اگر آئین موجود ہوتا تو پاکستان کبھی دولخت نہ ہوتا
1916 میں میثاق لکھنو سے لے کر 1945-46 کے عام انتخابات تک قائد اعظم محمد علی جناح کی آئینی جدوجہد بے مثال تھی
پاکستان کے دستور کی گولڈن جوبلی کی مناسبت سے خصوصی تحریر ۔ فوٹو : فائل
16 دسمبر 1971 ء وہ منحوس دن ہے جب ہمارا ملک پا کستا ن دو لخت ہو گیا تھا۔ اس سانحہ کی دیگر کئی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اُس وقت ہمارے ملک میں کوئی آئین نہیں تھا اور بڑی بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ آج جب ہم 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی منارہے ہیں تو ملک ایک مرتبہ پھر آئینی بحران سے دوچار ہے۔
آئین کی اہمیت انسانی تاریخ میں ہمیشہ سے رہی ہے اور تاریخ میں جہاں جہاں اورجس جس ملک میں آئین اور آئین کی پاسداری رہی وہاں امن آتشی اور انصاف کا بول بالا رہا۔ تاریخ انسانی میں تین ہزار سال700 سال قبل ( 1750 قبل مسیح سے 1810قبل مسیح) ہیمورابی بابل (موجودہ عراق) میں ایسا بادشاہ گذرا ہے جس نے اُس وقت دنیا میں پہلی بار اپنے ملک میں انسانوں کا بنایا ہوا آئین دیا۔ اس لیے ہیمو رابی دنیا کا پہلا قانون دان بھی کہلاتا ہے۔
اُس نے یہ تمام قوانین پتھر کی بڑی سِل پر کندہ کروا کر دریاِ دجلہ اور فرات کی درمیان زرخیر سر زمین اور قدیم تہذیب کی حامل اپنی سلطنت میں نصب کروا دیا تھا۔ اس دستور میں انسانی حقوق اور فرائض کا احاطہ کیا گیا تھا۔
اس کے بعد یونان اور پھر وسیع عظیم سطنت ِ روم 'جس کا اقتدارتقریباً ایک ہزار سال رہا' اِ ن کے ہاں بھی امور سلطنت چلانے کے قوانین اصول وضوابط تحریری شکل میں موجود تھے۔
لیکن اگر جمہوری طرز حکومت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دین اسلام میں نبی کریمﷺ کے زمانے میں خصوصاً جب اُن کی حکومت مکہ اور مدینہ میں قائم ہو گئی تو یہ دنیا کی پہلی جامع طرز کی جمہوریت تھی جس میں صاحب الرائے عالم ،دانشور اہم حکومتی امور میں مشورے دیتے تھے۔
مشاورت کی اہمیت یوں بیان کی گئی کہ ،،اگر کو ئی مشور دینے والا نہ ہو تو دیوار سے مشور ہ کر و،، پھر نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد جب خلافت راشدہ کا دور آیا جو 632 ء سے 661 ء تک رہا۔ یہ دنیا میں منتخب جمہوری اقتدار کا مثالی دور رہا جس میں صاحب الرائے افراد پر مشتمل مجلسِ شوریٰ تھی اور بڑے قومی و ملکی فیصلے مجلسِ شوریٰ کے باہمی مشوروں کے بعد ہو تے تھے۔
