نپا تلا وقت
اتفاقاً یا بدقسمتی سے اس روش پر چل کے کچھ بھی نہیں ملتا وہ بری طرح شکست کھاتا ہے
بدلتی صورتیں، بدلتے رنگ، عجیب سیاسی داؤ پیچ کی کہانی، ہمارا ملک ایک افراتفری کے ماحول میں گھرا ہے۔
اس کے ذمے داران کوئی ایک نہیں بلکہ شاید اجتماعی طور پر ہم سب ہیں۔ انسانوں کی ایک بھیڑ ہے جو سمجھ دار اور کم عقل، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب کو ایک چال کی کوشش دینے میں مصروف رہتی ہے اس میں کون کس قدر کامیاب ہو سکا ہے یہ بات اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم میں سے کون کسی بھی بھیڑ چال کا حصہ ہیں۔ اگر ہیں تو کیوں ہیں؟
انسان کئی بار بہت سے ملتے جلتے مواقع سے گھبرا جاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ ان مختلف مواقعوں میں سے کسی ایک کو بھی ضایع کر دینا اس کے لیے زندگی بھر کا روگ بن سکتا ہے، وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بس ایسا ہو کہ اس کی ذات کو فائدہ پہنچے اور پھر وہ کسی ایک موقع کے پیچھے چل پڑتا ہے۔
اتفاقاً یا بدقسمتی سے اس روش پر چل کے کچھ بھی نہیں ملتا وہ بری طرح شکست کھاتا ہے اور ہاتھ ملتا ہے اپنی قسمت پر آنسو بہاتا ہے خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا، اسے کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں کرایا، اس کا اتنا اچھا موقع ضایع کیوں کرا دیا؟ صرف یہی نہیں بلکہ وہ پچھلے رد کیے ہوئے مواقعوں کو نہ اختیار کرنے کا رونا بھی قدرت پر ڈال دیتا ہے کہ اے رب العزت ہم وہ مواقع بھی تو حاصل کرسکتے تھے۔
انسان بڑا کم ظرف ہے وہ ہر حال میں اپنے فائدے کی سوچتا ہے۔ فائدہ حاصل کرنے کی حس تو اس کی گھٹی میں پڑی ہے لیکن دراصل ہم اس عظیم ذات کی ترکیبیوں اور چالوں کو بالکل نظرانداز کردیتے ہیں جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر انسان کو احساس دلاتی ہے کہ اچھا ہی ہوا کہ ہم اس راہ پر نہیں چلے۔
ہمیں فوائد نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی کم ظرف ہوتے ہیں جو ساری عمر صرف رونا ہی روتے رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیشہ برا ہی ہوا کیونکہ انھیں اپنے ساتھ ہوااچھا بھی برا ہی دکھائی دیتا ہے۔اگر آپ ایک اچھے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، اچھا کھا پی رہے ہیں، آپ کے پاس تعلیمی اسناد ہیں۔
اچھی نوکری ہے پھر اپنی ترقی کے مدارج پر ذرا نظر رکھیے کیونکہ کسی بھی ایک درجے پر جا کر آپ زیرو پر بھی گر سکتے ہیں اور اس کی وجہ وہ ناجائز خواہشات ہوتی ہیں جو آپ کے قدموں میں زنجیر بن کر آپ کو قید کر لیتی ہیں۔
انسان کا وقت نپا تلا ہے اسے کس وقت کیا کام کرنا ہے اور کب تک کرنا ہے یہ طے شدہ ہے لیکن بے صبری، بے چینی، اضطراب اور واہمات جیسی بیماریاں کسی موسمی بخار کی طرح اسے جکڑ لیتی ہیں اور موسمی بخار اتنی آسانی سے بھی نہیں اترتا۔اس کی زندگی طے شدہ تھی وہ جانتی تھی کیونکہ اسے بریسٹ کینسر تھا۔
