوال کرنے سے یعنی قرآن مجید پڑھنے میں مشغول رہا' جس کی وجہ سے وہ مجھ سے سوال نہ کر سکا تو اس کو اس سے بہتر دوں گا جو مانگنے والے کو دیتا ہوں۔ یعنی مانگنے والوں سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کرنے والوں کو دوں گا اور کلام الٰہی کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوقات پر ہے۔ (ترمذی)
قارئین کرام! قرآن مجید سراسر خیر و برکت اور فوز و فلاح اور کام یابیوں و کام رانیوں کا نشان امتیاز ہے۔ اس پر ایمان لانا اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکامات یعنی اوامر ونواہی پر کماحقہ عمل پیرا ہونا اور صاحب قرآن ' پیغمبر آخرالزماں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن و حدیث کی اتباع و فرماںبرداری کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور نجات کا ذریعہ ہے۔
بصورت دیگر اگر ہم سرے سے انکار ہی کر دیں معاذ اللہ یا ایمان تو لائیں مگر عمل نہ کریں یا قرآن سے استہزا کے مرتکب ہوں تو ایسی صورت میں کافر و مشرک تو جہنم کے حق دار ٹھہریں گے ' ہی ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
محض اسلام اور قرآن سے تعلق کے دعوے کام نہ آئیں گے بلکہ قرآن خود شاہد ہے کہ بے حس اور قرآن سے لاتعلقی و بے رغبتی اختیار کرنے والوں کے متعلق رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دربار میں شکایت کرتے ہوئے عرض کریں گے۔
ترجمہ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں گے کہ اللہ میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا (اور اس پر عمل نہیں کیا تھا میرا کیا قصور ہے)۔
(سورۃالفرقان آیت 30 پارہ19)
ہم خود اندازہ لگالیں کہ قرآن مجید کے ساتھ ہمارا تعلق کس قدر گہرا یا واجبی سا ہے یا اللہ نہ کرے کہیں لاتعلقی و تساہل کا تو نہیں۔ اگر ہمارا تعلق قرآن سے گہرا ہے تو اسے مزید مضبوط سے مضبوط تر بنائیے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ اور اگر صورت حال مختلف ہے تو فکر کیجئے اور اللہ سے لو لگانے کے لئے قرآن سے اپنا رابطہ استوار کیجیے اور کثرت تلاوت سے اس کے ساتھ وابستہ ہوجائیے۔
انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نزول کے مقاصد بھی پورے ہوں گے اور ہماری زندگیوں میں پاکیزہ اور صالح انقلاب برپا ہو جائے گا، جس کے معاشرے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
نیز ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیاں بہترین سانچے میں ڈھل جائیں گی اور تعلق بالقرآن کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی کوتاہیاں' نیکیوں سے بدل جائیں گی اور اللہ کی زمین پر جہاں انتہائی پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا جائے گا اور ہر طرف امن وسکون اطمینان حاصل ہوگا وہیں اخروی زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے وہ بھی سنور جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و تابعداری اور تعلق بالقرآن کے نتیجے میں جنت کے اعلیٰ و ارفع درجات پر بھی فائز فرما دے گا۔
یقیناً وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو رمضان اور قرآن سے وابستگی اختیار کرکے اپنے رب کی رضا کے حصول میں کام یاب ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان المبارک میں جہاں روزے رکھ کر اللہ کو راضی کرنے والے کام کیے جاتے ہیں ' وہیں راتوں کو تراویح کا قیام کر کے قرآن سنایا اور سنا جاتا ہے۔