خلیفہ کا انتخاب خالص جمہوری انداز میں ہو تا۔ جب مجلسِ شوریٰ کے لوگ خلیفہ کو منتخب کرتے اُس کے ہاتھ پر بیعت کرتے اور اس کے بعد آبادی کے دیگرلوگ بھی خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ۔علامہ اقبال نے جمہوریت پر بہت گہرے فلاسفانہ انداز میں مشہور شعر کہا ہے ( جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں ۔۔ بندوں کو گنا کرتے ہیں تو لا نہیں کر تے ) اگر اس کو آج کی جمہوریت کے تناظر میں دیکھیں تو One Man One Vote یعنی 'ایک آدمی کا ایک ووٹ' تو اس شعر کا مطلب یو ں نکالا جا تا ہے کہ امیر غریب ، وزیراعظم اور ایک عام آدمی سب کا ایک ایک ووٹ ہو گا۔ آج کی جمہوریت میں اسی کو جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے، لیکن پوری دنیا کو کنٹرول کر نے والے ادارے اقوام متحدہ کے آئین کو دیکھیں تو اس وقت اس کی جنرل اسمبلی کے رکن ممالک کی تعداد 193 ہے۔
جبکہ اقوام متحدہ کو کنٹرول کرنے والی بااختیار باڈی اس کی سیکیو رٹی کو نسل یا سلامتی کو نسل ہے جس کے کل اراکین 15 ہیں اور اِن پندرہ اراکین میں سے پانچ مستقل رکن ہیں جو ویٹو پاور رکھتے ہیں جن میں امریکہ ، بر طانیہ، فرانس ، روس اور چین شامل ہیں۔
بعض دفعہ یہ ہو تا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے193 میں سے 191-192 رکن کسی مسئلہ کے حل کے لیے قراداد کے حق میں ووٹ دیتے ہیں پھر یہ مسئلہ سیکورٹی کو نسل میں جا تا ہے جہا ں 10 غیر مستقل اور پانچ میں سے چار مستقل اور ویٹو پاور کے حامل رکن اُس قرارداد کے حق میں ووٹ دیتے ہیں لیکن پا نچواںویٹو پاور کا حامل ملک اپنے ایک ووٹ سے اس قرار داد کو مسترد کر دیتا ہے تو وہ قرارداد مسترد ہو جا تی ہے۔
یو ں ہم جب خلافت راشدہ کا دور دیکھتے ہیں تو اس میں عام آدمی کے ووٹ کو بھی مناسب انداز میں توقیر دی گئی ہے اور دانشوروں اور ماہر ین کے ووٹ کو زیادہ، یعنی اُن کے وژن کے مطابق اہمیت دی گئی ہے۔ یو ں اسلام میں خلافت راشدہ جس میں فیصلے قرآن و حدیث اور سنت کی روشنی میں کئے گئے اور اِن فیصلو ں کا مجموعہ خلافت راشدہ کا آئین تھا۔
دنیا کے مختلف ملکوں میں بادشاہوں نے اپنے مفادات کے تحت حکومتیں چلائیں۔ قوانین عوام کے مفادات کے تحفظ کے بجائے بادشاہ کی خواہشات کی پیروی کا ذریعہ ہو تے تھے۔ مگر پھر یورپ سے تاریک عہد کا خاتمہ ہو نے لگا۔ علم و تحقیق اور آگہی نے دانشوروں کے حلقوں میں اثر دکھایا۔ یورپ میں برطانیہ ایسا ملک تھا جہاں ہاوس آف لارڈ ز نے خاصی جد و جہد کے بعد بادشاہ کے اختیارات محدود کرنے کا معاہد ہ 15 جون 1215 ء کو کیا جسے تاریخ میںMagnaCarta (میگنا کارٹا) کہا گیا جس کے تحت بادشاہ کے کئی اہم اختیارت ہاوس آف لارڈز کو منتقل ہو گئے۔
آنے والے زمانو ں میں اختیارت عوامی نمائندوں کی اسمبلی ہاوس آف کامن کو منتقل ہو تے رہے۔ اس طرح آج کی دنیا میں 'جمہوریت کی ماں' کہلا نے والے ملک بر طانیہ میں میگنا کارٹا ہی جدید اور معیاری جمہوری سنگ میل قرارپا یا اور یہی برطانیہ کی دستوری روایات کی بنیاد ہے۔
ہمارے ہاں برصغیر میں مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے دور میں اُس کے نورتن یعنی موتی جیسے 9 مشیر ان میں سے ابوالفضل بن مبارک جیسے دانشور نے آئینِ اکبری کے نام سے ایک مستند دستا ویزی کتاب لکھی جس میں اکبر کے عہد کے تمام قوانین ،اصول وضوابط ِ سلطنت کو تحریر کیا ۔
