رمضان مہنگائی اور معیشت

اگر کسی گھرانے کی آمدن 30 ہزار روپے تھی تو موجودہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار رہ گئی ہے

رمضان المبارک کا پہلا عشرہ اختتام پذیر ہے، دُنیا بھر کے بہت سے ممالک میں اُن کے خصوصی دنوں اور تہواروں کے مواقعے پر اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس کے برعکس وطن عزیز میں ہر شے کے دام بڑھ جاتے ہیں۔

ملک بھر میں چھوٹے بڑے تاجران آمد رمضان المبارک سے دو تین ماہ قبل ہی ذخیرہ اندوزی شروع کر دیتے ہیں جس سے مارکیٹوں اور بازاروں سے کھانے پینے اور روزمرہ کی اجناس کی قیمتوں میں گراں قدر اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس کے آفٹر شاکس عیدالفطر کے کئی ہفتے بعد تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب حکومت سخت اقدامات میں مصروف ہے جس کا مقصد ٹیکسوں کے ذریعے محصولات میں اضافہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت ایک ارب ڈالر کے فنڈ کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدہ کرنے کی کوشش بھی کر رہی ہے۔

آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں اضافہ جاری رہنے کی توقع ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے کہنے پر کیا جانے والا ڈھانچہ جاتی ردوبدل اور کرنسی کی قیمت میں کمی سپلائی چین سے گزرتے ہیں۔ بنیادی افراط زر کی شرح میں اضافے کی وجہ سے مزید مہنگائی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔آسمان کو چھوتی قیمتوں کے سبب رمضان میں اشیائے خورونوش کے اخراجات کو پورا کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔

معاشی بحران کی وجہ سے جن گھرانوں کو بے روزگاری کا سامنا ہے انھیں افطاری اور سحری کا انتظام کرنے میں شدید چیلنج درپیش ہے اور انھیں اپنے رشتہ داروں سے قرض لے کر یا فلاحی تنظیموں سے مدد مانگ کر اپنی عزت نفس پر سمجھوتہ کرنا پڑ رہا ہے۔

علاوہ ازیں بجلی اورگیس کے نرخوں میں بے تحاشہ اضافے نے صارفین کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔

مہنگائی کا سیلاب بلا خیز ہے کہ روز بروز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ہر چیز چاہے وہ کھانے پینے کی ہو یا پہننے کے کپڑے، روزمرہ استعمال کی دیگر چیزیں ہوں، بجلی، گیس، پٹرول ہو یا ادویات، ہر چیز عام آدمی کی پہنچ اور قوت خرید سے باہر ہے، قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غربت اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔

لوگ مفت آٹے کے حصول کے لیے کوشش کرتے ہوئے مارے جا رہے ہیں۔ حکومت کو عوام کی مشکلات کا احساس ہوا تو سستے اور مفت آٹے کی اسکیم شروع کردی مگر انسانوں کی عزت نفس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ حکومت کے پاس ہر شہری کا مکمل ڈیٹا کیوں نہیں ہے۔

یونین کونسل لیول پر لسٹیں کیو ں مرتب نہیں کی گئیں جن سے پتہ چلے کہ کونسے لوگ سستے آٹے اور کون مفت آٹے کا مستحق ہے۔ راشن ان لوگوں کی دہلیز پر پہنچانا حکومت کا فرضِ اولین ہونا چاہیے۔

ملک کی کثیر آبادی اس وقت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ تنخواہ دار و دیہاڑی دار طبقہ اس ساری بدحالی سے بہت زیادہ متاثر اور شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ اس ساری صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکل سفید پوش طبقے کی ہے۔

جو '' پائے رفتن نہ جائے ماندن'' کی کیفیت سے دوچار ہے۔ معاشرے کی یہ معاشی حالت صرف ''جگ بیتی ہی نہیں بلکہ ''آپ بیتی'' جیسی ہے۔ اس معاشی بدحالی کے عالم میں غریبوں کو سحر و افطار کے وسائل بھی میسر نہیں ہیں۔

