حضرت امامِ حسنؓ کی سیرتِ مبارکہ پر تخلیقی کام
حمد ونعت کے ساتھ منقبت کے نمونے بھی قدیم اردو شاعری میں پڑھنے کو ملتے ہیں
حیدر، حسن ، حسین کی زہراؓ بتولؓ کی
ہر بات با کمال ہے آلِ رسولؐ کی
اصلاحِ شعر میں منقبت سے مراد ایسی نظم جس میں صحابہ کرامؓ، اولیائے عظام، بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کے اوصاف بیان کیے جائیں۔ مختلف پیغمبروں، فرشتوں پر لکھی گئی منظومات بھی مناقب کے ذیل میں آتی ہیں۔
حمد ونعت کے ساتھ منقبت کے نمونے بھی قدیم اردو شاعری میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ حمد و نعت کی طرح اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت و کردار پر جن شاعروں نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیے ہیں اُن میں نظیر آبادی، میر انیس، مرزا دبیر، غالب، امیر مینائی، احمد رضاؔ بریلوی، محسن کاکوری اور جعفر بلوچ کے نام نمایاں ہیں۔
منقبت نگاری کے اس سلسلے کو آج بھی کئی شعراء جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے شعراء کی فہرست میں امجد حمید محسن کاشمار بھی ہوتا ہیں، جو اپنے عہد کے ایسے منجھے ہوئے شاعر ہیں جن کا شعری اسلوب اپنے ہم عصروں سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے زندگی بھر شاعری کے ذریعے پاکیزہ جذبات اور سنجیدہ فکر کا پرچار کیاہے۔
ان کے ابتک چار شعری مجموعے مختلف عنوانات سے زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر اہلِ دانش سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ 1973میں زمانہ طالبِ علمی سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ یوں ان کا تخلیقی سفر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک پھیلا ہُوا ہے۔
اس دوران انھوں نے شاعری کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل، نظم، ہائیکو، ماہیا، حمد، نعت، سلام اور منقبت شامل ہیں۔ وہ ہر وقت تخیل کے طلسم میں رہتے ہیں اور نت نئے اشعار لوحِ قرطاس پر اُتارنے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے ہاں نعت کے گلدستوں میں الفاظ پھول کی پتیوں کی مانند مہکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ
رسولِؐ رحمت کے ذکر کا فیض ہے یہ محسن
مرے لبوں پر ہیں لفظ تازہ کلام اعلیٰ
امجد حمید محسن اپنی نعتوں میں حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک سے اپنی محبت اور عقیدت کا جس طرح اظہار کرتے ہیں اُسی جذبے سے وہ رسولِؐ رحمت کی آلؓ کا تذکرہ بھی مناقب کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔'' مدحتِ سردارِ جنت '' ان کے مناقب کااولین مجموعہ ہے۔ جس کے مطالعہ سے ایک روحانی سکون و اطمینان میرے دل میں اُترتا گیا ، نور کی کرنیں لفظ لفظ سے روشنی بکھیرنے لگیں، ہر شعر سے محبت کے پھولوں کی مہک سانسوں کو معطر کرنے لگی۔
ان کے اس مجموعہ کلام میں حمد، نعت، منقبت، سلام اور مناقب شامل ہیں۔ ان کے کلام میں سوچ و فکر کی گہرائی اور گیرائی موجود ہے، جو ان کے دلی جذبات و احساسات و خیالات کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور ان کے فنِ شاعری کے اسلوبِ بیان کے کمالات کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ وہ جب منقبت لکھتے ہیں تو صلوات کا ورد ان کی زبان پر جاری رہتا ہے۔ امجد حمید محسنؔ جس حُسنِ قلم سے سیدہؓ کائنات کی منقبت لکھتے ہیں وہ قلم بھی خود پر ناز اں ہے اس شعر کے مصداق:
فاطمہؓ کی منقبت کا کیا حسیں آغاز ہے
