بڑھتی مہنگائی مردانہ قمیص شلوار سلائی کی اجرت 1500 لی جانے لگی
مردانہ سوٹ کی اجرت میں اس سال مزید 300روپے اضافہ کر دیا گیا
عید کے لیے مردانہ ملبوسات کی سلائی کی اجرت میں اس سال مزید 300 روپے تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
شہر کے مختلف علاقوں میں قائم مردانہ ملبوسات کی مستقل ٹیلر شاپس اس سال شلوار سوٹ کی سلائی کی اجرت 1500روپے طلب کررہی ہیں گزشتہ سال 1200روپے تک سلائی لی گئی تھی اس سال لگ بھگ 300 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔
سیزنل ٹیلرز کم از کم 1200 روپے اجرت وصول کررہے ہیں۔ ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کاریگروں کی اجرت کے علاوہ میٹریل اور بجلی کی لاگت بڑھنے سے سلائی کی اجرت بڑھ گئی ہے۔
بڑھتی ہوئی اجرت کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد سلے سلائے ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دے رہی ہے اور بیشترگھرانوں میں ملبوسات سلوانے کا رجحان کم ہورہا ہے۔
سلائی انتہائی مہنگی ہونے کے باوجودکوئی ٹیلرفارغ نہیں
اجرت بڑھنے اور سلے سلائے ملبوسات کی خریداری کے رجحان میں اضافہ کے باوجود شہر کا کوئی ٹیلر فارغ بیٹھا دکھائی نہیں دیتا سب ہی مصروف نظر آتے اور سلائی کا آرڈر لینے میں نخرے دکھاتے ہیں۔ سمجھدار شہری شعبان کے مہینے میں ہی عید کے ملبوسات ٹیلرز کے حوالے کردیتے ہیں یا زیادہ تر پہلے ہفتہ میں کپڑا خرید کر درزی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
زیادہ مصروف ٹیلرز مخصوص گاہکوں کے آرڈرز لیتے ہیں تاکہ معیاری سلائی کرکے گاہکوں کو اطمینان بخش سروس مہیا کی جاسکے تاہم ایسے ٹیلرز منہ مانگی اجرت طلب کرتے ہیں، عید کے لیے کپڑے کی سلائی کے آرڈرز زیادہ سے زیادہ 15ویں روزے تک بک کیے جاتے ہیں شہر میں مردانہ سلائی کے مراکز اور مشہور ٹیلرنگ شاپس پر رمضان کے پہلے ہفتے میں ہی نو بکنگ کے بورڈ آویزاں کردیے جاتے ہیں۔
رمضان سیزن کیلیے ٹیلرسندھ وپنجاب سے بھی آتے ہیں
ٹیلرنگ شاپ چلانے والوں کو درزی، ٹیلر ماسٹر یا عرف عام میں ماسٹر کہا جاتا ہے عموماً درزی خود دکان کے مالک ہوتے ہیں جو اپنی معاونت کے لیے رمضان کے مہینے میں اضافی کاریگر رکھ لیتے ہیں۔
کراچی میں ٹیلرنگ کے لیے سندھ اور پنجاب سے بھی کاریگر آتے ہیں جو شعبان کے آخری ہفتے سے رمضان کے اختتام تک کام کرکے روزگار کماتے ہیں اور عید کی صبح اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہوتے ہیں۔
ٹیلرنگ کی اجرت بڑھنے کے باوجود ہر سال شہر میں بڑے پیمانے پر سیزنل ٹیلرنگ شاپس بھی کھل جاتی ہیں جو مستقل ٹیلرز کے مقابلے میں رعایتی اجرت وصول کرتے ہیں لیکن ان کی مہارت اور سلائی کا معیار مستقل ٹیلرنگ شاپ کے برابر نہیں ہوتا ایسے بھی گھرانے ہیں جو عید کے لیے ملبوسات سلوانے کی روایت اجرت بڑھ جانے کے باوجود ترک کرنے پر آمادہ نہیں او ایسے خاندان کے تمام افراد کے لیے مخصوص ٹیلرز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسے فیملی ٹیلرکا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