اسی طرح عام دنوں کی نسبت رمضان میں ذوق و شوق کے ساتھ ہر مسلمان تلاوت قرآن کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ کاش ہم سارا سال قرآن مجید کے ساتھ اسی طرح ربط و تعلق برقرار رکھیں اور تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر سے بھی آگاہی حاصل کریں تاکہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کے مفاہیم و مطالب سمجھ میں آ جائیں اور ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن کے اسلوب کے مطابق گزار کردنیا و آخرت کی لازوال نعمتوں کے حق دار بن جائیں۔
نزول قرآن اللہ کی عظیم نعمت ہے' جو بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے زاد راہ اور جادئہ مستقیم ہے۔ اسی قرآن کے ذریعہ اللہ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور بہت سے لوگ اپنی شامت اعمال کے سبب گمراہی اختیار کر لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کا فہم عطا فرمائے اور ہمارے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما دے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں قرآن کو نافذ فرما دے۔ ہماری لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے۔ قرآن و صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرماں برداری کے ذریعے اپنی رضا کا حصول آسان فرمادے۔
آمین
ترجمہ! ماہ رمضان وہ ہے ' جس میں قرآن (اول اول) اتارا گیا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو ' چاہیے کہ پورے مہینہ کے روزے رکھے۔
(البقرہ آیت : 184 پارہ 2)
گویا رمضان اور قرآن کا تعلق اس قدر گہرا اور پختہ ہو گیا کہ دونوں ایک دوسرے کا جزو لاینفک ہو گئے۔
رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ اس ماہ مقدس کی تمام تر ساعتیں جو باعث برکت و رحمت اور مغفرت ہیں تو قرآن مجید پر کماحقہ عقیدہ و عمل کی بنیاد پر ہیں۔ چونکہ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کا عنوان قرآن ہے۔ ابتدا ہی میں قرآن کی عظمت یوں آشکارا کی گئی کہ
ترجمہ! الم o یہ کتاب (قرآن مجید) اس میں کچھ شک نہیں (کہ رب کا کلام ہے۔ اللہ سے) ڈرنے والوں کے لئے سامان ہدایت ہے۔
(البقرہ' آیات1'2 پارہ1)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا! کہ اللہ کے سوا کوئی ا س کو اپنی طرف سے بنا لائے۔ ہاں (ہاں یہ اللہ کا کلام ہے) جو (کتابیں) اس سے پہلے (کی) ہیں۔ ان کی تصدیق کر تا ہے اور انہی کتابوں کی (اس میں) تفصیل ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں (کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے (نازل ہوا) ہے۔
کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اس کو اپنی طرف سے بنا لیا۔ کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم بھی اس طرح کی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن کو بلا سکو (ان کو ) بلا بھی لو۔
(سورۃ یونس' آیات37' 38 پارہ11)
ان آیات مبارکہ میں قرآن مجید کے منزل من اللہ اور مبنی بر حق ہونے کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہ قرآن محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے ' تو تم بھی ایسی کوشش کر دیکھو اور اللہ کے سوا اپنے تمام مددگاروں کو بھی بلا لو اور اس جیسی ایک سورت بنا کر دکھا دو۔
یہ ایسا کھلا چیلنج ہے جو آج تک انسانیت قبول کرنے سے عاجز ہے' اور کیوں نہ ہو کہ اس جیسا کوئی بنا ہی نہیں سکتا' کیوںکہ یہ رب رحمان کا کلام ہے۔ نزول قرآن مجید ماہ رمضان سے بالکل جڑا ہوا ہے۔ کہ رمضان آتا ہے تو قرآن بھی جابجا گلی گلی 'بستی بستی' محلہ محلہ کثرت سے تلاوت کیا جانے لگتا ہے اور یہ اتنا عظیم کلام ہے کہ اس کے نزول کی رات کو کہ جس میں یہ نازل کیا گیا اسے بھی اللہ رب العالمین نے عظمتیں اور رفعتیں عطا فرمادیں اور ارشاد فرمایا۔