اس نے صرف میٹرک ہی کیا تھا، جب وہ پاکستان سے امریکا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ منتقل ہوئی تھی۔ زندگی کا وہ دور اس کے لیے تتلیوں کی طرح رنگین تھا۔ رائما ایک ایسی ہی خوبصورت تتلیوں میں گھری لڑکی تھی وہ اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھی اس نے دیکھ رکھا تھا کہ اس کا ایمان دار باپ کس طرح سیاسی بھیڑ چال کا شکار ہو کر اپنی سرکاری نوکری سے برخاست کیا گیا تھا کیونکہ شک تھا کہ ان کا تعلق ناپسندیدہ جماعت سے ہے۔
ان کی ساری اعلیٰ تعلیم، تجربہ اور خلوص کو ایک جانب رکھ دیا گیا تھا لیکن اس مشکل دور میں بھی رائما نے اپنے والدین کو ہمت اور محنت کو ترک کرتے نہیں دیکھا اور پھر اپنے پچھلے ریکارڈ کی بنا پر سرکار نے پھر سے ان کی نوکری بحال کردی۔سفر اس خاندان کی قسمت میں تھا اور وہ ہوکر رہا۔
امریکا میں جلد ہی اس کی شادی ہوگئی، والدین اپنی بیٹی کے نصیبوں پر شاداں و فرحاں تھے کہ ان کو اتنا پڑھا لکھا، ہینڈسم اور اچھے خاندان کا داماد نصیب ہو رہا ہے۔
چھوٹی سی عمر میں شادی اور ایک خوب صورت ساتھی کا ساتھ رائما کی زندگی میں بہار لے آیا۔دو بچے خوب صورت پھولوں کی مانند زندگی میں آئے تو اسے اپنی تعلیم کا خیال بھی ابھرا، جس کی وجہ اس کی کم عمری کی شادی تھی اور وہ پڑھائی میں جت گئی۔ اپنا یوٹیوب چینل بھی کھولا اور خاصی مقبولیت پائی سب کچھ بہت اچھا سنہرا سا چل رہا تھا۔
کینسر کا لفظ بڑا خطرناک ہوتا ہے، لیکن اچانک ہی یہ چپکے سے اس کے وجود میں سرائیت کر گیا تھا۔ اس نے اپنی نپی تلی زندگی میں اس بڑی بیماری سے ہاتھ ملا لیا۔ بچے، گھر داری اور اپنی پڑھائی کچھ بھی ترک نہ کیا اور صبر و سکون سے چلتی رہی۔ والدین ہلکان تھے، ماں روئے جاتی تھی اور وہ ان کو صبر کی تلقین کرتی تھی۔ اس کی آزمائش تھی اور اسے صبر و سکون سے نکلنا تھا وہ جان چکی تھی کہ یہ زہر پھیلتا جا رہا ہے، ڈاکٹرز اس کے اطمینان پر حیران ہوتے ہیں۔ ''میں ٹھیک ہو جاؤں گی، آپ پریشان نہ ہوں۔''
وہ اکثر اپنی ماں کو دلاسا دیتی لیکن سرخ سگنل بج چکا تھا۔ حالات گمبھیر ہو رہے تھے، زہر پھیل چکا تھا، امریکی ماہرین اس کینسر زدہ حصے سے زہر کو الگ نہ کر پائے تھے اور یہ طے تھا کہ اس کا اختتام اسی سے ہوگا۔ کھانے کی خوشبو اس کی طبیعت پر گراں گزرتی تھی، ماں اپنا گھر چھوڑ کر اب اپنی بیٹی کا گھر سنبھال رہی تھی۔ بچے کچھ ڈرے سہمے سے رہتے تھے وہ اپنی ماں کی حالت سے پریشان تھے کہ ان کی ہنستی مسکراتی ماں کی کیا حالت ہو گئی ہے۔
رائما اور اس کی ماں اپنے رب پر شاکر تھیں کہ جانتی تھیں کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے، ہم اس سے ایک لمحہ بھی آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتے۔ رائما اپنے نپے تلے وقت میں بھی اپنے رب سے جڑی رہی اور اس میں بڑا ہاتھ اس کے والدین کاہے جنھوں نے بچپن سے ہی مذہبی خطوط پر ان کی تربیت کی تھی۔