ملبوسات کی سلائی سے لاکھوں شہریوںکاروزگارجڑگیا
ملبوسات کی سلائی سے کئی لوگوں کا روزگار جڑا ہے ٹیلرنگ کا کام کئی مراحل میں ہوتا ہے ماہر درزی ناپ لے کر ناپ کے مطابق کپڑا کاٹ کر سلائی کے کاریگروں کے حوالے کرتے ہیں، قمیص اور شلواریں الگ الگ کاریگر تیار کرتے ہیں، اکثر نوجوان گاہک قمیص کے کالر، کف یا تعویذ پر کڑھائی کرواتے ہیں ایسے ملبوسات کی اجرت عام ملبوسات سے زیادہ وصول کی جاتی ہے۔
اس طرح درزیوں کے ساتھ مشین سے کڑھائی کرنے والوں کا کاروبار بھی چلتا ہے، درزیوں کا کام کاج اوور لاک کرنے والوں، سلائی مشینوں کی مرمت کرنے والوں، قینچی پر دھار لگانے والوں، دھاگا، بٹن، بکرم اور دیگر لوازمات میٹریل فروخت کرنے والی دکانوں سے جڑا ہوتا ہے۔
تیار سوٹ کی شکنیں دور کرنے کے لیے استری (پریس) کی جاتی ہے اور تھیلیوں میں پیک کرکے رکھا جاتا ہے عید کے لیے زیادہ آرڈز ہونے کی وجہ سے ملبوسات کی شناخت اور گاہکوں کو درست ملبوسات کی ڈلیوری کے لیے کپڑوں پر کوڈز کی شکل میں بکنگ کے نمبر درج کیے جاتے ہیں اور پیک شدہ ملبوسات کو بکنگ کی رسید لگاکر رکھا جاتا ہے۔
ٹیلرنگ شاپس میں کاریگروں کے ساتھ ہیلپرز کی بھی مدد لی جاتی ہے جو چھوٹے موٹے کام میں مدد کرتے ہیں عموماً ایک چھوٹی ٹیلرنگ شاپ میں ماسٹر، دو کاریگر اور ایک سے دو ہیلپرز ہوتے ہیں۔
روایتی گھیردارشلواروچست قمیص پہناؤںکاحصہ بن گئیں
کراچی میں عید پر مردانہ ملبوسات مختلف ثقافتوں میں ہم آہنگی کا بھی اظہار کرتے ہیں، شہر میں ایک برادری کے افراد دوسری برادری کے اسٹائل اور ڈیزائن کے ملبوسات زیب تن کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنی برادری میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک مثال بلوچی شلوار سوٹ کی ہے، بلوچی شلواریں گھیر دار قمیص گول دامن اور نسبتاً اونچی ہوتی ہیں جن کا شولڈر (تیرہ) گرا ہوا ہوتا ہے اور ڈھیلے ڈھالے انداز کی یہ شلوار قمیص گرم موسم میں زیادہ موزوں رہتی ہے۔
کراچی میں لیاری کے علاقے کے ٹیلرز اس طرح کے ملبوسات تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، کراچی میں دیگر زبانیں بولنے والے بلوچی اسٹائل کا شلوار قمیص بھی سلوانا پسند کرتے ہیں اسی طرح کراچی کی پشتون برادری میں فٹنگ کی قمیص پسند کی جاتی ہے جو پشتون نوجوانوں کی مضبوط جسامت کو ظاہر کرتی ہے۔
اس اسٹائل کو دیگر برادریوں کے نوجوان بھی پسند کرتے ہیں، سندھ کی روایتی گھیر دار شلواریں چست قمیصیں بھی عید کے پہناؤں کا حصہ بنتی ہیں، ہزارہ اور کوئٹہ وال پشتون آڑے گلے یا گول گلے کی قمیص سلواتے ہیں یہ اسٹائل بھی منفرد اور جاذب نظر ہونے کی وجہ سے شخصیت کو ممتاز بناتا ہے۔
عموماً مخصوص برادری اور ثقافت کا اظہار کرنے والے ملبوسات برادری کے رہائشی علاقوں کے ٹیلرز ہی تیار کرتے ہیں اس لیے دیگر برادریوں کے افراد زیادہ تر نوجوان ایک دوسرے کی کمیونٹی میں جاکر یہ ملبوسات سلواتے ہیں اور رمضان کی راتوں میں شہر کی مختلف رنگارنگ ثقافتوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔
کریم سینٹر، کوآپریٹیومارکیٹ میں سلائی کے بڑے کارخانے قائم ہیں
کراچی میں مردانہ ملبوسات کی سلائی کے بڑے مراکز صدر کریم سینٹر، کوآپریٹیو مارکیٹ میں قائم ہیں جہاں آخری عشرے تک سلائی کے آرڈز لیے جاتے ہیں عید قریب آتے آتے سلائی کی اجرت بھی بڑھ جاتی ہے،کریم سینٹر اور کو آپریٹیو مارکیٹ میں سلائی کے بڑے کارخانے قائم ہیں جہاں رمضان کے دنوں میں دن رات سلائی کا کام جاری رہتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف علاقائی بازاروں میں بھی درزیوں کی مارکیٹیں قائم ہیں جہاں دن را سلائی جاری رہتی ہے۔
ریڈی میڈملبوسات کی مانگ بڑھنے اورلوڈشیڈنگ سے ٹیلروںکاکام متاثر
ٹیلروں کے مطابق ریڈی میڈ ملبوسات کی مانگ میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ٹیلرنگ کا کام متاثر ہورہا ہے، ٹیلرنگ کی شاپ چلانے والے دکان پر آرڈر بک کرکے ایسے علاقے میں کارخانے قائم کرتے ہیں جہاں بجلی کی دستیابی آسان اور یقین ہو ایسے کارخانوں میں کاریگر دن رات سلائی میں مصروف رہتے ہیں ان میں زیادہ تر شہر کے باہر سے آنے والے کاریگر شامل ہیں جو کارخانوں میں ہی قیام کرتے ہیں۔
ٹیلرنگ کی اجرت میں اضافہ کی ایک اہم وجہ کاریگروں کی یومیہ اجرت میں اضافہ ہے ٹیلرنگ کے کاریگر فی سوٹ کے علاوہ یومی دیہاڑی پر بھی کام کرتے ہیں اس سال کاریگروں کی یومیہ دہاڑی 2000 روپے کے لگ بھگ ادا کی جارہی ہے چھوٹی ٹیلرنگ شاپس پر کاریگروں کو 1500 روپے تک یومیہ اجرت دی جارہی ہے۔
چاند رات کو ٹیلر کی دکان پوری رات کھلی رہتی ہیں
چاند رات کو ٹیلرنگ شاپس عموماً پوری رات کھلی رہتی ہیں زیادہ تر کاریگر بھی اپنے لیے ملبوسات آخری ایک دو روزمیں تیار کرتے ہیں درزیوں کی عید کا پورا ہفتہ آرام کرکے گزرتا ہے اور عید کی تعطیلات کے فوری بعد شادی بیاہ کے سیزن کے لیے مردانہ ملبوسات کی تیاری کا کام شروع ہوجاتا ہے شہر میں کام کرنے والے درزیوں کا سیزن شعبان سے ذوالحج تک جاری رہتا ہے ٹیلرز کے مطابق ربیع الاوّل کے مہینے میں نئے ملبوسات کی تیاری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
آستین اورکالرپرشوخ رنگوں کے کپڑے سے ڈبل پٹیوں میں ڈیزائن کا فیشن عام
کڑھائی کے علاوہ آستین اور کالر پر شوخ رنگوں کے کپڑے سے ڈبل پٹیوں میں ڈیزائننگ کا فیشن بھی عام ہے بیشتر درزی 10روزے گزرنے کے بعد ڈیزائننگ اور کڑھائی والے ملبوسات کے آرڈر لینا بند کردیتے ہیں گرمی کی وجہ سے اس بار مردانہ ملبوسات کے لیے بھی ہلکی کاٹن اور لان کے کرتے سلوائے جارہے ہیں کاٹن کے سوٹ کی سلائی واش اینڈ ویئر مبلوسات سے زیادہ وصول کی جاتی ہے کاٹن اور ہلکے کپڑے کے مقابلوں میں واش اینڈ ویئر مبلوسات کی سلائی کا تناسب 30 فیصد تک محدود ہے۔
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن اورجدت بڑھ گئی