جس قلم سے لکھ رہا ہوں اُس قلم کو ناز ہے
''مدحتِ سردارِ جنت'' میں امجد حمید محسن کا خاص موضوع نواسہ رسولؐ، جگر گوشہ بتولؓ، فرزندِ علیؓ حیدر، خلیفہ پنجم سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسنؓ کی شخصیت، سیرت و کردار اور فضائل و شمائل کے مناقب شامل ہیں، جسے وہ بڑے احسن طریقے کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اپنے امام کے حضور اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے گلدستے پیش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ارشد محمود ناشاد رقم طراز ہیں کہ''شاعر نے امام عالی مقام کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کے رنگوں کو نہایت عمدگی کے ساتھ مناقب کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان مناقب میں امام حسنؓ کی سیرت کے احوال، اُن کے سراپے کی خوش رنگی اور اُن کے اوصاف و کمالات کی روشنی جا بجا جلوہ فگن ہے۔ شاعر نے استمداد اور فریاد کے رنگ، حاضری و حضوری کی تمنا اور زیارت کی آرزو کو نہایت سوز و گداز اور عقیدت و احترام سے شعر میں گوندھ دیا ہے۔''
''مدحتِ سردارِ جنت'' امجد حمید محسن کا تخلیقی اور تاریخی کارنامہ ہے۔ جسے ہم بارش کا پہلا قطرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان سے قبل بہت سے شعراء کے ہاں امامِ حسنؓ کی سیرت و فضائل پرچند مناقب پڑھنے کو ملتے ہیں مگر الگ سے کسی بھی شاعر کا کوئی دیوان نہ آسکا، امجد حمید محسن نے اپنے اس مجموعہ مناقب میں امامِ حسنؓ کی صداقتوں، شجاعتوں، سخاوتوں، علم و حکمتوں کے پھول گلستانِ سخن میں کھلا دیے ہیں جس کی خوشبو تاقیامت تک محسوس کی جا سکے گی۔
مناقب کہتے وقت وہ انتخابِ الفاظ کا بطورِ خاص خیال رکھتے ہیں ، انھوں نے ردیفوں کے ہم وزن قوافی کا برمحل استعمال کیا ہے، مناقب کے اشعار رقم کرنے میں یہ احتیاط نہایت ضروری ہے کہ جذبے کی صداقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کے مزاج کو سمجھنا اور ان کے برمحل استعمال کا سلیقہ مناقب کے تقدس کو دوبالا کر دیتا ہے۔ کیونکہ مناقب شاعری عام شاعری سے مختلف ہوتی ہے۔
''مدحتِ سردارِ جنت'' میں شامل مناقب میں امجد حمید محسنؔ اپنی عقیدت کا اظہار غزل کی ہیئت میں کرتے ہیں،ہیئت سے مراد انداز و بیان کی وہ صورت جو فنی اور تکنیکی خصوصیات جس کے سبب شعری تخلیق کی شناخت کی جا سکے۔ کیونکہ غزل اپنی ہیئت کے اعتبار سے ''نظم'' ہے اور اپنے مضامین کے اعتبار سے خاص مزاج رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی مناقب شعری لغت و محاورہ میں نظموں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ امجد حمید محسنؔ نے اپنے شیریں اندازو بیان اور شعری تخلیق سے اپنی بعض مناقب کو نظم کی شکل دی ہے۔ جس میں ان کی فنی اور تکنیکی خصوصیات کا خوب ادراک ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر ریاض مجید اور اکرم کنجاہی اپنی آراء میں دلیلیں پیش کر چکے ہیں۔ اس مجموعہ مناقب میں پروفیسر شوذب کاظمی کا مقدمہ کے علاوہ اقبال نجمی،سرور ارمان اور طاہر سلطانی کی آراء کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
حضرت امامِ حسنؓ پندرہ رمضان سن تین ہجری بمطابق644 عیسوی کو دنیا میں تشریف لائے۔ جس پر آپؓکے نانا رحمتِ دو جہاں، امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے آپؓ کو اپنی گود میں اُٹھاتے ہوئے شکرِ خدا کے بعد کلمہ توحید ادا کیا۔ پھر آپؓ کے کان میں اذان دی دوسرے میں اقامت فرمائی اور پھر زبان رسالت مآب سے فرمایا میں اس بچے کا نام حسنؓ رکھتا ہوں۔ امامِ حسنؓ کی پیدائش کا تذکرہ ان کی اس مناقب میں خوب دیکھا جا سکتا ہے۔