مصیبتیں بھی جھیل لیں، خوشیاں بھی دیکھ لیں، باہر کی تعلیم کا شوق بھی پورا ہو گیا، پیارے پیارے بچوں کی نعمتیں بھی مل گئیں، جیون ساتھی کی محبت اور خلوص اور بہت سارا پیار محبت جو ایک بھرے پرے کنبے کی صورت میں اسے ملتا رہا تھا۔ وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی اس کا آخری وقت آچکا تھا جو قدرت کی جانب سے طے تھا کہ رائما بی بی تمہیں اتنے سال اتنے ماہ اور اتنے دن گھنٹے منٹ اور سیکنڈ لمحات عطا کیے گئے تھے۔
اب تمہارا باب زندگی بند۔''انسان خسارے میں ہے۔'' بالکل ایسا ہی ہے۔ اس کی وجوہات ہیں، ہم اپنے آج کل کے ماحول پر ذرا نظر ڈالیں تو بہت سی تلخیاں اندر تک گھل جاتی ہیں۔ خواہشات کا اس قدر بڑا انبار، کیا اس سے نکل پانے کی مہلت بھی مل سکے گی؟ وقت تو نپا تلا ہے اس ٹائم اسکیل پر اب کتنی مدت رہ گئی ہے کچھ خبر نہیں، لیکن خسارے جمع کرنے کی فکریں بڑھتی ہی جا رہی ہیں ان کی چمکتی دمکتی صورت آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہیں، پَر لگے ہوئے ہیں۔''یہ وہ مسجد ہے جہاں رائما کا سوم ہوگا، یہ رائما کا بیٹا ہے۔''
رائما کا جوان چچا صفدر اپنے یوٹیوب کے مقبول چینل سے مخاطب تھا۔ نعتوں کا شیدائی، بزرگوں کی عزت کرنے والا، جنازوں میں بڑھ بڑھ کر شرکت کرنے والا وہ شخص رائما کے سوئم پر دل گرفتہ نظر آرہا تھا۔
پاکستان میں بیٹھ کر امریکا میں مسلمانوں کے قبرستان کو بھی دیکھ لیا گیا، پر وقت تو نپا تلا ہوتا ہے، قدرت کے ٹائم اسکیل کی کسے خبر؟ صفدر کو بھی خبر نہ تھی کہ وہ جو قبرستان دکھا رہا ہے اسی مٹی کے نیچے چند دنوں بعد اسے بھی جانا ہے۔''حمیرا کے دیور کا انتقال ہو گیا، کار حادثے میں۔ وہ روزے سے تھا۔''
واٹس ایپ پر پیغام ابھرا تھا۔ وقت نپا تلا ہوتا ہے، براہ کرم اپنے اس نپے تلے وقت کو خسارے سے بچائیے۔
اس کے ذمے داران کوئی ایک نہیں بلکہ شاید اجتماعی طور پر ہم سب ہیں۔ انسانوں کی ایک بھیڑ ہے جو سمجھ دار اور کم عقل، پڑھے لکھے اور ان پڑھ سب کو ایک چال کی کوشش دینے میں مصروف رہتی ہے اس میں کون کس قدر کامیاب ہو سکا ہے یہ بات اہم نہیں ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم میں سے کون کسی بھی بھیڑ چال کا حصہ ہیں۔ اگر ہیں تو کیوں ہیں؟
انسان کئی بار بہت سے ملتے جلتے مواقع سے گھبرا جاتا ہے اسے محسوس ہوتا ہے کہ ان مختلف مواقعوں میں سے کسی ایک کو بھی ضایع کر دینا اس کے لیے زندگی بھر کا روگ بن سکتا ہے، وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ بس ایسا ہو کہ اس کی ذات کو فائدہ پہنچے اور پھر وہ کسی ایک موقع کے پیچھے چل پڑتا ہے۔
اتفاقاً یا بدقسمتی سے اس روش پر چل کے کچھ بھی نہیں ملتا وہ بری طرح شکست کھاتا ہے اور ہاتھ ملتا ہے اپنی قسمت پر آنسو بہاتا ہے خدا سے شکوہ کرتا ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا، اسے کامیابی سے ہمکنار کیوں نہیں کرایا، اس کا اتنا اچھا موقع ضایع کیوں کرا دیا؟ صرف یہی نہیں بلکہ وہ پچھلے رد کیے ہوئے مواقعوں کو نہ اختیار کرنے کا رونا بھی قدرت پر ڈال دیتا ہے کہ اے رب العزت ہم وہ مواقع بھی تو حاصل کرسکتے تھے۔