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن کا رجحان عام ہورہا ہے۔ درزیوں سے سلائی کرنے والے زیادہ تر نوجوان کرتے اور قمیصوں پر ہلکی کڑھائی کو ترجیح دیتے ہیں، کالر اور آستینوں کے علاوہ سامنے کے رخ پر تعویز کے اطراف کڑھائی والے سوٹوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے کڑھائی والے سوٹوں کی سلائی کی اجرت بھی معمول سے زائد ہے جبکہ کڑھائی کے لیے ڈیزائن کے لحاظ سے 300 سے 500 روپے اضافی وصول کیے جاتے ہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے درزیوںکاکام بری طرح متاثر
شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دن کے اوقات میں سلائی کا کام بری طرح متاثر ہورہا ہے ٹیلرنگ کا کام کرنے والے زیادہ تر رات کے وقت سلائی کرتے ہیں جو سحری تک جاری رہتا ہے، بڑے ٹیلرز نے دن رات سلائی کے لیے کمرشل اور گھریلو علاقوں میں عارضی طور پر کرائے کی جگہوں پر سلائی کرتے ہیں جہاں کاریگروں کے آرام اور سونے کھانے پینے کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے اور بجلی جانے کی صورت میں گیس سے چلنے والے جنریٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔
درزی اپنے اور اہل خانہ کے کپڑے چاند رات کوسیتے ہیں
ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کے مطابق چراغ تلے اندھیرا کے مصداق خود دزیوں اور ان کے اہل خانہ کے ملبوسات چاند رات کو تیار کیے جاتے ہیں، رمضان میں بک کرائے گئے ملبوسات لینے والے گاہک عید سے ایک تا دو روز قبل ہی ٹیلرنگ شاپس کا رخ کرتے ہیں اس دوران درزی ملبوسات کی ڈلیوری اور اجرت کی وصولی میں مصروف رہتے ہیں اور تمام گاہکوں کو نمٹانے کے بعد درزی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے کپڑوں کی سلائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
شہر کے مختلف علاقوں میں قائم مردانہ ملبوسات کی مستقل ٹیلر شاپس اس سال شلوار سوٹ کی سلائی کی اجرت 1500روپے طلب کررہی ہیں گزشتہ سال 1200روپے تک سلائی لی گئی تھی اس سال لگ بھگ 300 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔
سیزنل ٹیلرز کم از کم 1200 روپے اجرت وصول کررہے ہیں۔ ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کاریگروں کی اجرت کے علاوہ میٹریل اور بجلی کی لاگت بڑھنے سے سلائی کی اجرت بڑھ گئی ہے۔
بڑھتی ہوئی اجرت کی وجہ سے شہریوں کی بڑی تعداد سلے سلائے ملبوسات کی خریداری کو ترجیح دے رہی ہے اور بیشترگھرانوں میں ملبوسات سلوانے کا رجحان کم ہورہا ہے۔
سلائی انتہائی مہنگی ہونے کے باوجودکوئی ٹیلرفارغ نہیں
اجرت بڑھنے اور سلے سلائے ملبوسات کی خریداری کے رجحان میں اضافہ کے باوجود شہر کا کوئی ٹیلر فارغ بیٹھا دکھائی نہیں دیتا سب ہی مصروف نظر آتے اور سلائی کا آرڈر لینے میں نخرے دکھاتے ہیں۔ سمجھدار شہری شعبان کے مہینے میں ہی عید کے ملبوسات ٹیلرز کے حوالے کردیتے ہیں یا زیادہ تر پہلے ہفتہ میں کپڑا خرید کر درزی کے سپرد کردیا جاتا ہے۔