لیکن یہاں یہ یاد رہے کہ اُس وقت ہمارے ہاں غالباً برطانیہ کے میگنا کارٹا کا کسی کو کچھ علم بھی نہیں تھا اور اکبر اعظم کے دور میں بر طانیہ جمہوری ارتقا ئی منازل طے کر چکا تھا اس زمانے تک بر طانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اور کیمرج یو نیورسیٹی سمیت درجنوں یونیو رسیٹاں یورپ میں کھل چکیں تھیں اور جد ید جمہوری سیاسی نظریات عوامی شعور کواجا گر کرتے آگے بڑھ رہے تھے۔ فرانس میں اعظیم دانشور روسو اور والئٹیر میدانِ عمل میں آئے۔
1789 ء سے 1790 ء میں انقلاب فرانس رو نما ہوا مگر اس عظیم انقلاب کے پاس انقلاب کو کنٹرول کرنے والی لیڈر شپ نہیں تھی جس کے باعث نپولین بو نا پارٹ نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ لیکن یہاں بھی آئین کا بنیادی کردار رہا اور بعد کے دنوں میں نہ صرف فرانس میں جدید جمہوریت آئی بلکہ اس انقلاب کے گہرے اثرات خصوصاً روس اور امریکہ کی سیاست پر مرتب ہوئے۔
امریکہ میں جہاں صدراتی جمہوری نظام تھا وہاں صدر برام لنکن نے غلا م داری کے خاتمے کے لیے جدو جہد شروع کی جو امریکی خانہ جنگی کہلائی اور یہ خانہ جنگی 1860 ء سے 1864 ء تک جاری رہی اگرچہ اِس کو امریکہ میں اب بھی خانہ جنگی کہا جاتا ہے لیکن حقیقاً یہ امریکی انقلاب تھا۔
جس میں صدربرام لنکن نے کامیابی کے بعد نہ صرف غلام داری کا نظام امریکہ سے ختم کر دیا بلکہ امریکہ ایک جدید جمہوری ملک بن گیا اور اس کے آئین کو زیادہ تقویت حاصل ہو ئی۔ انقلابِ فرانس ہی کے اثرات تھے جس کی وجہ سے روس میں کارل مارکس کےاشتراکی نظریات کے تحت مزدورں اور کسانوں کے مفادات کے پیش نظر ایک خو نی انقلاب آیا اور اس کے لیے بھی ایک آئین بنایا گیا۔
1901 ء میں ہندوستان میں کچھ سو افراد ایسے تھے جو بر طانیہ سے قانون کی ڈگریاں حاصل کر کے ہندوستان آگئے تھے اور نہ صرف یہاں انگریز کے متعارف کردہ عدلیہ کے نظام میں بطور وکیل کا م کر رہے تھے بلکہ وہ برطا نیہ ، امریکہ سمیت یورپی ممالک کے جمہوری نظام اور آئینی امور کے ماہرین بھی بن چکے تھے۔
اِن میں گاندھی جی ، قائد اعظم ، علامہ اقبال اور نہرو کے علاوہ اور بہت سے وکلا اور بیرسٹر شامل تھے۔ ایک دو تو ایسے بھی تھے جو آئین اور آئین سازی پر پی ایچ ڈی کر چکے تھے۔ اس سے قبل ہندوستان میں سر سید دو قومی نظریے کی ترجمانی کر تے ہو ئے انگریزوں سے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ طریقہ انتخاب سمیت مسلما ن آبادی کے تناسب سے سرکاری ملازمتوں کا کو ٹہ بھی طلب کر لیا تھا اور اِن کے علی گڑھ کالج سے تعلیم یا فتہ مسلمانوں کی ایک بڑی کھیپ بھی تیار ہو چکی تھی۔