انسان بڑا کم ظرف ہے وہ ہر حال میں اپنے فائدے کی سوچتا ہے۔ فائدہ حاصل کرنے کی حس تو اس کی گھٹی میں پڑی ہے لیکن دراصل ہم اس عظیم ذات کی ترکیبیوں اور چالوں کو بالکل نظرانداز کردیتے ہیں جو زندگی کے کسی بھی موڑ پر انسان کو احساس دلاتی ہے کہ اچھا ہی ہوا کہ ہم اس راہ پر نہیں چلے۔
ہمیں فوائد نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں اور بہت سے ایسے بھی کم ظرف ہوتے ہیں جو ساری عمر صرف رونا ہی روتے رہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ہمیشہ برا ہی ہوا کیونکہ انھیں اپنے ساتھ ہوااچھا بھی برا ہی دکھائی دیتا ہے۔اگر آپ ایک اچھے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، اچھا کھا پی رہے ہیں، آپ کے پاس تعلیمی اسناد ہیں۔
اچھی نوکری ہے پھر اپنی ترقی کے مدارج پر ذرا نظر رکھیے کیونکہ کسی بھی ایک درجے پر جا کر آپ زیرو پر بھی گر سکتے ہیں اور اس کی وجہ وہ ناجائز خواہشات ہوتی ہیں جو آپ کے قدموں میں زنجیر بن کر آپ کو قید کر لیتی ہیں۔
انسان کا وقت نپا تلا ہے اسے کس وقت کیا کام کرنا ہے اور کب تک کرنا ہے یہ طے شدہ ہے لیکن بے صبری، بے چینی، اضطراب اور واہمات جیسی بیماریاں کسی موسمی بخار کی طرح اسے جکڑ لیتی ہیں اور موسمی بخار اتنی آسانی سے بھی نہیں اترتا۔اس کی زندگی طے شدہ تھی وہ جانتی تھی کیونکہ اسے بریسٹ کینسر تھا۔
اس نے صرف میٹرک ہی کیا تھا، جب وہ پاکستان سے امریکا اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے ہمراہ منتقل ہوئی تھی۔ زندگی کا وہ دور اس کے لیے تتلیوں کی طرح رنگین تھا۔ رائما ایک ایسی ہی خوبصورت تتلیوں میں گھری لڑکی تھی وہ اپنے والدین کی سب سے بڑی اولاد تھی اس نے دیکھ رکھا تھا کہ اس کا ایمان دار باپ کس طرح سیاسی بھیڑ چال کا شکار ہو کر اپنی سرکاری نوکری سے برخاست کیا گیا تھا کیونکہ شک تھا کہ ان کا تعلق ناپسندیدہ جماعت سے ہے۔
ان کی ساری اعلیٰ تعلیم، تجربہ اور خلوص کو ایک جانب رکھ دیا گیا تھا لیکن اس مشکل دور میں بھی رائما نے اپنے والدین کو ہمت اور محنت کو ترک کرتے نہیں دیکھا اور پھر اپنے پچھلے ریکارڈ کی بنا پر سرکار نے پھر سے ان کی نوکری بحال کردی۔سفر اس خاندان کی قسمت میں تھا اور وہ ہوکر رہا۔
امریکا میں جلد ہی اس کی شادی ہوگئی، والدین اپنی بیٹی کے نصیبوں پر شاداں و فرحاں تھے کہ ان کو اتنا پڑھا لکھا، ہینڈسم اور اچھے خاندان کا داماد نصیب ہو رہا ہے۔
چھوٹی سی عمر میں شادی اور ایک خوب صورت ساتھی کا ساتھ رائما کی زندگی میں بہار لے آیا۔دو بچے خوب صورت پھولوں کی مانند زندگی میں آئے تو اسے اپنی تعلیم کا خیال بھی ابھرا، جس کی وجہ اس کی کم عمری کی شادی تھی اور وہ پڑھائی میں جت گئی۔ اپنا یوٹیوب چینل بھی کھولا اور خاصی مقبولیت پائی سب کچھ بہت اچھا سنہرا سا چل رہا تھا۔