زیادہ مصروف ٹیلرز مخصوص گاہکوں کے آرڈرز لیتے ہیں تاکہ معیاری سلائی کرکے گاہکوں کو اطمینان بخش سروس مہیا کی جاسکے تاہم ایسے ٹیلرز منہ مانگی اجرت طلب کرتے ہیں، عید کے لیے کپڑے کی سلائی کے آرڈرز زیادہ سے زیادہ 15ویں روزے تک بک کیے جاتے ہیں شہر میں مردانہ سلائی کے مراکز اور مشہور ٹیلرنگ شاپس پر رمضان کے پہلے ہفتے میں ہی نو بکنگ کے بورڈ آویزاں کردیے جاتے ہیں۔
رمضان سیزن کیلیے ٹیلرسندھ وپنجاب سے بھی آتے ہیں
ٹیلرنگ شاپ چلانے والوں کو درزی، ٹیلر ماسٹر یا عرف عام میں ماسٹر کہا جاتا ہے عموماً درزی خود دکان کے مالک ہوتے ہیں جو اپنی معاونت کے لیے رمضان کے مہینے میں اضافی کاریگر رکھ لیتے ہیں۔
کراچی میں ٹیلرنگ کے لیے سندھ اور پنجاب سے بھی کاریگر آتے ہیں جو شعبان کے آخری ہفتے سے رمضان کے اختتام تک کام کرکے روزگار کماتے ہیں اور عید کی صبح اپنے آبائی علاقوں کو روانہ ہوتے ہیں۔
ٹیلرنگ کی اجرت بڑھنے کے باوجود ہر سال شہر میں بڑے پیمانے پر سیزنل ٹیلرنگ شاپس بھی کھل جاتی ہیں جو مستقل ٹیلرز کے مقابلے میں رعایتی اجرت وصول کرتے ہیں لیکن ان کی مہارت اور سلائی کا معیار مستقل ٹیلرنگ شاپ کے برابر نہیں ہوتا ایسے بھی گھرانے ہیں جو عید کے لیے ملبوسات سلوانے کی روایت اجرت بڑھ جانے کے باوجود ترک کرنے پر آمادہ نہیں او ایسے خاندان کے تمام افراد کے لیے مخصوص ٹیلرز کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں جسے فیملی ٹیلرکا درجہ حاصل ہوتا ہے۔
ملبوسات کی سلائی سے لاکھوں شہریوںکاروزگارجڑگیا
ملبوسات کی سلائی سے کئی لوگوں کا روزگار جڑا ہے ٹیلرنگ کا کام کئی مراحل میں ہوتا ہے ماہر درزی ناپ لے کر ناپ کے مطابق کپڑا کاٹ کر سلائی کے کاریگروں کے حوالے کرتے ہیں، قمیص اور شلواریں الگ الگ کاریگر تیار کرتے ہیں، اکثر نوجوان گاہک قمیص کے کالر، کف یا تعویذ پر کڑھائی کرواتے ہیں ایسے ملبوسات کی اجرت عام ملبوسات سے زیادہ وصول کی جاتی ہے۔
اس طرح درزیوں کے ساتھ مشین سے کڑھائی کرنے والوں کا کاروبار بھی چلتا ہے، درزیوں کا کام کاج اوور لاک کرنے والوں، سلائی مشینوں کی مرمت کرنے والوں، قینچی پر دھار لگانے والوں، دھاگا، بٹن، بکرم اور دیگر لوازمات میٹریل فروخت کرنے والی دکانوں سے جڑا ہوتا ہے۔
تیار سوٹ کی شکنیں دور کرنے کے لیے استری (پریس) کی جاتی ہے اور تھیلیوں میں پیک کرکے رکھا جاتا ہے عید کے لیے زیادہ آرڈز ہونے کی وجہ سے ملبوسات کی شناخت اور گاہکوں کو درست ملبوسات کی ڈلیوری کے لیے کپڑوں پر کوڈز کی شکل میں بکنگ کے نمبر درج کیے جاتے ہیں اور پیک شدہ ملبوسات کو بکنگ کی رسید لگاکر رکھا جاتا ہے۔
ٹیلرنگ شاپس میں کاریگروں کے ساتھ ہیلپرز کی بھی مدد لی جاتی ہے جو چھوٹے موٹے کام میں مدد کرتے ہیں عموماً ایک چھوٹی ٹیلرنگ شاپ میں ماسٹر، دو کاریگر اور ایک سے دو ہیلپرز ہوتے ہیں۔
روایتی گھیردارشلواروچست قمیص پہناؤںکاحصہ بن گئیں