جب پہلی جنگ عظیم جاری تھی تو1916 ء میں مسلم لیگ اور کانگریس کے سالانہ اجلاس لکھنو میں منعقد ہو ئے، اس موقع پر قائد اعظم نے دونوں جماعتوں کے درمیان مستقبل میں کسی ممکنہ اور متفقہ آئین کی بنیاد پر ایک معاہدہ کروایا تھا اسی لئے قائد اعظم کو اس موقع پر ہندو مسلم اتحادہ کے سفیر کا خطاب دیا گیا تھا۔ یہ معاہد ہ میثاق لکھنو کہلایا جس میں ہندو ستان میں دوسری بڑی اکثریت یعنی مسلمانوں کے تحفظ کی بات کانگریس کی جانب سے تسلیم کر لی گئی۔
سب سے اہم بات یہ تھی کہ میثاق لکھنو قائد اعظم نے کانگریس سے مسلمانوں کے لیے جداگانہ طریقہ انتخابات کا اصول تسلیم کر وا لیا تھا۔
قائد اعظم کا موقف یہ تھا کہ جہاں تک بر طانیہ کی آبادی اور معاشرے کا تعلق ہے تو وہاں 97 فیصد آبادی انگریز نسل اور عیسائی مذہب کی حامل ہے اس لیے وہاں کسی جداگانہ طریقہ انتخاب کی ضرورت نہیں لیکن برٹش انڈیا جہاں 1900 ء کی مردم شمار ی کے مطابق آبادی 24 کروڑ تھی اور اس میں سے تقریباً آٹھ کروڑ سے زیادہ مسلمان تھے۔
اس لیے ہندوستان میں پارلیمانی نظام کو مستحکم انداز میں چلانے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان کا آئین مسلمانوں کے سیاسی ، سماجی ، مذہبی ، تمدنی، اقتصادی ، تاریخی ، ثقافتی اور تعلیمی شناخت کے تحفظ کی مکمل اور آئینی ضمانت دے۔
اس لیے اس لکھنو ایکٹ میں خصوصاً ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے جداگانہ انتخابات کی بنیاد کے ساتھ مستقبل میں ہند وستان کے لیے کسی آئین کی تشکیل کے لیے یہ نکات بھی طے پائے کہ آئین میں ہندوستان میں جب بھی مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات ہوں تو ہندوستان میں مسلم آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو صوبائی اور مرکزی اسمبلی کے لیے نشستیں دی جائیں۔
مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 30 فیصد تھا یوں مسلم لیگ اور کانگریس انتخابات کے موقعوں پر مسلم نشستوں پر اپنے مسلم نمائندے اور ہندو نشستوں پر اپنے ہندو نمانیدے کھڑے کرئے گی اور جب منتخب مرکزی اور صوبائی اسمبلیاں تشکیل پا جائیں گی اور قانون سازی ہو گی تو ایسی قانون سازی جس میں مسلمانوں کے حقوق پامال ہونے کا اندیشہ ہو یا ان کی شناخت کے متا ثر ہو نے کا خطرہ ہو تو اُس وقت اسمبلی کے کل مسلم اراکین کی دو تہائی اکثریت فیصلہ کن حیثیت رکھے گی۔
مثلاً مسلمانوں کی فیملی لاز یعنی شادی بیاہ کے قوانین۔ مسلمانوں کے ہاں مسلمان مرد مسلمان عورت یا اہل کتاب عورت سے شادی کر سکتا ہے جب کہ مسلمان عورت کسی بھی غیر مسلم سے شادی نہیں کر سکتی جیساکہ بعد میں آج کے بھارت میں ہو رہا ہے، پھر یہ بھی تھا کہ اگر لکھنو پیکٹ قائم رہتا تو اِس کا قوی امکان تھا کہ مشترکہ ہندوستان ہندو مسلم کل آبادی کی مشترکہ جد وجہد کے ساتھ اور1947 ء سے پہلے ہی آزاد ہو جاتا۔ بہرحال 1918 ء میں پہلی عالمی جنگ ختم ہو ئی اور لیگ آف نیشن کا ادارہ تشکیل پا یا۔
