کیا معیشت ٹریک پر آجائے گی
بلاشبہ وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ معیشت کو ٹریک پر لایا جائے
وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی اگلی قسط ملنے والی ہے، لہٰذا پریشانی کی ضرورت نہیں ہے۔
ملک غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے، ہمیں اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا، عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مذاکرات پہلے جیسے نہیں، اس کا اعتماد بحال کرنے کے لیے ہر شرط مانی جارہی ہے، وہ غریب طبقے کو ٹارگٹڈ سبسڈی پر زور جب کہ دوست ممالک سے فنانسنگ پر بات کر رہا ہے، جلد اہم پیش رفت ہوگی۔
بلاشبہ وفاقی حکومت ہر ممکن کوشش کر رہی ہے کہ معیشت کو ٹریک پر لایا جائے۔ آئی ایم ایف نے بھی اپنا پیکیج دینے کا عندیہ دیدیا ہے، لہٰذا معیشت کی حالت بہتر ہوگی تو ملک میں معاشی استحکام آئے گا، روزگار میں اضافہ اور مہنگائی میں کمی واقع ہو گی۔
حکومت مسلسل زور دے کر کہہ رہی ہے کہ دونوں فریق شرائط طے کرنے کے قریب ہیں، لیکن ملک کو قرض ابھی تک نہیں ملا ہے۔
معاشی تجزیہ کاروں کے مطابق معاہدہ طے پانے کے بعد بھی افراط زر میں اضافے ہوگا۔ معاہدہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں لیا جاسکتا کہ یک دم سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔
ملک کو اس معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف 2019 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ طے شدہ 6.5 ارب ڈالر کے معاہدے کے تحت قرض کی اگلی قسط کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، تاہم عالمی قرض دہندہ ٹیکس میں اضافے اور مختلف اشیاء پر دیے جانے والے زر تلافی میں کمی سمیت سخت اصلاحات کا مطالبہ کر رہا ہے۔
یہ اقدامات رواں سال اکتوبر کے آخر میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل رائے دہندگان کی مزید ناراضی مول لینے کا سبب بن سکتے ہیں۔
رواں سال میں افراط زر کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے، جب کہ نقل و حمل اور خراب ہونے والی خوراک کی قیمتوں میں قریباً پچاس فی صد اضافہ ہوا ہے۔ برسوں کی مالی بدانتظامی اور سیاسی عدم استحکام نے پاکستان کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔
توانائی کے عالمی بحران اور تباہ کن سیلاب نے معاشی تباہی کو مہمیز دی ہے اور 2022 میں ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہوا تھا۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوکر ڈیڑھ ماہ قبل صرف 3.25 ارب ڈالر رہ گئے تھے۔
پاکستان جس معاشی بحران میں پھنس گیا ہے۔ اب اس سے نمٹنے کی صلاحیت اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں دونوں میں نہیں رہی۔ اس بحران میں جو سوچ پیدا کی جا رہی ہے یا پیدا ہو رہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی حکومتیں وہ نہیں کر سکی ہیں، جو انھیں کرنا چاہیے تھا کیونکہ طفیلی معیشت میں وہ کچھ نہیں کر سکتیں، جسے عالمی مالیاتی ادارے اپنی ڈکٹیشن پر چلاتے ہوں۔ سیاسی حکومتیں اس بحران کی ذمے دار بھی نہیں ہیں، جس پر وہ تنقید اور نفرت کی سزا وار ٹھہرائی جاتی ہیں۔
تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت لانے یا مسلم لیگ (ن) کی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت لانے یا کسی بھی سیاسی حکومت میں بار بار وزرائے خزانہ تبدیل کرنے سے معیشت درست نہیں ہو گی۔ سیاسی حکومتوں کی جگہ آمرانہ یا مطلق العنان فوجی حکومتیں قائم کرنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔
یہ ٹھیک ہے کہ فوجی حکومتوں کے ادوار میں قدرے معاشی استحکام رہا ہے لیکن اس عارضی معاشی استحکام یا کسی حد تک سرمائے کی عارضی فراوانی سے ہی اصل تباہی آئی۔ مسئلے کا بتدریج حل صرف جمہوری استحکام سے ہی ممکن ہے۔
پاکستان کی فوجی حکومتوں کو بہت زیادہ بیرونی امداد ملی ہے۔ یہ امداد پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے نہیں بلکہ سیکیورٹی مقاصد کے لیے ملی ہے۔ پاکستان کو امریکا اور اس کے حواری سرمایہ دار ملکوں سے دل کھول کر ڈالرز دیے گئے اور پاکستان پر قرض کا بوجھ بڑھتا رہا۔ اس خوش حالی نے پاکستان کی معیشت کا قومی جوہر ہمیشہ کے لیے ختم کردیا اور ایک قومی معیشت طفیلی معیشت میں تبدیل ہو گئی۔
قومی سرمایہ داری کی بجائے اجارہ داری سرمایہ داری نے جنم لیا۔ صنعت اور تجارت مخصوص لوگوں اور گروہوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ زراعت کو شعوری طور پر ابھرنے نہیں دیا گیا۔ زرعی زمینیں بھی مخصوص لوگوں اور گروہوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ معاشی عدم تقسیم میں اضافہ ہوا۔ صوبوں اور چھوٹے طبقات میں احساس محرومی اور نفرت نے جنم لیا اور سانحہ 16 دسمبر 1971 رونما ہوا۔