کراچی میں عید پر مردانہ ملبوسات مختلف ثقافتوں میں ہم آہنگی کا بھی اظہار کرتے ہیں، شہر میں ایک برادری کے افراد دوسری برادری کے اسٹائل اور ڈیزائن کے ملبوسات زیب تن کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اور اپنی برادری میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک مثال بلوچی شلوار سوٹ کی ہے، بلوچی شلواریں گھیر دار قمیص گول دامن اور نسبتاً اونچی ہوتی ہیں جن کا شولڈر (تیرہ) گرا ہوا ہوتا ہے اور ڈھیلے ڈھالے انداز کی یہ شلوار قمیص گرم موسم میں زیادہ موزوں رہتی ہے۔
کراچی میں لیاری کے علاقے کے ٹیلرز اس طرح کے ملبوسات تیار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں، کراچی میں دیگر زبانیں بولنے والے بلوچی اسٹائل کا شلوار قمیص بھی سلوانا پسند کرتے ہیں اسی طرح کراچی کی پشتون برادری میں فٹنگ کی قمیص پسند کی جاتی ہے جو پشتون نوجوانوں کی مضبوط جسامت کو ظاہر کرتی ہے۔
اس اسٹائل کو دیگر برادریوں کے نوجوان بھی پسند کرتے ہیں، سندھ کی روایتی گھیر دار شلواریں چست قمیصیں بھی عید کے پہناؤں کا حصہ بنتی ہیں، ہزارہ اور کوئٹہ وال پشتون آڑے گلے یا گول گلے کی قمیص سلواتے ہیں یہ اسٹائل بھی منفرد اور جاذب نظر ہونے کی وجہ سے شخصیت کو ممتاز بناتا ہے۔
عموماً مخصوص برادری اور ثقافت کا اظہار کرنے والے ملبوسات برادری کے رہائشی علاقوں کے ٹیلرز ہی تیار کرتے ہیں اس لیے دیگر برادریوں کے افراد زیادہ تر نوجوان ایک دوسرے کی کمیونٹی میں جاکر یہ ملبوسات سلواتے ہیں اور رمضان کی راتوں میں شہر کی مختلف رنگارنگ ثقافتوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔
کریم سینٹر، کوآپریٹیومارکیٹ میں سلائی کے بڑے کارخانے قائم ہیں
کراچی میں مردانہ ملبوسات کی سلائی کے بڑے مراکز صدر کریم سینٹر، کوآپریٹیو مارکیٹ میں قائم ہیں جہاں آخری عشرے تک سلائی کے آرڈز لیے جاتے ہیں عید قریب آتے آتے سلائی کی اجرت بھی بڑھ جاتی ہے،کریم سینٹر اور کو آپریٹیو مارکیٹ میں سلائی کے بڑے کارخانے قائم ہیں جہاں رمضان کے دنوں میں دن رات سلائی کا کام جاری رہتا ہے۔اس کے علاوہ مختلف علاقائی بازاروں میں بھی درزیوں کی مارکیٹیں قائم ہیں جہاں دن را سلائی جاری رہتی ہے۔
ریڈی میڈملبوسات کی مانگ بڑھنے اورلوڈشیڈنگ سے ٹیلروںکاکام متاثر
ٹیلروں کے مطابق ریڈی میڈ ملبوسات کی مانگ میں اضافہ اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے ٹیلرنگ کا کام متاثر ہورہا ہے، ٹیلرنگ کی شاپ چلانے والے دکان پر آرڈر بک کرکے ایسے علاقے میں کارخانے قائم کرتے ہیں جہاں بجلی کی دستیابی آسان اور یقین ہو ایسے کارخانوں میں کاریگر دن رات سلائی میں مصروف رہتے ہیں ان میں زیادہ تر شہر کے باہر سے آنے والے کاریگر شامل ہیں جو کارخانوں میں ہی قیام کرتے ہیں۔
ٹیلرنگ کی اجرت میں اضافہ کی ایک اہم وجہ کاریگروں کی یومیہ اجرت میں اضافہ ہے ٹیلرنگ کے کاریگر فی سوٹ کے علاوہ یومی دیہاڑی پر بھی کام کرتے ہیں اس سال کاریگروں کی یومیہ دہاڑی 2000 روپے کے لگ بھگ ادا کی جارہی ہے چھوٹی ٹیلرنگ شاپس پر کاریگروں کو 1500 روپے تک یومیہ اجرت دی جارہی ہے۔