اب دنیا میں عالمی طاقت کے وکٹری اسٹینڈ پر پہلے نمبر پر برطانیہ کی بجا ئے امریکہ تھا اور برطانیہ کو دوسری بڑی طاقت اور کزن کنٹری کے طور پر امریکہ نے اپنا سب سے قریبی اتحادی تسلیم کر لیا تھا۔
تیسری عالمی قوت کے طور پر روس ابھر رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ کسی مسئلے کا حل جنگ نہیں مذاکرات ہو تے ہیں مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب مسئلے الجھ جا ئیں تو اِن کا حل جنگ ہی ہو تا ہے اور یہی صورتحال پہلی عالمی جنگ تھی جو عالمی سطح کے جابرانہ نو آبادیاتی نظام کے گراف کے آخری حد کو چھو نے کے بعد اب نیچے کی طرف آنے پر ہو ئی تھی۔ بر طانیہ سمیت پورا یورپ پہلی عالمی جنگ کے نتیجے میں خود بھی زخمی تھا برطانیہ ، فرانس ، اٹلی ، اسپین ، نیدر لینڈ سبھی اقتصادی بحرانوں سے گذر رہے تھے۔
1919 ء میں تیسری اینگلو افغان وار میں بر طانوی فوج کو جزوی شکست کے بعد برٹش انڈیا کی حکو مت افغانستان کے ہر دلعزیر بادشاہ غازی امان اللہ خان سے معاہد راولپنڈی کر چکی تھی۔ دوسری جانب ہندوستان میں تحریکِ خلافت مہاتما گاندی کی جانب سے عدم تشدد کے فلسفے کی پامالی کے بہا نے ناکا م ہو چکی تھی۔ بر طانیوی، امریکی سیاسی ، اقتصادی ماہرین اب دنیا میں آنیدہ دوڈھائی سو سالہ منصوبہ تشکیل دے رہے تھے۔
کیونکہ اب طاقت کے بل بو تے پر بر طانیہ کے لیے دنیا بھر کے 25 فیصد رقبے اور دنیا بھر کی 24 فیصد آبادی پر اپنے نو آبادیاتی قبضے کو برقرا رکھنا مالی اور اقتصادی طور پر فائد ہ مند دکھا ئی نہیں دے رہا تھا اور خصوصاً ایسی صورت میں جب چین اور دوسرے کچھ ملکوں میں نو آبادیاتی نظام کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہو چکی تھی۔
1928 ء ہی میں کا نگریس کو یہ احساس ہو گیا کہ اب مستقبل قر یب میں ہندوستان میں انگریز کچھ اختیارات کے ساتھ اپنی طرز کا پارلیمانی نظام جمہوریت ایک آئین کے تحت متعارف کر نا چاہتے ہیں تو کانگریس کے صد ر مو تی لال نہرو نے اپنی نہرو رپورٹ میں مسلم لیگ سے بغیر کسی مشاورت اور وجہ کے میثاق ِ لکھنو کو یک طرفہ طور پر مسترد کر دیا۔
موتی لال نہرو کو اب ہندو مفاد میں لکھنو پیکٹ کی کو ئی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ میثاق لکھنو تو کانگریس نے 1916 ء میں اُس وقت کیا تھا جب ترکیہ کی عثمانیہ خلافت جس کی رشتہ داری نظا م حیدر آباد سے بھی تھی وہ جرمنی کے اتحادی کے طور پر پہلی عالمی جنگ میں مصروف تھی اور اگر جرمنی اور خلا فت عثمانیہ جنگ میں فتح یاب ہو جاتی تو یہ لکھنو پیکٹ اُن کے فائد ے میں رہتا۔