گلِ زہراؓ ہے مسکایا مبارک ہو مبارک
ہے جانِ مصطفیؐ آیا مبارک ہو مبارک
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے کہ ''جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرے ان دونوں بیٹوں سے محبت کرے،مزید آپ ؐنے فرمایا میرے بیٹے حسنؓ اور حسینؓ سردارِ جنت ہیں۔'' حضرت امام حسنؓ کی اعلیٰ صفات میں اُن کا خوبصورت سبز کُرتا، عالی شان دسترخوان اور بے مثل سخاوت رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
امامِ حسنؓ کی سیرت و فضائل کا بہترین نمونہ ''مدحتِ سردارِ جنت'' امجد حمید محسنؔ کا مجموعہ مناقب ہے۔ جو ہر حوالے سے ایک منفرد فن پارہ ہے۔ ان مناقب کا مکمل مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ میرے لیے باعثِ افتخار بات یہ ہے کہ ''مدحتِ سردارِ جنت'' کی مشینی خطاطی کے دوران اس مسودے کو کئی بار پڑھنے کا اعزاز مجھ خاکسار کو حاصل ہُوا۔ان کے اس مجموعہ مناقب پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا ۔
اس مجموعہ مناقب میں وہ کئی مقامات پر درِ حسنؓ پر حاضری کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے کچھ ماہ بعد انھیں اللہ نے اپنے گھر بیت اللہ اور درِ مصطفیؐ، درِ زہراؓ اور درِ حسنؓ کی زیارت کا شرف بھی بخشا۔اللہ کرے ان کے اولین مجموعہ مناقب ''مدحتِ سردارِ جنت'' کو دربارِ رسالت مآبؐ میں قبولیت کی سند نصیب ہو اور اُن کے لیے آخرت میں ذریعہ شفاعت بھی ٹھہرے،اللہ ان کے مناقب کا مبارک سفر اسی شان و وقار کے ساتھ جاری رکھے۔
آخر میں حضرت امامِ حسنؓ کی شہادت کا ذکر کرتا چلوں کہ ان کی شہادت28صفر المظفر 1444ء ہجری کو ہوئی،جسے امجد حمید محسنؔ اپنے اشعار کی صورت میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔
محروم لوگ ہو گئے شفقت سے اے حسنؓ
دل رو رہا ہے تیری شہادت سے اے حسنؓ
تیرے بدن کو اپنا بدن مصطفیؐ کہیں
کتنی مشابہت تھی رسالت سے اے حسنؓ
ہر بات با کمال ہے آلِ رسولؐ کی
اصلاحِ شعر میں منقبت سے مراد ایسی نظم جس میں صحابہ کرامؓ، اولیائے عظام، بزرگانِ دین اور صوفیائے کرام کے اوصاف بیان کیے جائیں۔ مختلف پیغمبروں، فرشتوں پر لکھی گئی منظومات بھی مناقب کے ذیل میں آتی ہیں۔
حمد ونعت کے ساتھ منقبت کے نمونے بھی قدیم اردو شاعری میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔ حمد و نعت کی طرح اہلِ بیتؓ اور صحابہ کرامؓ کی سیرت و کردار پر جن شاعروں نے منظوم خراجِ عقیدت پیش کیے ہیں اُن میں نظیر آبادی، میر انیس، مرزا دبیر، غالب، امیر مینائی، احمد رضاؔ بریلوی، محسن کاکوری اور جعفر بلوچ کے نام نمایاں ہیں۔
منقبت نگاری کے اس سلسلے کو آج بھی کئی شعراء جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے شعراء کی فہرست میں امجد حمید محسن کاشمار بھی ہوتا ہیں، جو اپنے عہد کے ایسے منجھے ہوئے شاعر ہیں جن کا شعری اسلوب اپنے ہم عصروں سے منفرد دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے زندگی بھر شاعری کے ذریعے پاکیزہ جذبات اور سنجیدہ فکر کا پرچار کیاہے۔
ان کے ابتک چار شعری مجموعے مختلف عنوانات سے زیورِ طباعت سے آراستہ ہو کر اہلِ دانش سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ 1973میں زمانہ طالبِ علمی سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ یوں ان کا تخلیقی سفر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک پھیلا ہُوا ہے۔