ہر سال ہی رمضان المبارک میں گرانی اپنے عروج پر پہنچتی ہے۔ دودھ ، آٹا، گھی، تیل، سبزیاں وغیرہ سب مہنگے ہو جاتے ہیں اور پھل تو غریبوں کے لیے شجر ممنوعہ اس لیے ہو جاتے ہیں کہ وہ اُن کی اتنی زائد قیمت پر خریداری کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

مہنگائی کی شرح کے تناسب سے دیکھا جائے تو اگر کسی گھرانے کی آمدن 30 ہزار روپے تھی تو موجودہ مہنگائی کی وجہ سے اب اس کی آمدن کی قدر 20 ہزار رہ گئی ہے۔ حکومت اس مہنگائی کے باوجود عوام کو ریلیف دینے کے بجائے جہاں اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ پر کسی قسم کا کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ، وہیں یوٹیلیٹی اسٹورز پر دیے جانے والے رمضان ریلیف پیکیج میں کمی کر دی ہے۔


روپے کی قدر میں کمی اور دیگر وجوہات کی وجہ سے لوگوں کو اپنے اخراجات کو کم کرنا پڑ رہا ہے۔ فی الحال کسی قلیل مدتی یا وسط مدتی منصوبہ بندی کے علاوہ کسی قسم کے ریلیف کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے بعض معاشی اقدامات لینا پڑیں گے اور مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ مہنگائی ہمیشہ حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے ہوتی ہے، جو سرکاری اخراجات کم کرنے کے بجائے مسلسل بڑھاتی رہتی ہیں جس کی وجہ سے بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔

موجودہ بدترین معاشی حالات میں رمضان کے سماجی پہلو کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اس مہینے میں غریبوں، مسکینوں اور حاجت مندوں کو تلاش کر کے ان کی کفالت کا انتظام کریں، تاکہ اُن کے چہروں کی اداسی اور احساس محرومی کو دور کیا جا سکے۔ اس سلسلے میں اس رمضان میں خصوصی طور پر اپنے پاس پڑوس، رشتے داروں اور دوست احباب کی خبر لیں۔ اُن میں جو مستحق ہو، اسے باعزت طریقے سے زکوٰۃ دیں۔

عام طور پر باوقار اور شریف لوگ اپنی سفید پوشی کی خاطر خود نہیں مانگتے، حالاں کہ وہ سب سے زیادہ ضرورت مند ہوتے ہیں۔ انھیں ہم اس لیے نظر انداز کر دیتے ہیں کہ وہ ہمارے دروازے پر مانگنے نہیں آتے، ہمارا یہ رویہ کسی طرح درست نہیں، بلکہ خود اُن کے دروازے پر جاکر انھیں راز داری سے اللہ کی دی ہوئی دولت میں سے ان کا حق اور حصہ دیں، اس کے لیے ضروری نہیں کہ زکوٰۃ ہی کی رقم سے مدد کی جائے۔

ہر کسی پر زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی، بلکہ ہم عمومی ذرایع آمدنی سے بھی یہ مدد کر سکتے ہیں۔ عام طور سے رمضان میں بڑی بڑی افطار پارٹیاں کی جاتی ہیں، جن میں صرف مالدار لوگوں، عزیز رشتے داروں اور دوست احباب ہی کو مدعو کیا جاتا ہے اور غریب و محتاج مستحق افراد کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے، چاہے وہ ہمارا بھائی ہی کیوں نا ہو ، جب کہ افطار کے حق دار یہی مسکین و محتاج رشتے دار ہیں۔

رمضان المبارک میں مخیر حضرات، صدقات و زکوٰۃ اور دیگر حوالوں سے عطیات کی بارشیں برسا دیتے ہیں مگر زکوٰۃ و عطیات کو تقسیم کرنے کا ہزاروں سال پرانا اور فرسودہ نظام ان فوائد کو مستحقین تک پہنچانے سے قاصر ہے جس کے لیے حکومتی سطح پر جدید ویلفیئر ریاستوں سے سسٹم کے متعلق استفادہ کیا جا سکتا ہے۔