ترجمہ! بے شک ہم نے اس (قرآن مجید) کو قدر (ومنزلت) والی رات میں نازل کیا۔ اور آپ کو کیا خبر کہ شب قدر کیا چیز ہے۔ (سو) شب قدر (خیر وبرکت میں) ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ فرشتے اور جبرائیل اپنے پروردگار کے حکم سے ہر ایک انتظام کے لئے اس رات (زمین پر) اترتے ہیں۔ وہ امن و سلامتی کی رات ہے اور وہ فجر ہونے تک رہتی ہے۔
(سوۃالقدر'آیات:1 تا5 پارہ30)
غور فرمائیے کہ یہ کتاب قرآن مجید اس قدر اہمیت و فضیلت کی حامل ہے کہ اس کے نزول کی برکت سے وہ رات بھی عظمتوں اور برکتوں والی ہو گئی کہ اس ایک رات کی خیر و برکت اس قدر وسیع ہو گئی کہ جس قدر ایک ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت کوئی بندہ حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ نے قرآن کی برکت سے امت مسلمہ کو محض ایک رات کی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینوں کی عبادت کے برابر عطا فرمانے کا اعلان کر دیا۔ اندازہ کیجئے ہماری زندگی میں یہ رات کتنی مرتبہ آتی ہے۔ ہم اس کے فیوض و برکات سے کس قدر فیض یاب ہوسکتے ہیں۔
یہ قرآن مجید کی برکات کا نتیجہ ہے کہ روزہ جیسی عظیم عبادت میسر آئی کہ جس کے متعلق حدیث قدسی ہے کہ اللہ فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور میںہی اس کی جزا دوںگا (بخاری و مسلم)
قرآن مجید انسانی فوز و فلاح کا دائمی چارٹر ہے جس میں ایک طرف حقوق اللہ کی پاس داری ہے تو دوسری طرف حقوق العباد کا التزام ہے۔ گویا یہ قرآن ہماری روحانی و جسمانی تسکین و شفا کا باعث ہے۔ اس میں پورا نظام حیات عطا کیا گیا ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسانیت اپنا کھویا ہوا وقار اور گم شدہ متاع عزیز یعنی جنت بھی حاصل کر سکتی ہے۔ قرآن راہ نجات ہے اور ہمارے تمام دکھوں کا مداوا بھی ہے۔ چنانچہ ارشاد فرمایا۔
ترجمہ! اور ہم قرآن (کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ (بنی اسرائیل ' آیت 82 پارہ 15)
نزول قرآن کا مقصد: اللہ خالق و مالک نے نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا!
ترجمہ! وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (اللہ کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور ا س سے پہلے تو یہ لوگ صریح گم راہی میں تھے ۔
(سورۃ الجمعہ' آیت:2 پارہ 28)
دوسرے مقام پر یوں فرمایا!
ترجمہ! وہ اللہ تعالیٰ بہت برکت والا ہے جس نے قرآن مجید کو اپنے بندے (محمدصلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمایا تاکہ وہ سب لوگوں کے لیے آگاہ کرنے والا ہو جائے۔ اسی اللہ (یکتا) کی حکومت و سلطنت ہے' آسمانوں اور زمین کی' اور اس نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ کوئی اس کی سلطنت میں شریک ہے۔ اس (اللہ) نے ہر چیز کو پیدا کیا اور مناسب اندازے پر رکھا۔ (سورۃالفرقان'آیات1'2 پارہ18)
اسی طرح ایک مقام پر قرآن کی عظمت کا یوں اظہار کیا گیا۔
ترجمہ! ہمیں تاروں کی منزلوں کی قسم۔ اگر تم سمجھو تو یہ بڑی قسم ہے کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔ (جو) کتاب محفوظ میں (لکھا ہوا ہے)۔ اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔ پروردگار عالم کی طرف سے اتارا گیا ہے۔ کیا تم اس کلام سے انکار کرتے ہو؟ اور اپنا وظیفہ یہ بناتے ہو کہ (اسے) جھٹلاتے ہو۔
(سورۃ الواقعہ' آیت75 تا 82 پارہ 27)
مذکورہ بالا آیات قرآنی سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول قرآن کا مقصد انسانیت کے عقائد و اعمال اور اخلاق کی تطہیر کر کے رب کے پسندیدہ بندے بنا کر اس کے اصلی مقام جنت اور رضائے الٰہی کی شاہراہ مستقیم پر گام زن کرانا ہے، تاکہ انسانیت اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے ' جو اس کی اشاعت اعمال کی بنا اس کے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے۔یہ قرآن مجید اتنی عظمتوں اور رفعتوں کا حامل ہے کہ اگر ایمان کے جذبہ کے ساتھ محض اس کی تلاوت کر لی جائے تو وہ بھی مومن کے لیے انتہائی اجر و ثواب کا باعث ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ کے آخری محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے۔