اس دوران انھوں نے شاعری کی متعدد اصناف میں طبع آزمائی کی جن میں غزل، نظم، ہائیکو، ماہیا، حمد، نعت، سلام اور منقبت شامل ہیں۔ وہ ہر وقت تخیل کے طلسم میں رہتے ہیں اور نت نئے اشعار لوحِ قرطاس پر اُتارنے میں مگن رہتے ہیں۔ ان کے ہاں نعت کے گلدستوں میں الفاظ پھول کی پتیوں کی مانند مہکتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کیونکہ
رسولِؐ رحمت کے ذکر کا فیض ہے یہ محسن
مرے لبوں پر ہیں لفظ تازہ کلام اعلیٰ
امجد حمید محسن اپنی نعتوں میں حضور اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارک سے اپنی محبت اور عقیدت کا جس طرح اظہار کرتے ہیں اُسی جذبے سے وہ رسولِؐ رحمت کی آلؓ کا تذکرہ بھی مناقب کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔'' مدحتِ سردارِ جنت '' ان کے مناقب کااولین مجموعہ ہے۔ جس کے مطالعہ سے ایک روحانی سکون و اطمینان میرے دل میں اُترتا گیا ، نور کی کرنیں لفظ لفظ سے روشنی بکھیرنے لگیں، ہر شعر سے محبت کے پھولوں کی مہک سانسوں کو معطر کرنے لگی۔
ان کے اس مجموعہ کلام میں حمد، نعت، منقبت، سلام اور مناقب شامل ہیں۔ ان کے کلام میں سوچ و فکر کی گہرائی اور گیرائی موجود ہے، جو ان کے دلی جذبات و احساسات و خیالات کی عکاسی بھی کرتے ہیں اور ان کے فنِ شاعری کے اسلوبِ بیان کے کمالات کو بھی سامنے لاتے ہیں۔ وہ جب منقبت لکھتے ہیں تو صلوات کا ورد ان کی زبان پر جاری رہتا ہے۔ امجد حمید محسنؔ جس حُسنِ قلم سے سیدہؓ کائنات کی منقبت لکھتے ہیں وہ قلم بھی خود پر ناز اں ہے اس شعر کے مصداق:
فاطمہؓ کی منقبت کا کیا حسیں آغاز ہے
جس قلم سے لکھ رہا ہوں اُس قلم کو ناز ہے
''مدحتِ سردارِ جنت'' میں امجد حمید محسن کا خاص موضوع نواسہ رسولؐ، جگر گوشہ بتولؓ، فرزندِ علیؓ حیدر، خلیفہ پنجم سیدنا امام عالی مقام حضرت امام حسنؓ کی شخصیت، سیرت و کردار اور فضائل و شمائل کے مناقب شامل ہیں، جسے وہ بڑے احسن طریقے کے ساتھ بیان کرتے ہوئے اپنے امام کے حضور اپنی محبتوں اور عقیدتوں کے گلدستے پیش کرتے ہیں۔
اس حوالے سے ارشد محمود ناشاد رقم طراز ہیں کہ''شاعر نے امام عالی مقام کے ساتھ اپنی محبت و عقیدت کے رنگوں کو نہایت عمدگی کے ساتھ مناقب کے قالب میں ڈھالا ہے۔ ان مناقب میں امام حسنؓ کی سیرت کے احوال، اُن کے سراپے کی خوش رنگی اور اُن کے اوصاف و کمالات کی روشنی جا بجا جلوہ فگن ہے۔ شاعر نے استمداد اور فریاد کے رنگ، حاضری و حضوری کی تمنا اور زیارت کی آرزو کو نہایت سوز و گداز اور عقیدت و احترام سے شعر میں گوندھ دیا ہے۔''
''مدحتِ سردارِ جنت'' امجد حمید محسن کا تخلیقی اور تاریخی کارنامہ ہے۔ جسے ہم بارش کا پہلا قطرہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ان سے قبل بہت سے شعراء کے ہاں امامِ حسنؓ کی سیرت و فضائل پرچند مناقب پڑھنے کو ملتے ہیں مگر الگ سے کسی بھی شاعر کا کوئی دیوان نہ آسکا، امجد حمید محسن نے اپنے اس مجموعہ مناقب میں امامِ حسنؓ کی صداقتوں، شجاعتوں، سخاوتوں، علم و حکمتوں کے پھول گلستانِ سخن میں کھلا دیے ہیں جس کی خوشبو تاقیامت تک محسوس کی جا سکے گی۔
مناقب کہتے وقت وہ انتخابِ الفاظ کا بطورِ خاص خیال رکھتے ہیں ، انھوں نے ردیفوں کے ہم وزن قوافی کا برمحل استعمال کیا ہے، مناقب کے اشعار رقم کرنے میں یہ احتیاط نہایت ضروری ہے کہ جذبے کی صداقت کے ساتھ ساتھ الفاظ کے مزاج کو سمجھنا اور ان کے برمحل استعمال کا سلیقہ مناقب کے تقدس کو دوبالا کر دیتا ہے۔ کیونکہ مناقب شاعری عام شاعری سے مختلف ہوتی ہے۔
