رمضان المبارک کی بھولی بِسری یادیں
رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو بہت سی بھولی بِسری یادیں تازہ ہوجاتی ہیں
اختر انصاری کی روح سے انتہائی معذرت کہ ہم نے ضرب المثل شعر کو بدل کر کچھ یوں کردیا ہے۔
یادِ ماضی حسِین ہے یا رب
مجھ سے مت چھین حافظہ میرا
رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو بہت سی بھولی بِسری یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب پہلی مرتبہ رمضان کا مبارک مہینہ آیا تھا تو ہم برٹش انڈیا میں مغربی یو پی کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں زیرِ پرورش تھے اور ہم نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو پہلا رمضان جاڑے کے موسم میں آیا۔
کڑکڑاتی ہوئی سردی میں گھر کے تمام بزرگوں کو رات کے اندھیرے میں ایک جگہ اکٹھا پایا تو ٹھنڈ سے بری طرح ٹھٹھرتے ہوئے ہم بھی چپکے سے باورچی خانہ میں آ دھمکے۔ چولہے میں آگ روشن کی اور گھر کے بڑے ایک دوسرے کے قریب کمبل اوڑھے بیٹھے تھے۔ خالہ جان نے توا چولہے پر رکھا اور پراٹھے پکانے شروع کر دیے۔
ہم حیران تھے کہ رات کے وقت آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ سب نے پراٹھے کھانا شروع کر دیے اور پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ ہم بھی اِس دعوت میں شریک ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد چائے بن گئی اور رفتہ رفتہ سب نے چُسکیاں لے کر اپنے اپنے پیالے خالی کردیے۔ تھوڑی دیر بعد یک بیک سب اٹھے اور باہر آکر باری باری سے اپنے ہاتھ منہ اور پیر دھوئے۔
چند منٹ بعد مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور سب نے جائے نمازیں بچھا کر نماز ادا کی۔ سردی اِس قدر شدید تھی کہ سب بری طرح تھر تھر کانپ رہے تھے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سب کیا ماجرا ہے؟ آخر اچانک رات کو اُٹھ کر نمازیں ادا کرنے کا کیا سبب تھا جب کہ ٹھنڈ اِس قدر شدید تھی کہ رگوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ کچھ دیر بعد سب کے سب وہاں سے اُٹھ کر اپنے اپنے کمروں میں آکر لحاف میں دبک گئے۔ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ دن بھر کسی نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔ دوپہر گزر گئی اور ہوتے ہوتے مغرب کا وقت آگیا۔ مغرب سے کچھ دیر پہلے کچھ چیزیں معمول سے ہٹ کر ہوتی ہوئی نظر آئیں۔ دہی کی پھلکیاں تیار کی جارہی تھیں اور پکوڑے تلے جارہے تھے۔
اذانِ مغرب سنائی دیتے ہی سب نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی اور کھانا پینا شروع کردیا۔کھانے پینے کا یہ عمل تیزی کے ساتھ جاری رہا اور پھر فارغ ہوتے ہی سب نے باری باری وضو کیا اور اپنی اپنی جائے نمازیں سنبھالیں اور تھوڑی دیر بعد نمازیں ادا کیں۔ ہم یہ سب انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ٹُک ٹُک دیدم دَم نا کشیدم ۔
آخر جب ہم سے ضبط نہ ہوسکا تو ہم نے استفسار کر ہی ڈالا۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ رمضان کے روزوں کا آغاز تھا جو اُنتیس تِیس دن یوں ہی جاری رہیں گے۔ انتہائی سادہ اور سلیس زبان میں ہمیں رمضان کی اہمیت اور روزہ کی فضیلت سمجھائی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر رمضان کے روزے رکھنا فرض ہے جس کا بہت ثواب ہے اور نہ رکھنے والے سے اللہ تعالٰی بہت ناراض ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سُنتے ہی ہم گھبرا گئے،بڑوں نے ہمیں سمجھایا کہ جب تم اتنے بڑے ہو جاؤ گے تب ہی تمہیں روزہ رکھنا ہوگا۔یہ بات ہماری سمجھ میں آگئی اور ہم مطمئن ہوگئے۔ وقت گزرتا گیا اور ہماری سمجھ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا پھر رمضان کا مہینہ آیا تو شدید گرمی کا موسم تھا۔