1928 ء کی نہرو رپورٹ کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح نے لکھنو پیکٹ کو بچا نے کے لیے 1929 ء میں اپنے چودہ نکات پیش کئے مگر کانگریس اپنے موقف پر قائم رہی۔ سال بعد الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنے صدارتی خطبہ میں مسلم اکثریتی علاقوں پر مشتمل الگ اسلامی ملک پاکستان کا مطالبہ کر دیا اور اس کے بعد ہی انگریز نے ہندوستان میں پارلیمانی نظام حکومت میں یہاں کی سیاسی جماعتوں کی شرکت اور انتخابات کے نتیجے میں قائم ہو نے والی منتخب حکومتوں کے لیے آئین کی تشکیل کے لیے یہاں کی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ اور کانگریس کے قائدین سے ملاقاتیں اور مشاورت شروع کر دی۔
واضح رہے کہ انگریز ہندوستان کے لیے جو آئین بنا نا چا ہتا تھا اُس کی تشکیل ہندوستان کی کسی پارلیمنٹ کی بجائے برطا نوی پارلیمنٹ میں ہو نی تھی اور وہاں ہندوستان کی سیاسی جماعتوں اور اُن کے لیڈروں سے مشورے بھی لیئے جا رہے تھے اور اس مقصد کے لیے بعد میں لندن میں تین گو ل میز کانفرنسیں بھی ہو ئیں اس دوران ہی عظیم عالمی کساد بازاری پوری دنیا میں پھیل گئی۔
گانگریسی رہنماوں نے صرف ایک گول میز کانفرنس میں شرکت کی وہ انگریز پر یہ دباؤ ڈال رہے تھے کہ ہندوستان کی نمانیدہ سیاسی جماعت کانگریس ہے اس لیے قائد اعظم اور مسلم لیگ کے مطابات کو آئین میں شامل نہ کیا جا ئے۔ آخر کار 1935 ء قانونِ ہند یعنی انڈیا ایکٹ کو بر طانیہ کی پارلیمنٹ نے تشکیل دے دیا۔ اس آئین یعنی 1935 ء کے قانون ہند میں قائد اعظم کے اِن مطالبات کو شامل کر لیا گیا۔
نمبر1 ۔ جداگانہ طریقہ انتخابات کو آئین میں شامل کر لیا گیا
نمبر2 ۔ سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے الگ صوبہ بنا دیا گیا
نمبر3 ۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں سیاسی اصلاحات کو تسلیم کر لیا گیا۔
اِن اہم مطالبا ت کو تو تسلیم بھی کیا گیا اور 1935 ء کے آئین میں شامل کر لیا گیا مگرقائداعظم کی جانب سے بلو چستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جس کو انگریز سرکار نے تسلیم نہیں کیا اور اس مطالبے کو بر طانوی پارلیمنٹ نے مسترد کر دیا۔
اب 1935 کے قانونِ ہند کے نفاذ کے بعد 1937 ء میں اس قانون ہند کے تحت صوبائی سطح پر انتخابات ہو ئے اور اس سے قبل سندھ اور خیبر پختو نخواہ میں سیاسی اصلا حات ہو ئیں اور ہندوستان کے 9 صوبوں کی تعداد بڑھ کے 11 ہو گئی۔ الیکشن 1937 ء میں جب انتخابات ہو ئے تو اس میں کانگریس نے گیارہ صوبوں میں سے نو صوبوں میں اپنی وازراتیں بنائیں اور با قی دو صوبوں میں کانگریس نے وہاں کی مقامی جماعتوں کے اتحاد سے مخلوط حکومتیں بنا ئیں اور یوں 1937 ء کے انتخابات میںمسلم لیگ کو عبرت ناک شکست ہو ئی۔
