قبل ازوقت پیدا ہونے والے بچے جوانی میں بھی دمے سے متاثرہوسکتے ہیں
26 لاکھ افراد کے مطالعے کے مطابق ایسے بچوں میں درمیانی مدت تک سانس کے امراض جنم لے سکتےہیں
یہ تو سب جانتے ہیں کہ نو ماہ کے دورانِ حمل سے قبل آنکھ کھولنے والے بچوں کے پھیپھڑے درست انداز میں نمو سے نہیں گزرپاتے اور انہیں سانس کا عارضہ ہوسکتا ہے۔ تاہم اب معلوم ہوا ہے کہ درمیانی عمر تک وہ دمے اور سی او پی ڈی جیسے امراض کے شکار ہوسکتےہیں۔
اس ضمن میں فِن لینڈ اور ناروے میں 26 لاکھ افراد کا کئی برس تک سروے اور فالو آپ کیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا ہے کہ وسط عمر(40 برس) تک کرونک، اوبسٹرکٹوو پلمونری ڈیزیز(سی او پی ڈی) اور دمے کا خطرہ رہتا ہے۔ سی او پی ڈی ہو یا دمہ، دونوں میں سانس کی نالیاں شدید متاثر ہوتی ہیں اور سانس لینے میں شدید دشواری ہوتی ہے۔
37 ہفتوں سے پہلے زچگی والے بچوں کو قبل ازوقت پیدائش کہا جاتا ہے۔ اور اگر 28 ہفتے سے پہلے ہی بچہ اس دنیا میں آجاتا ہے تو وہ انتہائی قبل ازوقت پیدائش کہلاتی ہے۔ اس طرح پیدا ہونے والے بچوں میں نارمل بچوں کے مقابلے میں دمے اور سی اوپی ڈی کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔
تاہم 37 اور 38 ہفتوں والے بچوں میں بھی اس کا معمولی خطرہ ضرور ہوسکتا ہے۔ اس کی تصدیق ناروے یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ڈاکٹر کیری ریسنیس اور ان کے ساتھیوں کے مطابق قبل ازوقت پیدائش سے پھیپھڑوں کو جو نقصان ہوتا ہے وہ طویل عرصے تک برقرار رہتا ہے۔ اب اگر اس میں بیماری ، تمباکو نوشی اور آلودگی وغیرہ کو نکال دیا جائے تب بھی یہ خطرہ اپنی جگہ واضح رہتا ہے۔
سائنسدانوں نے 1987 سے 1998 تک میں فن لینڈ میں جنم لینے والے لاکھوں افراد کا ڈیٹا لیا ہے جبکہ ناروے میں 1967 سے 1999 تک پیدا ہونے والے مردوزن کا ڈیٹا دیکھا گیا ہے۔ اس دوران 5 فیصد بچے وقت سے پہلے پیدا ہوئے۔ ان میں سے 18 سال کی عمر تک پہنچنے والے 41300 افراد دمے اور 2700 افراد میں سی او پی ڈی کا مرض دیکھا گیا جو ایک اہم عدد ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان اعدادوشمار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی شماریاتی اہمیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پری ٹرم پیدا ہونے والوں بچے پوری زندگی سانس اور پھیپھڑوں کےنظام پر خصوصی توجہ دیں۔
اس ضمن میں فِن لینڈ اور ناروے میں 26 لاکھ افراد کا کئی برس تک سروے اور فالو آپ کیا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا ہے کہ وسط عمر(40 برس) تک کرونک، اوبسٹرکٹوو پلمونری ڈیزیز(سی او پی ڈی) اور دمے کا خطرہ رہتا ہے۔ سی او پی ڈی ہو یا دمہ، دونوں میں سانس کی نالیاں شدید متاثر ہوتی ہیں اور سانس لینے میں شدید دشواری ہوتی ہے۔
37 ہفتوں سے پہلے زچگی والے بچوں کو قبل ازوقت پیدائش کہا جاتا ہے۔ اور اگر 28 ہفتے سے پہلے ہی بچہ اس دنیا میں آجاتا ہے تو وہ انتہائی قبل ازوقت پیدائش کہلاتی ہے۔ اس طرح پیدا ہونے والے بچوں میں نارمل بچوں کے مقابلے میں دمے اور سی اوپی ڈی کا خطرہ تین گنا بڑھ جاتا ہے۔
تاہم 37 اور 38 ہفتوں والے بچوں میں بھی اس کا معمولی خطرہ ضرور ہوسکتا ہے۔ اس کی تصدیق ناروے یونیورسٹی فار سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ڈاکٹر کیری ریسنیس اور ان کے ساتھیوں کے مطابق قبل ازوقت پیدائش سے پھیپھڑوں کو جو نقصان ہوتا ہے وہ طویل عرصے تک برقرار رہتا ہے۔ اب اگر اس میں بیماری ، تمباکو نوشی اور آلودگی وغیرہ کو نکال دیا جائے تب بھی یہ خطرہ اپنی جگہ واضح رہتا ہے۔
سائنسدانوں نے 1987 سے 1998 تک میں فن لینڈ میں جنم لینے والے لاکھوں افراد کا ڈیٹا لیا ہے جبکہ ناروے میں 1967 سے 1999 تک پیدا ہونے والے مردوزن کا ڈیٹا دیکھا گیا ہے۔ اس دوران 5 فیصد بچے وقت سے پہلے پیدا ہوئے۔ ان میں سے 18 سال کی عمر تک پہنچنے والے 41300 افراد دمے اور 2700 افراد میں سی او پی ڈی کا مرض دیکھا گیا جو ایک اہم عدد ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ان اعدادوشمار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی شماریاتی اہمیت ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پری ٹرم پیدا ہونے والوں بچے پوری زندگی سانس اور پھیپھڑوں کےنظام پر خصوصی توجہ دیں۔