دیدۂ بینائے قوم
شاعر کی دوررس نگاہیں وہ کچھ دیکھ لیتی ہیں جو عام آدمی نہیں دیکھ پاتا
آج مجھے فیض احمد فیض بہت یاد آ رہے ہیں، اچھا ہی ہوا کہ انھوں نے موجودہ زمانے کا انتشار نہیں دیکھا ، ورنہ وہ بہت مایوس ہوجاتے۔ شاعر کی دوررس نگاہیں وہ کچھ دیکھ لیتی ہیں جو عام آدمی نہیں دیکھ پاتا، اسی لیے اقبال نے شاعر کو ''دیدۂ بینائے قوم'' کہا ہے۔ آئیے ! پہلے فیض کے کچھ اشعار دیکھتے ہیں۔ اس نظم کا عنوان ہے ''چند روز اور مری جان!''
چند روز اور مری جان فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے کو مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں، تڑپ لیں، رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
جسم پر قید ہے جذبات پہ زنجیریں ہیں
فکر محبوس ہے گفتار پہ تعزیریں ہیں
اپنی ہمت ہے کہ ہم پھر بھی جیے جاتے ہیں
زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں
ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں
لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
آج جو کچھ ہو رہا ہے اس کا نقشہ فیض نے خوب کھینچا ہے، ہر طرف سوداگری ہے، بیوپار ہے، ہارس ٹریڈنگ ہے۔
کوشش کی جا رہی ہے کہ کسی طرح الیکشن ملتوی ہو جائیں، اس کے لیے ''وہ'' کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں، بس انتخاب ٹل جائیں کہ نوشتۂ دیوار تو صاف نظر آ رہا ہے۔
1971 میں عوامی لیگ کو پاور نہ دے کر کیا ہوا؟ آدھا ملک ختم ہو گیا، ادھر تم، ادھر ہم کا فارمولا اہل حکم نے پاس کردیا، پھر ضیا الحق کے دور میں پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کا نتیجہ بھی سب نے دیکھ لیا اور اب یہی پرانا حربہ آج پی ٹی آئی کے ساتھ آزمایا جا رہا ہے۔
زمان پارک میں جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھا، کارکن پیچھے نہ ہٹے، الیکشن ملتوی کرانے کے لیے فساد پھیلانے کا منصوبہ بھی ہو سکتا ہے، کیونکہ عمران خان کی مقبولیت کا گراف اوپر جا رہا ہے، ان کے خلاف متعدد کیس روز فائل ہو رہے ہیں، توشہ خانہ کا کیس اکیلے عمران کا تو نہیں ہے، کئی سو صفحات پر مشتمل سارا کچا چٹھا سامنے ہے لیکن کسی سے کوئی سوال نہیں۔ کسی طرح عمران کو باہر کرو، اور کچھ نہیں تو ٹیریان کا کیس لے کر آگئے۔ عجب قانون ہے، فیض کی ایک نظم ''طوق و دار کا موسم'' ملاحظہ ہو:
یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر یہی اختیار کا موسم
قفس ہے بس میں تمہارے ، تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم
صبا کی مست خرامی تہ کمند نہیں
اسیر دام نہیں ہے بہار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغ گلشن و صوت ہزار کا موسم
سچ ہے غنچے کو چٹخنے سے کوئی نہیں روک سکتا، پھول کو کھلنا ہے، بہار کو آنا ہے۔ فیض کی طرح ہم بھی یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ دن ضرور آئے گا جب کوئی حاکم کسی محکوم کے پاؤں میں زنجیریں نہ ڈال سکے گا، فیض کہتے ہیں:
آج کے دن نہ پوچھو مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں
عجب معاملہ ہے جب عمران خان کی حکومت تھی تو تمام جماعتیں نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہی تھیں، لیکن جوں ہی عمران کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو مخالف جماعتوں کی الٹی آنتیں گلے پڑ گئیں، خان صاحب کی مقبولیت کا گراف یک دم بلند ہو گیا، مخالف جماعتیں خصوصاً (ن) لیگ اور پی پی حیران پریشان ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں، عمران خان نے اپنے قتل کا منصوبہ بھی بتا دیا ہے، ہونے کو سب کچھ ہو سکتا ہے۔ فیض صاحب کو امید تھی کہ کوئی دن ایسا ضرور آئے گا جب عوام کی حکومت ہوگی، ان کا انتقال 1984 میں ہو گیا تھا لیکن ان کی نظم، ہم بھی دیکھیں گے، آج کی تصویر لگتی ہے۔
ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اْڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بْت اْٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
فیض کے ان اشعار کو دیکھیے اور موجودہ حالات کو دیکھیے۔ ایسا لگتا ہے جیسے کسی محلے کی جاہل اور لڑاکا عورتیں لڑ رہی ہیں۔
ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شب دیجور سے بھی زیادہ ہو گیا، ملک سے کسی کو محبت نہیں، بس اقتدار چاہیے۔ مسئلے کا صرف ایک حل ہے وہ یہ کہ انتخابات شفاف طریقے سے ہوں (جس کا امکان ذرا کم ہی ہے) اور نتائج جو بھی آئیں انھیں تسلیم کیا جائے، وہی بات ہے کہ:
وطن کی فکر کر ناداں قیامت آنے والی ہے
لیکن افسوس کہ کوئی بھی اس ملک سے سنجیدہ نہیں۔ باجوہ جو تباہی کر سکتے تھے کر گئے، اب اس کے نتیجے میں عمران خان کی مقبولیت بہت بڑھی ہے۔ پہلے جو لوگ خان کے مخالف تھے وہ بھی اب ان کے طرف دار ہوگئے ہیں، انتخابات میں جتنی دیر ہوگی خان کا گراف اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہمتیں بڑھتی جائیں گی۔