بیرونی مدد کے بغیر ملک چلانا مشکل ہو رہا ہے اور آئی ایم ایف لائف لائن بن کر رہ گیا۔ اس صورتحال سے نکلنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے کہ حکومت کاروبار دوستی کرے ، دشمنی نہ کرے اور کاروبار دوستی کا مطلب ہے کہ کاروباری طبقے کی حفاظت کی جائے، ان کو مکمل سیکیورٹی فراہم کی جائے تمام سہولیات فراہم کی جائیں سستی توانائی فراہم کی جائے اور ان کی ہر قسم کی مدد جو بھی ان کو درکار ہے حکومت ان کو فراہم کرے اور اسی کے ذریعہ ہم اپنے ملک کی دولت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
ٹیکس وصولی کے نظام کو آسان اور بہتر بنایا جائے اور کاروبار پر ٹیکسوں کی شرح میں کمی ہونی چاہیے، اس کے بغیر ملک کے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ممکن نہیں ہے ، جن ممالک نے بھی ترقی کی ہے ان سب کی حکومتیں بزنس فرینڈلی حکومتیں ہیں ، لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ہر حکومت میں بزنس مین کو چور ہی سمجھا اور اگر کسی ملک میں یہ صورتحال ہو تو اس ملک میں کاروبار نہیں چل سکتا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں صنعت و حرفت بہت ہی کمزور رہ گئی ہے، ہمیں صنعت خصوصا برآمدی شعبے پر بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی برآمدات اس ملک کے رقبے کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہمیں اس صورتحال کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اگر سنگا پور جیسا چھوٹا سا ملک جو کہ رقبے کے لحاظ سے اسلام آباد شہر کے برابر ہے وہ سالانہ بنیادوں پر 140ارب ڈالر کی برآمدات کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ ہمارے تمام ہمسایہ ممالک ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں اور ہمارے لیے یقینا یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔
ہمیں اقتصادی طور پر ٹریک پر واپس آنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے اکابرین نے ہمیشہ نمائشی اقدامات کو ترجیح دی ہے جس کا نقصان قوم کو ہوا ہے۔ ساتھ ساتھ ہم نے زراعت کو بھی پس پشت ڈال دیا ہے ، جس کا آج کل کے حالات سے بخوبی اندازہ ہو سکتا ہے کہ زراعت کی ترقی میں حکومت کی کیا کارکردگی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ کارکردگی صفر ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔
زرعی زمینوں پر تیز رفتاری سے ہاؤسنگ سوسائٹی بنائی جارہی ہیں جس رفتار سے زرعی رقبہ کم ہو رہا ہے جو کہ ہمارے ملک کے لیے تباہ کن ثابت ہو رہا ہے اور اگر یہی روش جاری رہی تو کل کو ہمارے پاس کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ فوڈ سیکیورٹی لازمی ہے اور اس کے لیے درست فیصلہ کرنا لازمی ہے، بڑے زمیندار اور جاگیردارکی نہیں بلکہ کاشتکار کی مدد کی جائے اور اسی طرح ہم اس مخمصے سے نکل سکتے ہیں۔
ڈالر کی نئی اڑان کی وجہ سے مہنگائی میں شدید اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے بنیادی تنخواہ 25 ہزار سے 35 ہزار روپے تک بڑھانی ہوگی ،کیونکہ روپے کی قدر میں کمی کے باعث اشیاء خورونوش کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں۔
80 ارب ڈالر کی امپورٹ اور 30 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ ہوئی ہے جب کہ 22 کروڑ عوام اوورسیز سے بھی کم ویلیو ایڈیشن کررہے ہیں، ڈالر سستا کرنے کی بجائے ایکسپورٹ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ڈالر کی ریشینلائزیشن پہلا قدم ہے۔
معیشت کو ٹھیک کرنے کی سیاسی حکومتیں اگر کوشش کرتی ہیں تو انھیں اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ضروری ہے کہ جمہوریت کو چلنے دیا جائے۔ موجودہ سیاسی جماعتیں تصادم سے گریز کریں کیونکہ انھیں ہی حالات سے نمٹنا ہے۔ یہ مل کر کسی قومی ایجنڈے پر بات کریں اور میثاق معیشت کریں۔
پورے ریاستی اور معاشی ڈھانچے کو یکدم تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ بتدریج اس پر کام کیا جائے، جو اخراجات میں بڑی کٹوتی سے شروع ہو۔ پھر لوگوں کی پیداواری صلاحیت میں اضافے اور نچلی سطح پر لوگوں کی معاشی سرگرمی پر سرمایہ کاری کی جائے۔
اجارہ دار اور کرونی سرمایہ داری کا خاتمہ، سیاسی طاقت عوام کو منتقل کرنے اور طفیلی پن کا خاتمہ آخری اور بڑے فیصلے ہیں، جو سیاسی اور جمہوری استحکام کے اگلے مرحلے میں ممکن ہوں گے، اگر اب پاکستان پٹڑی سے اترا تو اسے پہلے کی طرح دس بارہ سال کے وقفے کے بعد واپس پٹڑی پر لانا مشکل ہوگا، اس وقت تک شاید ٹریک بھی تبدیل ہو چکے ہونگے۔ ہمیں ملکی معیشت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے ، خلوص نیت سے کام کریں گے تو ہی کامیابی ملے گی۔