راشن لینے آئے تھے لاشیں لے کر جارہے ہیں
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مستحقین کو راشن حاصل کرنے کےلیے اپنی جان پر کھیلنا پڑتا ہے
رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں غیر مسلم مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کی آسانی کےلیے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں واضح کمی کردی جاتی ہے مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مستحقین کو راشن حاصل کرنے کےلیے اپنی جان پر کھیلنا پڑتا ہے۔
رمضان کا ابھی پہلا ہی عشرہ ہوا ہے اور پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا سے کئی افراد کی راشن اور مفت آٹا حاصل کرنے کےلیے موت کے منہ میں جانے کی خبریں سن کر دل عجیب کیفیت کا شکار ہے۔
گزشتہ روز کراچی میں ایک نجی کمپنی نے مستحقین میں راشن اور نقد رقم تقسیم کی، جس میں بھگدڑ مچنے سے 3 بچوں سمیت 12 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان ہی میں ایک خاتون نسیم بھی تھی جو اپنے بچوں کےلیے عید پر نئے کپڑوں کےلیے امدادی رقم حاصل کرنے گئی تھی۔ نسیم کا دس سالہ بچہ ماں کی لاش کو جھنجھوڑ کر اٹھنے کی فریاد کرتا رہا۔ ذرا سوچیے وہ کیا منظر ہوگا جب راشن کی خاطر آئے لوگوں کی لاشیں زمین پر بکھری نظر آرہی ہوں گی۔
رواں ہفتے ساہیوال میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھی بھگدڑ مچنے سے 65 سالہ خاتون جاں بحق اور 19 خواتین زخمی ہوگئی تھیں۔ بھکر میں گھنٹوں مفت آٹے کے حصول کےلیے باری کا انتظار کرنے والا شخص دم توڑ گیا۔ مظفر گڑھ میں بھگدڑ بزرگ خاتون کی زندگی لے گئی جبکہ ملتان، فیصل آباد اور کوٹ ادو میں قطاروں میں انتظار کرنے والے 3 افراد دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔ ادھر چارسدہ میں دھکم پیل اور بھگدڑ میں ایک شہری جاں بحق ہوا۔
جب آپ لوگوں کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہوئے اُچھال اُچھال کر آٹے کے تھیلے پھینک کر دیں گے تو اِسے حاصل کرنے کےلیے بھگدڑ تو مچے گی ہی۔ وہ غریب جو فجر سے اپنے بچوں کی چند وقت کی روٹی کےلیے ملنے والے آٹے کا لمبی قطاروں میں انتظار کرے گا بغیر آٹا لیے ہرگز گھر نہیں جائے گا بلکہ آٹا نہ مل سکا تو طیش میں آکر چھیناجھپٹی کرنے پر ہی مجبور ہوگا۔
وزیرِاعظم پاکستان کی مفت آٹے کی اسکیم سے اب تک کئی افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ کئی کی عزتِ نفس کو روندا جاچکا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم ماضی میں واپس چلے گئے ہیں جہاں برِصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی اور مسلمانوں سمیت ہندوؤں کا حال پاکستان کی قوم کے حال جیسا تھا۔ پُرانی فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ اُس دور میں بھی لوگ اس ہی طرح آٹے اور دیگر بنیادی اشیاء کےلیے رُل جایا کرتے تھے اور انہیں بھی چیونٹیوں کی طرح یونہی مسل دیا جاتا تھا۔
گزشتہ ماہ تباہ کن زلزلے میں ترکیہ میں 48 ہزار سے زائد اور پڑوسی ملک شام میں 6 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے اور اس کو خطے میں صدی کا سب سے بدترین زلزلہ قرار دیا گیا تھا مگر کل ہی بدترین زلزلے سے متاثر ہونے والے ترکی اور شام کی ایک خبر میں پڑھا کہ وہاں متاثرین کو بہترین سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ان کے خیمے نہایت صاف اور بستر، کُرسی، میز اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی چیزوں سے بھرے ہیں۔ انہیں اس قدر خطرناک زلزلے سے بےگھر ہونے کے بعد بھی گھر جیسے ہی خیمے ملے ہوئے ہیں۔
ترکی کے زلزلہ متاثرین کو نہ ہی آٹے کی لمبی قطاروں میں لگنا پڑ رہا ہے اور نہ ہی وہ دو وقت کی روٹی کےلیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں، کیونکہ ان کی حکومت اور کئی فلاحی اداروں نے ان کی ہر ممکن مدد کر رکھی ہے جبکہ صدر رجب طیب اردوان نے اگلے سال کے آخر تک 3 لاکھ 19 ہزار گھر تعمیر کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جو متاثرین کو دیے جائیں گے۔
ترکیہ بھی ایک ملک اور اردوان بھی ایک حکمران ہے اور ایک ہمارے ملک کے حکمران ہیں، جو صرف اقتدار کے نشے میں ایسے دھُت ہیں کہ انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ نہ ہی انتخابات ہونے دے رہے ہیں نہ ہی عوام کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں بس شیروانی پہننے کا شوق تھا جس کےلیے انہوں نے ایک واویلا مچا رکھا تھا اور اب بھی اقتدار ہاتھ سے نہ جائے اس کےلیے ہر ممکن کوشش کرنے میں لگے ہیں۔