ترجمہ! جس نے قرآن مجید کا ایک حرف پڑھا اس کو نیکی ملے گی اور ایک نیکی کا ثواب دس نیکیوں کے برابر ہے۔ اَلَم ایک حرف نہیں ہے بلکہ الف ایک حرف ہے لام ایک حرف ہے اور م ایک حرف ہے (ترمذی' دارمی)
اندازہ کیجیے کہ محض تلاوت کرنے پر اس قدر اجر و ثواب ہے تو پھر سمجھ کر سیکھنے اور اس کے علوم کے حصول اور عمل پر کیا اجر و ثواب ہو گا۔ اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ ہم اپنے ناقص حساب کتاب سے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ قرآن سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کرنے سے اللہ کا تقرب حاصل ہو سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے جنت کے حصول اور جہنم کی ہول ناکیوں سے محفوظ رہنے میں کام یاب ہو سکتے ہیں، جو اگر حاصل ہوگئی تو یقیناً بڑی کام یابی ہے۔
یاد رکھیے! دنیا کی مختصر زندگی بہرصورت گزر ہی جائے گی لیکن اگریہ زندگی رب کی رضا کے مطابق گزری تو دنیا و آخرت دونوں کی کام یابی ہے' وگرنہ من چاہی' شتر بے مہار کی زندگی یا اللہ کی بغاوت و نافرمانی' قرآن کی تکفیر و تکذیب میں گزری تو ایسی زندگی دنیاوی لحاظ سے شاید کامیاب ہوجائے۔ لیکن ابدی زندگی جہنم کی نذر ہو کر خسران کا باعث ثابت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس سے محفوظ و مامون رکھے۔ آمین۔ قرآن مجید سے تعلق استوار اور مضبوط سے مضبوط تر رکھنا مومن کا شعار ہے۔ یہ نازل ہی اس لئے ہوا ہے کہ ہم اپنا تزکیہ کر لیں اور اپنے مربی و آقا' پالن ہار اللہ رب العالمین کے پسندیدہ بندے بن جائیں اور یہ قرآن معمولی چیز نہیں کہ ہم اسے محض ایک کتاب سمجھیں بلکہ اس میں ہمارے لیے دنیا و آخرت کی کامرانیوں کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے ۔ اس کے علاوہ قرآن دلوں کے زنگ دور کرکے صاف شفا ف بناتا ہے۔
تلاوت قرآن کی اہمیت: رحمت کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے۔
ترجمہ! دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی لگ جانے سے زنگ لگ جاتا ے۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کو کس طرح صا ف کیاجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا موت کو زیادہ یاد کیا کرو اور قرآن مجید کو بہت پڑھا کرو۔(بیہقی)
اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا!
ترجمہ! جو اپنے رب سے بات چیت کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ قرآن مجید پڑھے۔
(کنزالعمال)
ایک حدیث میں یوں ارشادفرمایا!
قرآن پڑھا کرو، کیوںکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کے لیے شفیع بن کر آئے گا۔ (مسلم)
ایک جگہ اس طرح قرآن کی عظمت بیان فرمائی!
ترجمہ! میری امت کی بہترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے۔
قرآن مجید کی تلاوت کرنے والوں کے درجات: رسول رحمت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ والہ وسلم کاا رشاد عالی شان ہے۔
ترجمہ! قرآن مجید پڑھنے والے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھتا جا اور (جنت کے ) اونچے اونچے درجات پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ دنیا میں پڑھتے تھے تمہارا جنت میں آخری درجہ وہ ہو گا جہاں تم پڑھتے پڑھتے ٹھہر جاؤ گے (ترمذی)
حدیث قدسی میں ارشاد ہوا!