''مدحتِ سردارِ جنت'' میں شامل مناقب میں امجد حمید محسنؔ اپنی عقیدت کا اظہار غزل کی ہیئت میں کرتے ہیں،ہیئت سے مراد انداز و بیان کی وہ صورت جو فنی اور تکنیکی خصوصیات جس کے سبب شعری تخلیق کی شناخت کی جا سکے۔ کیونکہ غزل اپنی ہیئت کے اعتبار سے ''نظم'' ہے اور اپنے مضامین کے اعتبار سے خاص مزاج رکھتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کئی مناقب شعری لغت و محاورہ میں نظموں کی صورت اختیار کر جاتے ہیں۔ امجد حمید محسنؔ نے اپنے شیریں اندازو بیان اور شعری تخلیق سے اپنی بعض مناقب کو نظم کی شکل دی ہے۔ جس میں ان کی فنی اور تکنیکی خصوصیات کا خوب ادراک ہوتا ہے۔ اس حوالے سے پروفیسر ریاض مجید اور اکرم کنجاہی اپنی آراء میں دلیلیں پیش کر چکے ہیں۔ اس مجموعہ مناقب میں پروفیسر شوذب کاظمی کا مقدمہ کے علاوہ اقبال نجمی،سرور ارمان اور طاہر سلطانی کی آراء کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
حضرت امامِ حسنؓ پندرہ رمضان سن تین ہجری بمطابق644 عیسوی کو دنیا میں تشریف لائے۔ جس پر آپؓکے نانا رحمتِ دو جہاں، امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ نے آپؓ کو اپنی گود میں اُٹھاتے ہوئے شکرِ خدا کے بعد کلمہ توحید ادا کیا۔ پھر آپؓ کے کان میں اذان دی دوسرے میں اقامت فرمائی اور پھر زبان رسالت مآب سے فرمایا میں اس بچے کا نام حسنؓ رکھتا ہوں۔ امامِ حسنؓ کی پیدائش کا تذکرہ ان کی اس مناقب میں خوب دیکھا جا سکتا ہے۔
گلِ زہراؓ ہے مسکایا مبارک ہو مبارک
ہے جانِ مصطفیؐ آیا مبارک ہو مبارک
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے کہ ''جو شخص مجھ سے محبت کرتا ہے وہ میرے ان دونوں بیٹوں سے محبت کرے،مزید آپ ؐنے فرمایا میرے بیٹے حسنؓ اور حسینؓ سردارِ جنت ہیں۔'' حضرت امام حسنؓ کی اعلیٰ صفات میں اُن کا خوبصورت سبز کُرتا، عالی شان دسترخوان اور بے مثل سخاوت رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔
امامِ حسنؓ کی سیرت و فضائل کا بہترین نمونہ ''مدحتِ سردارِ جنت'' امجد حمید محسنؔ کا مجموعہ مناقب ہے۔ جو ہر حوالے سے ایک منفرد فن پارہ ہے۔ ان مناقب کا مکمل مطالعہ بے حد ضروری ہے۔ میرے لیے باعثِ افتخار بات یہ ہے کہ ''مدحتِ سردارِ جنت'' کی مشینی خطاطی کے دوران اس مسودے کو کئی بار پڑھنے کا اعزاز مجھ خاکسار کو حاصل ہُوا۔ان کے اس مجموعہ مناقب پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا ۔
اس مجموعہ مناقب میں وہ کئی مقامات پر درِ حسنؓ پر حاضری کے طلب گار نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کی اشاعت کے کچھ ماہ بعد انھیں اللہ نے اپنے گھر بیت اللہ اور درِ مصطفیؐ، درِ زہراؓ اور درِ حسنؓ کی زیارت کا شرف بھی بخشا۔اللہ کرے ان کے اولین مجموعہ مناقب ''مدحتِ سردارِ جنت'' کو دربارِ رسالت مآبؐ میں قبولیت کی سند نصیب ہو اور اُن کے لیے آخرت میں ذریعہ شفاعت بھی ٹھہرے،اللہ ان کے مناقب کا مبارک سفر اسی شان و وقار کے ساتھ جاری رکھے۔
آخر میں حضرت امامِ حسنؓ کی شہادت کا ذکر کرتا چلوں کہ ان کی شہادت28صفر المظفر 1444ء ہجری کو ہوئی،جسے امجد حمید محسنؔ اپنے اشعار کی صورت میں کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔
محروم لوگ ہو گئے شفقت سے اے حسنؓ
دل رو رہا ہے تیری شہادت سے اے حسنؓ
تیرے بدن کو اپنا بدن مصطفیؐ کہیں
کتنی مشابہت تھی رسالت سے اے حسنؓ