کینسر کا لفظ بڑا خطرناک ہوتا ہے، لیکن اچانک ہی یہ چپکے سے اس کے وجود میں سرائیت کر گیا تھا۔ اس نے اپنی نپی تلی زندگی میں اس بڑی بیماری سے ہاتھ ملا لیا۔ بچے، گھر داری اور اپنی پڑھائی کچھ بھی ترک نہ کیا اور صبر و سکون سے چلتی رہی۔ والدین ہلکان تھے، ماں روئے جاتی تھی اور وہ ان کو صبر کی تلقین کرتی تھی۔ اس کی آزمائش تھی اور اسے صبر و سکون سے نکلنا تھا وہ جان چکی تھی کہ یہ زہر پھیلتا جا رہا ہے، ڈاکٹرز اس کے اطمینان پر حیران ہوتے ہیں۔ ''میں ٹھیک ہو جاؤں گی، آپ پریشان نہ ہوں۔''
وہ اکثر اپنی ماں کو دلاسا دیتی لیکن سرخ سگنل بج چکا تھا۔ حالات گمبھیر ہو رہے تھے، زہر پھیل چکا تھا، امریکی ماہرین اس کینسر زدہ حصے سے زہر کو الگ نہ کر پائے تھے اور یہ طے تھا کہ اس کا اختتام اسی سے ہوگا۔ کھانے کی خوشبو اس کی طبیعت پر گراں گزرتی تھی، ماں اپنا گھر چھوڑ کر اب اپنی بیٹی کا گھر سنبھال رہی تھی۔ بچے کچھ ڈرے سہمے سے رہتے تھے وہ اپنی ماں کی حالت سے پریشان تھے کہ ان کی ہنستی مسکراتی ماں کی کیا حالت ہو گئی ہے۔
رائما اور اس کی ماں اپنے رب پر شاکر تھیں کہ جانتی تھیں کہ موت کا ایک وقت مقرر ہے، ہم اس سے ایک لمحہ بھی آگے یا پیچھے نہیں ہو سکتے۔ رائما اپنے نپے تلے وقت میں بھی اپنے رب سے جڑی رہی اور اس میں بڑا ہاتھ اس کے والدین کاہے جنھوں نے بچپن سے ہی مذہبی خطوط پر ان کی تربیت کی تھی۔
مصیبتیں بھی جھیل لیں، خوشیاں بھی دیکھ لیں، باہر کی تعلیم کا شوق بھی پورا ہو گیا، پیارے پیارے بچوں کی نعمتیں بھی مل گئیں، جیون ساتھی کی محبت اور خلوص اور بہت سارا پیار محبت جو ایک بھرے پرے کنبے کی صورت میں اسے ملتا رہا تھا۔ وہ اپنے رب کی شکر گزار تھی اس کا آخری وقت آچکا تھا جو قدرت کی جانب سے طے تھا کہ رائما بی بی تمہیں اتنے سال اتنے ماہ اور اتنے دن گھنٹے منٹ اور سیکنڈ لمحات عطا کیے گئے تھے۔
اب تمہارا باب زندگی بند۔''انسان خسارے میں ہے۔'' بالکل ایسا ہی ہے۔ اس کی وجوہات ہیں، ہم اپنے آج کل کے ماحول پر ذرا نظر ڈالیں تو بہت سی تلخیاں اندر تک گھل جاتی ہیں۔ خواہشات کا اس قدر بڑا انبار، کیا اس سے نکل پانے کی مہلت بھی مل سکے گی؟ وقت تو نپا تلا ہے اس ٹائم اسکیل پر اب کتنی مدت رہ گئی ہے کچھ خبر نہیں، لیکن خسارے جمع کرنے کی فکریں بڑھتی ہی جا رہی ہیں ان کی چمکتی دمکتی صورت آنکھوں کو خیرہ کیے دیتی ہیں، پَر لگے ہوئے ہیں۔''یہ وہ مسجد ہے جہاں رائما کا سوم ہوگا، یہ رائما کا بیٹا ہے۔''
رائما کا جوان چچا صفدر اپنے یوٹیوب کے مقبول چینل سے مخاطب تھا۔ نعتوں کا شیدائی، بزرگوں کی عزت کرنے والا، جنازوں میں بڑھ بڑھ کر شرکت کرنے والا وہ شخص رائما کے سوئم پر دل گرفتہ نظر آرہا تھا۔
پاکستان میں بیٹھ کر امریکا میں مسلمانوں کے قبرستان کو بھی دیکھ لیا گیا، پر وقت تو نپا تلا ہوتا ہے، قدرت کے ٹائم اسکیل کی کسے خبر؟ صفدر کو بھی خبر نہ تھی کہ وہ جو قبرستان دکھا رہا ہے اسی مٹی کے نیچے چند دنوں بعد اسے بھی جانا ہے۔''حمیرا کے دیور کا انتقال ہو گیا، کار حادثے میں۔ وہ روزے سے تھا۔''
واٹس ایپ پر پیغام ابھرا تھا۔ وقت نپا تلا ہوتا ہے، براہ کرم اپنے اس نپے تلے وقت کو خسارے سے بچائیے۔