ترجمہ: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نے جس کو باز رکھا مجھ سے سوال کرنے سے یعنی قرآن مجید پڑھنے میں مشغول رہا' جس کی وجہ سے وہ مجھ سے سوال نہ کر سکا تو اس کو اس سے بہتر دوں گا جو مانگنے والے کو دیتا ہوں۔ یعنی مانگنے والوں سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کرنے والوں کو دوں گا اور کلام الٰہی کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کی فضیلت تمام مخلوقات پر ہے۔ (ترمذی)
قارئین کرام! قرآن مجید سراسر خیر و برکت اور فوز و فلاح اور کام یابیوں و کام رانیوں کا نشان امتیاز ہے۔ اس پر ایمان لانا اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکامات یعنی اوامر ونواہی پر کماحقہ عمل پیرا ہونا اور صاحب قرآن ' پیغمبر آخرالزماں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن و حدیث کی اتباع و فرماںبرداری کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور نجات کا ذریعہ ہے۔
بصورت دیگر اگر ہم سرے سے انکار ہی کر دیں معاذ اللہ یا ایمان تو لائیں مگر عمل نہ کریں یا قرآن سے استہزا کے مرتکب ہوں تو ایسی صورت میں کافر و مشرک تو جہنم کے حق دار ٹھہریں گے ' ہی ہمارا بھی کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔
محض اسلام اور قرآن سے تعلق کے دعوے کام نہ آئیں گے بلکہ قرآن خود شاہد ہے کہ بے حس اور قرآن سے لاتعلقی و بے رغبتی اختیار کرنے والوں کے متعلق رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دربار میں شکایت کرتے ہوئے عرض کریں گے۔
ترجمہ! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمائیں گے کہ اللہ میری قوم نے قرآن مجید کو چھوڑ دیا تھا (اور اس پر عمل نہیں کیا تھا میرا کیا قصور ہے)۔
(سورۃالفرقان آیت 30 پارہ19)
ہم خود اندازہ لگالیں کہ قرآن مجید کے ساتھ ہمارا تعلق کس قدر گہرا یا واجبی سا ہے یا اللہ نہ کرے کہیں لاتعلقی و تساہل کا تو نہیں۔ اگر ہمارا تعلق قرآن سے گہرا ہے تو اسے مزید مضبوط سے مضبوط تر بنائیے اور اللہ کا شکر ادا کیجئے۔ اور اگر صورت حال مختلف ہے تو فکر کیجئے اور اللہ سے لو لگانے کے لئے قرآن سے اپنا رابطہ استوار کیجیے اور کثرت تلاوت سے اس کے ساتھ وابستہ ہوجائیے۔
انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نزول کے مقاصد بھی پورے ہوں گے اور ہماری زندگیوں میں پاکیزہ اور صالح انقلاب برپا ہو جائے گا، جس کے معاشرے پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔
نیز ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیاں بہترین سانچے میں ڈھل جائیں گی اور تعلق بالقرآن کی وجہ سے انفرادی و اجتماعی کوتاہیاں' نیکیوں سے بدل جائیں گی اور اللہ کی زمین پر جہاں انتہائی پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا جائے گا اور ہر طرف امن وسکون اطمینان حاصل ہوگا وہیں اخروی زندگی جو ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی ہے وہ بھی سنور جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنی اور اپنے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع و تابعداری اور تعلق بالقرآن کے نتیجے میں جنت کے اعلیٰ و ارفع درجات پر بھی فائز فرما دے گا۔
یقیناً وہ لوگ بڑے خوش نصیب ہیں جو رمضان اور قرآن سے وابستگی اختیار کرکے اپنے رب کی رضا کے حصول میں کام یاب ہوتے ہیں۔ ماہ رمضان اور قرآن لازم و ملزوم ہیں۔ رمضان المبارک میں جہاں روزے رکھ کر اللہ کو راضی کرنے والے کام کیے جاتے ہیں ' وہیں راتوں کو تراویح کا قیام کر کے قرآن سنایا اور سنا جاتا ہے۔
اسی طرح عام دنوں کی نسبت رمضان میں ذوق و شوق کے ساتھ ہر مسلمان تلاوت قرآن کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ کاش ہم سارا سال قرآن مجید کے ساتھ اسی طرح ربط و تعلق برقرار رکھیں اور تلاوت کے ساتھ ساتھ ترجمہ و تفسیر سے بھی آگاہی حاصل کریں تاکہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کے مفاہیم و مطالب سمجھ میں آ جائیں اور ہم اپنی انفرادی و اجتماعی زندگیوں کو قرآن کے اسلوب کے مطابق گزار کردنیا و آخرت کی لازوال نعمتوں کے حق دار بن جائیں۔
نزول قرآن اللہ کی عظیم نعمت ہے' جو بھٹکی ہوئی انسانیت کے لیے زاد راہ اور جادئہ مستقیم ہے۔ اسی قرآن کے ذریعہ اللہ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے اور بہت سے لوگ اپنی شامت اعمال کے سبب گمراہی اختیار کر لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن کا فہم عطا فرمائے اور ہمارے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما دے اور ہماری انفرادی و اجتماعی زندگیوں میں قرآن کو نافذ فرما دے۔ ہماری لغزشوں اور خطاؤں سے درگزر فرمائے۔ قرآن و صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی فرماں برداری کے ذریعے اپنی رضا کا حصول آسان فرمادے۔
آمین