رہے ہمارے غریب عوام، وہ بیچارے یونہی آٹے اور راشن کی قطاروں میں لگتے اور جان سے جاتے جائیں گے۔ حکمرانوں کو اس کی فکر ہی کہاں کہ عوام کس حال میں ہیں۔ اس بدترین مہنگائی میں ہم درمیانے طبقے کے لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں تو اس ملک کے غریب عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
رمضان کا ابھی پہلا ہی عشرہ ہوا ہے اور پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا سے کئی افراد کی راشن اور مفت آٹا حاصل کرنے کےلیے موت کے منہ میں جانے کی خبریں سن کر دل عجیب کیفیت کا شکار ہے۔
گزشتہ روز کراچی میں ایک نجی کمپنی نے مستحقین میں راشن اور نقد رقم تقسیم کی، جس میں بھگدڑ مچنے سے 3 بچوں سمیت 12 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ ان ہی میں ایک خاتون نسیم بھی تھی جو اپنے بچوں کےلیے عید پر نئے کپڑوں کےلیے امدادی رقم حاصل کرنے گئی تھی۔ نسیم کا دس سالہ بچہ ماں کی لاش کو جھنجھوڑ کر اٹھنے کی فریاد کرتا رہا۔ ذرا سوچیے وہ کیا منظر ہوگا جب راشن کی خاطر آئے لوگوں کی لاشیں زمین پر بکھری نظر آرہی ہوں گی۔
رواں ہفتے ساہیوال میں مفت آٹے کی تقسیم کے دوران بھی بھگدڑ مچنے سے 65 سالہ خاتون جاں بحق اور 19 خواتین زخمی ہوگئی تھیں۔ بھکر میں گھنٹوں مفت آٹے کے حصول کےلیے باری کا انتظار کرنے والا شخص دم توڑ گیا۔ مظفر گڑھ میں بھگدڑ بزرگ خاتون کی زندگی لے گئی جبکہ ملتان، فیصل آباد اور کوٹ ادو میں قطاروں میں انتظار کرنے والے 3 افراد دل کا دورہ پڑنے سے چل بسے۔ ادھر چارسدہ میں دھکم پیل اور بھگدڑ میں ایک شہری جاں بحق ہوا۔
جب آپ لوگوں کی عزتِ نفس کو مجروح کرتے ہوئے اُچھال اُچھال کر آٹے کے تھیلے پھینک کر دیں گے تو اِسے حاصل کرنے کےلیے بھگدڑ تو مچے گی ہی۔ وہ غریب جو فجر سے اپنے بچوں کی چند وقت کی روٹی کےلیے ملنے والے آٹے کا لمبی قطاروں میں انتظار کرے گا بغیر آٹا لیے ہرگز گھر نہیں جائے گا بلکہ آٹا نہ مل سکا تو طیش میں آکر چھیناجھپٹی کرنے پر ہی مجبور ہوگا۔
وزیرِاعظم پاکستان کی مفت آٹے کی اسکیم سے اب تک کئی افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں جبکہ کئی کی عزتِ نفس کو روندا جاچکا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے ہم ماضی میں واپس چلے گئے ہیں جہاں برِصغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی اور مسلمانوں سمیت ہندوؤں کا حال پاکستان کی قوم کے حال جیسا تھا۔ پُرانی فلموں میں دکھایا جاتا ہے کہ اُس دور میں بھی لوگ اس ہی طرح آٹے اور دیگر بنیادی اشیاء کےلیے رُل جایا کرتے تھے اور انہیں بھی چیونٹیوں کی طرح یونہی مسل دیا جاتا تھا۔
گزشتہ ماہ تباہ کن زلزلے میں ترکیہ میں 48 ہزار سے زائد اور پڑوسی ملک شام میں 6 ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے اور اس کو خطے میں صدی کا سب سے بدترین زلزلہ قرار دیا گیا تھا مگر کل ہی بدترین زلزلے سے متاثر ہونے والے ترکی اور شام کی ایک خبر میں پڑھا کہ وہاں متاثرین کو بہترین سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، ان کے خیمے نہایت صاف اور بستر، کُرسی، میز اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی چیزوں سے بھرے ہیں۔ انہیں اس قدر خطرناک زلزلے سے بےگھر ہونے کے بعد بھی گھر جیسے ہی خیمے ملے ہوئے ہیں۔
ترکی کے زلزلہ متاثرین کو نہ ہی آٹے کی لمبی قطاروں میں لگنا پڑ رہا ہے اور نہ ہی وہ دو وقت کی روٹی کےلیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہے ہیں، کیونکہ ان کی حکومت اور کئی فلاحی اداروں نے ان کی ہر ممکن مدد کر رکھی ہے جبکہ صدر رجب طیب اردوان نے اگلے سال کے آخر تک 3 لاکھ 19 ہزار گھر تعمیر کرنے کا اعلان کر رکھا ہے جو متاثرین کو دیے جائیں گے۔
ترکیہ بھی ایک ملک اور اردوان بھی ایک حکمران ہے اور ایک ہمارے ملک کے حکمران ہیں، جو صرف اقتدار کے نشے میں ایسے دھُت ہیں کہ انہیں اور کچھ نظر ہی نہیں آرہا۔ نہ ہی انتخابات ہونے دے رہے ہیں نہ ہی عوام کو سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ انہیں بس شیروانی پہننے کا شوق تھا جس کےلیے انہوں نے ایک واویلا مچا رکھا تھا اور اب بھی اقتدار ہاتھ سے نہ جائے اس کےلیے ہر ممکن کوشش کرنے میں لگے ہیں۔
رہے ہمارے غریب عوام، وہ بیچارے یونہی آٹے اور راشن کی قطاروں میں لگتے اور جان سے جاتے جائیں گے۔ حکمرانوں کو اس کی فکر ہی کہاں کہ عوام کس حال میں ہیں۔ اس بدترین مہنگائی میں ہم درمیانے طبقے کے لوگ مہنگائی سے پریشان ہیں تو اس ملک کے غریب عوام کا تو اللہ ہی حافظ ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