عالم یہ تھا کہ چیل انڈہ چھوڑے۔ پسینوں پر پسینے آرہے تھے اور دھوپ کی تپش سے چہرہ جھلس رہا تھا اور کسی کروٹ چین نہیں تھا۔ اب تک ہم کافی بڑے ہو چکے تھے اور ہماری سمجھ بھی بہت پختہ ہوچکی تھی۔ ہمیں بخوبی معلوم تھا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ ہمیں اُس وقت بڑی خوشی ہوئی جب ہم نے اپنی زندگی کا پہلا روزہ رکھا تھا۔گھر میں ایک جشن کا سا سماں تھا اور سارے گھر والے بہت خوش تھے اور کافی اہتمام کیا گیا تھا کیونکہ یہ ہماری روزہ کُشائی تھی۔ پھر جب ہم گاؤں چھوڑ کر اپنی ننھیال سے جدا ہوکر شہر دہلی آگئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔
ہماری ابتدائی تعلیم کا دور ختم ہوگیا تھا اور ہم نوجوان ہوکر کالج میں داخل ہوگئے تھے۔یہاں کا پورا ماحول گاؤں کے ماحول سے بالکل مختلف تھا، سو یہی حال رمضان المبارک کے معمولات کا بھی تھا۔ مسلمانوں کی بیشتر آبادیاں غیر مسلموں سے الگ تھلگ تھیں جہاں رمضان المبارک کے دوران بہت رونق اور چہل پہل ہوتی تھی۔بس یوں کہیے کہ ایک جشن کا سماں ہوتا تھا۔
سحری کے وقت مختلف ٹولیاں عارفانہ کلام پڑھتی ہوئی روزہ داروں کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے گشت کرتی تھیں۔اُن کی مسحور کُن آوازیں سننے والوں کے کانوں میں رَس گھولتی تھیں۔
روزہ افطار کرنے کی اطلاع دینے کے لیے نقارہ پیِٹا جاتا تھا۔ ہمارے محلہ میں اِس کا خاص اہتمام تھا۔ مغرب کی اذان سے پہلے ہی نقارچی میر صاحب جو ایک بارعب بزرگ تھے بالکل تیار ہوجاتے تھے۔
محلہ کے بچے بہت پہلے سے میر صاحب کے اِردگِرد جمع ہوجاتے تھے۔ پھر جوں ہی اذانِ مغرب ہوتی تھی تو میر صاحب نقارے پر چوٹ مارتے تھے تو اُس کی گونج سُنتے ہی تمام بچے خوشی سے پاگل ہوجاتے تھے اور لوگ افطار کرتے تھے۔
یادِ ماضی حسِین ہے یا رب
مجھ سے مت چھین حافظہ میرا
رمضان کا مبارک مہینہ آتا ہے تو بہت سی بھولی بِسری یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں جب پہلی مرتبہ رمضان کا مبارک مہینہ آیا تھا تو ہم برٹش انڈیا میں مغربی یو پی کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں زیرِ پرورش تھے اور ہم نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو پہلا رمضان جاڑے کے موسم میں آیا۔
کڑکڑاتی ہوئی سردی میں گھر کے تمام بزرگوں کو رات کے اندھیرے میں ایک جگہ اکٹھا پایا تو ٹھنڈ سے بری طرح ٹھٹھرتے ہوئے ہم بھی چپکے سے باورچی خانہ میں آ دھمکے۔ چولہے میں آگ روشن کی اور گھر کے بڑے ایک دوسرے کے قریب کمبل اوڑھے بیٹھے تھے۔ خالہ جان نے توا چولہے پر رکھا اور پراٹھے پکانے شروع کر دیے۔
ہم حیران تھے کہ رات کے وقت آخر یہ کیا ہو رہا ہے۔ سب نے پراٹھے کھانا شروع کر دیے اور پھر آؤ دیکھا نہ تاؤ ہم بھی اِس دعوت میں شریک ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد چائے بن گئی اور رفتہ رفتہ سب نے چُسکیاں لے کر اپنے اپنے پیالے خالی کردیے۔ تھوڑی دیر بعد یک بیک سب اٹھے اور باہر آکر باری باری سے اپنے ہاتھ منہ اور پیر دھوئے۔
چند منٹ بعد مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی اور سب نے جائے نمازیں بچھا کر نماز ادا کی۔ سردی اِس قدر شدید تھی کہ سب بری طرح تھر تھر کانپ رہے تھے۔