اس کے بعد عالمی سطح پر حالات دوسری عالمی جنگ کی جانب بڑھنے لگے۔ ہٹلر جرمنی میں بر سر اقتدار آیا اب کانگریس کی قیادت یہ جانتی تھی کہ انگریز اب ہند وستان چھوڑ کر جا ئے گا۔ ہند وستان میں 1937 ء کے الیکشن کی وجہ سے ایک ہزار سال بعد ہندوں کو اقتدار ملا تھا تو ہندو ں نے مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں شروع کر دیں اور ان کے مالی سیاسی اور اقتصادی مفادات کو شدید نقصان پہنچا یا۔ اب مسلمانوں کو بہت افسوس تھا جنہوں نے کانگریس کو اِن انتخابات میں جتوایا تھا۔
دوسری جانب کانگریس انگریزوں پر دباؤ ڈال رہی تھی کہ 1937 ء کے انتخابات میں ہندوستان کے عوام کانگریس کو ہندوستان کی نمانیدہ جماعت کی سند عطا کر چکے ہیں اس لیے انگریز کانگریس کو یہ گارنٹی دے کہ وہ جب ہندوستان سے رخصت ہو گا تو اقتدار بلا شرکت ِ غیر کانگریس کے سپرد کر کے جائے گا۔ جب 1939 ء میں ہٹلر نے پو لینڈ پر قبضہ کر کے دوسری عالمی جنگ کا آغاز کردیا توانڈیا میں کانگریس نے موقع کو غنیمت جا نتے ہوئے انگریز سے عدم تعاون شروع کیا اور دباؤ میں مزید اضافہ کر دیا، پُر تشدد ہنگامے ہو نے لگے۔
1935 ء کے قانون ہند میں یہ شق مو جود تھی جس کے تحت انگریز اگر چا ہتا تو کانگریس کی صوبائی حکومتیں ختم کرکے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر تے ہوئے شدید کاروائی کر سکتا تھا لیکن اس موقع پر انگر یز سرکار نے جمہوریت پسندی کا مظاہر ہ کیا اور 1935 ء کے قانون ہند کے اس اختیار کو انگر یز گو رنر جنرل نے استعمال نہیں کیا تو کانگریس نے زچ ہو کر خود صوبائی وزارتوں سے استعفے دے دیئے۔
اس کے نتیجے میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کے تحت یو م نجات منایا اور مسلمانوں کو کانگریس کی احتجاجی تحریک سے دور رکھا یوں قائد اعظم نے یہ ثابت کردیا کہ ہند وستان کے مسلمانوں کی شمولیت کے بغیر انگریزوں کے خلاف کو ئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی ۔اس کے بعد 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں قرادا د ِپاکستان منظور ہوگئی۔
اُس وقت جنگِ عظیم دوئم میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو جرمنی کے مقابلے میں پسپائی کا سامنا رہا تحریکِ پاکستان کا سفر 1916 ء میں قائداعظم کی جانب سے آئینی جد وجہد کاایک ایسا سنگِ میل تھا جہاں قائد اعظم نے ہند و تنگ نظری کے مقابلے میں علامہ اقبال کے تصور ِپاکستان کو حقیقت میں ڈھالا اور پھر اس کے لیے قائد اعظم کی 1935 ء کے قانونِ ہند میں بڑی کامیابی جداگانہ طریقہ انتخاب اور دو مسلم اکثریت کے صوبوں کی تشکیل تھی۔
اگست1945 ء میںجاپان پر امریکہ کی جانب سے ایٹم بم گر انے کے بعد دوسری عالمی جنگ کاخاتمہ ہو گیا ، تو دسمبر1945 اور جنوری1946 ء میں غیر منقسم ہند و ستان میں 1935 ء کے قانون ِ ہند کے تحت 11 صوبائی اسمبلیوں اور مرکزی اسمبلی کے انتخابات ہو ئے جس میں 1937 ء کے صوبائی انتخابات کے برعکس مسلم لیگ نے مثالی کامیابی حاصل کی اور صوبائی سطح پر مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پر 90 فیصد کامیابی حاصل کی جب کہ مرکزی اسمبلی کی100نشستوں میں سے 30 کی30 مسلم نشستیں حاصل کر کے 100 فیصد کامیابی حاصل کی۔ اب مسلم لیگ ہندوستان میں تسلیم شدہ مسلم نمایندہ جماعت تھی۔