چاند رات کو ٹیلر کی دکان پوری رات کھلی رہتی ہیں
چاند رات کو ٹیلرنگ شاپس عموماً پوری رات کھلی رہتی ہیں زیادہ تر کاریگر بھی اپنے لیے ملبوسات آخری ایک دو روزمیں تیار کرتے ہیں درزیوں کی عید کا پورا ہفتہ آرام کرکے گزرتا ہے اور عید کی تعطیلات کے فوری بعد شادی بیاہ کے سیزن کے لیے مردانہ ملبوسات کی تیاری کا کام شروع ہوجاتا ہے شہر میں کام کرنے والے درزیوں کا سیزن شعبان سے ذوالحج تک جاری رہتا ہے ٹیلرز کے مطابق ربیع الاوّل کے مہینے میں نئے ملبوسات کی تیاری کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔
آستین اورکالرپرشوخ رنگوں کے کپڑے سے ڈبل پٹیوں میں ڈیزائن کا فیشن عام
کڑھائی کے علاوہ آستین اور کالر پر شوخ رنگوں کے کپڑے سے ڈبل پٹیوں میں ڈیزائننگ کا فیشن بھی عام ہے بیشتر درزی 10روزے گزرنے کے بعد ڈیزائننگ اور کڑھائی والے ملبوسات کے آرڈر لینا بند کردیتے ہیں گرمی کی وجہ سے اس بار مردانہ ملبوسات کے لیے بھی ہلکی کاٹن اور لان کے کرتے سلوائے جارہے ہیں کاٹن کے سوٹ کی سلائی واش اینڈ ویئر مبلوسات سے زیادہ وصول کی جاتی ہے کاٹن اور ہلکے کپڑے کے مقابلوں میں واش اینڈ ویئر مبلوسات کی سلائی کا تناسب 30 فیصد تک محدود ہے۔
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن اورجدت بڑھ گئی
مردانہ ملبوسات میں بھی فیشن کا رجحان عام ہورہا ہے۔ درزیوں سے سلائی کرنے والے زیادہ تر نوجوان کرتے اور قمیصوں پر ہلکی کڑھائی کو ترجیح دیتے ہیں، کالر اور آستینوں کے علاوہ سامنے کے رخ پر تعویز کے اطراف کڑھائی والے سوٹوں کی ڈیمانڈ زیادہ ہے کڑھائی والے سوٹوں کی سلائی کی اجرت بھی معمول سے زائد ہے جبکہ کڑھائی کے لیے ڈیزائن کے لحاظ سے 300 سے 500 روپے اضافی وصول کیے جاتے ہیں۔
بجلی کی لوڈشیڈنگ سے درزیوںکاکام بری طرح متاثر
شہر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے دن کے اوقات میں سلائی کا کام بری طرح متاثر ہورہا ہے ٹیلرنگ کا کام کرنے والے زیادہ تر رات کے وقت سلائی کرتے ہیں جو سحری تک جاری رہتا ہے، بڑے ٹیلرز نے دن رات سلائی کے لیے کمرشل اور گھریلو علاقوں میں عارضی طور پر کرائے کی جگہوں پر سلائی کرتے ہیں جہاں کاریگروں کے آرام اور سونے کھانے پینے کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے اور بجلی جانے کی صورت میں گیس سے چلنے والے جنریٹرز استعمال کیے جاتے ہیں۔
درزی اپنے اور اہل خانہ کے کپڑے چاند رات کوسیتے ہیں
ٹیلرنگ کے کام سے وابستہ افراد کے مطابق چراغ تلے اندھیرا کے مصداق خود دزیوں اور ان کے اہل خانہ کے ملبوسات چاند رات کو تیار کیے جاتے ہیں، رمضان میں بک کرائے گئے ملبوسات لینے والے گاہک عید سے ایک تا دو روز قبل ہی ٹیلرنگ شاپس کا رخ کرتے ہیں اس دوران درزی ملبوسات کی ڈلیوری اور اجرت کی وصولی میں مصروف رہتے ہیں اور تمام گاہکوں کو نمٹانے کے بعد درزی اپنے اور اپنے اہل خانہ کے کپڑوں کی سلائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