ہماری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سب کیا ماجرا ہے؟ آخر اچانک رات کو اُٹھ کر نمازیں ادا کرنے کا کیا سبب تھا جب کہ ٹھنڈ اِس قدر شدید تھی کہ رگوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ کچھ دیر بعد سب کے سب وہاں سے اُٹھ کر اپنے اپنے کمروں میں آکر لحاف میں دبک گئے۔ہمیں یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ دن بھر کسی نے نہ کچھ کھایا اور نہ پیا۔ دوپہر گزر گئی اور ہوتے ہوتے مغرب کا وقت آگیا۔ مغرب سے کچھ دیر پہلے کچھ چیزیں معمول سے ہٹ کر ہوتی ہوئی نظر آئیں۔ دہی کی پھلکیاں تیار کی جارہی تھیں اور پکوڑے تلے جارہے تھے۔
اذانِ مغرب سنائی دیتے ہی سب نے اپنی اپنی جگہ سنبھالی اور کھانا پینا شروع کردیا۔کھانے پینے کا یہ عمل تیزی کے ساتھ جاری رہا اور پھر فارغ ہوتے ہی سب نے باری باری وضو کیا اور اپنی اپنی جائے نمازیں سنبھالیں اور تھوڑی دیر بعد نمازیں ادا کیں۔ ہم یہ سب انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے۔ٹُک ٹُک دیدم دَم نا کشیدم ۔
آخر جب ہم سے ضبط نہ ہوسکا تو ہم نے استفسار کر ہی ڈالا۔ معلوم یہ ہوا کہ یہ رمضان کے روزوں کا آغاز تھا جو اُنتیس تِیس دن یوں ہی جاری رہیں گے۔ انتہائی سادہ اور سلیس زبان میں ہمیں رمضان کی اہمیت اور روزہ کی فضیلت سمجھائی گئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر رمضان کے روزے رکھنا فرض ہے جس کا بہت ثواب ہے اور نہ رکھنے والے سے اللہ تعالٰی بہت ناراض ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سُنتے ہی ہم گھبرا گئے،بڑوں نے ہمیں سمجھایا کہ جب تم اتنے بڑے ہو جاؤ گے تب ہی تمہیں روزہ رکھنا ہوگا۔یہ بات ہماری سمجھ میں آگئی اور ہم مطمئن ہوگئے۔ وقت گزرتا گیا اور ہماری سمجھ میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا پھر رمضان کا مہینہ آیا تو شدید گرمی کا موسم تھا۔
عالم یہ تھا کہ چیل انڈہ چھوڑے۔ پسینوں پر پسینے آرہے تھے اور دھوپ کی تپش سے چہرہ جھلس رہا تھا اور کسی کروٹ چین نہیں تھا۔ اب تک ہم کافی بڑے ہو چکے تھے اور ہماری سمجھ بھی بہت پختہ ہوچکی تھی۔ ہمیں بخوبی معلوم تھا کہ رمضان کا مہینہ آگیا ہے۔ ہمیں اُس وقت بڑی خوشی ہوئی جب ہم نے اپنی زندگی کا پہلا روزہ رکھا تھا۔گھر میں ایک جشن کا سا سماں تھا اور سارے گھر والے بہت خوش تھے اور کافی اہتمام کیا گیا تھا کیونکہ یہ ہماری روزہ کُشائی تھی۔ پھر جب ہم گاؤں چھوڑ کر اپنی ننھیال سے جدا ہوکر شہر دہلی آگئے تو سب کچھ بدل چکا تھا۔
ہماری ابتدائی تعلیم کا دور ختم ہوگیا تھا اور ہم نوجوان ہوکر کالج میں داخل ہوگئے تھے۔یہاں کا پورا ماحول گاؤں کے ماحول سے بالکل مختلف تھا، سو یہی حال رمضان المبارک کے معمولات کا بھی تھا۔ مسلمانوں کی بیشتر آبادیاں غیر مسلموں سے الگ تھلگ تھیں جہاں رمضان المبارک کے دوران بہت رونق اور چہل پہل ہوتی تھی۔بس یوں کہیے کہ ایک جشن کا سماں ہوتا تھا۔
سحری کے وقت مختلف ٹولیاں عارفانہ کلام پڑھتی ہوئی روزہ داروں کو نیند سے بیدار کرنے کے لیے گشت کرتی تھیں۔اُن کی مسحور کُن آوازیں سننے والوں کے کانوں میں رَس گھولتی تھیں۔
روزہ افطار کرنے کی اطلاع دینے کے لیے نقارہ پیِٹا جاتا تھا۔ ہمارے محلہ میں اِس کا خاص اہتمام تھا۔ مغرب کی اذان سے پہلے ہی نقارچی میر صاحب جو ایک بارعب بزرگ تھے بالکل تیار ہوجاتے تھے۔
محلہ کے بچے بہت پہلے سے میر صاحب کے اِردگِرد جمع ہوجاتے تھے۔ پھر جوں ہی اذانِ مغرب ہوتی تھی تو میر صاحب نقارے پر چوٹ مارتے تھے تو اُس کی گونج سُنتے ہی تمام بچے خوشی سے پاگل ہوجاتے تھے اور لوگ افطار کرتے تھے۔