اب انگریز سرکاراور کانگریس کے پاس پاکستان کے مطالبے کو قبول کرنے کے سوا کو ئی چارہ نہ تھا۔ اب ملک کی تقسیم مسلم اکثریت والے علاقوں اور ہندو اکثریت والے علاقوں کی بنیاد پر ہو نا تھی۔ اگر تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ قائداعظم کی جانب سے آئینی جد وجہد کی مثالی کامیا بی تھی۔
1946 ء کے موسم سر ما کے بعد بھارت اور پاکستان کی آزادی کے لیے بیتابی بڑھ رہی تھی اُس وقت ہندوستان کی مجموعی آبادی 40 کروڑ ہو چکی تھی جس میں مسلمانوں کا تناسب 30 فیصد سے زیادہ تھا اور اِ ن کی کل آبادی 13 کروڑ کے قریب تھی۔
مارچ 1947 ء میں ہندوستان کے گورنر جنرل اور وائسرائے لارڈ ویول ہند وستان سے رخصت ہو ئے تو انڈونیشیا کے ہیرو کہلانے والے لارڈ ماونٹ بیٹن ہند وستان کے نئے اور آخری وائسرائے اور گورنر جنرل بن کر آئے اورصرف تین ماہ بعد 3 جون 1947 کو انہوں نے اعلان آزادی کر دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ بھارت اور پا کستان اگست تک آزاد ہو جائیں گے ، مگر اب چونکہ دونوں ملکوں کی آزادی کے بعد ساتھ ہی اِن کی آئینی حیثیت کا تعین بھی کر نا تھا اس لیے ضروری تھا کہ 1935 ء کے قانونِ ہند میں اس اعتبار سے منا سب ترامیم کی جا ئیں اور چونکہ یہ آئین یا قانون برطانوی پالیمنٹ نے بنایا تھا۔
اس لیے اس میں ترمیم کا حق بھی اُن کا تصور کیا گیا۔ 18 جولائی 1947 ء کو اِن ترامیم کو جو بر طانوی پارلیمنٹ نے کی تھیں، قانون تقسیمِ ہند یا قانون آزادی ہند کہا گیا اِن ترمیم یہ اہم نکات تھے کہ مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور ہندو اکثریتی علاقے بھارت ہو نگے۔
دونوں ملکوں میں ایک سال تک 1935 ء کا قانونَ ہند ہی آئین کے طور پر نافذالعمل رہے گا اور ایک سال بعد دونوں ملکوں کی اسمبلیاں چاہیں تو اسی قانون ِ ہند کو اپنا مستقل آئین بنا لیں اور چاہیں تو اپنا آئین بنا لیں اوراگر فوری طور پر کو ئی تبدیلی ضروری ہو تو یہ ترمیم 1935 ء قانون میں اسمبلی کی بجائے بھارت یا پاکستان کا گورنر جنرل کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ آزادی کے بعد لارڈ ماونٹ بیٹن آزاد بھارت کا گورنر جنرل ہوا اور پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم ہو ئے ، اس کے علاوہ یہ بھی کہا گیا کہ ہندوستان کی540 ریاستوں کے نوابین اور راجے ،مہاراجے اپنی ریاستوں کی سرحدی قربت کے مدنظر رکھتے ہو ئے اور اپنے عوام کی اکثریت کی رائے کو مقدم جانتے ہوئے پاکستان یا بھارت دونوں میں سے کسی ایک ملک میں شمولیت کا فیصلہ کریں گے۔ (جاری ہے)