اس مقدس و مبارک مہینے کے شروع ہونے سے دو چار ہفتے پہلے ہی یورپ و نارتھ امریکا کے ممالک میں رمضان المبارک کے احترام میں سپر اسٹورز اور گروسری کے مقامی اور انٹرنیشنل برانڈ مارکیٹیں اپنی قیمتوں میں ایک خوش کن حد تک کمی کا اعلان کر دیتے ہیں جب کہ مسلمانوں کے لیے رمضان المبارک کے احترام میں بیس سے پچاس فیصد کمی کا اعلان کرتے ہیں۔

ملک میں مسئلہ صرف مہنگائی کا ہی نہیں بلکہ سرمایہ کاری نہ ہونے کا بھی ہے۔ سرمایہ دار، ڈر کے مارے سرمایہ کاری نہیں کرتے کہ کرپٹ اور ٹیکس چور کہہ کر ان کے خلاف کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ مہنگائی روکنا اس وقت تقریباً ناممکن ہے اور اس کا واحد حل یہ ہے کہ ملک میں سرمایہ کاری آسان کر دیں تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور ان کی آمدن میں اضافہ ہو۔

حکومت اور متعلقہ انتظامیہ مہنگائی کی روک تھام کے حوالے سے کوششیں کرتی رہتی ہے تاہم اس کا مستقل حل نکالنا ضروری ہے۔ ایک وقت تھا کہ مجسٹریسی نظام کے ذریعے مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کو کنٹرول میں رکھا جاتا تھا اور موقع پر ہی گرانفروشوں کو جرمانے کیے جاتے۔ اب بھی مجسٹریسی نظام کو پوری طرح بحال کرکے اس ضمن میں مشکلات کو کم کیا جاسکتا ہے۔

ملک کی آبادی 22کروڑ ہے اور ملک بھر میں یوٹیلٹی اسٹورز کی کل تعداد 5491 ہے۔ اب ذرا تصور کریں کس طرح ملک کے کروڑوں لوگوں کو سبسڈی سے فائدہ حاصل ہو سکتا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں فوری طور پر نا جائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے اقدامات کا اعلان کریں اور منافع خور تاجروں پر جرمانہ عائد کرنے کے بجائے سخت ترین سزاؤں کے اقدامات کیے جائیں۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کی کارکردگی کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ ضلع حکومت کے نمایندوں کو صحیح معنوں میں عوام کا خادم بنایا جائے اور ان سے مہنگائی کے خاتمے کے لیے مرکزی کردار ادا کروایا جائے۔

ضروری ہے کہ مارکیٹ اور بازار میں نرخوں کے حوالے سے حکومتی عمل داری یقینی بنائی جائے،کیوں کہ اس کے بغیر اب چارہ بھی نہیں۔ ملک بھر میں مہنگائی کے عفریت پر قابو پانے کے لیے نا صرف راست اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ رمضان المبارک میں عوام کو گرانی کے عذاب سے بچانا از حد ضروری ہے۔

تمام بازاروں کا ذمے داران دورہ کریں اور وہاں سرکاری نرخ نامے کے مطابق اشیائے ضروریہ کی فروخت ممکن بنائیںگراں فروشوں کے خلافکڑی کارروائیاں کی جائیں۔

تمام کاروباری حضرات جذبہ خیر خواہی کی نیت سے اس رمضان میں اشیائے خور و نوش اور دیگر استعمال کی تمام اشیاء چاہے وہ کچھ بھی ہوں انھیں سستا کریں، قیمتیں کم کریں کم سے کم منافع پر اشیاء فروخت کریں۔ اس کے ساتھ ذخیرہ اندوزوں اور قیمتیں بڑھانے والوں کی حوصلہ شکنی اور بائیکاٹ کے ساتھ حکومت بھی ان ذخیرہ اندوزوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
Load Next Story